قسط نمبر 4

1K 67 4
                                    

"آ۔۔۔آپ یہاں کیا کر رہے ہیں اور۔۔۔اور اندر کیسے آئے"۔۔۔۔۔ منہا نے بے یقینی کی کیفیت میں پوچھا ۔۔۔۔۔۔" دروازے سے "عمار للچائی نظروں سے اس کے سراپے کو دیکھتے ہوئے گویا ہوا ۔۔۔۔۔منہا کو اُس کی نظروں سے گھن آرہی تھی۔۔۔۔ اسکا دل چاہ رہا تھا کس طرح عمار کی نظروں کے سامنے سے غائب ہو جائے۔۔۔۔..." قریب مت آئیں میرے وہی رک جائیں ورنہ"۔۔۔۔۔ "ورنہ کیا کر لوں گی ہاں ! بولو سویٹی؟؟؟ عمار اس کی طرف بڑھتے ہوئے بولا ۔۔۔۔۔۔ "میں جان لے لوں گی تمھاری بیغرت انسان ۔۔۔۔دفع ہو جاؤ " وہ حلق کے بل چلائی۔۔۔آنکھوں سے آنسوں موتیوں طرح گر رہے تھے ۔۔۔۔۔شش آواز نہیں مائی گرل ۔۔۔اور جہاں تک جان لینے کی بات ہے ۔۔۔۔۔وہ تو تم لے ہی چکی ہو"....عمار نے لوفرانہ انداز میں کہا۔ " تمھاری یہ آنکھیں ۔۔۔۔ یہ لب افف "وہ اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔۔" کیا ہو رہا ہے یہ سب۔۔۔۔ اور تو عمار اس کے کمرے میں کیا کر رہا ہے؟؟؟؟ فہد نے مشکوک نظروں سے منہا کو گھورنے ہوئے عمار سے سوال کیا۔۔۔۔۔ عمار جو فہد کی آواز سن کر گھبرا گیا تھا...... کیونکہ وہ اس طرح کھڑا تھا کہ اس کی پشت دروازے کی طرف تھی اور منہا بھی اس کے وجود کے پیچھے پوری طرح چھپ گئی تھی اسلئے وہ بھی فہد کو کمرے میں داخل ہوتا نہ دیکھ سکی ۔۔۔۔۔۔"وہ۔۔۔۔ وہ فہد اس نے مجھے خود بلایا تھا۔۔۔۔میں تو بس کال اٹینڈ کرنے اس طرف آیا تھا کیونکہ وہاں لاونج میں سگنل ٹھیک نہیں آرہے تھے۔۔۔۔۔ میں کال کرکے فارغ ہوا تو ۔۔۔۔ اچانک یہ میرے پاس آئی اور کہا مجھے آپ سے ضروری بات کرنی ہیں ۔۔۔۔۔ میں نے کہا جی کہیں تو کہنے لگی یہاں نہیں پلیز۔۔۔۔۔۔ فہد بھائی دیکھ لیں گیں ۔۔۔۔۔ منہا تو بس سن ہوتے دماغ کے ساتھ عمار کو دیکھ رہی تھی اسکی طبیعت پہلے ہی خراب تھی اسے تو اب اپنے پیروں پر کھڑا رہنا بھی مشکل لگ رہا تھا۔۔۔۔۔۔ " بس کر دیں اور کتنا جھوٹ بولیں گے۔۔۔۔۔۔کتنا مشکوک کریں گیں میرے کردار کو میرے بھائی کے سامنے ۔۔۔۔۔۔۔ یہ میرے جوڑیں ہوئے ہاتھ دکھیں" منہا عمار کے سامنے ہاتھ جوڑتے ہوئے بولی ۔۔۔۔۔۔۔ چلے جائیں یہاں سے میری زندگی بہت مشکل ہے اور مشکل نہ بنائیں کہ میں سانس بھی نہ لے سکوں ۔۔۔۔۔جائیں۔۔۔۔۔ منہا آخر میں چیخی۔۔۔۔۔۔" جا رہا ہوں یار۔۔۔۔۔۔ ریلکس رہو " عمار دل جلانے والی مسکرانے کے ساتھ بولا اور فہد کی طرف بڑھا "یار بہت دل تھا کے میں روکو آخر اتنے ٹائم بعد ملاقات ہورہی ہے ۔۔۔لیکن کوئی بات نہیں اب تو آنا جانا لگا رہے گا"۔۔۔۔.... اسکا انداز معنی خیز تھا ۔۔۔۔۔"اوکے ٹیک کیر بائے۔۔۔۔عمار فہد کا کندھا تھپتھپاتے ہوئے کمرے سے نکل گیا۔۔۔۔

💕💕💕

ارمغان کا کیس فائل ہوگیا تھا۔۔۔۔۔۔ زید اور احد کافی پریشان تھے لیکن وکیل صاحب نے انھیں یہ بول کر مطمئن کر دیا تھا کہ " آپ لوگوں کو ٹیشن لینے کی ضرورت نہیں ہے ہمارا کیس بہت اسٹرونگ ہے ارمغان نے وہ سب ایک طرح سے سیلف ڈیفنس میں کیا تھا اور سارے ثبوت بھی ہمارے فیور میں ہیں۔۔۔۔۔ انشاء اللہ یہ کیس ہم لوگ ہی جیتے گیں"۔۔۔۔۔آمین۔۔۔۔۔زید نے دل میں کہا
💕💕💕

" پوچھ سکتا ہوں اس گھٹیا حرکت کی وجہ اگر آپکو بُرا نہ لگے۔۔۔۔فہد نے طنز کیا۔۔۔۔۔ عمار کے جانے کے بعد فہد کا رخ اب منہا کی طرف تھا۔۔۔۔۔۔۔ منہا اچھی سے طرح جانتی تھی کہ فہد اسکی کسی بھی بات کا یقین نہیں کرے گا کیونکہ اُس کی آنکھوں پر جو نفرت اور بے اعتباری پٹی آسیہ بیگم نے باندھی ہے اُس نے اسے بالکل اندھا کردیا ہے کہ اسے منہا کے ہر معاملے میں صرف سنائی دیتا ہے اور وہ بھی ہر سنی سنائی بات پر یقین کرنا اپنا فرض سمجھتا ہے۔۔۔۔جیسے ابھی۔۔۔
" بھائی ابھی میں آپکو کسی سوال کا جواب دینے کی کنڈیشن میں نہیں ہوں۔۔۔۔۔اس وقت میں صرف تنہائی چاہتی ہوں اس بارے میں بعد میں بات کریں گیں " منہا نے اسے ٹالنا چاہا ویسے بھی اسکو یقین تھا کہ وہ کچھ بھی کہہ لے فہد نے اسکا اعتبار نہیں کرنا۔۔۔۔۔"سب سمجھتا ہوں میں ہونہہ ۔۔۔۔اس طرح کے لولے لنگڑے بہانے بنا کر تم مجھ سے بچ جاؤ گی تو یہ تمہاری بھول ہے منہا بی بی!!! "۔۔۔۔... فہد اسے وارن کرتا کمرے سے نکل گیا ۔۔۔۔۔۔اور منہا اپنے بے جان ہوتے وجود کے ساتھ بیڈ پر گر گئی

💕💕💕

یوسف صاحب اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھے ۔انکی نسبت اپنی پھپھو زاد (آسیہ بیگم) سے طے تھی لیکن وہ اپنی کلاس فیلو مصباح کو پسند کرتے تھے۔۔۔۔۔۔مگر قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا انہوں نے اپنے والدین کی مخالفت کرکے مصباح سے شادی تو کرلی لیکن وہ انکا ساتھ نہ نبھا سکی ۔۔۔۔۔۔شادی کے ایک سال بعد ہی منہا کی پیدائش کے وقت خالقِ خدا سے جا ملی۔۔۔۔۔۔
یوسف صاحب کو تو گویا اپنے کانوں پر یقین نہ آیا۔۔۔۔آتا بھی کیسے مصباح انکی محبت تھی انکی ہمسفر تھی۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن ہم قدرت سے تو لڑ نہیں سکتے صرف صبر ہی کر سکتے ہیں اور یوسف صاحب نے بھی کیا ۔۔۔۔۔ انہیں جینا تھا اس معصوم کے لیے جسکو خبر بھی نہیں تھی کہ وہ اپنی ماں کی ممتا بھری آغوش سے محروم ہوگئی ہے ۔۔۔۔۔ اپنے والدین کے لئے کیونکہ وہی تو ایک سہارا تھے مان تھے اپنے ماں باپ کے ۔۔۔۔

آج پانچ ماہ ہوگئے تھے مصباح کو گزرے ہوئے  اور منہا کو اس دنیا میں آئے ہوئے وہ بالکل مصباح کی ہی کاپی تھی نیلی آنکھیں چھوٹی سی ناک بھرے بھرے گلابی ہونٹ۔۔۔۔۔ وہ ایک معصوم سی  گڑیا تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن اسکی قسمت ۔۔۔۔۔۔۔شازیہ بیگم ( دادی) کا دل تو اس ننھی پری کو دیکھ دیکھ کر خون کے آنسو روتا تھا ۔۔۔۔۔۔
                    _______________


   

یقینِ وفا ( مکمل ناول)Où les histoires vivent. Découvrez maintenant