قسط نمبر 19

172 18 1
                                    

میجر رَوی تیزی سے وہاں سے نکلا تھا۔ اسکے اندر باہر کا سکون کسی طلاطم کا شکار تھا۔
وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا اپنے آفس کی جانب جارہا تھا جب سامنے سے دیپک آتا دکھاٸ دیا۔
رَوی کو یوں عجلت میں جاتے ہوۓ دیکھ کر فوراً اسکے سامنے ہی آکر کھڑا ہوگیا۔

"مل لیے اس سانولی ساحرہ سے؟مانی کہ نہیں؟"
دیپک اشتیاق سے بولا۔

"جج جاٶ خود ہی بات کرلو"
وہ جھنجھلا کر بولتے ہوۓ اسکے ایک ساٸیڈ سے گزر گیا جبکہ دیپک ہونقوں کی طرح اسے دیکھنے لگا۔

"ہیں۔۔۔۔۔۔۔ویسے تو بڑا پنڈت جی بنتا ہے۔لگتا ہے اس سانولی چاندنی کا اسیر ہوگیا ہے سادھو جی"
سر جھٹک کر خود سے بڑبڑاتے ہوۓ وہ تہخانے اس کمرے میں جانے لگا جس میں آب حیات موجود تھی۔

وہ آنکھیں موندے زیرِلب کچھ پڑھ رہی تھی جب وہ دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا۔

"کیسی ہو سانولی ساحرہ،اور یہ منہ ہی منہ میں کوٸ جنتر منتر پڑھ رہی تھی جو میرے یار کو پاگل کروا کر ادھر سے بھگا ہی دیا اور اب مجھے بھی بے بس کردینا چاہتی ہو شاٸد۔ہیں نا سانولی چاندنی؟"
وہ بے تکلفی سے ہنستے ہوۓ بولا جبکہ وہ خاموش رہی۔

"اچھا چھوڑ اب بور ہوگٸ ہوگی نا اس اماوَس کی رات جیسی کٹیا کو روشن کرتے کرتے۔
ایک ڈیل کرتے ہیں تم میری بات مانو اور پھر دیکھنا کیسے چاندنی تو کیا سورج بنا کر چمکادونگا پورے دیش میں۔بول منظور ہے؟"
دیپک نے اسے لالچ دیا مگر وہ پھر بھی خاموش رہی۔

"ویسے سیانی ہو ہاں اتنی ننھی سی ہوکر بھی۔بغیر اپنا فاٸدہ جانے ڈیل نہیں کروگی نا تو چل سن پھر۔
ہم تمہیں مالا مال کردینگے۔ ایک پُر تعیش جیون بِتاٶگی تم،پورے ہندوستان پر راج کرنا جو چاہیے تم کو ملے گا بس ایک میڈیا پریس کانفرنس میں یہ اعتراف کرو کہ کہ تم باقاعدہ ٹریننگ لےکر پاکستان سے بھارت جاسوسی کیلۓ آٸ ہو۔
اور یہ کہ بھارت کے جن جاسوسوں نے پاکستان میں پکڑے جانے کے بعد جاسوسی کا اعتراف کیا ہے وہ تو معصوم اور بے گناہ بھارتی شہری ہیں۔ان سے ذہنی اور جسمانی تشدد کے ذریعے جھوٹ موٹ کا اعتراف کروایا گیا ہے۔
سالے سَسُرے آٸ ایس آٸ والے ہمارے آدمی پکڑ کر پوری دنیا میں ہمارے سمّان(عزت) کا ستیاناس کردیتے ہیں اور ہم خاموش رہیں۔
انہی کے بندی کے ہاتھوں انکو بھری دنیا میں رُسوا نہ کروایا تو میں اپنے دیش کا بیٹا نہیں۔
دیگر باتیں میں وہیں بتاٶنگا جو تم نے کہنی ہیں ٹھیک ہیں نا چاندنی؟"
کہتے ہوۓ اسکے بالوں کی طرف دیپک نے ہاتھ بڑھایا ہی تھا جب اسنے فوراً اپنا سر پیچھے کرلیا۔

دیپک نے ایک دل جلی مسکراہٹ اسکی طرف اچھالی۔

"ہاۓ صرف صورت ہی قیامت نہیں،اداٸیں بھی تباہ کن ہیں"
بڑھا ہوا ہاتھ اپنے سینے پر رکھ کر وہ کمینگی سے مسکراتے ہوۓ آنکھیں گویا اسکے وجود میں گاڑ کر بولا۔

وہ کچھ لمحے خاموش رہی پھر قہقہہ لگا کر ہنس پڑی۔

"واہ بھٸ ہنسی بھی اک جلترنگ ہے تمہاری،سوَرگ(جنّت) سے آٸ کوٸ پری ہو کیا؟"
دیپک کو لگا اسے کوٸ اعتراض نہیں تبھی وہ ہنس رہی ہے۔

مارخور  (مکمل)Donde viven las historias. Descúbrelo ahora