قسط نمبر 7

244 21 0
                                    

ارمغان مسجد میں جمعے کی نماز پڑھ چکا اور باہر نکل کر اپنے جوتے پہننے چاہے تو دیکھا کہ جوتے غاٸب تھے۔
وہ پریشان ہوگیا کہ ابھی تو نۓ جوتے وہ پہلی دفعہ پہن کر مسجد آیا تھا اور وہ سِرے سے غاٸب۔
اِرد گرد نظر دوڑاتے ہوۓ اسکی نظر مسجد کے دروازے پر جوتے پہنتے اضلان اور حمدان پر پڑی۔

"اضلان ادھر آٶ ذرا۔۔۔۔۔۔" ارمغان کی آواز پر وہ دونوں ہی اسکے پاس آۓ۔

"تم دونوں نے اٹھاۓ ہیں میرے جوتے؟"
اسنے مشکوک انداز میں پوچھا تو دونوں ہونقوں کی طرح اسے دیکھنے لگے۔

"نا کیا مطلب ہے ہاں کیا ہم جوتے چور لگتے شکل سے میاں جو اپنے دو لاکھ کے جوتے ہمارے اوپر لاد رہے ہو"
اضلان نے دُہاٸ دی۔

" شرافت سے جوتے واپس کرو کچھ نہیں کہونگا لیکن اگر تمہارے پاس نکلے تو۔۔۔۔۔۔"
اسکی بات ادھوری رہ گٸ جب سامنے قدرے اونچی جگہ پر بیٹھے ادھیڑ عمر شخص کو دیکھا۔
وہ ارمغان کے ہی جوتے پہنے ہوۓ تھا ساتھ ہی لوگوں کے اسکے ارد گرد جمع ہوۓ مجمعے کے سامنے اپنے کسی نہایت فرمانبردار بیٹے کے قصیدے پڑھ رہا تھا۔

وہ تینوں اسکے قریب گۓ تو کانوں میں اسکی آواز پڑی۔

"بھٸ ہمارے برخوردار نے تو اس کرفیو اور سخت حالات میں بھی ہماری پرواہ کرنا نا چھوڑی۔اب دیکھو ہمارے جوتے پرانے ہوگۓ تھے جونہی اسے خبر ہوٸ جھٹ سے ہمارے لۓ یہ جاپانی جوتے بجھواۓ بہت مہنگے ہیں مگر وہ کہتا ہے کہ ابا جی آپ کے پیروں سے زیادہ قیمتی نہیں ہے،نا"
اسکی باتیں سن کر حمدان اور اضلان ہنسی ضبط کرنے کی کوشش میں نڈھال ہوگۓ۔جبکہ ارمغان بس گھور کر رہ گیا۔

"لو جی سن لیا بھاشن،ویسے مجھے نہیں پتہ تھا کہ تمہارے جوتے جاپانی بناتے ہیں۔ عظیم لوگوں کیلۓ عظیم شاہکار۔
اب کہو نا ان ابا جی کو کچھ ہمارے لۓ تو بڑی چھریاں تیز ہورہی تھیں"
اضلان کی بات پر ارمغان جی بھر کر بد مزہ ہوا۔

"چلو بھٸ کیا یاد کروگے، شرم آرہی ہے نا اپنے جوتے واپس لیتے ہوۓ ہم تو ٹہرے جوتے چور ۔۔۔۔۔۔ہم دلوا دیتے ہیں تمکو تمہارے جوتے"
اضلان کہہ کر حمدان کو ذرا دور اپنے ساتھ لے گیا۔
کافی دیر کھسر پھسر کرنے کے بعد وہ واپس آۓ اور ارمغان کو گھر واپس جانے کا کہا۔

عصر کی نماز پہلے پڑھ کر اب وہ اس آدمی کے نماز کیلۓ آنے کا انتظار کرنے لگے۔
چند لمحوں بعد ہی انہیں وہ وہی جوتے پہنے آتا ہوا دکھاٸ دیا۔
ان دونوں پر ایک اچھٹتی نگاہ ڈال کر وہ مسجد میں داخل ہوا۔

نہر کے کنارے ایک بڑی سی جگہ پر چھت بنا کر اسکے نیچے صفیں بناکر نماز پڑھی جاتی تھی کیونکہ مرکزی بڑی مسجد وہاں سے کافی فاصلے پر تھی اور وہاں تک جانے میں باجماعت نماز چھوٹنے کا خدشہ تھا۔

وہ آدمی جوتے اتار کر انہیں عین آنکھوں کے سامنے جاۓ نماز سے ذرا اوپر رکھتا ہوا نیت باندھ کر کھڑا ہوگیا۔
جونہی اسنے سجدے کیلۓ پیشانی زمین پر رکھی تو پاس ہی کھڑا اضلان پھرتی سے جوتے اٹھا کر فوراً وہاں سے کھسک گیا۔

مارخور  (مکمل)Donde viven las historias. Descúbrelo ahora