قسط نمبر 17

1.1K 103 14
                                    

"اچھا چلو میں چلتا ہوں تم آرام کرو اور کوئی بھی کام ہو مجھے بلا جھجک کہنا ہے"...زید صوفے سے اٹھ کر بیڈ کے پاس آیا
"یار ابھی کیوں جا رہے ہو...رکو مجھے بات کرنی ہے کچھ"...ارمغان نے اسے روکنا چاہا
"یار مجھے ایک بہت ضروری کام ہے میں نکلتا ہوں تم ابھی آرام کروبس...باتیں ہوتی رہیں گی"...اس نے ارمغان کو آرام کرنے کی تلقین کی...ارمغان اسے گھور کر رہ گیا
"اچھا چلیں بھابھی اللہ حافظ...پھر ملاقات ہوگی انشااللہ"...زید کا رخ اب منہا کی طرف تھا...رانیہ کو ایک نظر دیکھنے کی غلطی بھی اس نے نہیں کی...جو بھی تھا زید کو رانیہ کی باتوں نے ہرٹ کیا تھا
"بھائی لنچ کر کے جاتے"...منہا کو آدابِ میزبانی یاد آئے
"نہیں بھابھی پھر کبھی...ابھی چلتا ہوں"...الوداعی مسکراہٹ ارمغان کی طرف اچھالی اور کمرے سے نکلتا چلا گیا...رانیہ کو اس طرح اپنا اگنور کیے جانا بہت ناگوار گزرا...کچھ سوچتے ہوئے وہ منہا سے مخاطب ہوئی
"آپی میں بھی چلتی ہوں..اصل میں ماما کو بتا کر نہیں آئی انکو ٹینشن ہورہی ہوگی"..رانیہ اپنی شال ٹھیک کرتی کرسی سے اٹھی
"ارے پہلی دفع إئی ہو کھانا کھا کر جانا"
"نہیں آپی پلیز إج نہیں"...وہ معذرت خواہ انداز میں بولی۔۔"اپنا بہت زیادہ خیال رکھئیے گا...اور بھائی آپ بھی جلدی سے ٹھیک ہو جائیں...اسطرح بلکل بھی اچھے نہیں لگ رہے"...وہ بیک وقت دونوں سے مخاطب تھی...ارمغان اسکی بات پر ہلکا سا مسکرایا...وہ دونوں کو اللہ حافظ کرتی بھاگتے ہوئے کمرے سے نکلی...بہت تیزی سے سیڑھیاں اتری...آخری سیڑھی پر پہنچ کر تھوڑا سا جھک کر اپنی سانس بحال کی پھر تیز تیز قدم اٹھاتی بیرونی دروازے کے طرف چل دی جہاں پورچ میں زید اپنی کار ریورس کر کے مین گیٹ سے باہر نکال رہا تھا
"ویٹ ویٹ"...جلدی سے آگے بڑھتی رانیہ اسکی کار کے سامنے آئی تھی...
💜💜💜

زید نے حیرانی سے اسکو دیکھا...دل خوشگوار انداز میں دھڑکا لیکن اپنے چہرے کے تاثرات کو سپاٹ کرتے ہوئے وہ گاڑی سے اترا
"جی فرمائیے...اب کیا غلطی سرزد ہو گئی مجھ سے جو آپکو اسطرح مجھے روکنا پڑا"...اسکا لہجہ انتہا کا سخت تھا...رانیہ نے حیرت سے اسے دیکھا...یہ کس طرح بات کر رہا تھا اس سے...کیا اتنا بدگمان ہو گیا تھا وہ...اسکو بہت سا رونا آیا
"دیکھیں بس میں آپ سے اُس دن کے لیۓ معافی مانگنا چاہتی تھی...آپ کے ساتھ بہت روڈلی بیہیو کیا مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا
I Am extremely sorry"...
نظریں جھکا کر کہتی زید کو وہ اتنی پیاری لگی کہ اسکا دل چاہا کہہ دے آپکی کوئی غلطی نہیں تھی ساری غلطی تو میری تھی...لیکن کچھ سوچ کر دل ہی دل میں شرارت سے مسکرایا
"اور کچھ؟"...وہی سپاٹ لہجہ
"آپ ایسے کیوں کر رہے ہیں"...رانیہ نے سر اٹھا کر اسے دیکھا لیکن زید کو لگا وہ کبھی ہِل نہیں سکے گا...رانیہ کی آنکھیں نم تھیں...آنسو گرنے کے لئیے بیتاب تھے
"میں نے وہ سب جان بوجھ کر نہیں کہا تھا بس کچھ ٹینس تھی اس لئیے وہ سب کہہ گئی"...بولتے بولتے اسکی آواز بھرا گئی...زید تو بس ساکت سا اسکے معصوم چہرے کو تکتا جا رہا تھا
💜💜💜

اب کمرے میں صرف ارمغان اور منہا موجود تھے...کمرے میں ایک عجیب سی خاموشی کا راج تھا
"میں آپکے لئیے کچھ کھانے کو لاتی ہوں پھر آپکو دوائی بھی لینی ہے"...منہا کی آواز نے خاموشی کو توڑا
"مجھے بھوک نہیں ہے"
"میں أپ سے پوچھ نہیں رہی بتا رہی ہوں...میں لا رہی ہوں اور آپکو کھانا ہے...میں کوئی فضول بات برداشت نہیں کروں گی"...منہا نے ارمغان کو غصے سے گھورا
"یہ آپ حکم کس پر چلا رہی ہیں"...منہا کے حکمانہ لہجے پر سختی سے بولا
"اپنے شوہر پر"...تڑخ کر جواب آیا
"میں نے آپکو ایسا کوئی حق نہیں دیا"...ارمغان نے اپنا سر بیڈ کراؤن سے ٹکا دیا
"حق تو آپ نے مجھے اس دن نکاح کے پیپرز پر دستخط کرتے ہی دے دئیے تھے"...وہ مضبوط لہجے میں بولی
"انسان کا اوور کانفیڈنٹ ہمیشہ اسے لے ڈوبتا ہے"...ارمغان طنزیہ لہجے میں بولا
"اطلاع کے لیۓ شکریہ"...منہا نے مسکرا کر اسکی طرف دیکھا...ارمغان نے اسکے دیکھنے پر نفرت سے اپنا چہرہ دوسری طرف موڑ لیا کیونکہ وہ جانتا تھا اس سر پِھری لڑکی سے بحث کرنا بلکل بےمعنی ہے...منہا بوجھل قدموں سے کِچن کی طرف بڑھی...
💜💜💜

یقینِ وفا ( مکمل ناول)Donde viven las historias. Descúbrelo ahora