Episode 21

116 15 2
                                    

                   دل کے ہاتھوں ❤️

             بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم•

جب اسے ہوش آنے لگا تو وہ کسے گاڑی میں تھی، اس کا دم گھٹا، اس نے آنکھیں کھولیں تو اندھیرا تھا ( آنکھوں پہ ابھی بھی پٹی تھی) اس نے اپنے جسم پہ رسیوں کی مضبوط گرفت محسوس کی۔
وہ اب اسے کہاں لے جارہے تھے، کیا وہ اسے کسی کو بیچ دیں گے، ماہین زبیر تو کیا تم کبھی اپنے گھر والوں کو دیکھ نہیں پاؤ گی، نہیں نہیں ایسا نہیں ہوگا۔ وہ لوگ مجھے ڈھونڈ لیں گے۔ وہ آیت الکرسی پڑھنے لگی۔

گاڑی رستے پہ روا دوا تھی۔ گاڑی کی تیز رفتاری کی طرح اس کے دل کی دھڑکنوں کی رفتار بھی تیز تھی۔ دودن سے ماہین کو کچھ نہ کھانے کی وجہ سے چکر آرہے تھے۔

گاڑی ایک دم سے رکی۔ ماہین کو لگا جیسے اس کا دل بند ہوجاۓ گا۔ وہ اسے اب نہ جانے کہاں لے آۓ تھے۔ اس نے اپنے بازو پہ سخت گرفت محسوس کی۔ انگلیاں جیسے اس کے اندر تک گھس رہی ہونگی۔ اس کے بازوں کی پٹی کھول دی گئ اور زوردار دھکے کے بعد اس نے خود کو زمین پہ اوندھا گرا پایا ۔ اس نے ہاتھوں سے اپنی آنکھوں پہ بندھی پٹی اتاری تو تیز روشنی میں آنکھیں دھندلا گئ ۔ اس نے پھر سے آنکھیں بند کرکے کھولی اور اپنے دونوں ہاتھوں سے آنکھوں کو مسلتے ہوۓ اس نے موجودہ جگہ کو پہچاننا چاہا ۔ اسے یقین نہیں آیا کہ وہ یہاں تھی۔

اس نے اپنے مردہ ہوتے جسم کو پوری طاقت سے اٹھانے کی کوشش کی ۔ اسے سڑک کے اس پار جانا تھا۔ اس نے منہ سے نکلتے خون کو بازوں سے صاف کیا ۔ اب وہ لڑکھڑاتے قدموں سے سڑک کو پار کر گئ۔ اسے اپنی چوٹوں کا درد بھول گیا۔ اب اسے بس سامنے والا دروازہ پار کرنا تھا اور پھر سب کچھ ٹھیک ہوجاتا لیکن زندگی تو ہمیشہ سے ہی unpredictable ہے ۔ جو ہم سوچے بالکل ایسا ہو ضروری نہیں ۔ ماہین کی زندگی بدلنے والی تھی لیکن ماہین کے خیال سے بالکل مختلف۔

وہ آہستہ آہستہ قدم بڑھاتی جارہی تھی ۔ اس نے بیرونی دروازہ پار کیا اب وہ لان عبور کرتی گھر کے اندرونی حصے کے دروازہ پہ تھی اس نے دروازہ کھولا قدم بڑھاۓ۔ اس نے سوچا تھا کہ سب اسے دیکھ کر خوش ہونگے۔ اسے فوری گلا لگایا جاۓگا۔ گھر کا ماحول کچھ یوں تھا۔

دادو اپنی مخصوص کرسی پہ آنکھیں بند کیے تسبیح کے دانے گرارہی تھیں۔ اماں پریشان سی صوفے پہ گری تھی اماں کے پاس تائی اماں اور چچی بیٹھی تھی۔ اسے ابا اشعر کوئ نظر نہیں آۓ شاید وہ اسے ڈھونڈنے نکلےہوگیں۔

وہ آگے بڑھی اس نے اماں کو آواز دی۔ اماں ۔

روبینہ بیگم نے اسے دیکھا وہ اس کی طرف لپکی۔ میرا بچہ۔ انہوں نے اسے گلے لگایا۔

دادوں نے آنکھیں کھولی۔ میری بچی کہاں تھی تم۔

تم کہاں تھی۔ خود ہی واپس آگئ۔ چچی کے الفاظ تھے۔

مجھے۔۔۔۔۔

تم اس دن ڈرائیور کے ساتھ بھی نہیں تھی۔ کس کے ساتھ گئ تھی۔

دل کے ہاتھوں۔۔۔۔۔۔۔Where stories live. Discover now