❤Mera ye ishq❤
By FRM
Episode 6
☆♡☆♡☆♡☆♡♡☆♡☆♡☆☆♡☆وہ یونیورسٹی سے باہر نکلی تو سامنے نظر اٹھی سرمئی رنگ کی جینز پر پیچ رنگ کی شرٹ کے ساتھ سرمئی واسکوٹ پہنے چہرے پر گلاسز سجائے بالون کو فلو اسٹائل میں بنائے ہاتھ باندھے وہ اسکا منتظر تھا۔ اسد نے یہاں وہاں دیکھتے ہوئے نظر اٹھائی سامنے سے دانین اپنے مخصوص انداز میں اسکی طرف آتی نظر آئی ۔ پنک ٹرائوز شرٹ جس پر سی گرین کڑھائی کی ہوئی تھی سی گرین ڈوپٹہ پہنے بالوں کو کیچر میں مقید کئے وہ اسکی طرف آئی۔
"السلام علیکم اسد۔"دانین نے قریب آتے ہوئے کہا
"وعلیکم السلام جی مجھ سے مخاطب ہیں آپ"؟حیران ہونے کی کمال ایکٹنگ کرتے ہوئے وہ اسے دیکھتا ہوا بولا
"ہاں کیوں؟"دانین نے نا سمجھی سے کہا
"کیا آپ مجھے جانتی ہیں "؟ اسد نے خود پر انگلی رکھتے ہوئے کہا
"کیا ہوا ہے آدی واسی۔"دانین نے ہینڈ بیگ اسے مارا
"ارے دانی یہ تم ہو ؟" ہنستے ہوئے وہ بولا
"ہاہا پارٹ آف دا جوک "۔دانین نے منہ بنا کر کہا
"سیریسلی لڑکی لگ رہی ہو یار"۔اسد نے اسے چھیڑا
"آدی" ۔ دانین نے آگے کے بال اڑائے
"ہاں دانی۔اچھا منہ نا بنائو تمہارے انتظار میں بھوکا بیٹھا ہوں کب سے۔"اسد نے دہائی دی
"اچھا چلو چلتے ہیں۔" دانین نے گاڑی کا دروازہ کھولتے ہوئے کہا
دونوں گاڑی میں بیٹھے اور گاڑی دو دریا کے لئے سفر طے کرنے لگی۔ دودریا پر المشرق پہنچ کر دونوں ساتھ میں وہاں پہنچے دانین کو بٹھا کر وہ اسکے سامنے بیٹھ گیا آس پاس کا منظر بہت خوبصورت تھا خہاں تک نظر دورائی جائے پانی ہی پانی نظر آرہا تھا
"کیا کھائوگی"۔اسد نے دانین سے پوچھا جو سیلفی بنا رہی تھی
"آج تو تمہاری مہمان ہوں تمہاری پسند کا کھائوں گی۔"دانین نے اسے دیکھ کر کہا
۔"کھالوگی"۔اسد نے آئی برو اونچا کر کے پوچھا
"ہاں ۔" اسکی مسکراہٹ دیکھ کر فورا بولی" تم منگوالو میں شیئر کرلوں گی"۔دانین اسکے آرڈر سے واقف تھی اسلئے شیئرنگ کا کہا
"تم کتنا کم۔کھاتی ہو دانی" ۔اسد نے ہمیشہ والا جملہ کہا
"کیا کروں تمہاری طرح ہاضمہ نہیں نا میرا 6 سموسے کھانے کے بعد بھی تم کہو شغل کیا ہے ابھی تو۔"دانین سے اسکی نقل اتارتے کہا
"ہاں تو 6 سموسے ہوتے ہی کتنے ہیں" ۔اسد نے ہاتھ سے سائز بتایا سموسے کا
"خدا کو مانو یار آدی واسی اتنا کھاتے ہو تم۔"دانین نے کانوں کو ہاتھ لگاتے کہا
"تم۔کم۔کھاتی ہو تو اسمیں میری کیا غلطی ۔"اسد کہاں شرمندہ ہونے والا تھا
اچھا آرڈر کرو یار بھوک لگی ہے ۔دانین نے اسے یاد دلایا کہ اسے آرڈر کرنا ہے
آرڈ دےکر دونوں باتوں میں لگے اس بیچ کھانا بھی کھالیا اور سی سائیڈ پر گھومنے نکل کھڑے ہوئے اسد کو وہ وقت بہت خوبصورت لگ رہا تھا اسکا دل بہت خوش تھا خوش تو دانین بھی تھی اسے بھی اسد کا ساتھ اچھا لگتا تھا دونوں ہی ایک دوسرے میں مگن تھے ۔
"اچھا آدی وہاں جاکر کونسا گانا گانے کا ارادہ ہے؟" دانین پیروں میں آتے پانی سے کھیلتے ہوئے اسد سے پوچھنے لگی
"میں نے سوچا ہے کوئی رومینٹک سونگ گالوں ۔"اسد نے سوچتے ہقئے کہا
وہ بھلا کیوں؟دانین نے رک کر اسے دیکھا
ثناء بھی ہوگی امپریس ہوجانی ہے۔ اسد نے فرضی کالر اکڑائے۔
خیر وہ امپریس ہے تم سے اور امپریس کیا اچھی خاصی لٹو ہے تم پر۔دانین نے پھر سے پانی سے کھیلتے ہوئے کہا
کیا کریں بندہ یہ بنداس جو ہے۔اسد نے مسکرا کر اسے دیکھا
اوووو لالا کیا بندہ ہے۔دانین نے بلائیں لینے والے اسٹائل میں کہا
ہے نا۔اسد نے سر جھکا کر کہا
ہوش میں آجائو تم ہر وقت خیالوں میں نہ رہا کرو۔دانین نے اسے دھکا دیا لیکن وہ ہلا بھی نہیں ۔
تم بل بتوڑی ہی رہنا ۔اسد نے چڑ کر کہا
اور تم مونسٹر ہی رہنا ۔دانین کیوں چپ رہتی
ہنہہہ آئی بڑی۔اسد نے ناک پھلا کر کہا
ہنہہ آیا بڑا پنے خان ۔دانین نے بھی سامنے کے بال اڑا کر کہا
دونوں الگ الگ سمتوں میں دیکھنے لگے دو منٹ گزرے تو ایک دوسرے کو پلٹ کر دیکھا جب نظریں ملیں تو مسکراہٹ لبوں کو چھو گئی۔
♡◇♡◇♡◇♡◇♡♡◇◇◇
قنوت وہاں سے سیدھا گھر پہنچی اسکی امی کی طبعیت آجکل بہت خراب رہنے لگی تھی ۔
افوہ امی آپ کچن کو کبھی چھٹی بھی دےدیا کریں"
کیسےدےدوں میری لاڈو کو بھوک لگی ہوتی ہے اس وقت ۔
بس آپ آزام کیا کریں اب میں آکر خودکرلیا کروں گی ۔
اوکے میم۔
اچھا چلیں اب ڈاکٹر انکل کے پاس چلتے ہیں ۔
انہوں نے چادر اٹھائی اور دونوں کلینک کی طرف روانہ ہوئیں۔
☆◇☆◇☆♡☆♡♡☆♡☆
سورج عصر کے وقت اپنا رخت سفر باندھ رہا تھا اور اسد اور دانین باتوں میں مگن تھے
"اچھا یہ بتائو واپسی کب کی ہے؟"دانین نے پوچھا
"اسکا کچھ پتہ نہیں ۔"اسد نے کندھے اچکا کر کیا
"کیوں وہیں بسنے کا ارادہ ہے؟"دانین نے اس سے پوچھا
"ہاہا ارے نہیں وہاں سے میں گائوں جائوںگا "۔اسد اسکی بات پر ہنس پڑا
"اوہ ہاں خضر بھائی کی منگنی کرنے جارہے ہو ۔" دانین نے خوش ہوتے ہوئے کہا
"پکا نہیں ابھی تو وہ خود وہاں گئے ہیں دیکھو کیاہوتا ہے۔" اسد نے دانین کو کہا
"اچھا لیکن آدی انکی شادی گائوں میں ہوئی تو میں کیسے آپائوں گی۔"دانین نے بے چارگی سے کہا
:تم بھی ہوگی تمہارے بغیر میں شادی میں نہیں جائوں گا۔"اسد نے سوٹوک لہجے میں کہا
"یہ تو وقت بتائے گا"دانین نے کہا
(وقت نے ان دونوں کے لئے سرپرائز پلان کررکھا تھا جس سے یہ دونوں انجان تھے)
"اچھا چلو اب ایئر پورٹ کے لئے نکلتے ہیں۔" دانین نے گھڑی دیکھتے ہوئے کہا
"مجھ سے پیچھا چھڑا رہی ہو۔" اسد نے اداس چہرہ بن کر کہا
"جی نہیں جناب آپ کے بغیر میرابھی من اداس رہے گا لیکن وہ کیا ہے نا کہ ایئر پورٹ انتظامیہ اسد محمود کو ابھی جانتی نہیں اسلئے فلائٹ مس بھی ہو سکتی ہے۔" دانین نے مسکراتے ہوئے پچکارتے ہوئے اسد کو کہا
"اوہ خیر!!! کاش تم بھی میرے ساتھ چل سکتی۔
سوچنا بھی نہیں ایسا یہ بات الگ کہ تم مجھ سے بےزار ہو لیکن ایسی بھی کیا دشمنی بھئی۔"
اسد نے ناسمجھی سے اسے دیکھا۔
"وہاں ثناء مجھے دیکھ کر شوٹ ایٹ سائیٹ کا آرڈر دے دے گی ارے بھئی تمہیں پیاری نہیں میری جان نا سہی مجھے اپنی جان بہت پیاری ہے۔"
دانین اپنی دھن میں کہہ گئی اسد نے جھٹکے سے اسے خود کے قریب کیآ۔
"ایک بات یادرکھنا دانین اسد محمود کو اپنی جان بہت پیاری ہے لیکن تم مجھے اپنی جان سے بھی پیاری ہو سمجھی اور تمہاری دوستی خون بن کر مجھ میں ڈورتی ہے اسلئے کبھی بھی شک نہیں کرنا مجھ پر۔"
دانین اہک دم چپ ہوگئی اور ہکابکا سی اسے دیکھنے لگی۔
"اب سمجھ آگیا ہے تو آنکھیں جھپکائو۔" اسد نے بھرم سے کہا
دانین نے آنکھیں جھپکائی اور اسد نے اسے دور کیا ۔ دونوں کو دو منٹ لگے خود کو کمپوز کرنے میں ۔ پھر وہی ہائے فائے کر کے بائے کہا اور دانین مسکرا کر اسے دیکھنے لگی اسد بیگ لئے آگے بڑھا لیکن اس بار اسکا دل اسے روک رہا تھا وہ پرسوچ انداز میں مڑا تو دانین جو وہیں کھڑی تھی اس کو ہاتھ ہلا کر بائے کیا اسد نے بھی ہاتھ ہلایا اور سر جھٹک کر آگے بڑھ گیا ۔
☆◇☆♡☆♡☆♡☆♡
پورے ڈیڑھ دن کے سفر کے بعد گاڑی فارملی گاؤں آکر رکی یہ خاور صاحب کا ابائی گاؤں تھا ۔ خضر نے کافی وقت بعد اتنا لمبا سفر کیا تھا اس لئے اسکا سردرد کر رہا تھا خاور صاحب اور تہمینہ بیگم اپنی خوش گپیوں میں مشغول تھے موسم بہت سہانا تھا۔ خضر نے جیسے ہی اسٹیشن سے باہر قدم رکھا بادِصباء اس سے ٹکرائی۔ تازی ہوا کو محسوس کرتے ہی مسکراہٹ اس کے ہونٹوں کو چھو گئی کہتے ہیں نا انسان اپنی مٹی کو کبھی نہیں بھولتا ۔ کچھ دیر بعد ڈھابے سے چائے ناشتہ کرکے یہ لوگ اپنی حویلی کی طرف گامزن ہوئے۔ اردگرد سرسبز کھیت تھے تھوڑا آگے جاکر ہی حاجی شاہ علاقہ شروع ہوگیا اس علاقے میں ایک خوبصورت نہر تھی جس کی آواز رات کی خاموشی میں ایک فسوں سا طاری کردیتی تھی اس کے ساتھ ہی پکی سڑک تھی اور دائیں جانب تھی خاور صاحب کی ابائی حویلی جو بہت بڑے رقبے پر پھیلی ہوئی تھی ۔ حویلی دیکھ کر خضر کے کانوں میں آواز گونجی ہمت ہے تو خود یہاں آکرمیرے بابا اور چاچا کے سامنے مجھے انکار کرو۔
" آگیا ہوں میں صبوحی تمہیں تمہارے سامنے انکار کرنے تم نے خضر کو چیلنج کیا تھا نا میں دیکھنا چاہتا ہوں انکار سن کر کیسے تمہارے چہرے کا رنگ ارتا ہے "اس نے ایک انداز سے عینک اتاری
"چلیں بیٹا"
"جی بابا چلیں۔"وہ لوگ اندر پہنچے تو الگ ہی سماں تھا پوری حویلی سجائی گئی تھی سامنے حویلی کے گارڈن میں گلابی رنگ سے اسٹیج سجایا گیا تھا جس پر ہیپی برتھڈے صبوحی لکھا ہوا تھا۔
"اوہ تو آج تمہارا برتھڈے ہے اب تو گفٹ دینے میں مزہ آئے گا اور یہ گفٹ تم کبھی نہیں بھولو گی"
وہ خود کلامی کرتے ہوئے سامنے دیکھ رہا تھا باقی سب حویلی کے اندر جاچکے تھے حویلی کے باہر گاڑی رکنے کی آواز آئی اور پھر پائل کی آواز پر وہ چونکا آواز اس کے دل پر اتر رہی تھی
اسے لگا ہوا تیز چلنے لگی ہے وہ آوازبلکل اس کے پیچھے سے ہوتی آگے بڑھی اس نے مڑ کر دیکھا وہاں کوئی نہیں تھا وہ سر جھٹک کر اندر چلا گیا حویلی کے سارے لوگ گرم جوشی سے اسے ملے جبکہ دوسری طرف صبوحی خاور صاحب اور تہمینہ بیگم سے مل کر ایک طرف ہوگئ تھی خضر کو حویلی کے اندر آتا دیکھ کر اس کی سانس اٹک سی گئ وہ فوراً اندر اپنے کمرے کی طرف بھاگی اسکی دھڑکن بڑھ گئی تھی
"یا اللہ خضر آگیا مجھے انکار کرنے وہ یہاں تک آگیا اللہ آج ہی کیوں آج میری سالگرہ والےدن وہ مجھے موت کی خبر سنائے گا۔"وہ گھبرائی ہوئی کمرے میں چکر کاٹنے لگی وہ پریشان تھی کہ کیا کرے گی کیونکہ خضر تو یہاں پہنچ چکا تھا اور وہ اس کے آنے کا مقصد بھی جانتی تھی آخر تھک کر وہ بیڈ پر بیٹھ گئ ڈوپٹہ سر سے ڈھلک کر کندھے پر آگیا تھا اس نے گردن موڑ کر ڈائیں طرف دیکھا سامنے آئینے میں اس کا عکس واضح ہورہا تھا بلاشبہ وہ پیاری تھی ہیزل گرین آنکھیں جو کاجل کے بعد اور حسین لگتی تھی گورا رنگ اپنی حالت دیکھ کر اسے خود پر ہنسی آئی اس نے اپنے سر پر ہاتھ مارا
"کیا بنے کا صبوحی تیرا کیا ضرورت تھی خضر کو بولنے کی کہ خود آکر منع کرے ہائے اللہ اب کیا ہوگا"وہ پھر سر پکڑ کر بیٹھ گئ شام ہونے کو آئی تو دروازے پر دستک ہوئی افضل صاحب کمرے میں آئے تو وہ سیدھی ہوئی "بابا آپ؟"وہ اس کے ساتھ آکر بیٹھے
"صبوحی آج کا دن بہت ہی اچھا ہے کیونکہ آج خاور یہاں پر موجود ہے میں چاہتا ہوں کہ آج کے دن خاور سے بات کرکے تمہاری منگنی بھی طے کر دوں"
"نہیں بابا" صبوحی گھبراہٹ میں ان کا ہاتھ پکڑ کر بولی وہ چونکے "بابا ابھی نہیں ابھی تو وہ لوگ آئے ہیں اور آج ہی آپ بات کریں گے. " افضل صاحب نے نرمی سے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ پر رکھا
"بیٹا تمہاری سالگرہ سے بڑھ کر اور کوئی خوشی کا دن ہوہی نہیں سکتا اور خاور بھی بہت خوش ہوگا "
"بابا آج نہیں پلیز "ص وحی نے لب کچلتے ہوئے کہا
"اچھا اچھا تم پریشان نا ہو نہیں کہتا کچھ "افضل صاحب نے بیٹی کا مان رکھا
"تھینک یو بابا "
"خوش رہو میری بچی"وہ اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر کھڑے ہوگئے
"بابا کل رات کے لیے بھی تھینک یو آپ دنیا کے سب سے اچھے بابا ہو"وہ اٹھ کر ان کے گلے لگ گئ رات کو حویلی کے لوگوں نے مل کر باہر گارڈن میں صبوحی کو سرپرائز دیا تھا اور اس کی برتھ ڈے سلیبڑیٹ کی تھی
"پاگل کہی کی باپ بھلا کوئی تھینک یو کہتا ہے میں تو اپنی گڑیا کے چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ دیکھنا چاہتا ہوں اب نیچے آجاؤ تمہاری امی کھانا لگوا رہی ہیں"افضل صاحب نے اسے کہا
"جی ابھی آتی ہوں "ان کے جاتے ہی اس نے فوراً سے کپڑے نکالے اور تیار ہونے چلی گئ
**********************
سب لاؤنج میں بیٹھے باتوں میں مصروف تھے صبوحی آرام سے سیڑھیاں اتررہی تھی نظریں جس کو ڈھونڈ رہی تھی وہ وہاں نہیں تھا اس نے شکر کیا کیوں کہ ابھی وہ خضر کے سامنے نہیں آنا چاہتی تھی
"ادھر آؤ میری بیٹی کیسی ہے " خاور صاحب نے اسے اپنے پاس بٹھایا
"میں ٹھیک ہوں آپ بتائیں چچا جان کیسے ہیں اسد کیسا ہے وہ نہیں آیا"صبوحی نے خوش دلی سے کہا
"نہیں اس کو کام تھا لیکن وہ آئے گا "
"بھائی صاحب میں اپنی بیٹی کی سالگرہ والے دن اسے اس کی زندگی کا سب سے بہترین تحفہ دینا چاہتا ہوں میں چاہتا ہوں کہ آج صبوحی کی منگنی کردی جائے"صبوحی نے افضل صاحب کو دیکھا افضل صاحب اس کی بات سمجھ گئے تھے
" خاور آج نہیں میں اپنی بیٹی کی منگنی دھوم دھام سے کرنا چاہتا ہوں آج کے دن ایسی کوئی دوسری خوشی نہیں اور دوسرا اسد بھی نہیں ہے اسد کی غیر موجودگی میں کیا خضر منگنی کرنا چاہے گا"صبوحی نے مسکرا کر اپنے باپ کو دیکھا
"آؤ خضر کرلیا آرام سر درد ٹھیک ہوا"حلیمہ بیگم بولی صبوحی کی آنکھیں پھیلی خضر اس کے صوفے کے پیچھے کھڑا تھا
"جی تائی اب ٹھیک ہوں "اس سے پہلے وہ گھوم کر سامنے آتا صوحی اٹھ کوکچن کی جانب بڑھ گئ خضر کی نظر اس کے آنچل پر پڑی
"آؤ بیٹھو" افضل صاحب نے اسے بلایا تو وہ سر ہلاکر بیٹھ گیا
************************
اسد جیسے ہی ایئر پورٹ سے باہر نکل سامنے اسے ثناء کا مسکراتا چہرہ نظر آیا ۔ گوری رنگت کالے شولڈر کٹ بال میک اپ سے مزین سلیو لیس ٹاپ اور جینز پہنے وہ اسے ہاتھ کے اشارے سے اسے اپنی طرف پلاتی ہوئی اسے اچھی لگ رہی تھی۔
کیسے ہو اسد؟ ثناء نے ایک ادا سے بلوں کو جھٹکا دیکر کہا۔
ٹھیک ہوں تم سنائو؟" اسد نے مسکرا کر کہا
"میں اب ٹھیک ہوں تمہیں دیکھ لیا نا۔ "ثناء نے بےقراری سے کہا اسد کو اس سے اسی بولڈ جواب کی امید تھی۔
"گڈٹو نو ثناء اب بتائو سب سے اچھا ہوٹل کونسا ہے؟" اسد نے اس کے ساتھ چلتے پوچھا
"میرے ہوتے تم ہوٹل میں رہو گے کیا"؟
وہ دونوں ایئر پورٹ سے باہر نکلے تھے۔
"میں سمجھا نہیں"۔اسد نے ناسمجھی سے اسے دیکھا
"تم میرے گھر پررہنا میرےڈیڈ آئوٹ اف ٹائون ہہں اور مام کو میں منا چکی ہوں۔" اسکی بات سنکر اسد حیران ہوا۔ دانین اسکی پرںی دوست تھی لیکن کبھی اس نے اسے گھر نہیں بلایا جبکہ اسکا بھائی بھی اسد کو جانتا تھا اور والد بھی ۔
"کیا ہوا کن سوچوں میں گم۔ہوگئے"۔ثناء نے اسے دیکھتے ہوئے کہا جو بہت گہری سوچ میں تھآ۔
"آآں کہہں نہیں لیکن میں ہوٹل میں رکوں گا "" اسد نے حتمی لہجے میں کہا
"کیوں تم میرےمہمان ہو میرے گھر رکنے میں کیا قباحت ہے:"ثناء اسکی بات پر چڑ سی گئی
"کوئی قباحت نہیں ہے جب تمہارے ڈیڈ ہوں گے تب آئوں گا ابھی مجھے کسی اچھے ہوٹل تک لے چلو۔"
ثناء کا موڈ بگڑ چکا تھا لیکن وہ اسد کا کچھ دن کا ساتھ بھی نہیں کھونا چاہتی تھی اسلئے مان گئی اسد نے بھی سکھ کاسانس لیا اسکے بعد اگلے دن اسکا آڈیشن تھآ۔ وہ پریکٹس کر کے سوگیا اگلا دن اسکی زندگی کے لئے بہت اہم۔تھا۔
☆♡☆♡☆♡☆♡♡☆♡☆♡☆♡☆♡
شام کے ساءے گہرے ہونے لگے اور سعدیہ بیگم کی طبعیت اب کچھ بہتر ہوئی تھی انہیں اپنی فکر نہیں تھی وہ بس قنوت کے لئے پریشان تھیں صبح سے وہ گہری سوچ میں مقید تھیں آخر کار ایک نتیجے پ پہنچتے ہوئے انہوں نے اپنی الماری سے اپنا پرس نکالا قنوت کو اپنے ایک کزن کا نمبر دیا کہ انہیں کال ملائو۔
"کیا امی آپکے کزن؟ "وہ حیران تھی کیوں کہ ان پر اتنے برے حالات آئے لیکن اسکی ماں نے کبھی کسی سے مدد نہیں لی لیکن اب وہ اپنے کزن کو فون کرنے کا کہہ رہی تھیں تو چونکنا لازمی تھا۔
"کیوں میرے کوئی کزن نہیں ہو سکتے؟" سعدیہ بیگم نے نارمل سا جواب دیا
"ہو سکتے ہیں لیکن کبھی آپ نے ذکر نہیں کیا نا اسلئے کہا۔" قنوت نے فورا کہا۔
"تم نمبر ملائو قنوت بیٹا۔" سعدیہ بیگم اسکے سوالوں سے بچنے کے لئے فورا بول پڑیں
"اچھا امی ملا رہی ہوں۔" قنوت سمجھ گئی کہ ماں مزید بات نہیں کرنا چاہتی
"ہیلو "۔سامنے سے بارعب آواز سن کر قنوت ہچکچا گئی
"جی وہ میں ۔۔۔۔"
"جی کون؟" سامنے سے پوچھا گیا
جی آپ بات کریں ۔ یہ کہہ کر فون سعدیہ بیگم کو پکڑا دیا۔
"ہیلو احمد بھائی"سعدیہ بیگم نے کہا
"سعدیہ آپ"
اتنے سالوں بعد انکی آواز سن کر بھی وہ پہچان گئے تھے۔
"جی ۔"
"بھائی مجھے آپ سے ملنا ہے۔" سعدیہ بیگم نے کہ
"ہاں بلکل گھر آجائیں۔" بھائی نے فورا کہا
"نہیں بھائی طبعیت ٹھیک نہیں آپ آجائیں۔" سعدیہ بیگم کے لہجے میں ایسا تھا کہ بھائی خود کو روک مہ سکے
ٹ"ھیک ہے ایڈریس بھیجو میں ابھی آتا ہوں۔"
"جی بھائی۔"یہ کہہ کر فون رکھا اور قنوت سے کہا کہ اپنا ایڈریس بھیجو ۔
قنوت نے ان کو میسج کر کے گھر کا ایڈرس دیا لیکن وہ جانتی تھی کہ اتنے سالوں میں کوئی رشتےدار یہاں نہ بھٹکے اب امی کی بیماری کا سن کر کون آئے گا۔لیکن اسکی ساری سوچیں وہیں دم توڑ گئیں جب انکے گھر کے آگے وائٹ آلٹو آکر رکی اور اس میں سے ایک پرکشش شخصیت کے مالک باہر آئے انہوں نے قنوت کو دیکھا اور مسکرا کر گویا ہوئے ۔
"بیٹا میرا نام احمد شاہ ہے۔" قنوت حیرت کی تصویر بنی انہیں دیکھتی رہی ۔
☆◇☆◇☆◇◇☆◇☆♡☆
أنت تقرأ
میرا یہ عشق
Romanceیہ کہانی ہے دو دوستوں کی جو اچھے دوست تھے دکھ سکھ کے ساتھی تھے پھر محرم بن کر دشمن بنے ایک دوسرے کے ۔ منتشر ذہن اور رشتوں کی کہانی۔