Episode 12

209 15 9
                                    

دل کے ہاتھوں

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم•

ظفر صاحب گھرآۓ  تھے۔ بیٹی کے ہاتھ کے چھالے دیکھے تو انہوں نے اپنی بیٹی کو پوچھا تھا۔ اگر وہ پہلے والا اس کا باپ ہوتا تو یقیناً انہیں ہر چیز روتے ہوۓ بتاتی۔ لیکن سوتیلی ماں کے آنے کے بعد اس کا باپ بھی کہاں اس کا اپنا رہا تھا۔

کچھ نہیں ابا ۔ اس نے اپنی سوتیلی ماں کو دیکھتے ہوۓ کہا تھا۔
کھانا حلق میں پھنسے آنسؤوں کے پھندے کی وجہ سے اٹک گیا تھا۔ پانی کے گلاس منہ سے لگاتے ہوۓ اس نے نوالہ حلق سے اتارا تھا۔ آج اس کا آخری دن تھا جب وہ اپنے باپ کے ساتھ کھانا کھا رہی تھی۔

اس کے ہاتھوں کے چھالوں کے باوجود ثریا بیگم نے برتن اسی سے دھلواۓ تھے۔ وہ برتن دھوتے ہوۓ خوب روئ تھی۔  اسے اپنی ماں بہت یاد آئ تھی۔

ظفر صاحب تو ان دنوں فیکٹری کو وسیع کرنے میں مصروف تھے۔ گھر کی کوئ ہوش نہیں تھی۔ دن رات فیکٹری میں گزر رہے تھے۔ انہیں یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ بیٹی پہ کیا کیا ظلم ہورہے ہیں ۔

دن رات ایسے ہی گزرتے گۓ ۔ظفر صاحب کو بزنس کے لیے کچھ دنوں کے لیے ملک سے باہر جانا پڑا ۔ ثریا بیگم نے اس معصوم سی لڑکی پہ اب قیامت ڈھانے کا سوچا تھا۔ اور انہوں نے اس پہ قیامت ڈھائی بھی تھی۔
*****************

وہ آفس مین اپنی کوئ ضروری فائل دیکھ رہا تھا ۔ جب کسی unknown نمبر سے کال تھی۔ سعد مصروف تھا تو اس نے کال نہیں اٹھائ۔ فون بند کردیا۔ وہ دوبارہ سے فائل دیکھنے میں مصروف ہوگیا تھا۔ اب جب چھوتی بار بل بجی تو اس نے کال اٹھائ ۔

ہیلو! سعد نے مختصر اور غصہ پہ قابو پاتے ہوۓ کال ریسیو کی تھی۔
ہیلو! مسٹر کب سے کال کر رہی ہوں آپ اٹھا ہی نہیں رہے۔ مخالف نے بلا تکلف شکوہ کیا تھا۔

Who is there ??
اب کہ بے تکلفی  کا سرد مہدی سے جواب دیا گیا تھا۔

میں عنایہ اعجاز۔ عنایہ کو اس کا خود کو نہ پہچاننا بری طرح کھٹکا تھا۔
جی بولیں مس عنایہ۔ سعد نے ایک آفیشل سے لہجے میں اسے کہا۔
آپ نے مجھے پہچانا نہیں۔ پہلے مرد ہے جسے میں یاد نہیں ہوں۔ وہ تھوڑی مغرور ہوکر بولی۔
آپ کو کوئ کام تھا۔ اس نے اس کی بات کو کسی خاطر میں نہ لاتے ہوۓ کام کی بات کی تھی۔
جی وہ آپ سے ڈیل کے بارے میں بات کرنی تھی۔ اس نے اسےریسٹورنٹ  کا نام بتایا تھا۔ جہاں وہ لوگ ملنے والے تھے۔ اس نے اسے لنچ کے لیے انوائٹ کیا۔
Ok
کہہ کر اس نے فون بند کردیا تھا۔ اور اپنی سیکٹری سے آج کا شیڈول معلوم کیا تھا۔
*******************

ماہین رات کو جلدی سوگئ تھی۔ اس نے مریم کے میسیجز نہیں پڑھے تھے۔ اور اب فری پیریڈ میں وہ مریم کی آب بیتی نور سے مرچ مصالحوں کے ساتھ سن رہی تھی۔ وہ لوگ کافی کھلکھلا کر ہنس بھی رہیں تھیں۔ مریم تو بچاری پھنس گئ تھی بتا کر۔ اچانک نور نے ان دونوں کو باہر لنچ کے لیے فورس کیا تھا۔ وہ کافی دنوں سے کہیں اکھٹے کھانا کھانے نہیں گئ تھی۔ مریم اور ماہین نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا ۔ پھر ماہین نے انہیں کہا کہ ہم نے گھر نہیں بتایا ہوا۔
پھر مریم ماہین اور نور تینوں نے اپنے گھر کال کرکے جانے کا پوچھا تھا ۔ سب کے گھر سے اجازت مل گئ تھی۔ ان کی فیملیز کنزروٹو نہیں تھیں۔ لیکن انہوں نے کبھی اس بات کا غلط فائدہ نہیں اٹھایا ۔ جب بھی کہیں جانا ہوتا تو وہ پہلے گھر سے پرمیشن لیتی۔ پھر جاتی۔ آج بھی انہوں نے یہی کیا تھا۔

دل کے ہاتھوں۔۔۔۔۔۔۔Where stories live. Discover now