قسط نمبر 14

1K 91 20
                                    

منہا دس منٹ بعد واش روم سے نکلی... ارمغان کمرے میں نہیں تھا...اس نے شکر کیا کیونکہ وہ اسکا سامنا بھی کرنا نہیں چاہتی تھی... ارمغان کو تو اس نے چیلنج کر دیا تھا کہ ہر حال میں یہ رشتہ نبھائے گی چاہے کچھ بھی ہو جائے لیکن بار بار اپنی تذلیل یاد آتی تو نیلی آنکھیں برسنے لگتیں...بےدردی سے اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے وہ بیڈ پر بیٹھ گئی
"اے مالک... مجھے ہمت دینا...جو وعدہ میں بی جان سے کر چکی ہوں اسے نبھا سکوں... ارمغان کے دل میں اپنی جگہ بنا سکوں... تیری بندی بہت کمزور ہے اللّٰہ...مجھے ہمت دے"...وہ پھوٹ پھوٹ کر روتی اپنے رب سے مخاطب تھی... کیونکہ اسے یقین تھا وہ ذات اسے کبھی اکیلا نہیں چھوڑے گی...
⁦💜💜💜

"سمجھتی کیا ہے اپنے آپ کو... میں مرا جا رہا ہوں اسکے لئے... محبت...کہیں ہو ہی نا جائے...سب سمجھتا ہوں الو سمجھا ہوا ہے مجھے"... ارمغان اس وقت انتہائی تیز ڈرائیونگ کر رہا تھا...منہا کے کہے گئے الفاظ اسکے کانوں میں گونج رہے تھے... مضبوط ہاتھ اتنی سختی سے سٹئرنگ پر جمے ہوئے تھے کہ ہاتھوں کی رگیں ابھر رہی تھیں
"کچھ وقت...بس کچھ وقت کی بات ہے...اس لڑکی کا اصل چہرہ سب کے سامنے لا کر رہوں گا"... ارمغان خود سے بولا...وحشت حد سے بڑھنے لگی تو ہاتھ سے سٹئرنگ سنبھالتے ہوئے دوسرے ہاتھ سے سگریٹ کے پیکٹ سے سگریٹ نکالی اور منہ سے لگائی...ابھی وہ ڈیش بورڈ سے لائٹر اٹھا ہی رہا تھا کہ اچانک سامنے سے آتے ٹرک نے اسکی توجہ کھینچی... ارمغان نے جلدی سے سٹئرنگ گھمایا لیکن گاڑی ڈسبیلنس ہو گئی اور ایک جھٹکے سے تناور درخت سے ٹکرائی... ارمغان کا سر بہت زور سے سٹئرنگ سے لگا اور وہ ہوش و خرد سے بیگانہ ہو گیا...
💜💜💜

"یہ لیں ماما چاۓ"... رانیہ نے چاۓ کا کپ آسیہ بیگم کی طرف بڑھایا
"ہممممم... یہاں رکھ دو پی لوں گی...اچھا یہ بتاؤ فہد کہاں ہوتا ہے آج کل...2 دن سے میں نے اسکی شکل نہیں دیکھی...ہر وقت ہوا کے گھوڑے پر سوار ہوتا ہے"... انہوں نے سامنے رکھی میز کی طرف اشارہ کیا ساتھ فہد کے بارے میں دریافت کیا جو آج کل کم ہی گھر میں نظر آتا تھا
"ماما مجھے کیا پتہ بھائی کونسا مجھے بتا کر کہیں جاتے ہیں"... رانیہ لاپرواہی سے بولی
"تو بہن ہے اسکی دیہان رکھا کر کہاں آتا جاتا رہتا ہے... ایک نوکری دیہان سے کی نہیں جاتی جناب سے...15 دن میں دو نوکریاں چھوڑ چکا ہے کم بخت"... آسیہ بیگم فہد کی لاپرواہ طبیعت سے بہت پریشان تھیں
"ماما میں آپ سے کہتی ہوں مجھے نوکری کرنے دیں لیکن آپ سنتی ہی نہیں ہیں"...وہ ناراضگی سے بولی
"ہاۓ ہاۓ توبہ کرو... لڑکیاں نوکریاں کرتی ہوئی اچھی لگتی ہیں"...
"تو پھر یہ ہر وقت کے رونے سے کچھ نہیں ہوگا... بھائی کوئی دودھ پیتے بچے نہیں ہیں جو انکو گھر کے حالات کا پتہ نہ ہو...انکو خود خیال ہونا چاہیے"... رانیہ روز روز کی چک چک سے تنگ آگئی تھی... تقریباً روز ہی آسیہ بیگم کا رونا ہوتا تھا پیسے کم ہیںگھر کے خرچے کیسے پورے ہوں گے اور یہ سب سننے کو ملتا بھی رانیہ کو تھا...بس پھر آج تو رانیہ پھٹ پڑی... آسیہ بیگم کو بھی اسکی بات کافی حد تک ٹھیک لگی... انہوں نے فہد سے بات کرنے کا سوچا...

یقینِ وفا ( مکمل ناول)Where stories live. Discover now