قسط نمبر 3

1.1K 73 4
                                    


"کچھ بول بھی دے میں دس منٹ سے بکواس کرے جارہا ہوں اور ایک تو ہے جس کا چپ کا روزہ ہی نہیں ٹوٹ رہا ہے..... دیکھ میں سمجھ سکتا ہوں تمہاری حالت لیکن اس طرح چپ رہنے سے کچھ نہیں ہوگا...... تو سمجھ رہا ہے نا!!!!!" زید پچھلے دس منٹ سے ارمغان کے لوک اپ کے باہر کھڑا اس سے بات کرنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن ارمغان بس بے تاثر چہرے کے ساتھ اسے دیکھے جا رہا تھا..... زید کو بہت تکلیف ہو رہی تھی ارمغان کو اسطرح دیکھ کر اور آخر ہوتی بھی کیوں نا! وہ لوگ بچپن کے دوست تھے،. ہمراز تھے، بلکہ دو جسم ایک جاں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا...حوالدار عامر اسے بتا چکا تھا کہ ارمغان جب سے آیا ہے اس نے ایک لفظ نہیں کہا بس آرام سے مار کھاتا رہتا.... عجیب ہی بندہ ہے فراز اکتائے ہوئے لہجے میں بولا تھااور اب زید کو لگ رہا تھا کہ عامر نے بالکل ٹھیک ہی کہا تھا

"تو.. تو مجھ پر چیخ مجھ سے لڑ لیکن کچھ تو بول میرے یار!!! ترس کھا اپنی حالت پر..... دا....."کیا چاہتا ہے تو...... میں کیا کروں ہاں!!! بول ؟ نہیں چاہتا میں یہاں سے نکلنا سن لیا تو اب دفع ہو جا" ارمغان جو کب سے زید کی باتیں سن رہا تھا ایک دم غصے سے دھاڑا.....زید جو اسے بولنے کے لیے اکسا رہا تھا کہ وہ کچھ بولے بھلے اسے گالیاں دے۔۔۔۔۔لیکن اُس کی بات سن کر اس کا میٹر ہی گھوم گیا ۔پہلے تو وہ اسے گھورتا رہا پھر طنزیہ انداز میں گویا ہوا۔"واہ واہ ارمغان جنید کیا بات ہے آپ کی !! ہم لوگ یہاں تمھارے لیے پریشان ہورہے ہیں اور آب کا کہنا ہے یہاں مزے میں ہیں وجہ جان سکتا ہوں یہاں تمھارے قیام کی۔۔۔۔۔۔کیونکہ جس ارمغان کو میں جانتا ہوں وہ اتنا بزدل اور ڈرپوک تو نہیں تھا۔۔۔۔۔۔""بکواس بند کرو اپنی ۔۔۔۔۔میں بزدل نہیں ہوں ۔۔۔۔ نہیں ہوں!!! سنا تم نے جان لے لوں گا میں تمھاری ۔۔۔۔۔ "ارمغان اتنی زور سے چیخا کہ اُس کے چہرے اور گردن کی رگیں تن گئ ۔۔۔۔۔۔"او بھائی آرام سے تم اپنے گھر میں نہیں کھڑے پولیس اسٹیشن ہے یہ زیادہ اکڑنے کی ضرورت نہیں ہے آرام سے بات کرو ورنہ دماغ درست کرنا آتا ہے ہمیں " ایک حوالدار ارمغان کو اسطرح غصے سے چیختے ہوئے دیکھ کر سخت لہجے میں بولا اور وہاں سے چلا گیا
"اسطرح مجھ پر چیخ کر تم سچ کو جھٹلا نہیں سکتے۔۔۔۔ورنہ کون اسطرح چار دیواری میں قید ہو کر رہنا پسند کرتا ہے ۔۔۔۔ دیکھ میں نہیں جانتا کہ تیرے ساتھ کیا ہوا ہے اور۔۔۔۔ نہ ہی تو بتا رہا ہے لیکن میں جانتا ہوں تو بے قصور ہے دادو کا خیال کر ۔۔۔۔ بی جان کا سوچ وہ ابھی یہاں نہیں ہیں ان کو جب پتا چلے گا ان کو کتنا دکھ ہوگا ۔۔۔۔۔زید اسکو سمھجاتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔"
"ٹھیک ہے میں دوں گا بیان " ارمغان ٹھہرے ہوئے لہجے میں بولا۔۔۔۔۔۔زید نے اس کو مسکرا کر دیکھا ۔۔۔۔ آخر اس نے ایک محاز جو سر کرلیا تھا ۔

          🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

منہا آج دیر سے اٹھی اُس کی طبیعت کچھ بوجھل بوجھل سی تھی سر میں بھی درد تھا ۔۔۔۔۔ لیکن اس کی پرواہ کسے تھی۔۔۔۔وہ تو گھر والوں کے لیے کام کرنے والی میشن تھی۔۔۔۔۔آج فہد کا کوئی دوست گھر آرہا تھا۔۔۔۔۔۔رانیہ نے تو صاف صاف کہہ دیا تھا "میرے تو کالج میں ٹیسٹ ہورہے ہیں میں تو کچھ نہیں کرسکوں گی تم اور امی سنھبال لینا" وہ کہہ کر واک آؤٹ کر گئ اور امی کا کہنا یہ تھا کہ " مجھے تو فضیلہ (چھوٹی بہن) کے گھر جانا ہے ۔۔۔۔ میں نے تمہیں کل بتایا تھا ناں! اُس کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے ہے ۔کب سے بولا رہی ہے مجھے وہ۔۔۔۔۔اب سارا کام منہا کو ہی کرنا تھا ۔۔۔۔وہ اپنی طبیعت کو پس پشت ڈال کر کام میں مصروف ہوگئ
              ______________________

یقینِ وفا ( مکمل ناول)Место, где живут истории. Откройте их для себя