❤#Mera_yeh_Ishq❤
By #FRM
Episode 23
☆◇☆☆♡♡☆♡☆♡☆♡☆
.
شام کے سائے پھیلنے لگے تھے ریسٹورنٹ کے ساتھ بنے گارڈن میں اریض اسد کا انتظار کررہا تھا ۔
اسد آیا مصافحے کے بعد اریض نے اسے دیکھا ۔
"کیا ہوا بھائی۔"اریض کے دیکھنے سے اسد نے پوچھا
"تمہیں پتہ ہے کیا ہوا ہے؟"اریض نے اس سے دریافت کیا
"نہیں" اسد نے سر نفی مین ہلا کر کہا
"دانی نے رو روکر تمہاری پچھلی محبتوں کے قصے سنائے ہیں قنوت کو ۔ وہ بہت زیادہ غصے میں ہے مجھے نہیں لگتا بیٹا وہ مانے گی۔" اریض اسکا ساتھ دینے کو تیار تو ہوگیا تھا کیوں کہ وہ جانتا تھا کہ دانی کی اصل خوشی اسد ہے لیکن اب اسے حالات بگڑتے نظر آرہے تھے
"مان جائے گی اریض بھائی میں اسے اس سے زیادہ جانتا ہوں آگہی نہیں اسے ابھی اپنے جذبات کی جب ہوجائے گی تب وہ شدت کی محبت کرےگی مجھ سے اور دیکھنا آپ مجھ سے بھی زیادہ ۔" اسد نے مسکراتے ہوئے ایک جذب سے کہا "
اللہ خیر کرے میری بہن کو اتنا غصے میں پہلی بار دیکھا میں نے۔" اریض نے اسے حقیقت بتائی
"میں تو جھیلتا رہا ہوں بس اس کے اگلے بیس منٹ اس سے دور رہو اور اکیسویں منٹ اسکے سامنے جائو وہ مان جاتی ہے۔" اسد نے چٹکی بجاتے ہوئے بات مکمل کی
"میری جان وہ باتیں الگ تھیں یہ بات الگ نوعیت کی ہے اسلئے پلیز اوور کانفیڈنٹ نہ ہو۔"ازیض نے اسے سمجھایا
"یار ایک ہفتہ لگایا میں نے آپ کومنانے میں اب آپ اکر اپنی بہن کی سائیڈ لے رہے ہو ۔"اسد نے نروٹھے پن سے کہا
"اسد میں تو کہہ رہا ہوں رک جائیں۔"اریض نے اسکو سمجھانا چاہا
"کیا مطلب رک جائوں۔"اسد نے بھنویں اچکائی
"دیکھو جب۔ ندی میں باڑ آتی ہے تو اس میں کودتے نہیں باڑ کے اترنے کا تھمنے کا انتظار کرتے ہیں۔" ارریض اسے سمجھانا چاہ رہا تھا
اریض کی بت سن کراسد وہیں بیٹھ گیا ۔
یہ کیا کر رہے ؟"اریض نے اسے بیٹھتے دیکھا تو پوچھا
"باڑ کے اترنے کا انتظار کررہا۔" اسد نے برجستہ کہا
"چلو اب اٹھو گھر جائو میں اپ ڈیٹ دیتا رہوں گا۔" اریض نے ہنستے ہوئے اسے کھڑا کیا
"اوکے بھائی "۔ دونوں گلے ملے اور گھر کی طرف چل دئے۔
ایک ہفتے سے اوپر کا وقت گزر چکا تھا دانین کا غصہ کم ہی نہیں ہوا تھا ۔اسد گھر میں بھی چپ چپ اور پریشان گھومتا رہا خضر اور صبوحی اپنے ہنی مون پر گئے ہوئے تھے اور اسد کسی سے بات شیئر نہین کرتا تھا سوائے دانین کے جو اس وقت اسکی دشمن بنی بیٹھی تھی تہمینہ بیگم نے اسے دیکھا تو خاور صاحب سے ذکر کیا وہ بھی پریشان ہوگئے کہ یہ کیا ہوگیا ہے اسد کو ۔اگلی صبح وہ اس سے بات کرنے کے لئے اس کے پاس گئے جو ٹیرس پر کھڑا سودج کو گھور رہا تھا ۔
"کیا بات ہے جناب سن باتھ تو سنا تھا آپ تو سن کو ڈرا رہے ہیں گھور گھور کر۔" خور صاحب نے دوستانہ لہجے میں کہا
"ارے نہیں ڈیڈ ایسی بات نہیں۔"اسد نے پھیکی مسکان سے کہا
" تو پھر کیا بات ہے ؟" خاور صاحب نے اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا
"کچھ خاص نہیں۔" اسد نے اب بھی جواب نہیں دیا
"دانین سے بات ہوئی؟"خاور صاحب نے خود بات چھیڑدی
"وہ بات ہی کہاں کر رہی ہے ڈیڈ بس غصہ کئے جارہی ہے "۔ اسد نے دکھ سے کہا
"ارے تو میں بات کرتا ہوں نا ۔" خاور صاحب نے کہا
"نہیں ڈیڈ وہ اور بگڑ جائے گی ۔" اسد نے جلدی سے کہا
"میں اسے اس گھر میں لے آتا ہوں دیکھتا ہوں پھر کیسے میرے بیٹے کو تنگ کرتی ہے۔" خاور صاحب نے ذومعنی لہجے میں کہا
"مطلب؟" اسد نے نا سمجھی سے انہیں دیکھ کر پوچھا
"مطلب تم دونوں کی شادی کر دیتے۔" خاور صاحب نے جھک کر اسکے کان میں کہا
ا"یسا ہو سکتا ڈیڈ؟"اسد نے بے یقینی سے کہا
"آف کورس میری جان تمہیں ایسے تڑپتے بکھرتے میں نہیں دیکھ سکتا میں کل جاتا ہوں ان کے گھر ۔" خاور صاحب بیٹے کی آنکھوں میں چمک دیکھ کر بولے
"اوہ تھینکس ڈیڈ لیکن بھائی کو آنے دیں ۔" اسد نے کہا
"اسے وقت لگے گا " خاور صاحب نے کہا ۔
"نہیں ڈیڈ وہ جلدی آئیں گے۔" اسد نے انہیں ہقین دلاتے کہا
"ٹھیک ہے اس کے آنے تک کا انتظار کرلیتا ہوں۔" خاور صاحب نے کہا
اسد کے بے جین دل کو قرار نہیں آیا لیکن ایک امید جگ گئی کہ اب کچھ اچھا ہوجائے گا پچھلے دو ہفتوں سے وہ شدید ڈپریسڈ تھا.
☆♡☆♡☆♡☆♡☆♡☆
صبح اپنے ساتھ اداسیاں لے کر آئی خضر کی کال آئی وہ دونوں پاکستان ٹور پر گئے ہوئے تھے ۔
"ہیلو اسد " خضر نے کہا
"السلام علیکم بھائی" اسد نے کہا تو خضر چونکا اسکی آواز میں جوش نہیں تھا جو ہوا کرتا تھا
"وعلیکم۔السلام ۔ کیسے ہو اسد؟" خضر نے فکرمند لہجے میں کہا
"کیسا ہوسکتا ہوں؟" اسد نے افسردگی سے کہا
"کیا ہوا ؟" خضر کو بےچینی ہوئی
"کہہ دیا سب اسے۔" اسد نے کہا
"پھر؟؟؟؟" خضر نے عجلت میں پوچھا
"پھر یہ کہ واٹس ایپ پر مسج سین نہیں ہورہے کال اٹینڈ نہیں ہورہی یونی آ نہیں رہی ۔" اسد نے دکھ سے کہا تو خضر کا دل کٹ سا گیا
"اوہ کچھ گھمبیر مسئلہ ہوگیا " خضر نے کہ
"بھائی وہ بات نہیں سن رہی کیا کروں؟" اسد نے بے بسی سے کہا
"میں کچھ کروں؟" خضر نے خدمات پہش کیں
"کیا کروگے مجھے ضرورت ہے تو خود ابروڈ بیٹھے ہو۔" اسد نے منہ بنا کر کہا
"ہاہاہا اچھا بابا کوشش کرتا ہوں جلدی آنے کی ۔" خضر کو اسکے کہنے پر ہنسی آگئی
"بس بس زیادہ بولو مت پھر ساری زندگی طعنہ دوگے کہ میں نے آپکا ہنی مون خراب کیا ۔" اسد نے اب بھی جل کر کہا
"ارے ہار نہیں بولوں گا بس دیکھنا کتنی جلدی آتا ہوں۔" خضر نے صبوحی کو دیکھتے ہوئے کہا
" میں کل اسلام آباد جارہا ہوں بھائی سنگنگ کامپیڈیشن کے لئے "اسد نے اسے مطلع کیا
" ٹھیک پھر میں تمہیں اسلام آباد میں ملوں گا پرسوں"خضر نے کہا تو صبوحی نے بھی ہاں میں سر ہلایا
" بہلا رہے ہیں"اسد نے پھیکی ہنسی ہنس کر کہا
" دیکھ لینا"خض نے یقین سے کہا
" اوکے اللہ حافظ"اسد نے مسکرا کر فون رکھ دیا
اسد نے فون بند کیا۔ اور اسکرین کو دیکھا وہ دشمں جان مسکرا رہی تھی۔
"کیوں اتنی ظالم۔بن گئی دانی کیوں میری چاہت میری محبت نظر نہیں آرہی۔"
☆◇☆♡☆♡☆♡☆♡☆♡☆♡☆♡☆
شام۔کے سائے پھیلے مغرب کی نماز پڑھ کر قنوت جیسے ہی کمرے سے باہر نکلی سعدیہ بیگم اور ینب شاہ بیٹھی تھیں ۔
"پتہ نہیں کیا ہوگیا ہے؟" سعدیہ بیگم کی بات سن کر قنوت انکے پاس بیٹھتے ہوئے پوچھنے لگی
کسے کیا ہوا امی؟
"دانین کو کیسی بجھی بجھی سی ہے دو ہفتے پہلے یونی گئی تھی اب جاتی بھی نہیں اور گھر سے باہر بھی نہیں جارہی نہ بات کرتی نہ کچھ فون بھی بند پڑا ہے اسکا." زینب شاہ نے اسے بتایا جبکہ قنست سب جانتی تھی
:اچھا "۔ قنوت نے سر ہلانے پر اکتفا کیا ۔ اسی وقت دانین کچن سے اپنے کمرے میں جانے لگی
"ارے دانین بیٹا کبھی ہمارے پاس بھی بیٹھ جایا کرو "۔زینب شاہ نے اسے بلایا
"جی مما"۔ دانین زینب شاہ کے پاس آکر بیٹھی وہ سب باتیں کر رہی تھیں تب خاور صاحب فیملی کے ساتھ وہاں آئے۔
"السلام علیکم ۔" زینب شاہ نے سلام کیا
"وعلیکم السلام احمد صاحب ہیں گھر پر۔" خاور صاحب نے پوچھا
"جی میں آگیا "۔ احمد صاحب نے پیچھے سے آتے ہوئے کہا تہمینہ بیگم سب سے مل کر دانین کے پاس آئیں دانین ایک دم گھبرا گئی تھی انکے آنے سے لیکن تہمینہ بیگم اتنے پیار سے ملیں کہ وہ کچھ بول نہ سکی ۔ سب کچھ نارمل تھا لیکن دانین پریشان تھی وہ اسد کو جانتی تھی اسنے کہا تھا تو وہ پورا کرے گا اور دانین خود سے کوئی بات کر بھی نہیں سکتی تہمینہ بیگم اور صبوحی انکے ساتھ بیٹھی تھیں۔ خاور صاحب احمد صاحب خضر اور اریض کے ساتھ الگ بیٹھے تھے ۔ بات چیت کے دوران انہوں نے بتایا کہ اسد پانچ دن سے اسلام آباد میں ہے اسد کے نام پر دانین چونکی ضرور تھی کوئی بھی ایسی بات دانین کو محسوس نہ ہوئی جیسی اسد نے کہی تھی لیکن جب وہ صبوحی کو اپنا گھر دکھانے گئی تب خاور صاحب نے احمد صاحب سے دانین کا رشتہ مانگا کیوںکہ خضر بتا چکا تھا کہ دانین کے غصے کا اسلئے وہ کوئی بھی رسک نہیں لینا چاہتے تھے ۔
" احمد بھائی آپ سے اس دن کہا تھا کہ خاص ملاقات کے لئے حاضر ہوجاوںگا آج وہی خاص ملاقات ہے میں آپ سے دانین کا ہاتھ مانگنا چاہتا ہوں اپنے بیٹے اسد کے لئے ۔" خاور صاحب نے سب خواتین اور حضرات کے سامنے کہا
سب کے چہرے کھل اٹھے تھے حسنہ بیگم نے خوشی سے احمد صاحب کو دیکھا ۔
" جی خاور بھائی مجھے خوشی ہوئی کہ آپ نے دانین کو اپنی بیٹی بنانے کا سوچا لیکن میں دانین سے پوچھے بغیر کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہتا ۔ " احمد صاحب جانتے تھے اور انہیں کوئی اعتراض بھی نہیں تھا لیکن وہ دانین سے پوچھنا چاہتے تھے
"بلکل آپ پوچھئے اس سے یہ اسکا حق ہے لیکن آپ لوگوں کو تو اعتراض نہیں نا "خاور صاحب نے ان سے پوچھا
" نہیں نہیں خاور بھائی ہم سب تو بہت خوش ہیں اسد بہت اچھا لڑکا ہے وہ ہماری بیٹی کو خوش رکھے گا "احمد صاحب نے کہا
" تو پھر آپ دانین سے پوچھ کر ہمیں بتادیجئے گا"کاور صاحب نے کہا
" بلکل خاور بھائی"
دانین صبوحی اور قنوت کے ساتھ جب واپس آئی تو یہ۔لوگ جانے کے لئے کھڑے ہوگئے جاتے جاتے خاور صاحب نے دانین کے سر پر ہاتھ رکھ کر دعا دی اور یہ لوگ اپنے گھر واپس آگئے.۔
☆◇☆♡☆♡☆♡☆♡☆♡♡☆
أنت تقرأ
میرا یہ عشق
Romanceیہ کہانی ہے دو دوستوں کی جو اچھے دوست تھے دکھ سکھ کے ساتھی تھے پھر محرم بن کر دشمن بنے ایک دوسرے کے ۔ منتشر ذہن اور رشتوں کی کہانی۔