❤#mera_yeh_Ishq❤
By # FRM
Episode 21اگلے دن صبح ناشتے کے بعد صبوحی کی رخصتی کی گئ افضل صاحب نے اگلے دن گاوں کے کچھ لوگوں کے ساتھ ولیمہ اٹینڈ کرنے آنا تھا صبوحی ماں باپ سے گلے ملی اور باقی سب بھی اس سے ملے دانین اور قنوت کو صبا نے تحائف دئے ان دونوں کا بھی دل اپنی دوست سے بچھڑ کر اداس تھا واپسی میں سب نے خوب مزے کئے۔
وہ لوگ اسلام اباد پہنچے انکی فلائٹ دو گھنٹے لیٹ تھی اسد انہیں جلدی لے آیا تھا کیوں کہ اسد کو اسلام اباد اپنے ڈاکومینٹس جمع کروانے کی وجہ سے بھی آنا تھا اسلئے وہ سب کو ایئر پورٹ چھوڑ کر ڈاکومنٹس جمع کروانے آیا تھا اس نے ڈاکمنٹس جمع کرائے ابھی پلٹا ہی تھا کہ ثناء سامنے آگئی
" کیسے ہو اسد"ثناء نے مسکرا کر کہا
" میں ٹھیک تم یہاں کیسے؟"اسد نے بھی مسکرا کر کہا
میں فرہنڈ سے ملنے آئی تھی"ثناء نے جواب دیا جبکہ حقیقت تھی کہ وہ جانتی تھی کہ اسد کو ڈاکومنٹس جمع کروانے ہیں اسلئے وہ روز یہاں کا چکر ضرور لگاتی تھی آج اسے اسد مل گیا
" اچھا "اسد نے جواب دیا اور جانے کے لئے قدم بڑھائے
" ۔کہاں چلے" ثناء نے اسے جاتے دیکھ پوچھا
" سب ایئر پورٹ پر ہیں میں بھی وہیں جارہا"اسد نے بیزاری مگر مسکرا ک کہا
" اچھا چلو میں چھوڑ دیتی ہوں"ثناء نے فورا آفر کی
"ارے نہیں میں چلا جاوں گا"اسد نے جان چھڑاتے ہوئے کہا
" میں چھوڑ دیتی ہوں آجاؤ"ثناء آگے بڑھتے ہوئے بولی
اسد ایئرپورٹ پہنچا تو اسے باہر سے ہی بھیجنا چاہا لیکن وہ بضد تھی کہ انکل آنٹی سے ملوں گی ۔اسد اسے ساتھ لئے اندر آیا اسد کے ساتھ لڑکی کو آتا دیکھ کر صبوحی چونکی دانی نے لب سکیڑے ثناء کو دیکھا۔
"اسلام۔علیکم میں اسد کی دوست ہوں۔"وہ باری باری سب سے ملی دانین سے ہاتھ ملانا ثناء نے ضروری نہیں سمجھا وہ تصویروں میں اسے دیکھ کر جلتی تھی ابھی تو وہ اسد کے ساتھ کھڑی تھی جینز کے اوپر اسکن رنگ کی کرتی اور ساتھ ریڈ اسٹالر پہنے وہ بہت پیاری لگ رہی تھی ۔ ثناء نے نظر بچا کر اسکے پکڑے بیگ کو ٹھوکر ماری جسے اسد نے دیکھ لیا ٹھوکر لگنے سے بیگ ہلا جس سے اسکے بیگ میں رکھی انگوٹھی جو سامنے جیب میں رکھی تھی گر کر اسد کے شوز کے پاس آئی جسے اسد نے بعد میں اٹھا لیا تھا دانین نے غصے سے اسے دیکھا پھر اسد کو دیکھ کر ناک سے مکھی اڑا کر بال اڑائے اسد مسکرا کر دوسری طرف دیکھنے لگا ۔ثناء سب سے مل۔کر چلی گئی تھی ۔ خاور صاحب کو وہ لڑکی عجیب لگی انہیں تو اسد کی پسند اچھی لگی تھی نازک سی لڑکی سلیقے سے بات کرتی بڑوں کا لحاظ کرتی دانین شاہ اب انکی اولین پسند بن گئی تھی جسے اب جلد وہ اپنی بیٹی بنانے کا سوچ رہے تھے۔
خاور صاحب ان تینوں کو گھر چھوڑنے بذاتِ خود اسد کے ساتھ گئے.
"السلام علیکم۔احمد صاحب " خاور صاحب نے مصافحی کرتے ہوئے کہا
"وعلیکم السلام"احمد صاحب نے بھی مسکرا کر جواب دیا
"کیسے ہیں "خاور صاحب نے پوچھا
" ٹھیک ٹھاک اندر آئیے "احمد صاحب نے کہا
" نہیں بس بچوں کو چھوڑنے آیا تھا ماشاءاللہ سے بہت مزہ آیا اب اجازت دیں کل ملاقات ہوگی"خاور صاحب نے کہتے ہوئے اجازت مانگی
" چلیں بہتر جناب کل ملتے ہیں" دونوں نے مصافحہ کیا اسد نے بھی احمد صاحب سے مصافحہ کیا اور جاتے ہوئے دانین کو بل بتوڑی کہہ کر گیا۔
وہ سب اندر گئے سب کے ساتھ بیٹھے پھر گفٹس دکھائے اور اپنے اپنے کمروں میں جاکر سوگئے سفر کی تھکن بھی تھی ۔
اسد گھر پہنچا تو صبوحی لاؤنج میں ہی تہمینہ بیگم کے ساتھ بیٹھی تھی
" ویسے صحیح کہا ہے کسی نے جہاں دو عورتیں ملی وہاں باتیں شروع"اسد نے ان دونوں کو دیکھ کر کہا
" چل ہٹ شریر میں صبوحی کا تعارف کروا رہی تھی سب سے"تہمینہ بیگم نے کہا
" چلیں آبھی آپ کے کمرے میں چلتے ہیں "
اسد صبوحی کو اسکے کمرے میں لے آیا خضر کو آفس جانا تھا اسلئے وہ ڈائریکٹ آفس چلا گیا تھا ۔ صبوحی نے کمرے میں قدم رکھا لائٹ آف تھیں
"اندر جایئے میم۔"صبوحی اندر گئی تو اسد پیچھے سے بولا
" آبھی آپ اپنے روم کو دیکھئے میں جارہا ہوں ۔آپ کے شوہر نامدار بھی آچکے ہیں" اسد نے گاڑی رکنے کی آواز سنی تو صبوحی سے کہتا ہوا چلا گیا لائٹ آن ہوتے ہی کمرہ روشن ہوگیا کنگ سائذ بیڈ کے بلکل اوپر خضر اور صبوحی کی نکاح کی تصویر تھی سائیڈ ٹیبل کے ساتھ والی دیوار پر ان کی وہ تصویریں تھیں جو اسد نے چپکے سے بنائی تھیں صبوحی انہیں دیکھ کر مسکرا رہی تھی کہ اچانک ایک ہاتھ نے اسے اپنی طرف کھینچا۔
" کیسا لگا اپنا کمرہ"خضر نے اس سے پوچھا
" بہت خوبصورت لیکن یہ تصویرہں"صبوحی نے کہا اور تصویروں کا پوچھا
" میری زندگی کے بہترین لمحات تھے یہ اسلئے انہیں ہمیشہ اپنی نظروں کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں" صبوحی نے شرما کر اسکی آغوش میں سر چھپالیا اور خضر نے اپنی بانہیں اس کے گرد لپیٹ لی
*********************
اگلی صبح اپنے ساتھ نئے ہنگامے لائی اسد کی آنکھ کھلی تو گھر میں خوب ہلچل تھی وہ فریش ہوکر آیا تو سب ناشتے کی ٹیبل پر بیٹھے تھے اسد کو الوژن ہوا کہ دانین بھی ہے۔لیکن پھر سر جھٹکا اور ناشتہ کرنے لگا۔
" ویسے اسد آج چپ کیوں ہو"صبوحی نے پوچھا
" تھکا ہوا ہوں آبھی"اسد نے جواب دیا
" اچھا ہمیں لگا یو مس سم ون"خضر مسکراہٹ دبائے بولا
" ہائے جب بندہ شادی کرلیتا ہے نا تو اسی طرح سنگل لوگوں کا مزاق بناتا ہے۔"اسد نے خض کو جواب دیا
" میں سیریسلی مذاق نہیں اڑا رہا تم آج چپ چپ سے ہو"دل نے کہا دانی کو مس کررہا ہوں
"نہیں تو بھائی بس نئی دلہن کے سامنے یو نو بھرم مار رہا "اسد نے کہا
" او ہو نئی دلہن تمہاری رگ رگ سے واقف ہے "تہمینہ بیگم نے کیا
" ہاہاہا"اسی وقت فون بجا
رہے نہ رہے یہ جیون کبھی"
"ہاں کہو چڑیل"اسد نے مسکرا کر کہا
" اسد کے بچے مانسٹر "دانین کی دانت پیستی آواز اسکی سماعت سے ٹکرائی
" ہولڈ آن یہ صبح صبح خونخوار کیوں بنی ہو تم"اسد نے اس سے پوچھا
" یاد ہے ایئرپورٹ پر اس ثناء نے میرے بیگ کو ٹھوکر ماری تھی میری رنگ شاید وہیں گر گئی میں نے آج پہننی تھی اور یہ سب تمہاری وجہ سے ہوا ہے اب مجھے وہ رنگ چاہئے ہی چاہئے"اسد نے کہا
" اچھا لے لینا مجھ سے تم بھی نا دانی صبح ہوتی نہیں رونا شروع ہوجاتا ہے تمہارا "اسد نے مسکرا کر اسے چھیڑا صبوحی کو انکی نوک جھونک اچھی لگتی تھی وہ اسے دیکھنے لگی
" آ ہاہا یہ سب تمہاری اس سو کالڈ گرل فرینڈ کی وجہ سے ہوا ہے سمجھے تم"دانین نے کہا
" دانین شاہ"دانین نے فون رکھ دیا
اسد کا خوش مذاج لہجہ ایک دم سرد ہوا تو صبوحی کے ساتھ ساتھ سب چونک گئے وہ بہت غصے میں تھا اس نے ناشتہ بھی نہیں کیا اور کمرے میں چلا گیا اسے دانی کا ثناء کو اسکی گرل فرینڈ کہنا بہت برا لگا تھا اسکا خون کھولنے لگا خضر اس کے پاس آیا
" کیا ہوا ہے؟"خضر نے پوچھا
" بھائی جب دیکھو ایک ہی بات تمہاری جی ایف تمہاری جی ایف "اسد نے چڑ کر کہا
" اب بیٹا اس سے تم نے کبھی کچھ چھپایا نہیں ہے تو یہ سب تو ہوگا ہی"خضر نے اسکا غصہ کم کرنے کے لئے کہا
" بھائی اسکی زبان سے جیسے ہی گرل فرینڈ لا لفظ نکلتا ہے کسی کوڑے کی طرح میری روح پر پڑتا ہے۔ وہ میری فیلنگز کو سمجھتی نہیں۔"اسد نے لاچارگی سے کہا
" جیسے تمہیں ادراک ہوا اور جذبات بدل گئے اسے ادراک ہوگا اسکے بھی جذبات بدل جائیں گے۔جانتے ہو اسد کسی سے محبت کا دعویدار ہونا بہت آسان ہے۔مگر اس وعدے کو پورا کرنا ننگے پیروں آگ پر چلنے کے مترادف ہے۔آپ کو اپنی انا،اپنی کئی خواہشوں کو قربان کرنا پڑتا ہے۔اپنی ذات تک کو بھول جانا پڑتا ہے۔اور جو اتنا ظرف رکھتے ہیں۔وہ ہی کامیاب ہو پاتے ہیں۔ورنہ کہنا تو واقعی ہی بہت آسان ہوتا ہے۔"خضر نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا
" بھائی وہ میرے عشق کو سمجھے گی نا"اسد نے کسی معصوم بچے کی طرح کہا تو خضر کو اسپر پیار آگیا
" بلکل اسے احساس ہوگا تو تمہاری دیوانی بن جائے گی "خضر نے اس سے کہا
" تھینکس بھائی "اسد اسکے گلے لگ گیا
" اب ناشتہ کرریں"خضر نے اسسے کہا
" چلیں "اسد کا موڈ اب بہتر تھا
وہ دونوں ڈائننگ روم کی طرف روانہ ہوئے۔
*********************
ولیمے کا فنکشن ایک بینکوئیٹ میں رکھا گیا تھا افضل صاحب کی فیملی شام میں پہنچ چکی تھی خاور صاحب ان سب کے ساتھ جاچکے تھے خضر نے صبوحی کو پارلر سے لینا تھا گھر میں اسد تیار ہورہا تھا تب اسکا فون بجا۔
"ہیلو اسد ۔"دوسری طرف زویا تھی۔
"ہیلو ۔"اسد نے ہیلو ہی کہا
" کہاں ہو تم۔ڈارلنگ کافی وقت ہوا ہم۔ملے نہیں۔"
" زویا میں تم سے اب کوئی کانٹیکٹ نہیں رکھنا چاہتا"اسد نے کہا تو زویا چونکی
" کیوں اسد"زویا کی حیرت میں ڈوبی آواز ابھتی
" مجھے میرا ہمسفر مل گیا ہے میں شرک۔کا قائل نہیں اسلئے میرا قبلہ ایک ہے اسلئے بھول جاؤ سب اپنی زندگی کو انجوائے کرو اور مجھے آئندہ فون نہ کرنا"اسد نے دو ٹوک لفظوں میں کہا
" مجھے حیرت ہورہی اسد تم اس حد تک سوچتے ہو مجھے تو رشک آرہا ہے تمہاری ہمسفر پر شی از سو لکی"زویا کو اسد بہت اچھا لگتا تھا لیکن اسکی سوچ سن کر اسے خوشی ہوئی تھی
" تھینکس اینڈ بائے"اسد نے مسکرا کر کہا
فون بند کرنے کے بعد اسد نے موبائل کا والپیپر دیکھا جس میں وہ اور دانین ایک ساتھ کھڑے تھے دانین نے ڈوپٹہ سر پر کیا تھا اور اسد کا لایا ہوا مانگ ٹیکا لگایا تھا ۔
" شی از ناٹ بٹ آئی فیل سو لکی دیٹ آئی ہیو دس گرل"اسد نے محبت سے اسے دیکھتے خود کلامی کی اور تیار ہونے لگا اسنے نیوی بلیو واسکوٹ پہنا جس کے ساتھ آسمانی رنگ کی شرٹ تھی اور واسکوٹ جیسی ہی پینٹ تھی۔
اس نے تیار ہوکر دانین کو پکچر بھیجی ۔
" واہ آج تو بڑے جچ رہے ہو باس"دانین نے پک دیکھ کر تعریف کی
" تم۔تیار نہیں ہوئی"اسد نے پوچھا
" تیار ہو رہی لیکن میری رنگ کا کیا کیا تم۔نے مجھے وہ چاہئے اسد"دانین ابھی تک اس رنگ میں اٹکی ہوئی تھی
" لے لینا پہلے آ تو جائو وہاں"اسد نے اس سے کہا
" اوکے"
اسد خضر کے کمرے میں اسکی مدد کے لئے گیا۔ خضر نے گرے رنگ کا تھری پیس پہنا تھا جو اس پر جچ بھی رہا تھا ۔ تیار ہوکر وہ دونوں پارلر کی طرف روانہ ہوئے۔
*********************
چاروں طرف روشنی ہی روشنی تھی سب احباب مل کر بیٹھے تھے بچے کھیل میں مگن تھے خواتین باتوں میں اور اسد اریض دانین قنوت اور صبا سب تصویریں بنانے میں مصروف تھے ۔اتنے میں ساری لائٹس بجھ گئیں اور ڈی جے نے گانا بدلا۔
اور ایک وائٹ اسپاٹ لائٹ جل رہی تھی جس نے صبوحی اور خضر کو فوکس کیا ہوا تھا ۔ وہ دونوں ساتھ میں بہت اچھے لگ رہے تھے سب نے واہ واہ کہا کسی نے چاند سورج سے تشبہہ دی کسی نے دعائیں دیں ۔ خضر ایک عرصے تک بزنس سرکل میں منظور نظر رہا تھا ہر کسی کی امید جڑی تھی کتنے دل اس دن ٹوٹے تھے اور اس دل۔کی۔ملکہ سرمئی اور میرون رنگ کی میکسی پہنے خضر کے ساتھ چلتی ہوئی اسٹیج تک آئی ۔ سب نے ملکر تصویرہں بنوائیی
مسز حیدر نے اریض اور دانین کو دیکھا تو اپنے شوہر سے پوچھا" یہ احمد بھائی کے بچے ہیں نا"
" ہاں لگ تو وہی رہے"حیدر صاحب نے کہا اتنے میں خاور صاحب ان سے ملنے آئے وہ انکے بزنس فرینڈ تھے۔
" یہ اریض ہے نا"حیدر صاحب نے پوچھا
" جی آپ جانتے ہیں اسے "خاور صاحب نے پوچھا
" جی میری بہن کی نند کا بیٹا ہے"حیدر صاحب نے وضاحت کی
" اچھا اچھا"خاور صاحب نے کہا
" آپ کیسے جانتے میرے بیٹے کا دوست ہے اور آگے کا بھی اللہ نے چاہا تو اچھا سوچا ہے"خاور صاحب نے جان بوجھ کر آگے کی بات کی
" لیکن خاور صاحب آپ کی بیٹی تو نہیں ہے"حیدر صاحب نے حیرت سے پوچھا
" جی جناب میرا چھوٹا بیٹا تو ہے"انہوں نے اشارتا اسلئے بات کی کہ احمد صاحب تک یہ بات پہنچ جائے لیکن کس کو پتہ تھا کہ یہ بات الٹ ہوجائے گی۔
خاور صاحب نے احمد شاہ کو باتوں باتوں میں کہہ دیا تھا کہ وہ بہت جلد ان سے خاص ملاقات کرنے آئیں گے اور احمد صاحب جہاندیدہ بندے تھے اسد اور دانین کی دوستی کو بھی وہ جانتے تھے اسلئے انہوں نے مسکرا کر بسم اللہ کہا تھا ۔
اریض نے آج سفید شرٹ اور بلیک جینز پہنی تھی وہ بہت ہینڈسم۔لگ رہا تھا قنوت نے آج گولڈن شلوار قمیض پہنا تھا جس پر شیشوں کا نازک سا کام تھا اور ڈوپٹہ بھی گولڈن تھا جو اسکی گوری رنگت پر کھل رہا تھا ۔
" ہاں تو جناب کچھ کہیں گی نہیں"اریض نے قنوت کو دیکھتے ہوئے کہا
" کیا کہوں"قنوت نے کہا
" کچھ ایسا جسے سن کر دل کی دھڑکن تیز ہوجائے"اسد نے جذبات سے چور لہجے میں کہا
" دانین ہمیں گھور رہی ہے" اریض نے چونک کر پیچھے دیکھا جہاں کوئی نہیں تھا
" ہوئی نا دل کی دھڑکن تیز" قنوت ہنستے ہوئے دوسری طرف چلی گئی اور اریض اسکے اسٹائل پر واری صدقے ہوگیا۔
کھانا کھانے کے بعد جب جانے کا وقت ہوا تو سب نے اجازت چاہی تہمینہ بیگم نے دانین کو گلے لگا کر پیار کیا سب سے مل کر دانی ایک طرف کھڑی ہوئی تو مسج ٹون بجی
" باہر آؤ چڑہل"اسد کا مسج تھا
دانین باہر گئی تو اسد گیٹ سے تھوڑا آگے کھڑا تھا لوگ جاچکے تھے بس یہ دو فیملیز ہی تھیں
" کیا ہوا مانسٹر"دانین نے پوچھا
" تم۔کچھ بھول نہیں گئی"اسد نے پوچھا
" بلکل نہیں مجھے انگوٹھی یاد ہے لیکن میں نے سوچا تم کہاں خوار ہوتے پھرو گے اسلئے رہنے دیا ۔" دانین بول رہی تھی اسد نے اپنا ہاتھ آگے کیا دانین نے اپنا ہاتھ اسکے ہاتھ پر سیدھا رکھا جسے اسد نے الٹا کر کے اسکو انگوٹھی پہنا دی ۔
" ارے یہ مل گئی تھی تمہیں تو مانسٹر دے نہیں سکتے تھے مجھے"دانین نے خوشگوار حیرت سے کہا
" دے تو دی ہے بل بتوڑی:اسد نے اسے دیکھبکر کہا
"ویسے اچھی لگ رہی نا"دانین نے ہاتھ آگے تکھ کر اس سے پوچھا
" بہت"اسد کا دل خواہش کرنے لگا تھا کہ وہ دانین کو اپنے نام کی انگوٹھی پہنا کر اپنا بنالے ۔ دونوں ابھی بات ہی کر رہے تھے جب سب باہر آئے تو وہ دونوں بھی اپنے اپنے راستے چل دیے
☆♡☆◇☆◇☆◇☆◇☆◇☆◇☆◇◇☆◇☆◇
أنت تقرأ
میرا یہ عشق
Romanceیہ کہانی ہے دو دوستوں کی جو اچھے دوست تھے دکھ سکھ کے ساتھی تھے پھر محرم بن کر دشمن بنے ایک دوسرے کے ۔ منتشر ذہن اور رشتوں کی کہانی۔