قسط نمبر 12

1.1K 86 15
                                    

کچن میں معنی خیز سی خاموشی تھی جسکو ارمغان کی گھمبیر اور سرد آواز نے توڑا
"میں ہاتھ ہٹا رہا ہوں...آواز نہیں"...اپنی کالی آنکھیں منہا کی نیلی آنکھوں میں گاڑھیں
"اوکےےےےےے"...اسکے جواب نہ دینے پر وہ دوبارا بولا
منہا نے جلدی سے دو تین بار اپنی پلکیں جھپکیں جیسے ہاں کہ رہی ہو... ارمغان نے اسکے منہ سے ہاتھ ہٹایا...وہ بے ساختہ اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر لمبی لمبی سانسیں لینے لگی
"کون ہیں آپ اور میرے گھر میں کیا کر رہی ہیں؟"... ارمغان نے اپنی آنکھیں چھوٹی کیں جیسے اس سے پہچانے کی کوشش کر رہا ہو
"میں... میں...وہ"...منہا کو تو سمجھ میں ہی نہیں آرہا تھا کیا کہے...وہ اپنے حواس میں ہوتی تو کچھ سمجھ پاتی
"میں میں کیا لگا رکھی ہے مس... میں نے آپ سے کچھ پوچھا ہے"...اسکے میں میں کرنے پر وہ اتنے غصے سے دھاڑا کہ بےچاری دوبارہ فریج سے چپک گئی اور سہمی نظروں سے اسکے غصے سے سرخ پڑتے چہرے کو دیکھا... زبان تالو سے جا چپکی۔۔۔
" I am asking something silly girl.. answer me"...
ارمغان کا بس نہیں چل رہا تھا منہا کو جان سے مار دے
"میں... میں...منہا ہوں"...منہا نے آنکھیں مینچتے ہوئے جلدی سے کہا...اس شخص کے سامنے جیسے سارے الفاظ کھو گئے تھے...کچھ بولا ہی نہیں جارہا تھا
"کون منہا؟"...بمشکل اپنے غصے کو ضبط کیے پوچھ گیا...منہا جو آنکھیں مینچیں کھڑی تھی ارمغان کی آواز پر ڈرتے ڈرتے آنکھیں کھولیں لیکن اسکی طرف دیکھنے کی غلطی نہیں کی
"مس منہا آپ مجھے بتائیں گی آپ کون ہیں اور کس رشتے سے میرے گھر میں میرے کچن میں کھڑی ہیں"... ارمغان نے اسے اسی طرح کھڑے دیکھ کر ایک ایک لفظ چبا چبا کر کہا... یہ لڑکی اسکا ضبط آزما رہی تھی... پتہ نہیں ہر دو منٹ بعد کونسی دنیا میں چلی جاتی تھی...وہ بس سوچ کر رہ گیا
"وہ میں... یوسف انکل کی بیٹی ہوں... ارمغان سے نکاح ہوا ہے میرا"...منہا نے اپنی گردن جھکا کر یوں کہا جیسے کسی جرم کا اعتراف کر رہی ہو...اسکی بات سن کر ایک لمحے کے لیے ارمغان ساکت رہ گیا... پھر اپنی مٹھیاں بھینچتے ہوئے اپنے اندر اٹھنے والے طوفان کو روکا اور ایک کٹیلی نگاہ بت بنی منہا پر ڈالی اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا کچن سے نکل گیا...اسکے جانے کے بعد منہا نے روکی ہوئی سانس بحال کی اور بھاگتے ہوئے اپنے اور بی جان کے مشترکہ کمرے میں گھس گئی...
⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

کمرے میں آکر گرنے کے سے انداز میں صوفے پر بیٹھا... آنکھیں بند کرتے ہوئے اپنا سر صوفے کی پشت پر ٹکا دیا
"میں یوسف انکل کی بیٹی ہوں ارمغان سے نکاح ہوا ہے میرا"...منہا کی آواز اسکے کانوں میں گونجی تو آنکھیں ایک دم کھولیں...سینے میں جیسے آگ لگنے لگی
"یہ لڑکی یہاں کیا کر رہی ہے"... بےبسی سے اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرا... زید کو اس بارے میں علم ہوگا صبح بات کرتا ہوں...یہ سوچتے ہوئے وہ صوفے پر سے اٹھ کر بیڈ پر لیٹ گیا... لیکن نیند اسکی آنکھوں سے کوسوں دور تھی...
⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

فجر کی نماز پڑھ کر منہا دوبارا سو گئی... رات کے واقعے کے بعد وہ اس شخص سے ڈر گئی تھی اور اکیلے کمرے سے باہر جانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا...یہ جانے بغیر کہ جس کو اس نے نکاح کا بتایا ہے وہ اسی کے نکاح میں ہے اور وہی شخص ارمغان جنید ہے...
دوبارا اسکی آنکھ 9 بجے کھلی... ڈرتے ڈرتے وہ کمرے سے باہر نکلی...دل میں یہی دعا تھی کہ ارمغان سے سامنا نہ ہو لیکن جیسا ہم سوچتے ہمیشہ ویسا تو نہیں ہوتا نا... ناشتے کے ٹیبل پر ارمغان اور بی جان ناشتہ کر رہے تھے اور ساتھ میں باتیں بھی جاری تھیں... جیسے ہی منہا کی نظر ارمغان پر پڑی وہ فوراً واپسی کے لیے مڑ گئی... لیکن تب تک دیر ہو چکی تھی کیونکہ بی جان نے اسے دیکھ لیا تھا
"ارے منہا بیٹا آپ اٹھ گئیں...چلو آؤ ناشتہ کرلو"...بی جان نے اسکی پشت کو دیکھتے ہوئے کہا... ارمغان بی جان کی بات سن کر ہونٹ بھینچتے ہوئے ناشتے کی طرف متوجہ ہوگیا"بی جان مجھے بھوک نہیں لگی بعد میں کھا لوں گی"...وہ منمنائی
"بیٹا صبح کا ناشتہ بہت ضروری ہوتا ہے انسان کے لیے...آؤ تھوڑا سا کھا لو چلو شاباش"... انہوں نے منہا کو پچکارا
منہا مرتی کیا نہ کرتی ارمغان کے سامنے والی کرسی پر بیٹھ گئی
"دیکھو تو کیسے شرما رہی ہے...بیٹا شوہر ہے تمھارا"...بی جان منہا کے ناشتہے سے انکار کی وجہ ارمغان سے جھجھک سمجھیں... جبکہ انکی بات سن کر حیرت سے اس مغرور شہزادے کو دیکھا جو ناشتہ کرنے میں ایسے مگن تھا جیسے اس سے زیادہ کوئی کام اہم نہ ہو.."اف اللّٰہ جی میں نے کیا بول دیا کل رات کو...یہ کیا سوچ رہے ہوں گے میرے بارے میں کہ میں اپنے شوہر کو ہی نہیں پہچانتی...اوفوہ منہا...کچھ سوچ تو لیا ہوتا"...وہ اپنے رات کہے ہوئے جملوں کو یاد کرکے اپنے آپ کو لتاڑنے میں مصروف تھی کہ ارمغان کی گھمبیر آواز کانوں میں ٹکرائی
"بی جان ٹھیک ہے میں چلتا ہوں آپ اپنا خیال رکھئیے گا"...وہ نیپکن سے ہاتھ صاف کرتا ہوا بولا
منہا نے چور نظروں سے اسکی طرف دیکھا ...وہ اس وقت بلیک ٹی۔شرٹ اور بلیو جینز پہنے ہوئے تھا... بھورے بال اسکی چوڑی چمکدار پیشانی پر بکھرے ہوئے تھے...ہلکی سی شیو اسکے چہرے کو اور جاذب بنا رہی تھی...اور سب سے زیادہ اسکی کالی آنکھیں پرکشش تھیں جس میں ہر وقت ایک سرد پن رہتا تھا...وہ ایک خوبرو شخص تھا...منہا تو بس یہی سوچ سکی... ارمغان اسکی سوچوں سے انجان وہاں سے جا چکا تھا...
⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

یقینِ وفا ( مکمل ناول)Où les histoires vivent. Découvrez maintenant