Mera ye ishq episode 3

82 6 0
                                    

❤Mera yeh Ishq❤
By FRM
Episode 3
☆◇☆♡☆◇☆♡♡☆♡☆♡☆♡☆
صبوحی نے تعلیم سے فارغ ہوکر فرصت کے لمحات میں گائوں کی عورتوں کو اکٹھا کر کے ایک چھوٹی فیکٹری لگائی اور ایک سال میں اس فیکٹری نے اپنا سکہ جمالیا تھا وہ لوگ کپڑے سلائی کڑھائی کر کے بوتیک کو بھیجا کرتے تھے اس طرح لوگوں کو ہاتھ کی کڑھائی پسند آنے لگی اور اسطرح ایک سال میں علم و ہنر کا نام بوتیک میں پہچانا جانے لگا۔ صبوحی ایک سنجیدہ مزاج لڑکی ہے جتنی وہ خود خوبصورت تھی اس سے بھی زیادہ اسکی سیرت خوبصورت تھئ ۔ گوری دودھیا رنگت اس پر ہیزل گرین آنکھیں لمبے سنہری بال کھڑی ناک اور ہونٹوں کے پاس موجود تل جو اسکی خوبصورتی میں چار چاند لگا دیتا تھا۔ اسے دیکھ کر گڑیا کا گمان ہوتا تھا ۔
صبوحی اپنی بہن کے ساتھ گھر سے فیکٹری جانے کے کئے نکلی دماغ ابھی تک خضر کی آواز میں اٹکا ہواتھا اور تصور میں خضر کی شبیہہ تھی کتنی بار اس کی تصویر اخباروں میں ٹی وی پر دیکھ چکی تھئ خضر نے ابھی تک صبوحی کو نہیں دیکھا تھا۔
"تو کیا سوچا آپی"صباحت اسے مسکراتے دیکھ پوچھ بیٹھی
"کس بارے میں"صبوحی نے اسکی طرف دیکھتے ہوئے کہا
"اوہ ہو اسی بارے میں جس بارے میں صبح سے سوچ سوچ کر شرمایا اور مسکرایا جارہا یے"صباحت نے شرارت سے کہا
"تم مجھ پر نظر رکھے ہوئی ہو "صبوحی نے رک کر اسے گھورا
"ہممم مطلب آپ واقعی میں ان کے خیالوں میں گم ہیں"صباحت نے اسے پھر چھیڑا
"کچھ بھی نا بولا کرو تم اچھا"اس نے مصنوعی خفگی سے کہا
"پھر کیا بولوں بتائو نا " صباحت اسے تنگ کر رہی تھی
" تم۔بتائو کیا کروں انہوں نے فون کرنے کا کہا ہے لیکن سمجھ نہیں آرہی کیا کروں؟"صبوحی نے لاچاری سے کہا
"معاملہ تو سنگین ہے "صباحت اب بھی اسے چھیڑ رہی تھی
"تم میری ٹانگ کھینچنا چھوڑو اور بتائو میں کیا کہوں اور وہ کیا کہیں گے"صبوحی نے اسے ایک چپت لگائی اور کہا
" وہ پتہ ہیے کیا کہیں گے"صباحت نے اسکی طرف جھک کر کہا
"کیا"صبوحی نے اسے رازداری سے دیکھ ک کہا
" وہ کہیں گے صبوحی جب سے تمہیں دیکھا ہے میرا خود پر کوئی کنٹرول نہیں یہ دل تم سے ملنے کو دل بےقرار ہے جلدی شادی ہو اور ہم ایک ہوجائیں "اس نے ایکٹنگ کرتے ہوئے کیا
"لیکن انہوں نے تو مجھے دیکھا ہوا بھی نہیں ہے" صبوحی پر اسکی ایکٹنگ کا کوئی اثر نہ ہوا
" اچھا تو پھر بنا دیکھے والی محبت ہوگئی ہوگی انہہں تبھی تو کہا کہ فون کرنا مجھے اور انتظار کا بھی کہا ہائے سو رومینٹک آپی"صباحت خیالی دنیا میں رہنے والی لڑکی تھی
"اچھا کچھ بھی مت بولو اور چلو آج فون کریں گے دیکھو کیا کہتے ہیں"صبوحی نے اسکو دیکھ کر کہا
"افففف یہ رات بھی ظالم کتنی دور ہے"صباحت نے سر پر ہاتھ رکھ کر دہائی دی
"پٹ جانا ہے تم نے اب"صبوحی نے غصے سے کہا
"اف اچھا نا غصہ نہ ہوں چلیں"صباحت نے مزید تنگ کرنے کا فیصلہ ترک کردیا
دونوں بہنیں فیکٹری پہنچ چکی تھئ۔♤☆♤☆♤☆♤☆♤♤☆
شام کے سائے پھیل گئے تھے دانین گھر میں داخل ہوئی تو سامنے اسکی دادی تسبیح پر ورد کرتی ہوئی نظر آئیں وہ ان کو دیکھ کر مسکرائی۔کیوں کہ ایک وہیں تھی جو اسکے دل کی ہر بات جان جایا کرتی تھیں۔
"السلام علیکم دادی ۔"دانین نے دادی کی گود میں سر رکھا
" وعلیکم السلام دادی کی جان"دادی نے اس پر پھونک ماری اور جواب دیا
کیسی ہیں؟"دانین نے ان کی گود میں سر رکھے رکھے پوچھا
"ٹھیک ہوں ایک دم ۔ اچھا بات سنو جلدی سے جاکر فریش ہوجائو تمہاری ممانی آج ڈنر پر آرہی ہیں"دادی نے کہا تو دانین جھٹ سے اٹھ کر بیٹھ گئی
"کیوں اچانک"؟وہ پوچھے بغیر نہ رہ سکی
"ارے بیٹا مغیث آیا ہوا ہے نا اسلئے کل کو اسکے ننھیال والے کہیں گے مغیث کو آئے 4 دن ہوگئے لیکن بھوبھونے ابھی تک دعوت نہیں کی اسکی"۔دادی نے جواب دیا
"اچھا اچھا اسلئے"دانین نے سر ہلاتے ہوئے پر سوچ انداز میں کہا
" تو تم کیا سمجھیں"دادی نے شرارت سے اپنی لاڈلی پوتی کو دیکھا
"میں کیا سمجھوں گی دادی "دانین نے پھیکے انداز میں کہا
" سب جانتی ہوں میں "دادی نے مسکرا کر کہا
"ممانی تو نہیں جانتی نا "دانین نے ابھی بھی افسردگی سے کہا
"وہ بھی جانتی ہوگی بس انجان بنتی ہے "دادی دانین کا اترا چہرہ کہاں دیکھ سکتی تھیں
" دادی یہ ممکن تو ہوگا نا"دانین نے دادی کے ہاتھ پکڑ کر کہا
" بلکل ممکن ہے بس مشکل ہے تھوڑا اور مغیث اچھا سلجھا ہوا لڑکا یے "۔دادی نے دانین کو دیکھ کر کہا
" امی سے بات کریں گی آپ؟دانین نے دادی کو امید سے دیکھتے ہوئے کہا
" نہیں پہلے تمہاری ممانی سے بات کروں اسکے کیا ارادے ہیں پھر تمہاری ماں کو کہوں نا "دادی نے جواب دیا
"اوہ دادی آپ کتنی اچھی ہیں" اس نے انہیں بھینچ کر گلے لگا لیا۔
☆♤☆♤○♤○♤▪♤▪♤▪♤▪♤▪♤▪
شام ہوئی تو پرندوں نے اپنے گھونسلوں کی طرف رخ کیا ہی تھا کہ ہوا میں سرسراہٹ سی محسوس ہوئی تب ایک زناٹے دار آواز سے ایک ریڈ اسپورٹس کار شاہ پیلس میں داخل ہوئی ۔ اسپورٹس کار کا دروازہ اوپر کر کے نکلنے والے نے پہلے مرر میں اپنے بالوں کر ٹھیک کیا اور اپنا یک قدم باہر نکالا جو قیمتی جوتوں میں مقید تھا پھر دوسرا قدم اٹھا کر ہاتھ میں بکے لئے وہ باہر نکلا۔
چھ فٹ لمبا قد، گوری رنگت، شہد رنگ بالوں اور برائوں آنکھوں پر لانبی پلکیں جو اسکی خوبصورتی کر بڑھایا کرتی تھئ جس کے لئے اسکی بہن اسے چھیڑا کرتی تھی تمہاری پلکیں مقابل کو اپنی طرف کھینچتی ہیں اسی لئے اتنی لمبی ہیں۔ اور چہرے پر موجود مسکان جو ہمہ وقت ہونٹوں پر ڈیرا ڈالے رکھتی تھی۔ وہ غیر سنجیدہ طبعیت کا مالک تھا لیکن جب کچھ ٹھان لیتا تو کر کے ہی دم۔لیتا یہی خوبی اسے دوسروں سے ممتاز رکھتی تھی ۔ نوابوں کی آن محفلوں کی جان اور شاہ پیلس کا جوان اریض شاہ ۔ دانین شاہ کا اکلوتا بھائی احمد شاہ کا چشم و چراغ جو خود کے بارے میں کہا کرتا تھا کہ
" ہم وہ چراغ ہیں جو آندھیوں میں بھی جلا کرتے ہیں "
"وہ اسلئے کہ کراچی میں آندھیاں آتی ہی نہیں "دانین کی اور اسکی نوک جھونک ایسے ہی چلا کرتی تھی۔اس وقت وہ دادی کی سخت ہدایت کے پیش نظر پھولوں کا بکے لیکر آیا تھا کیوں کہ آج ان کے ماموں کی فیملی ڈنر پر مدعو تھی ۔
☆♡☆♡☆♡☆♡☆♡☆♡☆♡☆♡♡☆
وہ ایک گنجان آباد علاقہ تھا وہاں موجود گھر کم سے کم تین منزلہ تھے ان میں ایک اپارٹمنٹ کے دوسرے فلور پر ایک فیملی رہتی تھی جن کے سربراہ کا نام سعید تھا جو ایک سرکاری ملازم تھے لیکن وہ کچھ ہی عرصہ قبل دل کی بیماری سے وفات پاچکے تھے اب اس گھر میں انکی بیوہ سعدیہ اور بیٹی قنوت رہا کرتی تھی جن کا گزر بسر انکی پینشن اور قنوت کے ہوم ٹیوشنز سے اچھے سے ہوجاتا تھا ۔ قنوت نازک سراپے کی مالک ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی تیکھے مزاج کی لڑکی تھی غصہ اسکی ناک پر دھرا ہی رہتا تھا اور جب زیادہ غصہ ہوتی تو امیروں پر غصہ نکالا کرتی۔
"قن اٹھ جا بیٹا 8 بج چکے ہیں"اس نے چادر منہ تک اوڑھ لی ۔
پانچ منٹ بمشکل گزرے تھے کہ سعدیہ صاحبہ پھر سے اسے پکارنے لگیں۔
"بیٹا کیا ہوا ہے آج اٹھنے میں اتنی سستی کیوں کر رہی ہو"۔
اس نے اب منہ پر تکیہ رکھ کر آواز روکنے کی کوشش کی ۔
"قنوت میں بتا رہی ہوں اب اٹھ جائو"۔
"اففف امی اٹھا تو ایسے رہی ہیں جیسے میرے اٹھنے پر کوئی ملازم میرے لئے بیڈ ٹی لئے کھڑا ہوگا۔ ہنہہہہ۔" ہر روز کی طرح وہ آج بھی شروع تھی۔
"ہاہاہا ابھی تو ایسا کچھ بھی نہیں ہے فی الحال آپ جنابہ محترمہ اگر اٹھ جائیں اور آپکی طبعیت پر گراں نہ گزرے تو منہ دھو کر سامنے والوں کے ٹنکے سے پانی بھر لائو "انہوں نے اسی کے انداز میں کہا اسکا موڈ بھی بہتر تھا۔
"کیون کیوں کیوں؟"قنوت کا پسندیدہ سوال تھا یہ کیوں
"وہ اسلئے شہزادی صاحبہ کہ آج پی ایم ٹی میں دھماکہ ہوا تھا تو بجلی صبح سے غائب ہے۔" ماں نے باقاعدہ نیوزپڑھی تو قنوت نے ناک پھلایا منہ دھو کر وہ پانی کے کین لئے دروازے تک آئی۔
"میں آیک آپکا ایک اپنا بھروں گی بس"۔قنوت نے وارننگ والے انداز میں کہا
"جی جی بلکل"سعدیہ بیگم نے اسکی تائید کی
وہ گھر سے باہر نکلی پیروں میں چپل اڑسی اور بڑبڑاتی باہر نکلی۔
ہننہہ روز اس شازیہ آنٹی کی شکل دیکھو صبح صبح ۔ اور زبردستی کا مسکرائو۔ دل تو کرتا ہے اسکے گھر کی ساری چیزیں توڑ دوں
اور ایک کراچی ہے روشنی کا شہر جہاں دن مین 24 گھنٹوں میں سے 17 گھنٹے بجلی غائب پانی تو ایسا ڈر ڈر کر آتا ہے جیسے زیادہ آگیا تو سزائے موت مل جائے گی ۔ہنہہہ ۔ پانی بھر کر واپس گھر لوٹتے وقت بھی اسکی زبان چل رہی تھی ۔
ایک ہمارا گھر ہے ہمارے اچھے وقتوں کی نشانی میرے بابا جانی کی نشانی بس اس سے زیادہ اس گھر میں کچھ خاص نہیں۔"وہ منہ بناتی گھر میں داخل ہوئی فریش ہوکر جینز اور کرتی پہنی بالوں کو جوڑے کی شکل میں باندھا ہونٹون پر گلوز لگایا اسٹالر لےکر وہ چھوٹے سے ڈائننگ ٹیبل پر آئی جس پر چار کرسیاں رکھی ہوئی تھیں سامنے کچن تھا اسکے ساتھ دو کمرے تھے ایک سعدیہ صاحبہ کا اور ایک قنوت کا۔ چھوٹا سا صحن تھا جس میں فریج رکھا ہوا تھا اسی کو ٹی وی لائونج بنایا ہوا تھا جہاں پر ہفتے کی رات کو دونوں ماں بیٹی مل کر ٹی وی دیکھا کرتی تھیں۔ کسی شہزادی سے کم اسکی پرورش نہیں کی گئی تھی اسلئے اسکے نخرے بھی اتنے تھے سعید صاحب جب تک حیات تھے انکو کسی قسم کی پریشانی نہیں ہونے دی انکے مرنے پر سگے رشتےداروں نے منہ پھیر لیا اور دونوں ماں بیٹی کو بے سہارا کردیا کبھی کسی شادی وغیرہ میں بھولے بھٹکے دعوت مل جایا کرتی تھی جس میں جانے سے قنوت تو سختی سے منع کردیتی تھی۔
"آج میں نے اپنی بیٹی کا من پسند ناشتہ بنایا ہے"
"ارے واہ امی مزے مزے کے پراٹھے اور چٹنی کیا بات ہے"
اس نے جلدی جلدی ناشتہ کیا قنوت پرس اٹھائے گھر سے نکلی آج اسکا ایک جگہ انٹرویو تھا اور اسے ہمیشہ کی طرح امید تھی کہ اسے یہ جاب مل جائے گی۔
☆♡*♡☆♡☆♡☆♡♡☆♡☆♡☆♡☆♡
وہ بے خبر سورہا تھا تب اچانک کسی احساس کے تحت اسکی آنکھ کھلی غور کیا تو دیکھا فون پر ثناء کالنگ لکھا آرہا تھا اس نے ہینڈ فری کان میں لگاتے ہوئے کہا
"ہیلو"اس نے بیڈ کرائون سے ٹیک لگایا
"ہیلو اسد کب تک آئوگے "
"(او تیری آج تو اسلام آباد جانا تھا) ہاں ثناء آڈیشن تو پرسوں ہے نا میں کل نکلوں گا"
"اچھا میں تمہاری راہ میں پلکیں بچھائے انتظار کررہی تھی"
" اچھا" وہ بالوں میں ہاتھ پھیرتا ہوا مسکرایا ۔
"بہت بےدردی ہو تم اسد"
"سچ میں کہوں میری جان ہو تم ثناء " لگن سے کہہ کر مقابل کے دل کو اتھل پتھل کرکے وہ فون میں مسجز دیکھنے لگا( دانی کا کوئی مسج نہیں آیا پھر یہ مغیث گھر آگیا ہوگا ابھی دو دن پہلے وہ آیا تھا ) لمحے کے ہزارویں حصے میں اسکا موڈ بگڑا
"اچھا ثناء ابھی میں رکھتا یوں کل کی تیاری بھی کرنی ہے نا" اسد نے عجلت میں کہا
" مجھے کل کا انتظار رہے گا "ثناء نے اک ادا سے کہا
"مجھے بھی"اسد نے بھی لگاوٹ سے کہا
فون کاٹ کر وہ دانی کو مسج کرنے ہی لگا تھا کہ اسکا فون آگیا۔
"ہیلو"
"دانی کہاں ہو تم مسج بھی نہیں کیا گھر پہنچ کر  "اسد نے سوالات شروع کر دئے
" ایک منٹ سانس تو لے لو"دانین نے سر پر ہاتھ مارا  اس نے یونی سے واپسی پر کہا بھی تھا کہ پہنچ کر مسج کرنا وہ ایسے ہی کرتا تھا جب تک مسج نہیں آتا اسے فکررہتی
"اب بتائو "اسد نے کہا
" میں صبح یونی سے واپس آئی تو دادی نے بتایا ممانی گھر آرہی ہیں"دانین نے مسکراتے ہوئے کہا
" اوہ مطلب مغیث آرہا یے"اسد نے تیوری چڑھا کر کہا
"پوری فیملی آرہی ہے یار"دانین اسکا موڈ سمجھ کر بولی
"اسکے علاوہ بھی تمہیں کچھ یاد ہے مس دانین شاہ"اسد غصے میں اسے دانین شاہ کہا کرتا تھا
"اففف خدایا اتنی فارمل لینگویج"دانین اسکا موڈ ٹھیک کرنے کے لئے ایکٹنگ کرنے لگی
"بتابھی دو یاد ہے کہ نہیں"اسد نے منہ بنا کر کہا
" جی مجھے یاد ہے کل آپ جناب کو مجھے سی آف کرنے آنا ہے آپ نے اسلام آباد جانا ہے اپنی ساتویں نمبر والی دوست سے ملنے اور ہاں آپ کا آڈیشن بھی ہے"دانین نے دوبدو جواب دیا
"ایک کام آپ بھول گئیں میم"اسد اب بھی منہ بگاڑے ہوئے تھا
" کیا بھولی"دانین نے سوچتے ہوئے کہا
:کل ہم۔نے ساتھ میں لنچ کرنا ہے سب سے پہلے اور "اسد نے اگلا پلان بتایا
"رکو تو یہ کب طے پایا تھا کہ لنچ ساتھ کریں گے"دانین نے اسکی بات کاٹ کر کیا
"ابھی طے کیا گیا ہے اور اس میں ردوبدل کے نتائج انتہائی خطرناک ثابت ہوں گے"اسد نے گھمبیرتا سے کہا
"اوکے سر بندی آجائے گی " اسد مسکرایا اسکا غصہ ٹھنڈا ہوچکا تھا ۔
"اچھا اب میں بند کرتی بعد میں بتاتی ہوں "دانین نے فون رکھنا چاہا
"اوکے کل ملتے ہیں"اسد نے مسکرا کر کہا
"اوکے اللہ حافظ۔دانین نے کہا
"اللہ حافظ"
فون رکھ کر دانین تو تیار ہونے چلی گئی لیکن اسد کتنی دیر بالکنی میں کھڑا رہا۔
"مغیث کے آنے کے بعد میں دانین کے لئے پوزیسیو کیوں ہوجاتا ہوں جب میری خود کی کمٹمنٹ تھی اور مجھے دکھ ملا تب دانین تھی جس نے مجھے سنبھالا میری ہر نئی دوست ہر نئی ڈیٹ کے بارے میں وہ جانتی ہے مذاق اڑاتی ہے غصہ بھی کرجاتی ہے لیکن کبھی جیلس نہیں ہوتی کبھی پوزیسیو نہیں ہوتی اور میں پچھلے تین سال سے جب سے مغیث نے اسے پروپوز کیا یے مجھے پوزیسیو بنا گیا یے اسکے آتے ہہ میں چھوٹا بچہ بن جاتا ہوں جسے توجہ چاہئے ہوتی ہے اور میں اس توجہ کے لئے روڈ بھی ہوجاتا ہوں لیکن تب بھی دانین مجھے سنبھال لیتی ہے ۔
ہاہاہا ہے ڈیڑھ فٹ کی لیکن مجھ جیسے 6 فٹے بندے کو سنبھال لیتی ہے اس میں کوئی شک نہیں وہ ایک بہترین دوست ہے۔
☆♡☆♡☆♡☆♡♡☆♡☆♡☆♡☆♡
چودہویں کا چاند پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا اسکی دودھیا روشنی میں پورا گائوں نہایا ہوا تھا ۔ موسم خوشگوار تھا درخت بھی چاند کی روشنی میں سکون سے آنکھیں موندے مسکراتے محسوس ہورہے تھے دور کہیں کوئی ندی بہہ رہی تھی جسکے بہنے کی آواز ماحول کو ایک رومانوی تاثر دے رہی تھی ۔ ایسے میں حویلی کے مکیں جو جلدی سوجاتے تھے آج ان میں سے دو نفوس جاگ رہے تھے اور سب کے سوجانے کا اطمینان کرنے کر بعد وہ دونوں چھت پر چڑھیں۔
"دیکھو صبا تم یہاں پہرہ دو میں بات کرتی ہوں "صبوحی ڈر رہی تھی
"اوہو تو آپ بات کرو نا مجھ سے بات کرتے ہوئے بھی نروس لگ رہی ہو"صباحت نے اسے دلاسہ دیا
"اچھا نا دھیان رکھنا "صبوحی نے اسے کہا
صبوحی اس سے تھوڑا دور کھڑی ہوئی اس وقت وہ سفید رنگ کے شلوار قمیض میں ملبوس تھی اور سفید ڈوپٹہ سر پر پھیلایا ہوا تھا وہ چاند کی چاندنی لگ رہی تھی ۔اس نے موبائل اٹھایا اور کانپتے ہاتھوں سے صبح محفوظ کیا ہوا نمبر ڈائل کیا دوسری بیل پر فون اٹھا لیا گیا جس سے صبوحی کے لبوں پر شرمگیں مسکراہٹ بکھر گئی "اففف اتنی بے قراری" یہ اس نے دل میں کہا
"ہیلو" خضر کی آواز سنائی دی جس نے صبوحی کو سٹپٹا دیا
"ججی"صبوحی ہکلا گئی
"کون"خضر کی آواز سنائی دی
"ججی ساسسا صبوحی" حالانکہ وہ ایک بہادر لڑکی تھی لیکن جب دل کی دنیا کے مالک کی آواز دل کی دنیا میں ہلچل مچادے تو کوئی کیسے خود کو نارمل رکھے۔
( اتنا کانفیڈنٹ نہیں اسمیں فون پر ہوں اور شرماتے ہوئے اس سے بولا نہیں جارہا شادی کے بعد کیسے اسکا تعارف کروا سکوں گا) خضر سوچتا رہا۔گلا کھنکارنے کی آواز پر چونکا اور ایک لمبی سانس لی۔
" دیکھیں صبوحی میں کوئی لمبی چوڑی بات نہیں کروں گا مجھے بزنس میں اپنا نام بنانا ہے اپنی کمپنی کو آگے تک لےکر جانا ہے۔"خضر تمہید باندھ رہا تھا اور صبوحی سوچ رہی تھی کہ "کتنا شاندار اسٹائل ہے بولنے کا۔"
میں شادی نہیں کرنا چاہتا " خضر کی آواز اسکی اعصاب پر بجلی بن کر گری۔

میرا یہ عشقحيث تعيش القصص. اكتشف الآن