قسط نمبر 4

392 23 0
                                    

زیب نے اسے عدن اور پھر اپنے قبرستان جانے کے بارے میں بتایا،ساتھ ہی جیکٹ کی جیب سے وہ زرد پتّا نکال کر جہان کو تھمایا۔
جہان اور وہ نازلی کے روم میں آۓ وہ جاۓ نماز پر بیٹھی تسبیح پڑھ رہی تھیں۔
وہ دبے قدموں جاکر انکے پاس بیٹھے اور ان کے متوجہ ہونے کے بعد سرگوشیوں میں ان کو تمام احوال سنایا۔
وہ کچھ دیر تک خاموشی سے دونوں کو دیکھتی رہیں پھر اٹھ کر اپنے روم میں آویزاں ایک دیوار گیر پینٹنگ کے قریب کھڑی ہوگٸیں، پھر ہاتھ سے پینٹگ کا ایک کونہ پکڑ کر سرکاتی ہوٸیں اسکے پیچھے دیوار میں بنے لاکر سے ایک گرے کور والی ڈاٸری نکال کر انکے پاس لے آٸیں۔

"بلوچستان جانے سے پہلے وہ اسے مجھے سونپ کر گٸ تھی۔مجھے اندازہ نہیں تھا کہ وہ دونوں آخری بار مجھ سے مل رہے ہیں۔یہ ڈاٸری تم تینوں کی امانت ہے"
وہ بے حد مدھم آواز میں بولیں۔
انکے چپ ہوجانے پر وہ دونوں بے اختیار ان سے لپٹ گۓ۔اس وقت نازلی خانزادہ کو اک عجیب سا سکون محسوس ہوا تھا۔
"بس اور مکھن پھر کبھی صحیح،چلو جاٶ اب"
وہ ہنستے ہوۓ بولیں تو وہ دونوں انکے گالوں کو چوم کر وہاں سے غاٸب ہوگۓ۔

وہ مسکرا کر انہیں جاتا دیکھتی رہیں ساتھ ہی ایک آنسو آنکھ سے نکل کر گال پر پھسلا تھا۔
وہ دونوں انکے روم سے نکل کر دبے قدموں عدن کے روم کے پاس آکر آہستگی سے دروازہ کھولتے ہوۓ اندر داخل ہوۓ۔

عدن کمبل اوڑھے سوٸ ہوٸ تھی۔بغیر آواز پیدا کۓ ڈاٸری اسکے ساٸیڈ ٹیبل پر رکھ کر وہ جیسے ہی پلٹے تو روم سے نکلتے ہوۓ عدن کی آواز پر فوراً مڑے اور چونک کر اسے دیکھنے لگے جو سر پر سلیقے سے دوپٹہ جماۓ گھٹنوں پر ٹھوڑی رکھے دونوں کو تک رہی تھی۔

"بچے تم جاگ رہی ہو؟"جہان نے اسکےپاس آکر پوچھا۔

"لالا آجکل میں ذرا بے خوابی کا شکار ہوگٸ ہوں مگر شاٸد آج کے بعد سکون کی نیند سو سکوں"

"جنت تم نے بتایا کیوں نہیں پہلے طبیعت تو ٹھیک ہے نا بچے؟"
جہان فکرمندی سے اسے اپنے ساتھ لگاتا ہوا بولا۔

"یہ معمول تو شاٸد پچھلے چھ سالوں سے ہے،ہے نا عدن"
زیب نے اسکی آنکھوں میں جھانک کر کہا تو وہ نظریں چراگٸ۔

پچھلے چھ سالوں سے اپنے مما بابا کی وفات کے بعد وہ ایک دن بھی ٹھیک سے سو نہیں پاٸ تھی۔اسے لگتا تھا کسی کو اسکی حالت کا نہیں پتہ مگر زیب اور جہان ہر چیز سے باخبر ہونے کے باوجود اسکے سامنے انجان بنے رہتے۔

"چلیں دوستوں مما بابا کی داستان عشق پڑھتے ہیں ویسے بھی اجازت مل گٸ ہے شاٸد انہوں نے لکھی بھی یہ داستان ہمارے لۓ ہو"
زیب ماحول پر چھا جانے والی خاموشی اور اداسی کا تاثر زاٸل کرنے کیلۓ کہہ کر بیڈ پر عدن کے ایک جانب بیٹھ گیا،جہان نے بھی عدن کی دوسری جانب بیٹھتے ہوۓ ٹیبل سے ڈاٸری اٹھا کر اسکو پکڑاٸ۔
عدن اشتیاق سے اس گرے کور والی ڈاٸری پر انگلیاں پھیر رہی تھی۔اسے یوں محسوس ہورہا تھا جیسے وہ مما کی ہتھیلی پر انگلیاں پھیر رہی ہو۔

مارخور  (مکمل)Onde histórias criam vida. Descubra agora