دل کے ہاتھوں ❤️
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم°
مشکل میں ہمیشہ انسان سمجھتا ہے کہ گزرنے والے لمحے سست ہوتے ہیں اور خوشی کے لمحے تیز رفتار۔ ایسا نہیں ہوتا یہ تو ہمارے سمجھنے اور سوچنے پر منحصر ہے۔
جب ہم مشکل یا دکھ میں ہوتے ہیں تو ہم سب کچھ بھول کر بس آسانی اور خوشی کا انتظار کرتے ہیں اور انتظار اسے لمبا اور کھٹن بناتا ہے اور خوشی میں خوشی کو ظاہر کرنے کے لیے ہمیں کئ طریقے مل جاتے ہیں جن میں مصروف ہوکر ہم وقت گزارتے ہیں اور ہمیں گزرتے وقت کا احساس نہیں ہو پاتا۔
لیکن اللہ کے نیک اور برگزیدہ بندے دونوں صورتوں میں میانہ روی سے کام لیتے ہیں ۔ وہ مشکل میں صبر اور برداشت سے کام لیتے ہوۓ اپنے رب سے مدد مانگتے ہیں اور اس کے لیے کوششیں بھی کرتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ یہ تو امتحان ہے اور امتحان میں اگر اپنے رب کے بتاۓ ہوۓ رستے پر عمل کریں گے تو دوگنا انعام پئیں گے۔ وہ خوشی میں بھی رب کا شکر بجا لاتے ہیں اور پھر شکر سے نعمتیں بڑھتی ہیں ۔ وہ مشکل میں بھی شکر کرتے ہیں اور خود کو اللّٰہ کے قریب پاتے ہیں۔
ماہین کو اس اندھیر کمرے میں دادی کے بتاۓ ہوۓ الفاظ یاد آرہے تھے۔
اسے یاد آرہا تھا ایک رات ڈنر پہ جانے کے لیے ماہی بے حد خوش تھی اور بابا کا انتظار کر رہی تھی۔ جب اس نے دادو سے کہا تھا دادو یہ گھڑی کب سے چھے پہ رکی ہے آگے بڑھ ہی نہیں رہی ۔ میں اسے ہاتھ سے آگے بڑھاؤں تب بابا آجائیں گے اور ہم ڈنر پہ چلے جائیں گے۔
تب دادو نے اسے یہ باتیں بتائ تھیں۔ اس کے لیے اور اس کے گھر والوں کے لیے یہ رات بہت لمبی تھی لیکن ماہین اللّٰہ سے مدد مانگتی رہے گی۔ اس نے پھر سے دعائیں کرنا شروع کردیا تھا۔
اسے یوں اکیلے سعد سے ملنے جانے پر بہت افسوس ہورہا تھا۔ کاش وہ اس دن اتنی جزباتی نہ ہوتی اور ڈرائیور کے ساتھ ہی چلی جاتی تو آج اس مشکل میں نہ ہوتی اور اب ماہین کو بہت پچھتاوا ہورہا تھا۔ اس سے پہلے ماہین جو زندگی میں جتنے بھی پچھتاوے رہے ہوں اس سے بڑا کوئ نہ تھا۔
***************************
اشعر ساری رات سو نہیں پایا تھا۔ کبھی کمرے میں چکر لگاکر کبھی دادو اور اماں کو حوصلہ دیکر ۔ بابا اپنے کمرے میں خاموش ہوگۓ تھے۔ اشعر کے بہت اصرار پر دادو اور اماں بھی اپنے کمروں میں چلی گئیں۔
اشعر لان میں بیٹھا تھا۔ اسے یاد تھا وہ اور ماہین چھوٹی چھوٹی بات پہ لڑتے جھگڑتے رہتے تھے۔ ایک دوسرے کو تنگ کرنے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے۔
جب وہ چھوٹے تھے۔ تو ماہی اور اشعر چھپن چھپائی کھیل رہے تھے۔ اشعر کی باری تھی وہ اسے مسلسل ڈھونڈتا رہا تھا لیکن ماہی اسے ملی نہیں۔ تب وہ بہت رویا تھا۔ دادو اور امی لوگ کسی کے گھر گئ تھی۔ اسے لگا تھا اس نے اپنی بہن کھودی۔ جب اس نے اونچا اونچا رونا شروع کردیا اور ماہین اسٹور روم سے نکل آئ۔ اسے دیکھتے ہی وہ اس کے گلے جا لگا۔
YOU ARE READING
دل کے ہاتھوں۔۔۔۔۔۔۔
General FictionAsalamu alaikum readers! Story of different characters with different mysteries....