وہ ینیورسٹی سے گھر پہنچی تو کافی تھکی ہوئ تھی۔اشعر بھی کالج سے آگیا تھا اماں کھانا لگا رہی تھیں ۔ ۔دادو اور اماں کو سلام کرکے وہ اپنے کمرے میں بھوک نہ ہونے کا کہ کرآگئ تھی۔ ظہر کی نماز پڑھ کر لیٹ گئ تھی بہت کچھ یاد آنے لگا تھا وہ کافی دیر یادوں کو جھٹکتی رہی چھت کو گھورتی رہی ۔ کچھ آنسوں تکیہ میں جذب ہوۓ تھے۔ پھر کب آنکھ لگی اور وہ سوگئ پتا ہی نہیں چلا ۔
شام کے وقت آنکھ کھلی تھی مغرب کا ٹائم تھا اس لیے وہ اٹھی اور وضو کر کے نماز پڑھ کے با ہر اماں اور دادو کے پاس آگئ تھی اماں اور دادو لان میں بیٹھی تھیں وہ خاندان کی باتوں میں مصروف تھیں۔ زویا آپا کی شادی کی بات ہو رہی تھی جب ماہین ان کےُ پاس گئی تھی ۔ ماہین سے دادو نے پوچھا تھا کہ اس کی طبعیت تو ٹھیک ہے دوپہر کا کھانا بھی نہی کھا یا اور سوئ بھی کافی دیر رہی
جی دادو ٹھیک ہوں بس تھکان ہو گئ تھی ماہین نے جواب دیا( وہ واقعی ہی کافی تھک گئ تھی بہت زیادہ ذہنی طور پر)
اماں ماہین سے کھانے کا پوچھ نے لگی ہی تھی کہ زبیر صاحب دفتر اور اشعر اکیڈمی سے آگۓ تھے اماں نے زبیر صاحب سے چاۓ کا پوچھا تو انہوں نے کھانا لگوانے کا کہا تھا
روبینہ بیگم اور ماہین کھانا لگانے کچن چلی گئی تھیں جبکہ زبیر صاحب اور اشعر فریش ہونے چلے گۓ تھے کھانے کے بعدبابا ماما اور دادو فوری جبکہ ماہین اور اشعر اپنی مرضی سے اپنے ٹائم پر چاۓ یا کافی پیتے۔ ***********اماں ماہین کے کمرے میں آئ تھیں انھیں زویا آپا کی شادی کی تیاریوں کے با رے میں بات کرنی تھی۔۔۔
زبیر صاحب کے دو بھائ تھے ایک زبیر صاحب سے بڑھا اور ایک چھوٹا اور ایک بھن تھی سب سے چھوٹی۔ زویا ماہین کے تایا ابو کی بیٹی تھی زاہد صاحب کے دو بیٹے اور ایک بیٹی تھی زویا سب سے بڑی تھی لڑکیوں میں اس کے دو بھائ نعمان اور ارسلان اور نعمان کی شادی ہو چکی تھی اور اس کا ایک بیٹا تھا اذان سب کا لاڈلا وہ تھا ہی بہت پیارا
ماہین کے چچا شاہد جن کی دو جڑواں بیٹیاں دعا اور جنت اور دو بھائ ایک اشعر کا ہم عمر حماد اور ایک اس سے چھوٹا فاہد پھوپھو عائشہ جو کہ اپنی فیملی کے ساتھ امریکہ رہتی ان کی فیملی میں ان کے تین بیٹے مرتضی حیدر اور ابراہیم اور ایک بیٹی حرا ھے
سب میں بہت پیار اور سب کافی دیر بعد زویا کی شادی پہ اکٹھے ہونے والے ہیں اماں ماہی کو یہی بتانے آۓتھیں کہ اس کی تائ چاہتی ہیں کہ ماہی جلدی آجاۓ دادو کے ساتھ تاکہ وہ ان کی کچھ مدد کروا دے اور پھر زویا آپا کو بھی ضرورت تھی ۔اماں تائ اماں کا پیغام دے کر چلی گئ تھی (لیکن وہ یہ نہیں جانتی تھیں کہ اب انکی بیٹی شاید ساری رات نہ سو پاۓ اور نہ جانے یہ رات کس اذیت میں گزرنے تھی ) ماہین نے اماں سے صرف اتنا کہا تھا کہ اس کی پڑھائ کا کیا ہوگا اور پھر فائنل بھی تو قریب ہیں لیکن روبینہ بیگم نے اسے سوچنے کا کہا تھا کیونکہ وہ شائستہ بیگم کو اس طرح منع نہی کر سکتی تھی ۔
***************
ماہی نے خود کو پڑھائ میں مصروف کیا ہی تھا کہ پھر سے وہ شخص یاد آنے لگا تھا کتنی مشکل سے نکالتی تھی وہ خود کو اس کی یادوں سے لیکن وہ تھا کہ ایسا اثر چھور کر گیا تھا کہ وہ بے پقابو ہو جاتی تھی اب اسے نفرت ہو نے لگی تھی کوفت عذاب بن گیا تھا اور اسے واقعے ہی اس کے گناہوں کی سزا مل رہی تھی زندگی جہنم بناُگیاُتھا یہاُں بھی اور آخرت میں بھی ابھی وہ ان سب کے بارے میں سوچ رھی تھی کہ اس کا سیل فون بجنے لگا جس کال پر وہ اپنی یادوں کی دنیا سے باہر آئ تھی وہ گیارھویں کال تھی اسکرین پہ زویا آپا کالنگ آرہا تھا اس نے کال پک کی مخالف سمت سے اچھی خاصی سنائ گئ تھی
کہاں مصروف تھی آپ مہرانی سوئ تھی اور اب کہاں تھی تم آلوتم پھر خبر لوں گی تمھاری بچو کوئ احساس نہیں کہ بڑی بہن کی شادی کی تاریخ قریب ہے اور تمہارا پتا ہی نہیں اس سے زیادہ تو تم منگنی پہ ایکسائیٹڈ تھی ذویا آپا بولے جارہی تھی اسے معازرت کا موقع بھی نہی دیا گیا لیکن پھر اس نے اپنی آواز کو درست کرتے ہوۓ زور سے سوری بولا تو آپا کی کچھ خفگی دور ہوئ پھر آپا کو یاد آیا کہ انہیں دعا جنت اور حرا کو بھی کال پہ لینا تھا پھر ان کی آپس میں کافی دیر تک باتیں ہوتی رہی ماہین بھی کچھ دیر کے لیے اس عذاب کی کیفیت سے نکل آئ تھی

YOU ARE READING
دل کے ہاتھوں۔۔۔۔۔۔۔
General FictionAsalamu alaikum readers! Story of different characters with different mysteries....