Episode 2
MERA YE ISHQ
اس وقت وہ سرمئی اور جامنی کے امتزاج سے سجے اس آفس میں اپنے پر وقار انداز میں وہ سیٹ کی پشت پر سر ٹکائے ایک ہی محور پر سوچ رہا تھا ۔ آج اسکی میٹنگ تھی لیکن اس میں وقت تھا اسلئے وہ آج اپنئ اور خاور صاحب کی باتوں کو سوچ رہا تھا ۔ وہ کبھی بھی لاپرواہ نہیں تھا ہمیشہ سے اس نے زندگی کو اپنی نہج پر گزارا تھا ۔ خضر محمود بزنس ورلڈ کا ایک نیا نام ضرور تھا لیکن اسکی کامیابیوں نے اسے نیا نہ رہنے دیا تھا۔وہ بزنس ورلڈ کا اگر کہا جائے تو فلیور آف دا ایئر بنا ہوا تھا۔ اسکی پرسنالٹی پر ہر لڑکی فدا تھی چھ فٹ لمبا قد سلیقے سے بنے اسکے خوبصورت بال گہری براون رنگ کی آنکھیں جس میں کامیابی کی چمک دکھتی تھی کھڑی مغرور ناک ان دونوں بھائیوں کی شخصیت میں انکی مغرورانہ طبعیت چار چاند لگایا کرتی تھی حالانکہ یہ دونوں مغرور نہیں تھے لیکن انکی شخصیت کا سحر انہیں مغرور بناتا تھا اور عنابی رنگ کے ہونٹ جو گھنی مونچھوں کے نیچے مسکرایا کرتے تھے ۔ ایک تو اتنی ڈیشنگ پرسنالٹی اوپر سے کنوارا بھی سب کی نظرین اس ایلی گینٹ بیچلر پر ہوا کرتی تھیں۔آج وہ اپنے والد کی باتوں کو سوچ رہا تھا۔
"کیا واقعی مجھے شادی کرلینی چاہئے؟؟؟"
نہیں میں ابھی کسی بندھن میں نہیں بندھنا چاہتا۔ میں نے ایک عرصہ لگایا ہے خود کو یہاں تک لانے میں اب شادی کرلوں ۔ نہیں یہ ممکن نہیں ۔" پیپر ویٹ کو گھماتے ہوئے سوچ میں مگن تھا۔
انہی سوچوں میں غرق تھا تو اسکی نظر فون پر پڑی اس نے فون اٹھایا لیکن وہ پٹھان فیملی سے تھا اور ایسے گھر پر فون کرنا معیوب لگ رہا تھا کیوں کہ اسکا فون کرنا نئے نئے نظریوں کو جنم دے سکتا تھا اور وہ کسی پر اور خاص کر خود پر کوئی بات نہیں آنے دینا چاہتا تھا وہ سوچ ہی رہا تھا کہ۔کیا کرے تو اچانک ایک خیال اسکے دماغ میں آیا۔
☆♡☆♡☆♡♡☆♡☆♡☆♡☆♡☆♡
فون رکھ کر ریحان صاحب نے مڑ کر دیکھا تو صبوحی کا ڈوپٹہ کمرے کے دروازے کے پاس لہراتا نظر آیا انہوں نے مسکرا کر اپنی لاڈلی بیٹی کو دیکھا۔
"صبوحی ۔" افضل صاحب نے اسے پکارا
"جی بابا۔" صبوحی پکڑے جانے کی وجہ سے خجل ہورہی تھی
"یہاں آئو "۔وہ نظریں جھکاتے انکی طرف آرہی تھی۔ ہلکے بنفشی رنگ کی شلوارقمیض جس پر بوٹل گرین کڑھائی کی گئی تھئ اور گرین رنگ کے ڈوپٹے کو سلیقے سے سر پر رکھے آگے بڑھ رہی تھی پیچھے اسکی بہن صباحت ہنسنے لگی اسکی ہنسی صبوحی کو کنفیوژ کر رہی تھئ ۔
"بیٹھو۔"افضل صاحب نے اسے اپنے پاس بیٹھنے کا کہا
"جی بابا۔"وہ بنا کچھ کہے بیٹھ گئی البتہ ہاتھ کی انگلیاں مڑوڑتی رہی
"تمہاری مرضی کے بغیر میں نے خاور کو ہاں کہدی تمہیں برا لگا نا ۔"افضل صاحب اپنی بیٹی کو جانتے تھے اسلئے پوچھے بغیر نہ رہ سکے۔
:نہیں بابا آپ میرے سرپرست ہیں جو آپ کا فیصلہ ہوگا اس میں میری بہتری ہوگی ۔"صبوحی نے یہ کہہ کر انکی مشکل آسان کردی
"شاباش بیٹا مجھے تم سے یہی امید تھی۔"انہوں نے فرط جذبات سے اسکا ماتھا چوم لیا ۔ انہیں اپنی بیٹی پر بہت ناز تھا اور صبوحی ایک بہت اچھی بیٹی تھئ سارے گھر کا کام خود کرتی اپنی ماں کو کسی کام کو ہاتھ نہ لگانے دیتی وہ گریجویٹ تھی یہ تعلیم اس کے بابا نے اسے شہر سے حاصل کروائی ۔ لیکن اس نے گاوں کو ہی ترجیح دی کہ وہ گاوں کے لوگوں کے لئے کچھ کرنا چاہتی تھی ۔
☆♡☆♡☆♤☆♤♤☆♤☆♤☆♤☆♤
آسمان پر بادل چھائے ہوئے تھے رش ڈرائیونگ کرتے وہ جیسے ہی کینٹین پہنچا دانین ابھی تک آئی نہیں تھی اس نے فون نکال کر اسے مسج کرنا چاہا تو ثناء کی کال آگئی۔
"ہیلو اسد۔" آواز سنکر اسے اکتاہٹ ہوئی کوئی اور وقت ہوتا تو وہ بھی شیریں لہجے میں بات کرتا لیکن ابھی اسے دانین کے نہ آنے کی فکر تھی
"کیسے ہو ؟"آگے سے پوچھا گیا
"ٹھیک ہوں میں بزی ہوں تمہیں 5 منٹ میں کال کرتا ہوں۔"وہ عجلت میں بولا
"کیوں کیا ہوا؟"ثناء کی حیرت میں ابھری ہوئی آواز آئی
"ایک امپورٹنٹ کال کرنی ہے ۔" اسد نے کہہ کر فون کاٹ دیا۔
اس نے دانین کا فون ملایا ۔
"ہیلو ۔" اسپیکر سے مردانہ آواز سنکر اسے اچھنبا ہوا اس نے اسکرین کو دیکھا کہیں غلط نمبر تو نہیں ملا دیا لیکن نمبر ٹھیک تھا
"ہیلو آپ کون؟"اسد نے جھٹ پوچھا
"میں مغیث ہوں یار۔"جواب سنکر اسکا حلق تک کڑوا ہوگیا تھا ۔ وہ دانین کے ماموں کا بیٹا تھا جسے دانین پسند کرتی تھئ
"اوہ مغیث کب آئے ۔"آواز حد درجہ دھیمی رکھی لیکن دانت پیسنا نا چھوڑا ۔ اسے دیکھ کر اسے ہمیشہ ہی غصہ آجاتا تھا
"کل رات آیا ابھی آیا ہوں پھوپھو کے گھر۔"اس نے خوش اخلاقی سے جواب دیا
"اچھا دانین کہاں ہے؟"اسد نے جلدی سے کہا
"میرے لئے کافی لینے گئی ہے۔"مغیث نے اسے کہا اور اسد کو لگا اس نے جان بوجھ کر جتایا اسے
"اچھا ۔"اس نے منہ بنا کر کیا
"چلو میں بعد میں کال کرتا ہوں۔" اس نے جلدی سے کہہ کر فون کاٹ دیا۔
اسکا غصہ سوا نیزے پر پہنچ چکا تھا ایسا ہمیشہ ہی ہوتا تھا جب بھی مغیث آتا تھا اسد اور دانین کی لڑائیاں یا یوں کہا جائے کہ باقاعدہ جنگیں ہوجاتی تھیں ۔
"کس کی کال تھی مغیث ؟" دانین کافی کے مگ ہاتھ میں پکڑے پوچھ رہی تھی
"اسد کی کال تھی ۔"مغیث ان دونوں کی دوستی کے بارے میں جانتا تھا
"اچھا ۔" اس نے مغیث کو دیکھا اور فون کو وہ جانتی تھی اب تک اس کا غصہ آسمان کو چھو گیا ہوگا وہ بھی کیا کرتی اس نے اسد کو کال کی کہ وہ نکل رہی ہے ابھی گیٹ پر پہنچی ہی تھی تو مغیث آگیا تو وہ اس کے ساتھ اندر آگئی ۔
(دانین نے تصور کی آنکھ سے دیکھا اسد پریشر ککر کی طرح لال ہو کر پھٹنے کو تھا )
"کیا ہوا دانین۔ "مغیث نے اسکے چہرے کے اتار چڑھاو دیکھ کر پوچھا
"آنں کچھ نہیں چلیں کافی پیتے ہیں ۔"دانین نے مسکرا کر کہا ۔
"تم پر بلیو رنگ بہت خوبصورت لگتا ہے۔ "مغیث اسے بہت پسند کرتا تھا اسکی ماں کی مخالفت کی وجہ سے وہ رکا ہوا تھا ورنہ کب کا دانین کو اپنا بنا چکا ہوتا ۔
"اور پڑھائی کیسی چل رہی یے؟" مغیث نے اسے دیکھتے ہوئے کہا
"ٹھیک آپ بتائیں کیسی گزر رہی لائف؟" دانین نے مسکرا کر پوچھا۔
"اچھی گزر رہی ہے۔" مغیث نے اسے دیکھا ۔
"آپکو ہماری یاد نہیں آئی ۔" دانین شکوہ کرتی اپنے ہاتھ میں بندھے بینڈ سے کھیلنے لگی۔
"یاد تو تب کرتا جب بھولتا اور تم میری سانسوں میں بستی ہو دانین۔" مغیث نے گھمبیر آواز میں کہا
دانین سے نظریں اٹھانا دوبھر ہوگیا۔
مغیث دلچسپی سے اسے دیکھنے لگا ۔
"اچھا یہ تمہارا گفٹ۔" مغیث نے ایک خوبصورت گھڑی اسکی طرف بڑھائی ۔
"تھینکس۔"دانین نے اس سے گفٹ لےلیا۔
"پہن کر دکھائو ۔" مغیث نے کہا
دانین نے اسد کا دیا بینڈ دوسرے ہاتھ مین پہنا اور گھڑی پہن کر مغیث کو دکھائی وہ مسکرادیا
کافی پیتے ہوئے ان دونوں نے بہت سی باتیں کیں لیکن اس وقت بھی دانین کو اسد کی ہی فکر تھی جتنی دیر ہونی تھی اتنا اس نواب کو منانا مشکل ہوجانا تھا ایک گھنٹے بعد مغیث نے جانے کی اجازت مانگی دونون ساتھ ہی نکلے دانین اپنی گاڑی کی طرف بھاگی اور اسد کو کال ملائی ۔
دوسری طرف اسد کا موڈ بہت خراب ہوگیا دوبارہ سے ثناء کی کال آرہی تھی لیکن اس نے لائن کاٹی اور مسج کیا کہ بعد میں کال کرتا ہوں ابو کے ساتھ ہوں۔ وہ کلاس لینے پہنچ گیا وہاں بھی اسکا موڈ خراب ہی رہا کلاس لے کر نکلا تو دانین کی کال آگئی۔
"ہیلو اسد ۔ "اسنے مسکراتے ہوئے کہا
"ہیلو "۔روکھا جواب مطلب خطرناک کا بورڈ دکھ رہا ہو جیسے
"کیا ہوا ۔" اس نے انجان بنتے ہوئے کہا
ک"چھ نہیں تم تو بزی ہو نا۔ "چڑ کر کہا گیا
"نہیں تو میں تو بزی نہیں " دانین نے اسکا غصہ کم کرنا چاہا۔
" اچھا تو صبح مجھے کال کرنے کے بعد کیا ہوا تھا" اسد نے غصے سے پوچھا
"ارے صبح میں نے تمہیں کال کی نکلنے لگی تو مغیث آگئے۔"دانین نے صفائی دینی چاہی ۔
"اچھا اور تم تو خوشی سے جھومنے لگ گئی ہوگی نا۔" اگلا جواب اور بھی جلا کڑھا ہوا
"ارے کیا ہوگیا؟"اب بھی انجان بننے کی کوشش دانین نے کی
"میں ناشتہ چھوڑ کر بھاگا تمہاری کال پر اور تم تو کافی بنانے میں مگن ہو نا۔"اسکا غصہ کم ہو کر نہیں دے رہا تھا
"اوہ اچھا سوری نا یار اب مغیث آگئے تھے تو رکنا پڑا نا اچھا بتاو کہاں ہو ؟"دانین جانتی تھی کہ وہ اس بات پر اور بھڑکے گا۔
"اوکے انجوائے یور سیلف۔"اسد نے غچے سے کہا
ارے ایک منٹ رکو تو ۔"دانین نے جلدی سے کہا
"کیا ہے؟"اسد نے اب بھی غصے سے کہا
"کہاں ہو بتا دو پلیز۔"دانین نے معصومیت سے پوچھا
"میں یونی سے نکل رہا ہوں"اسد نے منہ بنا کر کہا
"اچھا کہاں جارہے ہو میں بھی آتی ہوں۔"دانین نے خوشامدی لہجے میں کہا
"جہنم جارہا ہوں"اب کی باربھی جلا کرا جواب آیا
"اچھا وہاں اکیلے کیسے جاوگے؟"دانین نے اسے چڑایا
"چلا جاوں گا تم جانا مغیث کے ساتھ؟ اسد نے ابھی بھی جل کر کہا
"اچھا نا بتاو کہاں جاوگے"دانین بضد ہوئی وہ گاڑی چلا رہی تھی
"آجا وہیں جہاں جاتے ہیں ۔" اسد نے اسے کہا اور خود گاڑی میں بیٹھا
"اوکے آتی ہوں۔" دانین نے بھی گاڑی موڑی کیوں کہ وہ جگہ قریب ہی تھی ۔
"ہنہہہ مغیث آجائے تو میڈم ہواوں میں ہوتی ہے ۔ اچھی خاصی کلاس لینی پڑے گی اسکی ۔" اسد گاڑی چلاتے ہوئے بھی بڑبڑا رہا تھا
جیسے ہی وہ پہنچا دانین پہلے سے بیٹھی ہوئی تھی ۔
اسے دیکھتے ہی وہ مسکرایا جب بھی وہ غصہ ہوتا تھا وہ ایسے ہی کرتی اس سے پہلے پہنچ کر مسکرا کر اسے دیکھتی اور وہ بھی مسکرا دیتا ۔آج بھی یہی ہوا۔
"کیسے ہو ؟"دانین نے مسکرا کر پوچھا
"ٹھیک۔" بیٹھتے ہوئےاسکے ہاتھ پر نظر پڑی تو اس نے رک کر دانین کو دیکھا۔
اس نے اسد کی نظروں کا مفہوم۔سمجھتے ہوئے کہا۔
"یہ مغیث نے دی آج صبح۔"ہاتھ میں گھڑی گھماتے ہوئے اس کے آگے کی
"اور تم نے جھٹ سے پہن لی ۔" اسد پھر بھڑک اٹھا
"ہاں اب دی ہے تو پہنوں گی نا ۔"دانین نے کہا تو اسکو اور بھی غصہ آیا
"اور میں نے جو بینڈ دیا وہ کہاں ہے؟" اسکا پارہ چڑھا
"وہ یہ رہا ۔ "اس نے دوسرا ہاتھ دکھایا تو اسد نے اسکا ہاتھ جھٹکا ۔
"اسد مسئلہ کیا ہے آخر ۔"وہ چڑ گئی
"تم جانتی ہو مجھے ریپلیسمنٹ نہیں پسند خاص کر ہارے اور میرے بیچ " اسد کا غصہ کم ہونے میں نہیں آرہا تھا
"اچھا بابا غصہ نہ کرو یہ لو اتار دی گھڑی اور یہ رہا تمہارا بینڈ اب آپ خوش جناب۔اسے اسد کا موڈ ٹھیک کرنا ضروری لگا
" گڈ گرل" اسد نے مسکرا کر کہا
اسکا موڈ اب بہتر ہوگیا ۔ایسا ہی تھا وہ دانین سے ناراض ہونا اسنے سیکھا ہی نہیں تھا جبکہ اس جیسا کوئی کھڑوس نہیں تھا
"کتنے دنوں کے لئے آئے ہیں موصوف ۔"اسد کی سوئی وہیں اٹکی تھی
"پتہ نہیں کچھ کہا نہیں۔"اسنے مسکراتے ہوئے کہا
"اچھا ویسے دانی ایک بات سوچ رہا تھا میں۔"اسد نے پرسوچ انداز میں کہا
"اچھا تمہارے پاس وہ ہے نا جس سے سوچتے ہیں۔" دانین نے اسے چڑایا
"شٹ اپ۔"اسد چڑا
"اچھا اچھا بتائیے کیا سوچا آپ نے۔" دانین نے اسے تنگ کرنے کا ارادہ موقوف کرتے ہوئے پوچھا
"کیا مغیث جانتا ہے؟" اسد نے ہتھیلی اپنے گالوں پر رکھی اور معصومیت سے پوچھا
"کیا؟"دانین نے اسکو ناسمجھی سے دیکھتے ہوئے کہا
"وہی جو حقیقت ہے۔"اسد اب بھی سنجیدہ نظر آفہا تھا
"کونسی حقیقت؟" دانین نے اب بھی اسے دیکھتے پوچھا
"تمہاری حقیقت۔" اتنا سنجیدہ وہ کبھی نہیں ہوا تھا
"میری کونسی حقیقت آدیواسی۔" اب کے دانین نے تپ کر کہا
"یہی کہ اسکی شادی ایک مرد سے ہونے جارہی ہے۔چ اسد کہنے کے ساتھ ہی ہنس پڑا
"ڈھشوم "یہ آواز تھی گھونسے کی جو دانی نے اسد کو مارا تھا۔
"انتہائی کوئی فضول انسان ہو تم۔" دانین نے مکہ مارنے کے بعد کہا
"لڑکیوں والے کوئی گن نہیں تم۔میں۔" اسد نے کندھا سہلاتے ہوئے کہا
"تمہیں جو ملے گی اسکو تو ساری حقیقت بتاوںگی مین دیکھنا بچو۔" دانین نے اسکو چھیڑتے ہوئے کہا
"میں خود اسے بتادوںگا۔" اسد نے لاپرواہی سے کہا
"کیا بتادوگے۔" دانین نے اسکو دیکھتے ہوئے کاہ
:یہی کہ تم سے پہلے مجھ پر میری بڈی میری جانی دشمن دانین شاہ کا حق ہے۔" اسد نے سچے دل سے کہا
"اوہو اور وہ تو خوشی خوشی قبول کرلے گی نا۔" دانین نے اسے ڈرایا
"کرنا تو پڑے گا کیوں کہ دانی کے بغیر آدی کچھ نہیں ہے۔" اسد نے گواہی دی
"Awwww i love the man who invented Maska."
دانین نے کہا
"کبھی خوش نہ ہونا ناشکرے لوگ"۔اسد نے منہ بگاڑ
کر کہا
"آئے ہائے سیم ٹو یو منا۔" دانین نے بڑی عورتوں کی طرح اسکی بلائیں لی
"چلو اب آرڈر کرو ۔" اسد کو مینیو پکڑاتے ہوئے اس نے کہا
لنچ کر کے دونوں باہر نکلے موسم صبح سے ہی ابر آلود تھا دانین کی کمزوری یہ موسم تھا وہ آسمان پر دیکھتے ہویے چل رہی تھی سامنے سے آتی گاڑی سے اسکی ٹکر لگتی اگر اسد اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنی طرف نہ کھینچتا وہ سیدھی اسکے سینے میں جا چھپی۔جھٹکے سے سر اٹھایا وہ خود بھی اچانک افتاد پر ڈر گئی تھی اسد نے اسکی آنکھوں میں دیکھا اور کھو گیا ایسا اکثر ہوتا تھا وہ بے خود ہو جاتا تھا ۔ دانین اسد کو گھور رہی تھی ۔اسد نے سر جھٹکا اور شروع ہوگیا
"اوہ ہیلو مغیث نہیں آئےگابچانے جو آنکھیں سر پر رکھ کر چل رہی ہو۔"اسد نے سٹپٹا کر کہا
"بکواس نہ کرو وہ تو آجائیں گے ۔"
"اچھا تو ابھی کیوں نہیں آیا وہ۔"اسے اسکی طرفداری ایک آنکھ نہ بھائی ۔
"کیوں کہ ابھی وہ یہاں ہیں ہی نہیں ۔" دانین نے آگے بڑھتے ہوئے کہا
"وہی تو کہہ رہا ہوں میڈم دانی کہ آنکھیں آسمان پر نہیں زمیں پر رکھا کرو ۔" اسد نے سمجھاتے ہوئے کہا
"اچھا نا آدی ۔" دانین نے کہا
" اچھا کل میرے ساتھ گولف کھیلنے چلو گے۔؟"
"نہیں ۔"اسد نے دو ٹوک جواب دیا
کیوں؟"دانین نے اسے گھورتے ہوئے کہا
"یار انی چھوٹی سی بال اس کو پہلے زور سے مارو پھر آہستے سے مار کر اسے اس کی جگہ پر پہنچاو عجیب ہے ۔" اسد نے اپنا نظریہ بتایا
"تمہیں اسپورٹ میں ذرا بھی دلچسپی نہیں ہے باسکٹ بال کا بولا تو کہتے ہو بندروں کہ طرح اچھلنا پڑتا ہے فٹ بال کا کہا تو کہتے ہو اتنی بھاری بال ہے لڑ جھگڑ کر مزہ نہیں آتا اب گولف میں بھی کیڑے نکال لئے" ۔دانین نے منہ بگاڑ کر کہا
"یہی تو اسد محمود کی قابلیت ہے۔"اسد نے فرضی کالر اکڑائے
"ہنہہہ یہ قابلیت نہیں ہے یہ نکتہ چینی کرنے والی عادت بی جمالو ٹائپ کی ہوتی ہے۔ جنہیں ہر بات میں بس نقص نظر آتا ہے۔" دانین نے منہ بگاڑ کر اسکو شرم دلائی
ابھی وہ دونوں باتیں کرہے تھے تو اسد کا فون بجا ۔اس نے دانین کو اسکرین دکھائی جہاں ان لکھا آرہا تھا
"ہیلو انا کیسی ہو؟" اسد نے مسکرا کر کہا
"ٹھیک تم مجھ سے ملنے آسکتے ہو؟" انا بہت جلدی میں تھی
"ابھی تو نہیں کل ملتے ہیں۔" اسد نے بالوں مین ہاتھ پھیرتے ہوئے کیا
"مجھے آج ہر حال میں ملنا ہے۔" انا نے ضد کی اسد نے حیرت سے اسکرین کو گھورا
"کیوں خیریت؟"اسد نے حیرت سے پوچھا
"اسد آج میرا برتھڈے ہے"۔آخر کار اس نے کہا تو اس ن6 مسکرا کر سر پر ہاتھ پھیرا
"اوہ ہیپی ریٹرنز آف دا ڈے۔" اسد نے فارمیلیٹی نبھائی
ا"ب بتائو آرہے ہو؟" انا نے پوچھا
ا" چھا بتائو کہاں آنا ہے؟" اسد نے جگہ پوچھی آنے کے لئے
ا"لمشرق ریسٹورنٹ آجائو ۔" انا نے جگہ بتائی:
اوکے میری فرینڈ کو بھی لاوںگا ۔" اسد نے اس سے کہا جس پر انا ٹھٹکی
"کون سی فرینڈ۔"
"دانین شاہ ۔"انا کو پتہ تھا اسی کا ہی نام لے گا
"اچھا لے آئو ۔" حالانکہ اسکا حلق تک کڑوا ہوگیا دانی۔ کا نام۔سن کر لیکن اسے لانے کا ہاں کہہ دیا ۔
"او ہیلو میں کہیں نہیں جارہی ۔" دانین نے ہاتھ اٹھا کر کہا
"میں نے تم سے پوچھا کیا؟" اسد ن6 رخ ۔وڑت بغیر کہا
کیا مطلب۔
"مطلب یہ کہ ہم دونوں جارہے ہیں۔ " اسد نے اسے بتاہا
"اسد مجھے اور بھی کام ہیں تم جائو اپنی گرل فرہند کی برتھ ڈے پر۔"
"یار پلیز چلو نا وہ بہت بولڈ لڑکی ہے "۔
"تمہیں تو بولڈنیس پسند ہے نا۔" اب وہ دانین کو کیا بتاتا اسے لڑکیان بولڈ اس حد تک اچھی لگتی جب تک وہ پانے حق میں بولتی لیکن یہ لڑکیاں اسکے قدموں میں بچھی جاتی اپنے جسم کی نمائش کرتی اسے بلکل پسند نہیں تھیں
"ہاں پسند ہے لیکن اتنی بھی نہیں "۔
"میں نہیں آرہی ۔"
"تم آرہی ہو اور یہ لو فون اریض کو فون کردو یا اپنے بابا کو کردو ۔ اماں کو نہ کرنا ورنہ رات کالی ہوجانی ہے۔" اسد زینب شاہ کی عادت سے واقف تھا
"شٹ اپ یاراسد میری ماں کے خلاف نہ بولا کرو" ا"چھا۔"
"اچھا نہیں بولتا تم کال کرو۔"
"اوکے۔"
کال کرنے کے بعد وہ دونوں انا کی برتھڈے پر گئے جہاں صرف اسد اور دانین نے ہی انجوائے کیا باقی انا تو دانین کو دیکھ کر ہی منہ بنا گئی تھی۔
☆♡☆♡☆♡☆♡☆♡☆♡☆♡☆♡
خضر نے بہت سوچنے کے بعد گائوں فون ملایا اور وائس چینجر سے آواز بدل کر بات کی۔
"ہیلو۔" افضل صاحب نے کہا
"ہیلو جی سلام علیکم۔" خضر نے لہجہ گائوں والا کر کے کہا۔
"جی کس سے بات کرنی ہے؟"۔ افضل صاحب نے استفسار کیا۔
"جی میں اسکول کا ہیڈ ماسٹر بات کر رہا ہوں مجھے صبوحی سے بات کرنی تھی"۔ خضر نے اپنا مدعا بتایا ۔
"اچھا اچھا ایک منٹ سر جی۔ صبو ارے او صبو تیرے اسکول کے ماسٹر صاحب کا فون آیا یے جلدی آ نیچے آ افضل صاحب نے آواز دی۔صبوحی گائوں کے ایک اسکول میں بھی جایا کرتی تھی افضل صاحب وہی سمجھے
کچھ لمحون بعد پائل کی آواز خضر کو سنائی دی جیسے ہوا رک گئی ہو بس ایک وہی آواز اسکی سماعت سے ٹکرا رہی ہو جیسے۔
"ہیلو۔" صبوحی کی آواز سنتے ہی جیسے ہوا تیز چلنے لگی تھی ایک مدھر گیت سا کانوں میں سنائی دے رہا تھا۔
"ہیلو ۔ "خضر نے آنکھیں پٹ سے کھولیں اور موبائل کو گھورا جیسے وہ بھول گیا ہو وہ کیا کر رہا تھا۔
"ہاں ہاں ہیلو ۔ صبوحی خان۔"
"جی با۔۔۔۔۔۔۔" صبوحی کے الفاظ ہونٹوں میں ہی رہ گئے۔
"دیکھو صبوحی میں خضر بات کر رہا ہوں" ۔
صبوحی کا دل تیز دھڑکا ۔
"میرا موبائل نمبر لکھو جلدی۔"وہ وقت ضائع کئے بغیر ایک ہی سانس میں بول گیا
اس نے پاس پڑی ہوئی فون ڈائری اٹھائی اور پین پکڑا اور ہچکچاتے ہوئے نمبر لکھا
"اوکے مجھے بعد میں فرصت سے فون کرنا میرا مطلب رات میں مجھے فون کا انتظار رہے گا۔:
ہ"مممم"
"اوکے تھینکس۔ بائے"
یہ کہہ کر اسنے فون بند کیا اور صبوحی اسکی آواز کے سحر میں کھوئی رہی۔
"کیا کہا سر نے"۔ افضل صاحب اسے چپ چپ ریسیور کو گھورتے دیکھ پوچھنے لگے۔
"وہ کہہ رہے تھے کہ کام کیسا چل رہا ہے؟"
"اچھا اچھا بہت بھلے انسان ہیں ۔ "افضل صاحب اسکے سر کی تعریف کرنے لگے اور صبوحی اندر کمرے میں جاکر اپنی بے ترتیب سںانسوں کو ترتیب دینے لگی تھی اسکا دل بہت تیزی سے دھڑک رہا تھا اور اس ایک بات میں کھوئی تھی کہ مجھے انتظار رہے گا۔
☆♡☆♡☆♡☆♡☆♡♡☆♡☆♡☆♡☆
أنت تقرأ
میرا یہ عشق
Romanceیہ کہانی ہے دو دوستوں کی جو اچھے دوست تھے دکھ سکھ کے ساتھی تھے پھر محرم بن کر دشمن بنے ایک دوسرے کے ۔ منتشر ذہن اور رشتوں کی کہانی۔