Episode# 15

210 20 7
                                    



                                 دل کے ہاتھوں ❤️❤️ 

                                بسم اللہ الرحمٰن الرحیم•                                      

شام کے کھانے کے بعد وہ سلطان صاحب کے کمرے میں آئ تھی۔ دروازے پہ دستک دیتے ہی اجازت مل گئ تھی۔ جیسے وہ اسی کے انتظار میں تھے۔ وہ اسٹیڈی میں بیٹھے گویا کسی کتاب کا مطالعہ کر رہے تھے۔ اس کے آتے ہی کتاب کو میز پہ الٹا رکھ دیا۔

آؤ بیٹھو بیٹا ۔ میں کب سے تمھارے انتظار میں تھا۔ اسے اپنے پاس بیٹھاتے ہوۓ وہ گویا ہوۓ۔

وہ ان کے پاس آکر بیٹھ  گئ
اور ہاتھوں کو گود میں گراۓ  بیٹھ گئ تھی۔ وہ اب بھی خاموش تھی۔

اب کیسا ہے میرا بچہ اب گویا وہ اس کا حال بڑے پیار سے پوچھ رہے تھے۔

مجھے بابا بہت یاد آتے ہیں چاچو۔ ان کے آخری وقت میں بھی میں ان کے ساتھ نہیں تھی۔ ( اب آنکھ سے آنسو گرا اور ہاتھوں کی مٹھی میں جزب ہوگیا۔)

اللہ کی ہر کام میں مصلحت ہوتی ہے بیٹا۔ تم مجھے شروع سے ہی حرا کی طرح ہو۔ میں بھی تمھارے باپ کی طرح ہوں ۔ کبھی کوئ مسلۂ ہو کچھ چاہیے ہو تم مجھے بتاؤ گی۔

چاچو میں ابھی کوئ منگنی کوئ نکاح نہیں چاہتی۔ میں بابا کا بزنس دیکھنا چاہتی ہوں۔ میں چاہتی ہوں ممی کی عدت پوری ہوتے ہی ہم لوگ واپس کینیڈا چلے جائیں۔ اس نے اپنا مدعا بیان کردیا تھا۔

وہ بڑے پیار سے اس کے سر پہ ہاتھ پھیرتے ہوۓ بولے۔
تم بزنس سنبھالو مجھے خوشی ہے۔ تم ابھی نکاح نہیں کرنا چاہتی ہم تم پہ زور نہیں ڈالے گیں ۔ لیکن بیٹا تمھارے بابا اور میں یہی چاہتے تھے کہ اب ہم لوگ پاکستان شفٹ ہوجائیں ۔ اور اب تو میں تم لوگوں کو یوں اکیلا نہیں بھیج سکتا ۔ پہلے افضال بھائ تھے۔ لیکن اب تم لوگ میری زمہ داری ہو۔ تم لوگ یہی رہو گے۔

چاچو تو پھر ہمیں الگ گھر لے دیں۔ اس نے چاچو کو دیکھ کر کہا۔

نہیں بیٹا تم لوگ اسی گھر میں رہو گے میں کیسے تم لوگوں کو اکیلا کہیں بھیج دو۔  تم لوگ آج سے میری زمہ داری ہو۔ تم لوگوں کو یہاں کوئ پریشانی نہیں ہوگی۔اور کل سے تم بھی میرے ساتھ آفس آرہی ہو۔

مزید کچھ اور باتیں کرنے کے بعد وہ اپنے کمرے میں آئ تو۔ زکیہ پہلے سے کمرے میں موجود اس کا انتظار کررہی تھی۔

کیا بات کرنے گئ تھی تم بھائ صاحب سے۔ زکیہ نے اسے آتے دیکھا تو سوال شروع ہوگئ تھیں۔

پھر اس نے انہیں ساری بات بتائ۔

تم نے نکاح کو لیٹ کرنے کا کہا۔ کل سے اب تم آفس جاؤ گی۔ تم نے علیحدہ گھر کا کہا۔ تم نے سوچا بھی کیسے مناہل۔ وہ کیا سوچ رہے ہونگے کہ ہمیں ان پہ اعتبار نہیں کہ تم اب بزنس دیکھو گی۔ ہمیں اس گھر میں کیا مسلۂ ہے جو تم نے علیحدہ گھر کا کہہ دیا۔ پتہ نہیں تم سمجھتی کیوں نہیں ۔ میں بھابھی سے کہوں گی کہ تمھاری باتوں کو اہمیت نہ دیں اور نکاح کو مقررہ وقت پر کردیں ۔

دل کے ہاتھوں۔۔۔۔۔۔۔Where stories live. Discover now