Episode 03

341 19 2
                                    

جی سکندر۔ مریم سکندر سے مخاطب ہوئ۔ وہ آپ اپنا رجسٹر کلاس میں بھول آئ تھی وہی دینے آیا ہوں۔ مریم نے رجسٹر لیتے ہوۓ شکریہ کہا تھا ۔
اس کے بعد ایک اور کلاس لیکر نکلے تو ماہینن نے انھیں بتایا کہ وہ آج آخری کلاس نہیں لے گی اور جلدی چلی جاۓگی ۔
یار ماہی تم تو اس طرح behave کر رہی ہو جیسے تمھاری شادی ہو۔ نور نے ماہین کو کہا تھا ۔ یار میں بھی اتنی جلدی نہں جانا چاہتی تھی لیکن بھابھی نہیں ہے تو تائ اماں اور آپا کو ضرورت ہے۔ ہاں اور تم لوگ بے فکر رہو تم لوگوں سے باقاعدگی سے بات ہو تی رہے گی۔ پھر وہ ان سے مل کر اور الودائ القابات کہ کر گیٹ کی طرف آگئ
اماں گیٹ مر پہنچ گئ تھی۔ اماں نے کال کر کے بتایا تھا۔ جی اماں میں بس پہنچ رہی ہوں۔ وہ ایک ہاتھ سے فون کو کان سے لگاۓ دوسرے ھاتھ سے بیگ اور دوپٹہ کو سنبھالتے ہوۓ تیز تیز چل رہی تھی۔ جب اچانک وہسامنے کھڑے شخص سے ٹکراتے ٹکراتے بچی تھی ۔ سامنے کھڑے شخص کا منہ دوسری طرف تھا اور ماہین اس سے پیچھے سے ٹکرانے سے بچی تھی۔
اس نے اپنا رستہ بدلا اور گیٹ پر پہنچی۔
اماں کو سلام کیا اور گاڑی میں آکر گویا چین کا سانس لیا ہو۔وہ سر کو پیچھے سیٹ سے لگا کر بیٹھ گئ تھی۔ اماں اسے وہ لسٹ پڑھ کے سنا رہی تھیں جو وہ بنا کر لائی تھی ۔اس میں کچھ ماہین کی چیزیں کچھ دادو اور کچھ تحائف زویا آپا کے لیے تھے ۔ وہ لوگ مال آگۓ تھے۔ اماں اور وہ لوگ پہلے کپڑے دیکھنے لگے پھر جیولری اور پھر کچھ مزید تحائف اور شاپنگ کرکے وہ لوگ اب food gallery میں آگۓ تھے۔ وہاں سے کھانا کھا کر وہ لوگ مزید ایک دو اور دکانوں میں گئے اور پھرُواپس آگۓ ۔
اماں اور ماہین شام تک شاپنگ کرتی رہی تھی۔ زبیر صاحب اور
اشعر بھی گھر آگۓ تھے۔ اماں نے شگفتہ کو چاۓ بنانے کا کہا تھا ماہین سامان دادو اور اشعر کے پاس چھوڑ کر اپنے کمرے میں آ گئ تھی ۔ وہ تھک گئ تھی اور کل رات سوئ بھی لیٹ اور۔ صبح اٹھ بھی جلدی گئ تھی۔ اس کی کب آنکھ لگی پتا ہی نہیں چلا۔
رات کے گیارہ بجے اس کی آنکھ کھلی تھی وہ فریش ہوکر کچن میں کافی بنانے کے لیے آئ تھی ۔ کافی سے کتنی یادیں جڑی تھی وہ بس ماہین اللہ اور وہ شخص جانتا تھا۔ ماہین کے ذہن میں جب یہ آیا تو اس نے کافی پینے کا ارادہ ترک کر دیا اور چاۓ کے دو کپ بنا کر اپنے کمرے کی بجاۓ اشعر کے کمرے میں آگئ تھی۔

دروازہ پہ ہلکی سی دستک دینے پر اندر سے اجازت ملنے پر وہ چاۓ کا ٹرے اٹھاۓ اندر آگئ تھی۔ آپا آپ۔ ہاں بندر میں ۔ آپ بھی چھپکلی جیسی ہی ہیں ۔ اور پھر دونوں ہی ہنس دیے تھے ۔ تمھاری پڑھائ کیسی چل رہی ہے؟ ماہین نے اشعر سے پوچھا تھا ۔ اچھی جارہی ہے آپا۔ دیکھیے گا اس بار بھی ٹاپ کروں گا۔ وہ پرجوش انداز میں بولا تھا۔ انشاءاللہ ماہین نے دل سے بھائ کے لیے دعا کی تھی۔ اشعر اور ماہین دونوں ہی پڑھائ میں کافی اچھے تھے۔ اشعر آج کل اپنےامتحانوں کے لیے دن رات ایک کیے ہوۓ تھا۔

آپا دعا اور جنت بھی جلدی آجائیں گی؟ اشعر نے پوچھا تھا ۔
تمہیں اس سے کیا تم تو ماما اور بابا ساتھ ہی آؤ گے نا ۔ ماہی نے اشعر کو چھیڑنے والے انداز میں کہا تھا۔
میں تو بس ایسے ہی پوچھ رھا تھا۔ اشعر نے جان چھڑاتے ہوۓ کہا۔
میں سب سمجھ رہی ہوں۔ تمہیں حماد اور فاہدکا نہیں پوچھنا چاہیے تھا ماہین نے ایک آبرو اٹھاتے ہوۓ پوچھا تھا ۔
میں انہیں کا پوچھنے لگا تھا بس وہ غلطی سے ان کا نام لے لیا۔
اچھا بچو میں جاکر دعا سے بھی پوچھتی ہوں اور چاۓ ختم کرکے پڑھو تم ۔ میں بھی جاکر پیکنگ کر لوں ۔

ماہین کمرے میں آکر پیکنگ کرنے لگی تو اماں بھی آگئ کہ پیکنگ میں کچھ مدد چاہیے۔ اور پھر وہ سامان جو وہ لائ تھی رکھوانے لگی۔ اماں پیکنگ کرواکے اور بتا کہ کل دس بجے کی فلائٹ ہے اپنے کمرے میں آگئ تھی۔ ماہین اپنا فون لیکر بیڈ پر تکیہ سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئ تھی۔ اس کا WhatsApp میسیجز سے بھرا ہوا تھا وہ باری باری سب کے میسیجز پڑھنے لگی ۔ نور اور مریم نے اسے کچھ نوٹس۔ زویا آپا نے کچھ کپڑوں کے ڈیزائن بھیجے تھے ۔ وہ سب کو رپلاۓکرکے اپنے ایک اسائنمنٹ جو اسے اسی ہفتے جمع کروانی تھی اس پہ کام کرنے لگی تھی۔ اسائنمنٹ ختم کر کے وہ سو گئ تھی۔
***************
صبح ناشتہ پر اشعر دادو اور ماہی سے ملکر کالج چلا گیا جبکہ بابا آج دادو اور ماہی کو ائیر پوٹ چھوڑکر ہی دفتر جانے والے تھے۔ دس بجے کی فلائٹ تھی اور وہ لوگ نو بجے گھر سے نکل گئے تھے۔ ماہی کے لیے وہ راستہ کتنا مشکل تھا بس وہ اور اللہ کی ذات ہی جانتی تھی لیکن اسلام آباد میں اس کے ساتھ جو ہونے والا تھا وہ بھی ابھی بے خبر تھی۔
بابا دادو اور ماہی کو چھوڑ کر آگۓ تھے۔ ماہی اور دادو فلائٹ کا انتظار کر رہے تھے جب سامنے یادوں کا ایک بھنور بننے لگا تھا۔ وہ جب پچھلی دفعہ اسلام آباد گئ تھی وہ کتنی خوش تھی اس بار سے سب کتنا مختلف تھا ۔ موجودہ ماہی اور اس ماہی میں کتنا فرق تھا۔ اس کی آنکھوں میں ایک سمندر امڈنے لگا تھا لیکن وہ خود پہ قابو پا گئ تھی۔ وہ اس سمندر کو بہنے نہیں دے سکتی تھی۔ اتنے میں ان کی فلائٹ لاہور ائیرپورٹ پر پہنچ چکی تھی۔ وہ اب فلائٹ پر تھی اور فلائٹ take off کر گئ تھی۔ 3 گھنٹے بعد وہ لوگ اسلام آباد تھے۔ ارسلان انہیں لینے آیا تھا ۔ دادو اور ارسلان راستے میں باتیں کر رہے تھے۔ ماہین کھڑکی کے باہر کے منظر کو دیکھ رہی تھی وہ دادو اور ارسلان کی باتوں سے بے خبررتھی ۔

وہ لوگ گھر پہنچے تو تائ اماں اور زویا آپی ان کا ہی انتظار کر
رھے تھے ۔ وہ لوگ اندر آگئے تھے ۔ زویا آپا سے مل کر وہ بہت خوش تھی اور آپا بھی ۔ تائ سے مل کر وہ لوگ زویا کے روم میں آگئ تھی۔
**************
نور اور مریم کمپیوٹر لیب پہنچی تو نۓ پروفیسر ابھی نہی آۓ تھے۔ وہ لوگ جاکر بیٹھی ہی تھی کی سکندر ان دونوں کے سامنے ایک بار پھر سے کھڑا تھا۔
مریم مجھے آپ کے socio کے نوٹس مل سکتے ہیں ۔ مریم نے ایک بار تو نور کو دیکھا اور پھر نہ ہونے کا بہانا کر کے منع کر دیا ۔ سکندر کو ئ بات نہیں کہ کر چلا گیا لیکن نور نے مریم کو اتنا تنگ کیا کہ مریم تو تپ گئ ۔
نۓ سر ذیشان کلاس میں آگۓ تھے ۔ وہ کوئ 27 سال کے نوجوان دراز قد اور کافی رعب دار شخصیت کے مالک تھے۔ آتے ہی کلاس میں اپنا انٹرویو دیا اور پھر بچوں سے لیا تھا۔ انہوں نے آج پڑھایا نہیں اور رول کال لے کر چلے گۓتھے۔
مریم سر کی کیا پرسنیلیٹی تھی ۔ نور نے کہاں اور بولتے بھی اچھا ہیں اب اچھا پڑھائۓ بھی۔ ھاں مریم نے کہا۔
*****************

دل کے ہاتھوں۔۔۔۔۔۔۔Where stories live. Discover now