Episode 1

1.3K 27 1
                                    

صبح کی روشنی ھر طرف پھیل چکی تھی وہ ابھی بھی نیند کی وادی میں تھی اماں اسے اب تیسری بار اٹھانے آئ تھی لیکن اس پہ کوئ اٽر نہی ہوا وہ ایسی ہی تھی بہت زیادہ گہری نیند سونے والی۔۔۔۔۔ ناشتے کی میز پہ بابا جانی دادو اشعر اور اماں جو اسے کئ بار اٹھانے کی ناکام کوشش کے باد آکر بیٹھ گئ تھی
اس کی آنکھ ساڑھے آٹھ بجے کھلی تھی سامنے لگے وال کلاک نے اسے تنبیہ کیا تھا وہ جلدی سے بستر سے نکل کر واشروم گئ اور فرش ہوکر ناشتے کی میز پہ پہنچی اور آتے ہی سب کو سلام کیا اور ساتھ ہی اشعر کی پلیٹ سے ٹوسٹ اٹھا لیا جس پہ اس نی ابھی جیم لگایا تھا اشعر تو اس کی اس ہرحرکت پہ چڑگیا تھا
آپا اپ ہر دوسرے دن یہی کرتی ہے آپ وقت پہ اٹھ کیوں نہیں جاتی آپا نے کوئ جواب دینے کی بجاۓ اسے اک چت رسید کی تھی اور اب اشعر آپے سے باہر اور بے بس سا اما کی طرف دیکھ رہا تھا زبیر صاحب اپنے بیٹے اور بیٹی کی یہ روز کی ان بھن کا چاۓ پیتے ہوۓمزہ لے رہے تھے اماں نے اشعر کی طرف داری کرتے ہوۓ ماہی کو ڈانٹنا شروع کیا ہی تھا کہ اشعر کی کالج وین کا ہارن بجنے لگا وہ غصہ میں اٹھا اور باہر جانے لگا ماہی بھی اس کے ساتھ ہی باہر آئ تھی اور یونیورسٹی کے لیے گاڑی میں بیٹھ گئ روبینہ بیگم اشعر کا لنچ باکس اشعر کے پیچھے لیکر گئ جسے پہلے تو لینے سے منع کر دیا لیکن اماں کے لاڈ پر اس نے لے لیا تھا اس وعدے پر کہ وہ ماہی کی واپسی پر خبر لیں گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زبیر ولا میں یہ ہر وقت کا ہی معمول تھا۔ زبیر صاحب کے دو بچے تھے ایک ماھین اور دوسرا اشعر دونوں میں چار سال کا فرق تھا دونوں میں بہت پیار تھا لیکن ایک دوسرے کو تنگ کرنے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے ماہین بڑے بونے کا اور اشعر اپنے چھوٹے ہونے کا بھر پور فائدا اٹھاتے اپنے اپنے طریقے سے زبیر صاحب ماہین کا اور روبینہ بیگم اشعر کا ساتھ دیتے اور داددو دونوں کو ہی برابر رکھتی اور ایسی لڑائ میں چپ ہی رہا کرتی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ آج پھر کلاس کے لیے پورے پندرہ منٹ دیر سے پہنچی تھی وہ بلیک کلر کی شرٹ جو کے گھٹنوں تک آتی تھی جس کے بازؤں اور دامن پہ ہلکی سی کڑھائی تھی ساتھ ہم رنگ ٹراؤزر پہنے اور لال رنگ کے دوپٹّے کو کاندھے پہ ڈالے اور بلیک ہجاب پہنے اور ہونٹوں پہ ہلکا سا گلوز لگاۓ کلاس میں پہنچی تھی لیکن آج اس کی قسمت اچھی تھی کہ سر منصور ابھی کلاس میں نہیں پہنچے تھے وہ کلاس میں اپنی دوستوں نور اور مریم جو کے اس سے کچھ منٹ پہلے ہی آئ تھی وہ اس کا کافی دیر کلاس کے باہر انتظار کرتی رہے تھی لیکن جب ماہی نے انھے کلاس میں جانے کا کہا اور بتایا تھا ک اسے اور مزید دیر ہوسکتی ہے تو وہ لوگ کلاس میں آکر بیٹھ گئ تھی کیونکہ سر منصور کافی سخت تھے دیر سے آنے والے طلبا کی اچھی کلاس لیتے تھے لیکن کچھ دیر انتظار کے بعد پتا چلا کہ سر منصور آج غیر حاضر ہے اور کلاس نہی ہوگی سب نے ہی سر کے نہ آنے پہ شکر ادا کیا تھا لیکن ماھین زبیر حسن نے سب سے زیادہ ۔۔۔۔۔۔۔
ماہین اپنی دوستوں کے ساتھ یونیورسٹی کے گراوؤنڈ میں جارہی تھی جب پاس سے گزرنے والے شخص کو دیکھ کر ماہین کے ہوش اڑے تھےوہ اسے دوبارہ دیکھنے کے لیے مڑی تھی لیکن مقابل شخص دوسری طرف جا چکا تھا ماہین کو لگا وہ اس کا وہم تھا وہ وہا کیسے ہو سکتا تھا اور پھر خود ہی اپنی سوچ کو جھٹکتے ہوۓ وہ اپنی دوستوں کی طرف متوجہ ہوئ تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نور اور مریم نے اس کے چہرے کے بدلتے رنگ کو دیکھا تھا اور اس سے پوچھنے پر اس نے کچھ نہیں کہ کر ٹال دیا تھا اور اپنے دیر سے آنے کی تفصیل بتانے لگی کہ پہلے دیر سے آنکھ کھلی اور پھر راستے میں اتنا ٹریفک اور پھر یونیورسٹی کے قریب گاڑی خراب ہو گئ اور وہ پیدل آئ نور اور مریم اس کی کہانی پہ پہلے افسوس اور پھر ہسنے لگی جس پہ ماہی بھی ھنس دی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دل کے ہاتھوں۔۔۔۔۔۔۔Where stories live. Discover now