نازلی خانزادہ فکرمندی سے اسکے پاس آکر بولیں۔
وہ اسکی دادی تھیں۔مما کی وفات کے بعد وہ اور زیب ان سے اور زیادہ مانوس ہوگۓ تھے۔
اپنی ہر بات وہ انہی سے شٸر کرتے جبکہ عدن زیادہ تر اپنی باتیں یا تو اللہ سے کرتی، یا ڈاٸری میں لکھتی اور یا اپنی سب سے چھوٹی پھپھو رومیسا کو بتاتی۔
اپنی ماں کی پالی ہوٸ بلی میریان سے بھی اسکی اچھی دوستی تھی۔
ڈاٸری لکھنے کا شوق عدن کو اپنی مما کو دیکھ کر پیدا ہوا تھا۔"ممی میں آرہا تھا بس" (اسنے مڑ کر نازلی کو دیکھ کر کہا)
وہ اسکی آنکھوں میں دیکھ رہی تھیں۔ نمی ان میں واضح تھی۔
"ایسے کیا دیکھ رہی ہیں،ایسا لگ رہا ہے جیسے مما سامنے کھڑے ہوکر سرزنش کا موڈ بنا رہی ہوں۔نہیں رو رہا یا شاید رو ہی نہیں سکتا"
(اداسی سے مسکراتے ہوۓ آخری بات اسنے گویا سرگوشی کی صورت میں کی تھی)مما کو مرد روتے اچھے نہیں لگتے تھے نا،وہ کہتیں "مرد صرف اللہ کے سامنے روتے ہوۓ اچھے لگتے ہیں۔آج تک میں اپنا اقرار ان سے نبھاتا رہا کہ اللہ کے سوا کوٸ میرے آنسو نہیں دیکھے گا۔مگر آج میں بے بس ہوگیا ممی"
(وہ کھوۓ ہوۓ لہجے میں نازلی سے کہ رہا تھا)
"ان کی قبر پر جاکر میں نے سوری کیا ہے انکو،وہ مجھ سے خفا تو نہیں ہونگیں نا ممی؟"
"بیٹے تمہاری مما نازاض ہی تو نہیں رہ سکتی تھی کسی سے زیادہ دیر چاہے کوٸ مناتا یا نہ مناتا"
(بیڈ پر اسکے سامنے بیٹھ کر وہ بولیں)
جہان گھٹنوں کے بل انکے قدموں میں بیٹھا اور سر انکی گود میں رکھ دیا۔
ممی کو اسکی یہ حرکت کسی کی یاد دلا گٸ،جہان کی مما بھی تو ایسے ہی کیا کرتی تھیں۔عدن گھر کے عقبی جانب بنے باغ میں بیٹھی کسی کاغذ پر کچھ لکھ رہی تھی۔
سورج کی مدھم کرنیں اسکے شفاف چہرے پر پڑ رہی تھیں۔
اسکا انہماک تب ٹوٹا جب انکی پرانی ملازمہ نے آکر اسے آواز دی۔
"عدن بچے آپکو اندر بلا رہے ہیں""آرہی ہوں گل جان آپا"
(اسنے کھڑے ہوکر کاغذ ہاتھ میں پکڑے رجسٹر کے اندر رکھ کر کہا)
جلد بازی میں اسے خیال ہی نہ رہا کہ رجسٹر صحیح سے بند نہ ہونے کی وجہ سے کاغذ زمین پر گرگیا جس پر اس وہاں ذرا فاصلے پر گزرتے ہوۓ اورنگزیب کی نظر پڑھی۔
وہ سیدھا اس طرف آیا اور اور چمن میں گرا کاغذ اٹھایا۔"جھلّی نہ ہو تو ایسے بھی کیا جلدی تھی بگولے کی طرح اُڑ کر چلی گٸیں،جانا اسے آرمی میں ہے اور دھیان اپنی جگہ پر ہی نہیں ادھر"
خود سے بڑبڑا کر کاغذ اندر لے جاکر اسے دینا چاہا جب ادھ کھلے کاغذ پر نظر آتی تحریر نے اسکے قدم روک دیۓ۔
صرف ان تین بہن بھاٸیوں کی ہی نہیں بلکہ اس خاندان کے ہر فرد کی عادت تھی کہ وہ کسی کی ذاتی چیز کو ہاتھ نہیں لگاتے اور نہ ہی کسی کی کوٸ ذاتی تحریر پڑھتے۔
لیکن ان الفاظ نے اسے وہ تحریر پڑھنے پر مجبور کردیا۔"مما جان بس میں مزید آپ سے دور نہیں رہ سکتی۔میں آپکے سامنے کچھ بول نہیں پاتی تھی لیکن جب آپ نے میری ساتویں سالگرہ پر مجھے اپنے قریب بٹھایا میرے ساتھ پورا دن گزارا،آپ ہمیشہ مجھے اپنے قریب رکھتیں، اپنی مصروف زندگی میں سے میرے لۓ بہت سارا وقت نکالتیں اور میں جانے کیوں آپ سے جھجھکتی،بھلا کوٸ اپنی ماں سے بھی شرماتا ہے۔
جانے کیا بات تھی آپ میں کہ میں زیادہ دیر آپکے سامنے کھڑی ہی نہ رہ پاتی۔
بابا کہا کرتے تھے کہ آپ کو دیکھ کر تو اکثر وہ بھی بات کرنا بھول جاتے یوں جیسے اپنے لفظوں پر کوٸ
اختیار ہی نہ ہو۔
بابا کی طرح میں آپکے بھی قریب رہنا چاہتی تھی لیکن وقت نے مہلت ہی نہ دی۔آپکی مسکان کے آگے میں کچھ دیکھ ہی نہ پاٸ کبھی۔
مجھے تو آپ دونوں آج بھی اپنے آس پاس محسوس ہوتے ہیں۔
مما مجھے آپکو جاننا ہے
اللہ سے التجا ہے کہ وہ کسی طرح مجھے آپ دونوں کی زندگی کے ان پہلوٶں جو ہمیشہ سے مجھ سے پوشیدہ رہے ہیں سے روشناس فرمادیں۔
I miss you so much Mamma Baba
Jannat ul Adan Khanzada"
تحریر پڑھ کر زیب کا دل دکھ سے بھر گیا تھا۔اسے عدن کا مما سے شرمانا اور انکے سامنے خاموش رہنا معلوم تھا۔
مگر وہ انکو اتنا زیادہ یاد کرتی ہےیہ اسے آج پتہ چلا تھا۔
YOU ARE READING
مارخور (مکمل)
Romanceوادی سوات کی فضاٶں میں پروان چڑھنے والی املتاس اور ایک مارخور کی داستانِ محبت Based on some true events and characters.