قسط نمبر6

271 20 0
                                    

پانچ برس بعد:

آج آب حیات کے سکول میں پہلا دن تھا۔دیبا اسے گود میں بٹھاۓ ناشتہ کروارہی تھی۔
وہ بچپن سے ہی فرح کے بعد دیبا سے مانوس تھی۔
اب بھی نہلا دھلا کر اور یونیفارم پہنا کر دیبا اسے ناشتہ کروارہی تھی۔

محراب بھی کچن میں آکر آب حیات کو پیار کرتے ہوۓ ناشتہ کرنے بیٹھ گٸ۔
ناشتے کے بعد وہ دیبا کیساتھ لاٶنج میں آٸ تو عالمگیر خان صوفے پر بیٹھے ہوۓ تھے۔
انہیں دیکھتے ہی آب حیات دوڑ کر انکی گود میں چڑھ گٸ وہ بھی اسے پیار کرنے لگے۔
کچھ دیر بعد اضلان اور ارمغان بھی انکی طرف آۓ تو عالمگیر خان نے انہیں چلنے کا کہہ کر آب حیات کو گود میں اٹھا لیا۔
انکے گاڑی میں بیٹھتے ہی گاڑی گیٹ کھل جانے پر پورچ سے باہر نکل گٸ۔

قریباً دس منٹ کی ڈراٸیوں کے بعد وہ لوگ فلک شیر خان کے گھر پہنچے۔
چونکے ان کا سکول فلک شیر خان کے گھر سے قریب تھا،دوسرا عالمگیر خان کا بچپن سے فرح کے گھروالوں یعنی اپنے ننھیال سے گہرا تعلق تھا اسی لۓ ان کا اور سب بچوں کا وہاں آنا جانا زیادہ لگا رہتا۔

گاڑی سے اُتر کر ارمغان نے آبِ حیات کو گود میں اٹھایا اور اپنے نانا کے گھر میں داخل ہوگۓ۔

گھر میں داخل ہوتے ہی آب حیات ارمغان کی گود سے اتر کر تیزی سے فلک شیر خان کے پاس گٸ جو اپنے روم میں موجود اپنے بیڈ پر کمبل میں لیٹے ہوۓ تھے۔

"داجی۔۔۔۔۔۔۔"وہ کسی ساٸرن بجاتی ہوٸ ایمبولینس کی طرح چیختی ہوٸ انکے پاس آدھمکی۔
انہوں نے بھی نواسی کی آواز سن کر کمبل منہ سے ہٹایا اور اپنا کمزور سا ہاتھ نکال کر آبِ حیات کا بڑھا ہوا ہاتھ گرمجوشی سے تھام لیا۔

یہ انکا اور انکے پوتے پوتیوں سمیت نواسوں نواسیوں کا بھی معمول تھا۔
ان سے نان سٹاف ڈھیر ساری باتیں کرکے وہ کچن میں آٸیں تو وہاں اسکی ممانی ثمین جو اسکی پھپھو بھی تھیں،اسکی ماموں ذاد اور لنگوٹي یار عنایہ،عنایہ کا بڑا بھاٸ حمدان اور گھر کے دیگر چند لوگ بیٹھے تھے۔
باری باری سب سے پیار لیکر وہ عنایہ کے قریب بیٹھ گٸ۔

کچھ دیر بعد وہ اضلان اور حمدان کے ساتھ سکول جانے کیلۓ وہاں سے نکلی۔
ارمغان بھی انکے ساتھ تھا۔اضلان پورا راستہ کبھی اسکے بال کھینچتا اور کبھی ہلکی سی چھٹکیاں کاٹتا رہا،وہ جی بھر کر تنگ ہورہی تھی۔
🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺

"زوٸ کہاں ہو یار سکول نہیں جانا؟"
سیف الملوک پورے گھر میں بہن کو ڈھونڈتا ہوا آوازیں دے رہا تھا۔

"بیٹے وہ نیچے امی کے پاس ہے"
نازلی نے کچن سے نکل کر اس سے کہا تو وہ ارجمند بانو یعنی اپنے دادی کے پاس نیچے والے پورشن میں چلا گیا۔

سکول کا یونیفارم پہنے زویا ارجمند بانو کے پاس بیٹھی ہوٸ تھی۔

"زوٸ آجاٶ سکول جانے کا ٹاٸم ہورہا ہے"
سیف الملوک کے پکارنے پر وہ دادی سے پیار لیکر اسکے پاس آٸ۔
باہر ہمام اور صارم بھی ان دونوں کے منتظر کھڑے تھے۔
تقریباً پانچ سات منٹ کے بعد وہ سکول پہنچ گۓ۔
ہُمام زویا کو اسکی کلاس تک چھوڑنے جارہا تھا جب اسے ارمغان نظر آیا۔
وہ اور ہمام کلاس فیلو ہونے کیساتھ اچھے دوست بھی تھے،ہمام فوراً زویا کا ہاتھ تھامے اسکی طرف بڑھا۔
سلام و دعا کے بعد دونوں کی ہُمام کی نظر آب حیات جبکہ ارمغان کی نظر زویا پر پڑھی۔
دونوں نے استفہامیہ نظروں سے ایک دوسرے کو دیکھا تو ارمغان نے تعارف کروانے میں پہل کی۔

مارخور  (مکمل)Donde viven las historias. Descúbrelo ahora