دل کے ہاتھوں
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
دوپہر میں نانو کے پاس حرا ابراہیم سب ہی آۓ تھے۔ مناہل بھی ان کے کمرے میں سوپ بناکر آئ تھی۔
اب کیسی ہیں نانو؟ سلام کے بعد اس نے ان کا حال پوچھا تھا.
وہ جو آنکھیں بند کیے لیٹی تھیں اس کی آواز پر آنکھیں کھولی تھی۔ ٹھیک ہوں پہلے سے بہتر ہوں ۔
وہ ان کے پاس بیٹھتے ہوۓ ان کا بلڈ پریشر چک کرنے لگی تھی۔
نانو اٹھیں میں آپ کے لیے سوپ بنا کر لائ ہوں ۔
نہیں میرا جی نہیں چاہ رہا بیٹا۔ انہوں نے بہت ہی دھیمی آواز میں اسے منع کیا تھا۔
نہیں نانو آپ کو پینا پڑے گا۔ آپ نے ناشتہ بھی نہیں کیا تھا۔ وہ انہیں اٹھاتے اور ان کی ٹیک کے لئے تکیہ سیٹ کرتے ہوۓ بولی تھی۔
وہ اب انہیں زبردستی سوپ پیلا رہی تھی۔ نانو اب خاموشی سے سوپ پی رہی تھیں ۔
سوپ کا پیالہ آدھا ہونے کو تھا تو نانو نے مزید پینے سے انکار کیا تھا۔ وہ اب ان کا منہ صاف کرتے ہوۓ انہیں دوائ دے رہی تھی۔
انہوں نے اسے دل سے دعا دی تھی۔ اللہ تمہیں ہمیشہ خوش رکھے بہت اچھے نصیب کرے تمھارے ۔ وہ دعا دے رہی تھیں کہ کمرے کے دروازہ کا ناب گھماتے ہوۓ حیدر کمرے میں داخل ہوا تھا۔اسلام علیکم نانو! کیسے طبعیت ہے اب آپ کی؟
اچھی ہوں مجھے کیا ہوا ہے ہلکا سا بی پی بڑھا تھا تم لوگوں نے تو پتا نہیں کیا بنا لیا ہے اسے۔ نانو نے مسکراتے ہوۓ کہا تھا۔
وہ بیڈ کے پاس پڑے صوفے پہ آکر بیٹھا تھا۔ نانو تھوڑا نہیں بہت زیادہ ہائ تھا آپ کا بی پی مما بتا رہی تھیں ۔
نہیں تمھاری ماں بس ایسے ہی پریشان ہوگئ تھی۔ نانو نے کہا تھا۔
مناہل جو بیڈ پہ نانو کے پاس بیٹھی تھی اب برتن اٹھاکر باہر جانے لگی تھی وہ جو لائٹ پیچ کلر کے گھٹنوں تک آتے فراک میں بالوں کو ادھ کھلے چھوڑے ہوۓ تھی معصوم سی لگ رہی تھی۔۔ حیدر نے آج اسے غور سے دیکھا تھا۔وہ چلی گئ تو حیدر نانو سے باتوں میں مصروف ہوگیا۔
**************
ممی میں آج رات کی فلائٹ سے واپس جا رہا ہوں ۔ اس نے ماں کو بتایا تھا ۔
وہ اس کے جانے کا سن کر تھوڑا اداس ہوئ تھیں۔ کچھ دن یہاں اور رک جاتے ۔ انہوں نے اسے افسردہ ہوتے ہوۓ کہا تھا۔ممی میری ایک بہت ایمپورٹینٹ میٹنگ ہے کل دوپہر میں اس لیے جانا پڑے گا۔

YOU ARE READING
دل کے ہاتھوں۔۔۔۔۔۔۔
General FictionAsalamu alaikum readers! Story of different characters with different mysteries....