قسط نمبر 13

187 16 0
                                    

صارم گھر سے کافی دور اوپر پہاڑیوں میں موجود اونچے ٹیلوں میں سے ایک پر بیٹھا کسی سوچ میں گم تھا جب اسے اپنے دوست ضیا ٕ کی آواز سناٸ دی۔

"صارم پتّر اتنا اُداس کاہے کو ہویا سی؟"
اسکے قریب بیٹھ کر اسکے کندھے پر دھپ رسید کرتا ہوا وہ بولا۔

"نہیں تو اداس تو نہیں ہوں"
صارم دھیرے سے بولا۔

"اونہوں کچھ تو ہے جسکی پردہ داری ہے،بول کہیں عشق دا روگ تو نہیں لگ گیا تُسی"
ضیا۶ نے اسے ٹہوکا دیا۔

صارم کی آنکھوں کے سامنے وہی سرخ اناری آنکھیں ابھری۔جو اسکی وجہ سے روٸ تھیں۔

"اچھا چل موڈ ہو تو بتا دیو پھر ابھی چلتے ہیں شام ہورہی ہے گھر میں لوگ پریشان ہورہے ہونگے اور تجھے تو ویسے بھی تیرے بابا جان گھر سے باہر جانے نہیں دیتے"
ضیا۶ اسے بازو سے پکڑ کر اٹھاتے ہوۓ بولا۔

صارم گھر پہنچا تو گیٹ زویا نے کھولا۔
دونوں ہی ایک دوسرے سے نظریں چرا رہے تھے۔ایک کی آنکھوں میں خفگی تو دوسرے کی آنکھوں میں ندامت سی تھی۔
زویا دروازہ کھولتے ہوۓ تیزی سے اندر جاکر اوپر چلی گٸ۔

ہما کچن سے نکل کر پانی کا گلاس لۓ اسکی طرف آگٸ تو صارم نے پوچھا۔

"ہمی امی کہاں ہیں؟"

"وہ تو اپنے روم میں ہیں" ہما کے بتانے پر وہ نازلی کے روم کی طرف بڑھا۔

صارم کے دروازے کٹکٹانے پر اندر سے آواز آٸ۔

"آجاٶ اندر" وہ آہستہ سے کمرے میں داخل ہوکر سامنے بیٹھیں نازلی کے قدموں میں گھٹنوں کے بل بیٹھا۔

"آپ مجھ سے خفا ہیں؟"وہ سر جھکاۓ دھیرے سے بولا۔

"کیوں بچے میں کیوں خفا ہونے لگی؟" وہ نرمی سے بولیں۔

"میں بدتمیزی کرگیا تھا کل" وہ بہت شرمندہ لگ رہا تھا۔

"کوٸ بات نہیں ہوجاتا ہے مگر ایک شرط پر میں مان جاٶنگی اگر تم مجھے اپنے ہاتھ سے سینڈوچ بنا کر کھلادو تو"
انکی بات پر اسنے سر اٹھایا تو وہ شرارت سے اپنے مخصوص انداز میں ایک آبرو اٹھا کر اسے دیکھ رہی تھیں۔

وہ انکے انداز پر مسکرا دیا۔

"امی وہ زوٸ" زویا کا خیال آنے پر اسنے نازلی سے کہا۔

"وہ خود ہی مان جاٸیگی" وہ مسکراتے ہوۓ اطمینان سے کہہ رہی تھیں۔

"کیسے؟" اسنے تعجب سے سوال کیا۔

"ایسے" نازلی نے چھٹکی بجا کر ہنستے ہوۓ جواب دیا۔

"پارہ آپی اور زبیر بھاٸ جی آرہے ہیں کل زویا کو انگھوٹی پہنانے"
نازلی نے بتایا صارم نے کسی خیال کے تحت ان سے کہا۔

"کیا آپ اور بابا میری ایک بات مانیں گے؟"

"ہاں کہو" انہوں نے اجازت دی۔

مارخور  (مکمل)Tempat cerita menjadi hidup. Temukan sekarang