دل کے ہاتھوں
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۰
وہ وہاں سے چلی گئ تھی۔ وہ ویسے ہی زمیں پہ گھٹنوں کے بل بیٹھا اسے جاتا دیکھتا رہا تھا۔ اسے اپنی پسند پہ فخر محسوس ہوا تھا۔ وہ خوبصورت ہی نہیں پر اعتماد اور قابل بھی تھی۔
اب وہ اٹھا اور ٹیبل پہ پڑے موبائل اور گاڑی کی چابی کو اٹھاکر ویٹر کو بل کے لیے بلا رہا تھا۔اسے ایسے چیزیں اٹھاتا دیکھ عنایہ نے اس سے پوچھا تھا
سعد لیکن ابھی تو ہم نے ڈیل کے بارے میں بات نہیں کی۔۔مس عنایہ اب ڈیل کے بارے میں بات میں آپ کے ڈیڈ سے کروں گا۔
ویٹر بل لے آیا تھا۔ اس نے بل پے کیا اور وہاں سے نکل آیا تھا۔
گاڑی میں آتے ہی اس نے مسٹر اعجاز کو کال کرکے ڈیل کینسل کردی تھی۔ اسے عنایہ پہ بہت غصہ تھا۔ اس کی ہمت بھی کیسے ہوئ اس کے سامنے ماہین کو کچھ کہنے کی۔ وہ لڑکی تھی اس لیے لحاظ کر گیا تھا ورنہ وہ سامنے والے کا حلیہ بگاڑ چکا ہوتا ۔ مسٹر اعجاز کے لیے بھی یہ پروجیکٹ اتنا ہی اہم تھا جتنا سعد کے لیے ۔ لیکن سعد نے بنا کسی نقصان کے سوچے اس ڈیل کو ختم کردیا تھا۔وہ آفس آنے کی بجاۓ گھر آگیا تھا۔ گھر آکر اپنے کمرے میں فریش ہوکر اس نے کھانا لگوانے کا کہا تھا۔ کھانے سے فارغ ہوکر وہ لان میں تھوڑی دیر بیٹھ گیا تھا۔
اپنے فون میں اس کی فوٹو جو اس نے چوری چھپے لی تھی۔ اب دیکھ رہا تھا۔ اسے یاد تھا وہ نعمان کی منگنی پہ سکاۓ بلیو کلر کی فراک میں حجاب کیے بہت پیاری لگ رہی تھی۔ وہ نہ چاہ کر بھی اس کی تصویر لینے کی گستاخی کر بیٹھا تھا۔ اور جب بہت زیادہ یاد آتی تو دیکھ لیتا ۔ آج بھی وہ اسی تصویر کو دیکھ رہا تھا۔
*************************
عنایہ غصے میں گھر پہنچی تھی۔ اعجاز صاحب آفس سے واپس نہیں آۓ تھے۔ وہ آتے ہی کمرے میں آگئ تھی ۔ عنایہ کا غصہ آسمان کو چھو رہا تھا۔ اس کی خودداری پہ بات آگئ تھی۔ وہ تو اس لڑکی کو جان سے مارنے تک کا سوچ چکی تھی۔ اسے سعد کا اس طرح اگنور کرنا بری طرح کھٹکا تھا۔ وہ انہیں برباد کرنے کے منصوبے بنا رہی تھی۔
شام کو اعجاز صاحب نے عنایہ کی اچھی خاصی کلاس لی تھی۔ وہ اس سے میٹنگ کے بارے میں پوچھ رہے تھے۔ ایسا کیا ہوا کہ ڈیل کینسیل ہوگئ ۔ عنایہ خاموش تھی۔
اعجاز صاحب اسے باور کروا رہے تھے کہ اس کی وجہ سے ان کو کتنا نقصان ہوا تھا۔ وہ کبھی بیٹی پہ غصہ نہیں کرتے لیکن آج نہ جانے کیوں عنایہ کا دن ہی خراب تھا۔ عنایہ غصے میں
کھانے کی ٹیبل سے اٹھی اور اپنے کمرے میں آگئ۔*********************
دن اور رات ایسے ہی گزرتے گۓ۔ اس نے رابیل کا نمبر اب ٹرائ کرنا چھوڑ دیا تھا۔ وہ جان گیا تھا وہ جا چکی تھی۔ بنا کچھ بتاۓ، بنا کچھ کہے وہ اسے چھوڑ کر چلی گئ تھی۔ اور اس کے بعد اس نے اپنا سارا وقت پڑھائ اور اسٹور کو دینا شروع کردیا تھا۔ محنت محنت اور بس محنت اب یہی مقصد رہ گیا تھا۔ اسے نجانے کیوں یہ لگتا تھا کہ وہ اسے پیسے کے لیے چھوڑ گی تھی اس لیے اب سے اسنے اپنی ساری توجہ پیسے بنانے میں لگا دی۔ وہ محنت
کرکے بزنس کرنا چاہتا تھا۔
*******************
YOU ARE READING
دل کے ہاتھوں۔۔۔۔۔۔۔
General FictionAsalamu alaikum readers! Story of different characters with different mysteries....