دل کے ہاتھوں ❤️
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم°
وہ اس کی ہوچکی تھی، ہر طرح سے پورے حق کے ساتھ اللّٰہ نے اسے نواز دیا تھا۔
وہ پورے دودن کس طرح گزرے تھے۔ کتنی تکلیف سے دوچار۔ لیکن اس کے بعد اللّٰہ نے اسے ماہین تحفہ کے طور پر دے دی تھی۔ سعد کے لیے ماہین کسی حسین قیمتی تحفہ کی طرح ہی تھی۔
وہ ان لڑکوں میں سے نہیں تھا جو لڑکیوں سے یوں ہی اظہار محبت کریں۔ وہ دل پھینک نہیں تھا۔ وہ تو ان میں سے تھا جو انہیں اپنا نام دیں اپنی عزت بنائیں۔۔
اس نے زندگی میں بہت سی لڑکیاں دیکھی تھی کئ تو ماہین سے خوبصورت بھی ہونگی لیکن کبھی کسی کو دیکھ کر سعد یوسف نے اسے یوسف خاندان کا حصہ بنانے کا نہیں سوچا تھا۔ اسے دیکھتے ہی اسے اپنے گھر دل اور زندگی کا حصہ بنانا چاہا تھا اور آج وہ اس کے پرانے سارے شکوے دور کر دے گا اور نئ زندگی کا آغاز کرے گا۔
ان سب سوچوں میں گم ہاتھ میں پکڑے تحفے کے ساتھ وہ کمرے میں جانے کے لیے تیار تھا۔ جب وہ کمرہ میں پہنچا تو اس کی زندگی کی دو اہم عورتیں بیٹھی تھیں۔
بیٹا تم مجھے اپنی ماں کی طرح سمجھو، تمھیں کوئ مسلہ ہو کوئ شکایت سعد کی تم مجھے بتانا۔ میں خود اس کی خبر لوں گی۔ مجھے یقین ہے تم اس گھر میں ہمیشہ خوش رہو گی۔ اللہ میرے بچوں کو ڈھیروں خوشیاں دے۔ اسی کے ساتھ انہوں نے اسے دو سونے کے پرانی طرز کے بنے کنگن اسے پہناۓ اور باہر آگئیں۔
ماہین کی آنکھیں ان کی باتوں سے بھر آئیں۔ انہوں نے ایک بار بھی اس کے کردار پر شک نہیں کیا۔ اور دوسری طرف اپنوں نے پرایا بنا دیا تھا۔
دروازے پہ ہلکی سی دستک دیکر وہ کمرے میں کھڑا تھا۔
سامنے مجسمہ بنی لڑکی نظریں جھکاۓ گردن گراۓ بیٹھی تھی۔ کمرے میں پھولوں کی مہک کے ساتھ ساتھ سینٹ کینڈلز نے ماحول کو مزید خوبصورت بنا دیا تھا۔
اس نے دروازے کو بند کیا اور قریب آکر بیٹھ گیا۔
ماہین۔ سعد نے اسے پکارا۔
وہ خاموش تھی۔ نہ حرکت ہوئ نہ ہی کوئ جواب۔
اس نے اسے پھر سے پکارا اور اس کے ہاتھ کو تھامنا چاہا لیکن ماہین نے جھٹکے سے اس کے ہاتھ کو دور کیا۔
سعد کو جیسے کچھ سمجھ نہیں آیا۔
سعد یوسف آپ سب کو بیوقوف بنا سکتے ہیں لیکن ماہین زبیر۔۔۔۔۔
ماہین یوسف اس نے اسے یاد دلایا۔
وہ ایک لمحہ کو رکی۔ اسے کچھ ہوا۔ لیکن وہ پھر سے بولنے لگی۔
آپ مجھے بیوقوف نہیں بنا سکتے ۔ آپ کو کیا لگا تھا مجھے پتا نہیں چلے گا کہ آپ ہی تھے جس نے مجھے سب کے سامنے بدکردار ثابت کیا ۔ آپ ہی تھے جسے معلوم تھا کہ میں آپ سے ملنے آرہی۔ میرے ابا کی کسی سے کوئ دشمنی نہیں تھی۔ تو آخر اغواہ کاروں نے مجھے اسی دن کیوں اٹھوایا جب مجھے آپ کی اور پروفیسر زیشان کی سازش کا پتہ چلا۔ آخر کیوں ۔ وہ چیخ رہی تھی۔

YOU ARE READING
دل کے ہاتھوں۔۔۔۔۔۔۔
General FictionAsalamu alaikum readers! Story of different characters with different mysteries....