❤#mera_yeh_Ishq❤
B6 # FRM
Episode 19
☆◇☆♡☆♡☆♡☆♡♡☆♡☆♡☆♡
صبح کا سورج نکلنے والا تھا ہلکی ہلکی روشنی ہونا شروع ہوگئی تھی اسد نے نظریں باہر ٹکا دیں تھیں سب باری باری اٹھ گئے تھے سوائے قنوت اور دانین کے۔
اریض جیسے ہی سیدھا ہوا اس نے سیٹ کو ٹھیک کیا تو نظر پچھلی سیٹ پر گئی قنوت اب بھی سوئی ہوئی تھی بال تھوڑے بکھر کر چہرے پر آرہے تھے سفید کلر کی کرتی پر سفید ڈوپٹہ جو اب ڈھلک کر کندھے پر پڑا تھا وہ ہاتھ باندھے سو رہی تھی اریض کے دل نے شدت سے خواہش کی کہ کاش مجھے یہ حق ہوتا کہ میں ان زلفوں کو تمہارے چہرے سے ہٹا پاتا اس نے نظروں کا زاویہ بدلا اور سیدھا ہوکر بیٹھا پھر گاڑی سے اتر گیا راستے میں ایک ہوٹل تھا جہاں ناشتے کی غرض سے گاڑی روکی گئی ۔ دانین کو اریض نے آواز دی اس نے مندی مندی آنکھیں کھولیں پھر جھٹکے سے یہاں وہاں دیکھا ۔اسد کی رگ شرارت بھڑکی
" کیا ہوا چڑیلوں کی میٹنگ ختم ہوگئی بل بتوڑی"اسد نے اس کو نظروں میں سماتے ہوئے بولا
" ہاں کیا نہیں "وہ نیند کے خمار میں بولی پھر اسد کو لات ماری
" انسان بن جاو اچھا "دانین کہہ کر بال ہاتھوں سے ٹھیک کر کے نیچے اتری اس کے پیچھے اسد ہنستا ہوا نیچے اترا قنوت کی بھی آنکھ گاڑی رکنے سے کھل گئی تھی وہ لوگ ہوٹل میں فریش ہوئے اور ناشتہ کرنے بیٹھے ۔
" بھائی کتنا مزہ آرہا ہے نا کھلی فضاء میں ایسے صبح صبح ناشتہ کرنا "دانین نے خوش ہوتے ہوئے کہا اسے یہ سب بہت اچھا لگ رہا تھا
" ہاں " اریض نے بھی آس پاس دیکھ کر کہا
تہمینہ بیگم کے ساتھ بیٹھ کر دانین اور قنوت ناشتہ کر رہی تھیں اسد مسکرایا اور کچھ سوچتے ہوئے ان کے پاس جاکر بیٹھا۔
" ویسے ماما دانی نے بتایا آپ کو"اسد نے دانین کو دیکھتے ہوئے تہ۔ینہ بیگم سے کہا
" کیا " تہمینہ بیگم نے دانین کو دیکھتے ہوئے پوچھا
" یہی کہ ایسی کون سی خفیہ میٹنگ چل رہی تھی جو اتنی مگن تھی یہ "دانین نے اسے گھورا
" کونسی میٹنگ بیٹا "تہمینہ بیگم نے دانین سے پوچھا
" آنٹی دیکھ لیں اسے"دانین نے چڑ کر کہا
" وہ بچپن سے مجھے دیکھتی آرہی ہیں"اسد نے محظوظ ہوتے ہوئے کہا
" ہوا کیا ہے اسد"تہمینہ بیگم نے اسد سے پوچھا
" ماما رات کو چڑیلوں کی میٹگ تھی جس کی چیئر پرسن یہ دانی تھی "اسد نے مسکراتے ہوئے اسے دیکھا جو میرون رنگ کے سوٹ میں گلابی آنکھیں لئے دل میں اتر رہی تھی
" اریض بھائیییییی"اس نے اریض کو بلایا جو مسکراہٹ دبائے اسے دیکھ رہا تھا
" کیا ہوا "اریض نے انجان بنتے ہوئے پوچھا
" بھائی اسد مجھے چڑہل کہہ رہا ہے"دانین نے اس سے شکایت کرتے ہوئے کہا
" اسد یار اس طرح کوئی بولتا ہے کیا" دانین اسد کو منہ بنا کر دیکھ رہی تھی ۔
"وہ بھی منہ پر" اریض کا جملہ پورا ہوا اور دانین نے اریض کو بھی غصے سے دیکھا ۔
" ہاہاہاہا لو بھئی یہ بھی جانتے ہیں" اسد نے ہنستے ہوئے اریض کے ہاتھ پر تالی ماری
" اسد کے بچے " دانین اسےمارنے کے لیے اٹھی دونوں آگے پیچھے بھاگ رہے تھے دانین جب تھک گئی تو بیٹھ گئی
" آہ اسد " اسد جو بھاگ رہا تھا اسکی تکلیف دہ آواز پر مڑا اور بھاگتا ہوا اس کے پاس آیا۔
" کیا ہوا دانی" اسد فکرمندانہ آواز میں بولا
" کچھ نہیں " اور اسے زور کا مکا مار کر کھڑی ہوئی اسد بھی کھڑا ہوگیا دانین نے اسے دیکھا اور بالوں کو پھونک ماری اور اسد کو دیکھ کر منہ بنا کر دوسری طرف چلی گئی اسد کے دل نے بیٹ مس کی۔
" ایسے ہی یہ لڑکی میری جان لے لے گی" اسد نے زہر لب کہا
دوسری طرف اریض نے قنوت کو دیکھا جو سر پر ہاتھ رکھ کر چہرا جھکا کر بیٹھی تھی وہ اٹھ کر اس کی ساتھ والی کرسی پر بیٹھ گیا باقی سب باتوں میں مصروف تھے
"قنوت"اریض کی آواز پر وہ چونکی
"جی"اس نے سر اٹھایا
"کیا ہوا طبیعت ٹھیک ہے"اریض نے اس سے پوچھا
"سر میں درد ہو رہا ہے پہلے اتنا سفر نہیں کیا کبھی شاید اسی وجہ سے" قنوت نے وجہ بتائی
"زیادہ درد ہورہا ہے یہاں کوئی میڈیکل سٹور بھی نہیں ہے آگے بس دو گھنٹے کا سفر رہ گیا ہے"وہ فکرمند ہوا
"پریشان نا ہوئیں میں برداشت کرلوں گی"قنوت نے اسے مطمئن کرنا چاہا
"رکو میں اسد سے پوچھتا ہوں شاید انکل کی دوائیوں میں سر درد کی کوئی دوائی ہو"وہ اٹھ کر اسد کے پاس چلا گیا پھر کچھ ہی دیر بعد وہ پانی اور دوائی لے کر قنوت کے پاس آیا
"تھینک یو سو مچ اریض"
تھوڑی دیر میں پھر وہ لوگ گاڑیوں میں سوار ہوکر اپنی منزل کی طرف گامزن ہوئے۔ پورا راستہ اسد دانین اور اریض کی باتوں میں کیسے نکلا پتہ ہی نہیں چلا قنوت بھی کچھ کچھ باتیں کر لیتی تھی جب اریض یا دانین اسے مخاطب کرتے لگ ہی نہیں رہا تھا کہ وہ لوگ ایک فیملی نہیں۔ آخر کار وہ لوگ حویلی پہنچ گئے حویلی میں اس کا استقبال بہت پرجوش انداز میں ہوا پوری حویلی سجی ہوئی تھی حلاکہ شادی میں ابھی ہفتہ رہتا تھا اور تیاریاں بھی کیوں نا ہوتی آخر حویلی کی پہلی شادی تھی
خاور صاحب نے دانین قنوت اور اریض کا تعارف کروایا
اچھا اچھا اور دانین کون ہے؟ دانین چونکی وہ اسے جانتے تھے؟
" جی میں ہوں انکل"دانین نے جھجھکتے ہوئے کیا
" ماشاءاللہ اللہ صحت دے بیٹا " پھر ان سب کو کمرے میں آرام کی غرض سے بھیجا دانین اور قنوت کا ایک ہی کمرہ تھا جیسے ہی وہ اندر داخل ہونے لگیں اسد بیچ میں آگیا۔
" رک جاو پہلے میں اپنی بھابھی سے ملواں گا"وہ دونوں اس کے ساتھ صبوحی کے کمرے کے جانب بڑھ گئ
"اسلام علیکم ابھی"اسد نے جوش سے سلام کیا
"و علیکم السلام "صبوحی نے مسکرا کر کہا
"کیسی ہو آبھی"اسد نے پوچھا
"بلکل ٹھیک"صبوحی نے جواب دیا اسکی نظر دانین پر گئی جو بہت پیاری لگ رہی تھی وہ کھڑی بھی اسد کے ساتھ تھی
"تم دانین ہو نا"صبوحی نے پوچھا
" جی آپ بھی مجھے جانتی ہیں" صبوحی آگے بڑھ کر اسکے گلے لگی پھر قنوت سے ملی۔
" اسد کی زبان تمہارا نام لیتے نہیں تھکتی تو جو اسے جانتا ہوگا وہ تم سے واقف ضرور ہوگا" دانین نے مسکرا کر اسد کو دیکھا جو اسی کو دیکھ رہا تھا ۔ صبوحی نے اسکی طرف دیکھا تو وہ سر جھکا کر باہر چلا گیا
"کیسی ہو تم دونوں "صبوحی نے پوچگا
"بلکل ٹھیک بہت مبارک ہو آپ کو"دانین نے جواب دیا
"تھینک یو چلو کچھ دیر آرام کرلو پھر کھانے کے بعد مل کر بیٹھیں گے وہ دونوں کمرے میں آکر باری باری فریش ہونے لگیں
************************
حویلی میں سب ان کا بہت اچھے سے خیال رکھ رہے تھے دانین اریض اور قنوت کو لگ ہی نہیں رہا تھا وہ کوئی غیر ہیں بلکہ وہ اسی خاندان کا حصہ لگ رہے تھے صبوحی اور خضر نے ایک دوسرے کو ایک نظر بھی نہیں دیکھا تھا صبوحی مکمل پردے میں تھی
مہمانوں کا آنا بانا لگا ہوا تھا ابھی بھی سب لاؤنج میں بیٹھے تھے باہر شام کے سائے چھا رہے تھے ایک بزرگ جو تہمینہ بیگم کے ساتھ بیٹھی تھی انہوں نے قنوت کو دیکھا
دانین اسد قنوت اریض اور باقی ان کے کچھ کزن ساتھ بیٹھے باتیں کررہے تھے
وہ خاتون تہمینہ بیگم سے مخاطب ہوئیں
"ماشاءاللہ دونوں کی جوڑی بڑی پیاری ہے "قنوت اور اریض ساتھ بیٹھے تھے سب نے خاتون کو دیکھا تہمینہ بیگم نے فوراً ان کی تصحیح کی جبکہ دانین اور اسد سر جھکا کر اپنی ہنسی روک رہے تھے قنوت نے اریض کو دیکھا جو مسکراہٹ دبا رہا تھا قنوت کا چہرہ لال ہوگیا وہ فوراََ اٹھ گئ اور کمرے کی جانب بھاگ گئ باقی سب تو باتوں میں لگ گئے لیکن اسد اور دانین نے اریض کو گھیر لیا تھا۔وہ بڑی مشکل سے ان کے سوالات سے بچ کر بھاگا اور دونوں نے ایک دوسرے کو مسکرا کر دیکھا۔
***********************************
وقت کا پہیہ گھومتا رہا اور انہیں وہاں ائے تین دن پوچکے تھے آج اسد ان سب کو لےکر کھیتوں میں آیا تھا ۔ دور دور تک ہریالی اور لہلہاتے کھیت سورج کی روشنی کھیتوں میں کام کرنے والے کھانا کھا رہے تھے ۔
"واو کتنا زبردست ویو ہے اسد میری تصویر کھینچو " دانین نے اسد کو کیمرہ پکڑاتے ہوئے کہا
"آجائو" اسد نے موبائل میں کیمرہ کھولا
اسد نے موبائل ہاتھ میں پکڑا اور دانین کی تصویر بنائی ۔ اسوقت دانین نے ریڈ اور پلیک رنگ کا سوٹ پہنا ہوا تھا جس کا لال ڈوپٹہ تھا ۔
" اسد تم تھوڑا دور ہو کر تصوہر بنائو " اسد تھوڑا آگے گیا اور مڑا تو جیسے وقت رک گیا کھیت لہرا لہرا کر ناچنے لگے پرندے ااڑتے ہوئے مسکراہٹیں بکھیرنے لگے اسد کا دل سو کی رفتار سے دھڑک کر معمول پر آیا ۔دانین نے ڈوپٹہ کو اس طرح اوڑھا کہ دونوں طوف سے اس نے ڈوپٹہ ترچھا پکڑا اور اسکا آدھا چہرہ نظر آرہا تھا جس سے صرف ہونٹ نمایاں تھے بہت خوبصورت منظر لہلہاتے سرسوں کے پیلے پھول اور ان کے بیچ لال ڈوپٹہ اوڑھے وہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی ۔ قنوت ان دونوں کو دیکھ کر مسکرا رہی تھی کبھی دونوں سیلفی لیتے کبھی ایک دوسرے کی تصویر کھینچتے ہوئے لڑتے ایک دوجے میں مگن دونوں دنیا سے بے پرواہ تھے۔
" کس بات پر مسکرا رہی ہو"اریض نے اسے مسکراتے دیکھ پوچھا
" ان دونوں کی دوستی پر"قنوت نے کہا
"ہممم یہ دونوں تو بچپن سے ایسے ہی ہیں لڑتے جھگڑتے رہتے ایک دوسرے کی برائیاں کرتے لیکن اگر کسی اور نے کچھ کہہ دیا تو لڑنے لگیں گے کہ میرے دوست کے بارے میں کیوں کہا ایسا"اریض ان کی بات یاد کرکے بولا
" واقعی اسد کے آنے سے دانی ہوش میں آئی تھی ورنہ سب ہمت ہار بیٹھے تھے"قنوت نے کہا تو اریض نے ان دونوں کی طرف دیکھا جو اب لڑ رہے تھے مسکراہٹ اریض کے ہونٹوں کو چھو گئی کیوں کہ دانین نے اسد کے بال پکڑ رکھے تھے اور وہ چڑیل چڑیل چلا رہا تھا
" ہاں دونوں ایک دوسرے کے لئے خوامخواہ بھی ہیں اور لازمی بھی ۔"اریض نے ان دونوں کو دیکھ کر کہا
" اچھا لیکن انکی کمپنی میں بندہ بور نہیں ہوسکتا"قنوت نے کہا تو اریض نے اس لڑکی کو دیکھا جو بہت سادہ تھی بہت معصوم اسکو شرارت سوجھی
" اوہ آئی سی"اریض کہتا ہوا آگے بڑھا
" کیا ہوا"قنوت نے ناسمجھی سے اسے دیکھ کر پوچھا
" کچھ نہیں تم میرے ساتھ بور ہو رہی ہو شاید"اریض نے مسکراہٹ دبا کر کہا
" ارے میں نے کب کہا "قنوے نے حیرانی سے پوچھا
" کہا نہیں جتایا " اریض قنوت کو تنگ کر رہا تھا
" اریض آپ غلط سمجھ رہے"قنوت نے اس سے کہا
" ٹھیک ہے " اریض افسردہ سا منہ بنا کر کھیتوں کے کنارے درخت کے نیچے رکھی چارپائی پر جا کر بیٹھ گیا ۔ قنوت پریشان ہوگئی کہ اس نے اریض کو ناراض کردیا اسد اور دانین اپنے میں مگن تھے وہ اریض کے پاس چلی آئی۔ اریض اسے دیکھ کر چارپائی کے دوسرے کونے پر سرک گیا قنوت بیٹھی تو اریض نے رخ موڑ لیا قنوت روہانسی ہوگئی۔
" اریض۔ سوری میرے کہنے کا وہ مطلب نہیں تھا"بھیگی آواز سن کر اریض کا دل پسیج گیا ۔
" اففف قنوت تم سیریس کیوں ہوجاتی ہو "اریض ناراضگی بھول کر اسکی طرف پلٹا
" آپ نے اس طرح کہا تو مجھے لگا آپ ناراض ہوگئے"قنوت نے منہ پھلا کر کہا
" میں ناراض نہیں ہوں لیکن میں تمہارے ساتھ وقت گزارنا چاہتا ہوں تمہیں جاننا چاہتا ہوں "اریض نے کہا تو قنوت نے اسکی طرف دیکھا
" کیوں؟"قنوت نے پوچھا
" ہممم ہر کیوں کا جواب نہیں ہوتا جیسے آسمان نیلا کیوں ہے؟ پرندے اڑتے کیوں ہیں اور بہت کچھ "
قنوت نے مسکرا کر اسے دیکھا اور دانین کو دیکھنے لگی جو اب اسد کے ساتھ ٹاٹیٹینک پوز میں تصویر بنا رہی تھی اور موبائل درخت پر فکس کیا تھا۔
"لیکن قنوت"اریض نے اس کو کہا
" جی"قنوت نے اسکی طرف دیکھا
"اس کیوں کا جواب میں تمہیں بہت جلد دوں گا"اور چارپائی سے کھڑا ہوگیا ۔
" لو بھلا یہ کوئی بات ہوئی ہر بات پر کہیں گے بہت جلد پتہ چلے گا بہت جلد جواب دوں گا اور وہ جلد آئے گی پتہ نہیں کب"
" آجائے گی ہیو سم پیشنس "اریض نے کہا
قنوت گھبرائی پھر مسکرا کر دانین کی طرف چلی گئی۔ دانین اور قنوت نے بھی تصویرین بنوائی اریض اور قنوت کی تصویر بھی ساتھ میں لی جس
پر اسد کھانس رہا تھا اور دانی اسے گھور رہی تھی ۔
☆◇☆♡☆♡☆♡☆♡♡☆♡☆♡☆♡☆مہندی کا فنکشن انہوں نے حویلی کے لان میں ہی رکھا تھا خوبصورت سا لان تھا لان کے بیچ میں ایک فاونٹین لگا ہوا تھا جس سے پانی پھوار کی طرح گرتا تھا اسکے آس پاس بہت سے رنگا رنگ پھول تھے ۔ پورے لان کو گرین رنگ کے ٹینٹ سے کور کیا گیا تھا اور اس پر پیلے رنگ کے پھولوں کے بکے فاصلوں پر لگائے گئے تھے جہاں دلہن کو بٹھایا جانا تھا وہاں پیلے رنگ کا ایک جھولا بنایا گیا تھا جس کو گیندے کے پھولوں سے سجایا گیا تھا اور جھولے کے آس پاس پیلے اور ہرے رنگ کے غبارے بھی رکھے گئے تھے جس سے وہ بہت پرکشش دکھ رہا تھا ایک طرف ڈی جے سسٹم لگا ہوا تھا ٹینت کا آرڈر بھی شہر کے ایک میرج پلانر کو دیا گیا تھا جس نے یہ سب ارینج کیا تھا ۔ خاور صاحب اور افضل صاحب نے بھی آج مہندی رنگ کے کرتے پہنے تھے سفید شلوار کے ساتھ اور تہمینہ بیگم نے بھی پیلا شیفون کا سوٹ پہنا تھا ۔ دانی تیار ہونے کے لئے جانے لگی تھی تب پی صبوحی نے اسے ایک پیکٹ دیا ایسا ہی پیکٹ اس نے قنوت کو بھی دیا تھا ۔
" یہ کیا آبھی"دانین بھی اسے آبھی کہنے لگی تھی
" یہ ہماری پوشاک ہے ہم لوگ عموما ایسے کپڑے پہنتے تہواروں میں"صبوحی نے اس سے کہا
" اچھا " دانین نے مسکرا کر اسے دیکھا
" جاو بھئی پہن کر دکھاو "صبوحی نے کہا
" ابھی پہننا ہے؟"دانین نے پوچھا
" مہندی ابھی ہے تو ابھی پہنو گی نا میں تمہیں تیار کرتی ہوں "
قنوت نے بھی ڈریس دیکھا اسے بھی اچھا لگا صبا نے کہا قنوت آپی آپ کو میں تیار کروں گی"
" ٹھیک ہے"اور دونوں مہندی کے فنکشن کے لئے تیار ہونے لگیں۔
☆♡☆♡☆♡☆♡☆♡☆♡☆♡♡☆♡
أنت تقرأ
میرا یہ عشق
Romanceیہ کہانی ہے دو دوستوں کی جو اچھے دوست تھے دکھ سکھ کے ساتھی تھے پھر محرم بن کر دشمن بنے ایک دوسرے کے ۔ منتشر ذہن اور رشتوں کی کہانی۔