رات کے کھانے پر دادو اور ماہین تایا ابو سے ملی۔ ارسلان تائ زویا آپا اور ماہین موجود تھے۔ تایا نے ماہین سے اس کی پڑھائ کے بارے میں پوچھا اور کچھ اور معمول کی باتیں ہو ئ تھی۔ کھانے کے بعد ماہین اور زویا سب کو چاۓ دیکر اپنی چاۓ لیے اپنے کمرے میں آگئ تھی۔
زویا کی شادی پھپھو کے بڑے بیٹے مرتضی سے ہو رہی تھی۔
وہ کمرے میں آئ تھی کہ حرا کی کال آگئ تھی ۔ وہ زویا کو اس کے ولیمہ کا جوڑا دکھانا چاہ رہی تھی۔ گرے اور پیچ کلر کے کمبینیشن میں مکسی تھی ۔ اس کا کام بہت خوبصورت تھا۔ وہ دکھا رہی تھی کہ ۔
حرا میرے ہیڈ فون تمھارے پاس ہیں کیا۔ وہ حیدر تھا۔ وہ ویڈیو میں آگیا تھا ۔ وہ زویا آپا کو سلام کرنے کے لیے تھوڑا آگے ہوا تھا ۔ اس کی اور زویا آپا کی کا فی بنتی تھی۔ وہ گھر کے رف سے حلیہ میں تھا ۔وہ ماہی کو دیکھ چکا تھا۔ کیسی ہو ماہی؟ اس نے پہل کی تھی۔
اچھی ہوں۔ ماہین نے مختصر سا جواب دیا تھا۔ حرا نے ہیڈ فون حیدر کو دیے اور جانے کا اشارہ کیا ۔ حیدر چلاگیا تھا ۔ پھر حرا اور چیزیں دکھانے لگی تھی۔پھر حرا کی کال کٹ ہونے کے بعد ارسلان ان کے کمرے میں آگیا تھا۔ ارسلان ماہی سی چھوٹا لیکن اشعر سے بڑھا تھا۔ وہ بھی ان کے پاس آکر بیٹھ گیا تھا ۔ وہ لوگ پرانی باتیں یاد کرنے لگے تھے۔ کیسے وہ سب مل کر کھیلتے تھے۔ گرمیوں میں لان میں ان کے بیڈمنٹن اور کرکٹ کے کمپیٹیشنز اور پھر رات کو لیٹ نوڈلز بنانا۔ وہ لوگ بہت مزے کرتے تھے۔ وہ سب یاد کر رہے تھے۔ بے فکر رہو تھوڑے دنوں میں سب اکٹھے ہو جائیں گے تو تم لوگ پھر سے رونقیں لگانا ۔ زویا آپا نے کہا تھا ۔ پھر ارسلان اپنے کمرے میں آگیا اور ماہین اور زویا آپا بھی سو گئیں ۔
***************اگلے دن صبح سے بازار میں چکر لگتے رہے۔ کبھی کچھ لینے کبھی کچھ۔ ۔ کبھی پارلروں میں چکر تو کبھی کہی جانا ہو ریا۔ ماہین کو یہ نہیں تھا کہ اس شخص کی یاد نہیں آتی تھی۔ لیکن وہ خود کو مصروف رکھ رہی تھی اور ہر وقت کسی نا کسی کام میں مصروف ہی رہتی۔
پھپو امریکہ سے آگئ تھی۔ نکاح میں دو دن رہتے تھے۔ پھپھو اسلام آباد والے گھر میں رکی تھی۔ اشعر بابا اور اماں بھی اسلام آباد آگئے تھے۔ پھپھوکا گھر تایا ابو کے گھر کے ساتھی ہی تھا ۔ ساتھ چاچو اور ساتھ ہی ماہین لوگوں کا گھر تھا۔ سب پہلے اکٹھے ہی رہتے تھے۔ پھر پھپھو لوگ امریکہ، ماہین لوگ لاہور اور چچا کراچی شفٹ ہو گئے تھے۔ سب اپنا اپنا بزنس سنبھال رہے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ سب میں بہت پیار تھا اور کبھی کوئ جھگڑا نہیں ہوا۔
تایا اور پھپھو کے گھر میں ماہین اور چچا کا گھر تھا ۔ دونوں کھروں میں گھما گھما تھی۔ کبھی تایا کے گھر تو کبھی پھپھو کے گھر۔ سب ہی تیاریوں میں بہت مصروف تھے ۔
زویا آپا اور مرتضی کا نکاح فیصل مسجد میں ہونا تھا۔ نکاح باقی سب فنکشنز سے پہلے رکھا گیا تھا۔ آپا کے نکاح میں ایک دن رہ گیا تھا۔ رات کو سب تایا کے گھر موجود تھے۔ سب ڈھولکی بجا رہے تھے۔ سبھی کزنز موجود تھےسواۓ مرتضی کے۔ وہ لوگ لاؤنج میں ایک دائرہ بنا کر بیٹھے تھے۔ اور درمیان میں اشعر اور ابراہیم ڈھولکی پیٹرہے تھے۔ اور ساتھ گانے گا رہے تھے۔ اشعر کی نظریں سامنے بیٹھی دعا پہ نہ چاہتے ہوۓ بھی بار بار جم رہی تھی۔ دعا نے لائٹ پنک کلر پہنا ہوا تھا تبھی اشعر کو اچانک ایک ٹپہ یاد آیا تھا
YOU ARE READING
دل کے ہاتھوں۔۔۔۔۔۔۔
General FictionAsalamu alaikum readers! Story of different characters with different mysteries....