❤#mera_yeh_Ishq❤
By#FRM
Episode 16
☆♡☆☆♡♡☆♡☆☆♡♡☆♡☆
اسد صبح کا نکلا تھا راستہ لمبا تھا پورا دن ڈرئیو کرتے کرتے گزرا چالیس گھنٹوں کا سفر اس نے ایک دن میں پورا کیا اسے خود بھی پتہ نہیں تھا کہ وہ کیا کر رہا ہے اسکا بس چلتا وہ اڑ کر پہنچ جاتا پورا راستہ دانین کی باتیں اسکی شرارتیں یاد کرتے وہ پہنچا کراچی پہنچ کر اسنے اریض کو فون کیا۔
" السلام علیکم۔بھائی ہاسپٹل کونسا ہے؟"وہ اریض کے بتائے ہوئے ہاسپٹل پہنچا ۔
دانین کو اسپتال آئے تین روز ہو چکے تھے لیکن اسے ہوش نہیں آرہا تھا ڈاکٹر کے مطابق نروس بریک ڈاون میں کم سے کم تین دن لگتے دیکوور ہونے میں زینب شاہ نے گھر میں قرآن خوانی رکھوائی انکو اپنی لاڈلی بیٹی کی حالت دیکھ کلیجہ منہ کو آرہا تھا احمد شاہ نے شہر کے بڑے ڈاکٹرز سے کنسلٹ کیا سب اپنی کوشش کر رہے تھے لیکن دانین اٹھ کر نہیں دے رہی تھی اسکے تیسرے دن کے ٹیسٹ رپورٹ بھی ٹھیک آئی تھی لیکن وہ اٹھی نہیں تھی۔ اسد جس وقت اسپتال پہنچا اریض حسنہ بیگم کو لیکر اسپتال آیا تھا زینب شاہ کو احمد گھر لے گئے تھے اریض اسے باہر ہی ملا ۔اریض اسکی حالت دیکھ کر چونکا لال رنگ کی ٹی شرٹ پر بلیک ٹرائوزر پہنے بکھرے بال لال ہوتی آنکھیں کہیں سے وہ ویل ڈریسڈ اسد نہیں لگ رہا تھا
"کیا ہوا ہے اسے اریض بھائی ؟"اسد نے خشک ہوتے لبوں پر زبان پھیر کر پوچھا
"پتہ نہیں یار اس نے مجھ سے بھی شیئر نہیں کیا اندر ہی اندر گھٹ گئی ایک بار بات کرلیتی مجھ سے" ۔ اریض نے دکھ سے کہا
"آپ نے مجھے کیوں نہیں بتایا بھائی" اسد نے شکوہ کیا
" تمہیں بتانے کو فون کرنا چاہا لیکن تمہارے بھائی کا نکاح تھا اسلئے تو دانین نے بھی تمہیں نہیں بتایا نا کچھ " اریض نے کہا تو اسد نے دکھ سے آنکھیں بند کرلیں۔
" اب وہ کیسی ہے بھائی" اسد نے پوچھا
" اندر ہے اٹھا اٹھا کر تھک گئے ڈاکٹر کہہ رہے خود اٹھے گی لیکن کب یہ وہ بھی نہیں بتا رہے ۔ " اریض نے کہا
" کیا میں اندر جاسکتا ہوں" اسد نے اجازت لینا ضروری سمجھا
" جاکر اٹھاو اسے پلیز" اریض نا چاہتے ہوئے بھی روپڑا۔
اسد اندر گیا پرائیوٹ روم تھا دادی کمرے میں دوسری طرف تسبیح پڑھ رہی تھیں جنہیں اسد نے نہیں دیکھا دیکھتا بھی کیسے اسکی نظر تو دانین پر ہی رک گئی تھی وہ اس پر نظر جمائے آگے بڑھا اور اس کے ماتھے سے بال ہٹائے جس سے اسکی دو انگلیاں اسکی پیشانی سے ٹکرائیں اور تیزی سے دماغ نے ہلکی سی جھپکی لی
(اافففف اسد مجھے ایسے بال آگے رکھنا اچھا لگتا ہے)
اس وقت دانین مختلف مشینوں کے انڈر ابزرویشن تھی۔ اسکا دل دھڑک رہا تھا لیکن مدھم تھا بیپی لو تھا ۔ اسد نے اس کے بیڈ پر بیٹھتے ہوئے اس کی طرف دیکھا رنگت زردی مائل ہوئی تھی آنکھوں کے گرد ہلکے پڑ گئے تھے ۔اسد کی آنکھ سے ایک آنسو ٹپکا اور دانین کی ہتھیلی پر گرا دل کی دھڑکن تیز ہوئی لیکن اسد نے غور نہیں کیا دل معمول پر آیا تو دماغ بھی کام کرنا شروع ہوگیا۔کچھ لمحے بیتے اسد کی آواز کمرے میں گونجی
"دانین شاہ !!!
تم نے اچھی دوستی نبھائی تم یہاں تھی اور میں وہاں خوشیاں منا رہا تھا پتہ نہیں کیسے میں تم۔سے غافل ہوگیا پتہ نہیں کیسے میں نے تمہاری غیر موجودگی کو مصروفیت سمجھا ۔
جانتی ہو دانی میں نے ہمیشہ تمہاری مسکان کی دعائیں کی ہیں ۔ اس حال میں دیکھنے کا تو میں تصور بھی نہیں کرسکتا اور تم نے ہمیشہ مجھے سرپرائز کیا ہے آج بھی دیکھو میں کتنا سرپرائز ہوا ہوں کہ بولنے کو کچھ سمجھ نہیں آرہا ۔( اسد نے آنکھوں سے گرتے آنسو پونچھے اریض اندر آیا تو حسنہ بیگم بیڈ کے پاس کھڑی تھیں لیکن اسد کو انکی موجودگی کا علم ہی نہیں تھا )
"یہ اسد ہے نا اریض" حسنہ بیگم۔نے آرام سے پوچھا تو اریض نے سر ہلایا ۔
"تمہیں پتہ ہے مجھے روتے ہوئے لوگ نہیں پسند اور میں اسد محمود کبھی نہیں رویا لیکن آج تم نے مجھے بھی رلا ہی دیا نا دانی اتنا لمبا چوڑا مرد آج رو رہا ہے جانتی ہو کیوں ؟ کیوں کہ وہ اچھا دوست نہیں ہے کیوں کہ اسکی دوست کو اس پر بھروسہ نہیں ہے کیوں کہ دانی کو لگتا آدی اسکی تکلیف نہیں سمجھے گا آج پرایا کردیا مجھے دانی اتنا پرایا کہ اپنا آپ بے وقعت لگنے لگا ہے ۔ " اسد نے کہہ کو آنسو صاف کئے
"خیر جو بھی ہے میں بھی ڈھیٹ ہوں تم اب اٹھو اور چلو ۔" اسد کھڑا ہوا اور اسے کہا جہاں خاموشی سی خاموشی تھی
"دانین شاہ اٹھو بھائی کی شادی ہے بہت ساری تیاریاں کرنی ہیں اور میری شاپنگ کون کرےگا اچھی کٹنگ کروں گا تو لڑکیاں مجھ پر مریں گی نا پھر ان میں تم کیڑے نکالنا لیکن اس سب کے لئے اٹھنا پڑے گا دانی چل اتھ جا ۔" اسد نے اسکا ہاتھ پکڑا اور آگے بڑھا لیکن ہاتھ چھوٹ کر پھر بیڈ پر گرا ۔دادی نے اپنی سسکی روکی اریض کے بھی آنسو نکل آئے اریض نے اسد کے کندھے پر ہاتھ رکھا
" یہ نہیں اٹھی نا "اریض نے کہا اسد کا سانس جیسے گھٹنے لگا
"اسد بعد میں بات کرلینا اس سے ابھی تم اتنا لمبا سفر کر کے آئے ہو "۔ اریض اسکی حالت دیکھ کر بولا
" یہ اٹھے گی اریض بھائی آج تو یہ اٹھے گی دانی اٹھ جا یار پلیز میرا دل بند ہونے لگا ہے اگر تمہاری یہی ضد ہے تو پھر نہ اٹھو میں ہی سوجاتا ہوں ہمیشہ کے لئے "مشین میں آواز ہوئی تو اریض کا دھیان گیا دل کی دھڑکن معمول پر آگئی تھی بی پی بھی نارمل ہوگیا تھا اریض نے دادی کو دیکھا جو ناسمجھی سے اریض کو دیکھ رہی تھی
" اب دانی اٹھ جائے گی دادی سب نارمل ہوگیا ہے"اریض نے دادی کو کہا
" تم اتنا سونے کیسے لگ گئی ہو دانی اٹھو میں کہہ رہا ہوں ۔" اسد نے غم و غصے سے کہا
دانین کے ہاتھوں میں جنبش ہوئی ۔
"تم اس طرح بدلہ لو گی مجھ سے میرے جانے کا ۔ ایک بار اٹھ جا پرامس کرتا ہوں کبھی نہیں جائوں گا تمہیں چھوڑ کر دانی اٹھ نا پلیز ۔" اسد اب رونے لگا تھا ساتھ ساتھ اسکا سانس بھی اکھڑنے لگا تھا جس سے اسے کھانسی ہو رہی تھی ۔
"تم نہیں سنو گی نا میری " اسد نے اسکو کندھے سے پکڑ کر جھٹکا دیا تو اس کی سسکی نکلی
" آہ اسد " دانین نے آنکھیں کھول دیں تھیں اٹھ تو وہ کب کی گئی تھی بس اسے تنگ کر رہی تھی دانین اٹھ کر بیٹھی
" دانی" اسد فرط جذبات سے اسکی طرف بڑھا اور اسے گلے لگا لیا دونوں ایک دوسرے کے گلے لگ کر رو رہے تھے اریض خوش تھا وہ ڈاکٹر کو بلانے گیا دادی انکی طرف آئی اسد نے اس سے الگ ہوکر آنسو پونچھے اور دانین کے آنسو پونچھے ۔
" کیسی ہے میری جان"دادی نے مسکرا کر پوچھا
" ٹھیک ہوں دادی"دانین نے کہا
" تم کیسے ہو میاں" دادی نے اسد کو دیکھ کر پوچھا
" میں بھی ٹھیک ہوں آپ دادی ہیں نا"اسد نے ان کو دیکھ کر پوچھا
" جی میں دادی ہوں اج تک ویڈیو کال اور تصویروں میں ہی دیکھا تھا آج ملاقات ہوئی ہے"
اسد دانین کو دیکھ کر خوش تھا اور دانین بھی اسے سامنے پاکر خوش تھی ان دونوں کے دل میں بے پناہ محبت تھی لیکن دونوں اسے دوستی سمجھتے تھے ۔
دادی آگے بڑھی تو اسد دور ہوکر کھڑا ہوا دادی نے دانین کا ماتھا چوما اریض نے آگے بڑھ کر بہن کے سر پر پیار کیا اتنے میں ڈاکٹر بھی آگئے۔
"سو مس دانین اب کیسا فیل کر رہی ہیں آپ؟" ڈاکٹر نے پوچھا
"ایک دم فٹ مجھے گھر جانے دیں پلیز۔"دانین نے منتانہ لہجے میں کہا
ہاہاہا بلکل اب آپ بلکل ٹھیک ہیں تو ہم آپ کو یہاں روک کر نہیں رکھیں گے" ڈاکٹر اسکی بات پر ہنسے
" میں نفل ادا کر کے آتی ہوں " دادی نے کہا اور کمرے سے باہر چلی گئیں کیوں کہ وہ اکیلے میں رو کر خدا کا شکر ادا کرنا چاہتی تھئ
" کیا ہوا اسد چپ کیوں کھڑے ہو"!اریض اسے چپ دیکھ کر بولا
"کچھ نہیں بھائی اس نے آج بہت بول لیا سب سن رہی تھی میں " دانین نے کہا تو اسد نے اسے نم آنکھوں سے دیکھا
"یہاں آئیں گے جناب" دانین نے اسکو اپنے پاس بیٹھنے کو کہا
" اب کہو کیا کہہ رہے تھے " اسد جب اسکے پاس بیٹھا تو دانین نے پوچھا
" کچھ نہیں دانی "اسد نے لب بھینچ کر توقف کیا اور کہا
" " تم مان لو آدی واسی تم ڈر گئے تھے ہاہاہا ہے نا"دانین نے ہنستے ہوئے کہا وہ خود کو ایک دم۔ہلکا پھلکا محسوس کر رہی تھی
" ہاں میں سچ میں ڈر گیا تھا دانی میں تمہیں کھونے سے ڈر گیا تھا ( دانین کی ہنسی رکی ) مجھے لگا میری سانس رک جائے گی مجھے لگا تھا میرا دماغ پھٹ جائے گا میری سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم۔ہوجائے گی جانتی ہو نا میں کبھی نہیں رویا لیکن آج تم سے دوری پر میں رو پڑا میں نہیں جانتا دانی میں اتنا کمزور کیوں پڑ گیا بس میری تمام تر ہمت دم توڑ گئی میں بتا نہیں سکتا دانی ۔" اسد نے اسکا ہاتھ پکڑا اور ہاتھ پر سر رکھ کر رو پڑا ۔
"آدی پلیز میں تمہیں چھیڑ رہی تھی " اسکے رونے پر دانین کی آنکھیں بھی نم ہوگئیں
" جانتا ہوں لیکن اب تمہیں کبھی چھوڑ کر نہیں جاوں گا کبھی بھی نہیں کسی قیمت پر نہیں ۔"اسد اسکا ہاتھ پکڑ کر بولا
" دانین تم یہ بتاو کیا روگ لگا لیا تھا خود کو"اریض نے پوچھا
" کوئی نہیں بھائی" دانین نے اسد کو دیکھا وہ اسکی نظروں سے سمجھ گیا
۔ " "بھائی کچھ کھانے کو ملے گا " دانین نے کہا تو اسد اٹھا
" اسد بیٹھو مما نے کچھ نہ کچھ بھیجا ہوگا "اریض نے اس سے کہا
" میں کینٹین سے لیکر آتا ہوں"" اسد یہ کہہ کر باہر نکل گیا اسے غصہ آرہا تھا کہ دانین کی یہ حالت مغیث کی وجہ سے ہے وہ کینٹین گیا وہان سے سینڈوچ لئے اور کافی لی اور روم میں آگیا ۔ دادی اور اریض بیٹھے تھے اور دانین ان کو سن رہی تھی ۔یہ "لیجئے میم آپ کا کھانا "اسد نے دانین کے سامنے سب رکھتے ہوئے کہا
" تھینکس جانتے ہو بھائی اپنی ساری پاکٹ منی بھی لگا دیں آدی کے پیسوں کے سینڈوچز کا مزہ ہی الگ ہوتا ہے کیوں آدی"دانین نے کہا تو اسد بس مسکرایا اور پلٹ گیا
"ارے ہیرو کیا ہوا ؟"دانین نے اسے مڑتے دیکھا تو بولی
"مجھے کچھ کام ہے کال کروں گا تمہیں اپنا خیال رکھنا "اسد نے مڑے بغیر کہا
اسد کو غصہ آرہا تھا وہ دانین کو کچھ کہنا نہیں چاہتا تھا
" ٹھیک ہے مجھے بھی نہیں کھانا "دانین نے بھی ہاتھ باندھ کر منہ بنالیا
باہر نکلتے نکلتے اسد کے قدم رک سے گئے
"دانی ضد نہ کرو پلیز ۔"اسد نے اس سے کہا
"میں کچھ نہیں سنوں گی تم۔کھارہے ہو ساتھ تو ٹھیک ورنہ میں بھی نہیں کھاوں گی"دانین نے حتمی انداز میں کہا
" اچھا چلو میں کھاتا ہوں " اسد نے سینڈوچ دانین کی طرف بڑھایا دانین نے ایک بائٹ لیکر اسکی طرف بڑھادیا دونوں کی آنکھیں نم ہوگئیں تھیں۔دانین کا دل چاہ رہا تھا وہ اسد کے گلے لگ کر جی بھی کر روئے ۔
اریض کو دادی نے کہا "چلو ڈاکٹر سے ڈسچارج کی بات کریں " وہ جان گئیں کہ دانین اسد سے بات کرنا چاہتی ہے۔ دادی کے جانے کے بعد دانین نے ٹرے ہٹانے کو کہا
کیا ہوا ٹرے میں کافی رکھی ہے نا ۔اسد نے اس سے کہا
"ہٹاو تو بابا۔"دانین نے کہا
اوکے یہ لو ہٹا دی ۔" اسد ٹرے رکھ کر پلٹا ہی تھا
"اسدددددد" دانین کی سسکی کی آواز آئی اسد جھٹکے سے اسکے پاس گیا
"کیا ہوا دانی ۔"دانین اسکے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی اسد پہلے گھبرایا پھر اسکے بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگا کچھ دیر رونے کے بعد وہ سنبھلی تو اسد کی لال شرٹ پر اسکے آنسووں کے نشان تھے۔
" رو لیا تم نے جی بھر کر "اسد نے اسکے بال کان کے پیچھے کرتے پوچھا
" ہممم اب میں فریش ہوں ایک دم"دانین نے مسکرا کر کہا
" اوگے اب رونا نہیں میں چلتا ہوں اپنا خیال رکھنا "اسد نے اس سے کہا اور موبائل نکالا
" بھائی آپ کہاں ہیں "اریض کو مسج کر کے پوچھا
" آرہا ہوں" اریض کے آتے ہی اسد باہر نکل گیا وہ کنفیوژ تھا اسکا دل الگ ہی لے پر دھڑکا تھا وہ یہ کیفیت سمجھ نہیں پارہا تھا یہ اسکے لئے نئی کیفیت تھی جس سے وہ انجان تھا وہاں سے نکل کر گھر آیا شاور لینے کے بعد تھوڑا ریلیکس ہوا تو بھوک اور تھکن کا احساس غالب آنے لگا اسنے آرڈر کر کے کھانا منگوایا اور کھاکر لمبی تان کر سوگیا ۔
☆♡☆♡☆♡☆♡☆♡☆☆♡♡☆♡☆♡☆
اسد کے جانے کے بعد خضر جیسے ہی پلٹا سب کی سوالیہ نظریں اس پر تھیں۔
" ڈیڈ دانین ایڈمٹ ہے ہاسپٹل میں اسلئے اسد جلدی میں نکل گیا"خاور صاحب کی نظروں کے سوال پر جواب دیتا آگے بڑھا
" ہوا کیا اسے"اب کی بار تہمینہ بیگ۔ نے کہا
" نروس بریک ڈاون"
" اوہ تب اسد پریشان ہوا ہے"خاور صاحب نے کہا
" ڈیڈ اسد کو آپ جانتے ہیں وہ دانین کے بخار ہوجانے پر پریشان ہوتا رہتا ہے یہاں تو وہ دو دن سے بے ہوش ہے"خضر نے کہا تو خاور صاحب نے سر ہلایا
" ہاں ان دونوں کی بھی سمجھ نہیں آتی"تہمینہ بیگم نے کہا
" فکر نہ کریں اسد جذباتی ضرور ہے لیکن سمجھدار بھی بہت ہے آپ پریشان نہ ہو وہ کال کرلےگا "
" ہاں ناشتہ کرو تم بھی"افضلل صاحب نے کہا
" ناشتے سے فارغ ہونے کے بعد خاور صاحب اور افضل صاحب نیوز دیکھنے لگے دونوں خواتین کچن کی طرف چلی گئیں صبا اپنے کمرے میں چلی گئی تھئ صبوحی کوئی حساب کر رہی تھی وہ بلکل مگن تھی جبکہ خضر اسکو تکے جارہا تھا اورنج اور پرپل امتزاج کے سادے سے شلوار قمیض میں صبوحی کی دودھیا رنگت دمک رہی تھی ہاتھوں میں موجود چوڑیاں ہلکا ہلکا شور مچا رہی تھی کانوں میں بڑے نازک سے چھوٹے جھمکے جو جھوم۔رہے تھے کانوں میں ۔ بالوں کی سادہ سی چوٹی بنائی تھی جس میں سے کچھ لٹیں نکل کر چہرے کو چھو رپی تھیں ۔ صبوحی نے نظر اٹھائی تو خضر کو تکتے پایا تو ہاتھ میں پکڑا رجسٹر سامنے کر دیا جس سے خضر کا محو ٹوٹا ۔
" کیا ہوا ہے؟"خضر نے پوچھا
" ایسے کیا دیکھ رہے ہیں؟"صبوحی نے مسکرا کر کہا
" اب تو پرمٹ مل چکا ہے "خضر نے کہا تو صبوحی نے اسے گھوری سے نوازا
" خضررررر"
" جب تم ایسے خضر کہتی ہو نا بہت اچھا لگتا ہے"خضر نے کہا تو صبوحی مسکرادی
" اچھا یہ دانین کا کیا سین ہے"صبوحی نے آخر پوچھ ہی لی
" اسد نے نہیں بتایا تمہیں"خضر نے اس سے پوچھا
" نہیں بتایا ہے دانین اسکی بیسٹ فرینڈ ہے لیکن آج جو اسکی حالت تھی اس سے بات دوستی کی نہیں لگ رہی "صبوحی سمجھ تو گئی تھی
" ہممم وہ دونوں نہیں جانتے کہ دونوں کو محبت ہے لیکن ان دونوں کے اطوار سے لگ ہی جاتا ہے تمہیں کیسے پتہ لگا "خضر نے حیرت سے پوچھا
" اسد کی آنکھوں میں دانین کے لئے محبت دیکھ کر "صبوحی نے کہا
" اور میری آنکھوں میں محبت نہیں دکھتی"خضر نے شکوہ کیا
" خضررررر"صبوحی نے پھر کہا
" ہائے ایک ڈیسنٹ سے بندے کو کیا بنا دیا تم نے صبوحی"خضر دل پر ہاتھ رکھ کر کہتا اسکی طرف جھکنے لگا
" بیٹھے رہیں یہیں میں جارہی ہوں "
صبوحی وہاں سے اٹھ کر کمرے میں چلی گئی ۔
☆♡☆♡☆♡☆♡☆♡☆♡♡☆♡☆♡☆
أنت تقرأ
میرا یہ عشق
Roman d'amourیہ کہانی ہے دو دوستوں کی جو اچھے دوست تھے دکھ سکھ کے ساتھی تھے پھر محرم بن کر دشمن بنے ایک دوسرے کے ۔ منتشر ذہن اور رشتوں کی کہانی۔