قسط نمبر 24

1.1K 141 29
                                    

"ہاں جی تو بتائیں ایسی کیا بات تھی جو آپ نے مجھ غریب کو یاد کیا"...زید اسکی موہنی صورت کو پیار سے دیکھتے ہوۓ گویا ہوا...رانیہ سفید یونیفارم میں اپنے مخصوص انداز میں چادر لیے اسکے دل کے تار چھیڑ گئی
"وہ میں...وہ ایکچیولی مجھے"...اسکو سمجھ نا آئی بات کا آغاز کسطرح کرے
"رانیہ یار ریلیکس ہوکر بات کریں میں آپکو کھا تھوڑی جاؤں گا"...زید کو اسکا اسطرح گھبرانا پسند نا آیا تبھی خفگی سے بولا
"وہ نا مجھے سمجھ نہیں آرہا کیسے بتاؤں...وہ میرے بھائی"...رانیہ اسکی ناراض نظریں دیکھ کر جلدی سے بولی تھی لیکن وہ بھائی کا سن چونک گیا اور ایک دم بولا
"ایک منٹ...کہیں آپ نے میرے بارے میں اپنے بھائی کو تو نہیں بتا دیا کہ میں آپکے ساتھ فلرٹ کرتا ہوں...یار آپ ایسا کریں گی میرے ساتھ...مجھ معصوم کو دیکھ کر لگتا ہے ایسا کروں گا...زندگی میں پہلی دفعہ محبت ہوئی ہے اور جس سے ہوئی ہے وہ مجھ پر یقین ہی نہیں کرتی میری قسمت ہی خراب ہے"...وہ اسکی بات کاٹتے ہوۓاپنے اندازے لگارہا تھا اور رانیہ بس ہونق بنی اسے بولتے دیکھ رہی تھی...اسکے دل میں یہ احساس شدت سے جاگا کہ اس پاگل انسان سے بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے "آپ پاگل ہیں پورے یہاں میری ٹنشن سے جان نکلی جارہی ہے اور أپکا مسخرہ پن ہی ختم نہیں ہورہا...کوئی فائدہ نہیں ہے آپ سے بات کرنے کا...اللہ حافظ"...رانیہ اسکی اوٹ پٹانگ باتیں سن کر دبے دبے لہجے میں چلائی...وجہ آس پاس بیٹھے لوگ تھے...حقیقت میں تو اسکا دل چاہ رہا تھا اپنے سامنے رکھا کافی کا کپ اسکے سر پے الٹ دے
" آپکے چہرے پر 12 بج رہے تھے اس لیے آپکا موڈ ٹھیک کرنے کے لیے میں مزاق کررہا تھا"...زید اپنے مذاق پر اسکو جوالا مکھی کی طرح پھٹتے دیکھ کر گڑبڑا گیا...رانیہ جو اٹھ کر جانے لگی تھی ایک تیکھی نظر زید کے مسکین چہرے پر ڈال کر دوبارہ بیٹھ گئی...زید نے شکر کا سانس لیا
"اچھا نو مور مذاق...بتائیں کیا بات ہے"...وہ اب بلکل سنجیدہ تھا...پھر رانیہ سب بتاتی چلی گئی...اسکی بات سن کر زید کی چمکتی پیشانی پر بل پڑے تھے...
❤❤❤

ارمغان کا بیہیویر آفس ورکرز کے لیے حیران کن تھا...چھوٹی چھوٹی باتوں پر انکو بری طرح ڈانٹنے والا آج ہر بات پر مسکراۓ جارہا تھا...مینیجر جب اس سے کسی فائل پر دستخط لینے کی غرض سے آیا تو ارمغان کو یونہی بیٹھے مسکراتا دیکھ کر بڑی تعجب بھری نظروں سے دیکھا...انکا نہیں پورے آفس کا یہی عالم تھا...زید جب آفس آیا تو کافی لوگوں نے اسے اسکے عجیب برتاؤ کے بارے میں بتایا...اسکی جولی نیچر کی وجہ سے سب اس سے آرام سے بات کرلیتا یا کوئی بھی سفارش اسکے ذریعے ارمغان کے کانوں تک پہنچا دیتے تھے...دونوں دوستوں میں زمین آسمان کا فرق تھا...لیکن دوستی بےمثال تھی...
وہ جیسے ہی گلاس ڈور دھکیل کر اندر آیا ارمغان کے مسکراتے چہرے کو دیکھ کر اسکو باہر بیٹھے لوگوں کی باتیں سچ لگیں...سامنے کا منظر کچھ یوں تھا....ارمغان ریوالونگ چئیر پر بیٹھا تھا سامنے ہی کانچ کی ٹیبل پر لیپ ٹاپ کھلا تھا...دونوں کہنیاں ٹیبل پر ٹکاۓ نظریں غیر مرئی نقطے پر تھیں....آس پاس کی کچھ خبر نہیں تھی...زید نے اپنی مسکراہٹ چھپاتے ہوۓ کرسی سنبھالی
"واپس آجا یار تجھے اسطرح دیکھ کر قسم سے بہت جلن ہورہی ہے"...وہ اسکی طرف جھکتے منہ بسور کر بولا لیکن آنکھوں میں شرارت واضح تھی
"تو کب آیا؟"...وہ گڑبڑا کر سیدھا ہوکر بیٹھتا حیرانی سے بولا
"بس ابھی...جب تو بھابھی کے خیالوں میں کھویا ہوا تھا"...زید نے آنکھ ماری
"بکواس نہ کر"...ارمغان نے مصنوعی غصے سے گھورا
"یار تو مجھ سے چھپاۓ گا...سچ بتا...بھابھی نے اظہارِمحبت کیا ہے نا جسکی وجہ سے تیرے تھوبڑے پر مسکراہٹ آئی ہے"...زید کا انداز رازدانہ تھا
"تو آیا کیوں ہے یہاں سکون نہیں ہے تجھے جو روز ٹپک پڑتا ہے"...اسکے بات پر خجل ہوتا وہ بےبسی سے چلایا
"بیٹا تو کچھ بھی کہہ تیرا راز فاش ہوچکا ہے"...زید نے آج اسکو زچ کرنے کی قسم کھائی تھی "تو چاہتا کیا ہے آخر سیدھے سیدھے بتا"...ارمغان کو اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ اسکا پیچھا نہیں چھوڑے گا اس لیے سیدھا پوائنٹ پر آیا
"ہاہاہاہا...یہ ہوئی نا بات...چل اٹھ گھر چل سب بتاتا ہوں"...زید قہقہ لگاتا اپنی جگہ سے کھڑا ہوا
"گھر کیوں...جو بکواس کرنی ہے یہیں کر"...ارمغان بھنایا۔۔
"یار چل نا...بھابھی سے بھی بات کرنی ہے راستے میں سب بتاؤں گا"...زید نے اب کی بار اسکی منت کی تھی
"ایسی کیا بات ہے جو تجھے منہا سے کرنی ہے"...ارمغان نے مشکوک نظروں سے گھورا
"تو بیٹھا رہ میں چلا...بعد میں مجھے مت کہنا کچھ"...اسکے سوال پر سوال کرنے پر وہ جھنجھلایا
"چل رہا ہوں مر کیوں رہا ہے"...ارمغان اپنی جگہ سے اٹھا کوٹ سٹینڈ سے اپنا کوٹ اٹھا کر گاڑی کی چابی،لیپ ٹاپ اور دیگر چیزیں لیکر زید کے پیچھے چل دیا جسکی زبان ایک بار پھر شروع ہوگئی تھی...
❤❤❤

یقینِ وفا ( مکمل ناول)Donde viven las historias. Descúbrelo ahora