Episode 17
☆◇☆♡☆♡☆♡☆♡☆☆♡
فجر ہوئے ایک گھنٹہ گزر گیا تھا نیلے آسمان کو بادلوں نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا بادصباء روح میں اتر رہی تھی قاسنی رنگ کا سوٹ پہنے وہ مرجھائی مرجھائی سی لگ رہی تھی بال ہوا سے اڑ کر چہرے پر آرہے تھے وہ منڈیر پر ہاتھ رکھے سامنے پھیلے ہرے بھرے کھیتوں کو دیکھ رہی تھی سرخ ہوتی آنکھیں پوری رات جاگنے کا پتا دے رہی تھیں
"صبوحی"آواز پر وہ چونکی گردن موڑ کر ساتھ کھڑے خضر کو دیکھا کالی شلوار قمیض پہنے وہ بھی سامنے کھیتوں کو دیکھ رہا تھا اس وقت وہ دونوں چھت پر موجود تھے صبوحی کے دیکھنے پر اس نے رخ موڑا اور اس کی آنکھوں میں دیکھا جہاں اداسی کا راج تھا خضر نے آہستہ سے اس کا ہاتھ پکڑا
"یہ اداسی میری صبوحی پر بلکل نہیں جچتی "خضر نے اسکو نظروں میں سموتے کہا
"بس ایسے ہی دل اداس ہورہا ہے"صبوحی چاہ کر بھی مسکرا نہ سکی
"میں واپس جارہا ہوں اس وعدے کے ساتھ کے بہت جلد تمہیں لینے آؤں گا "صبوحی مسکرائی
"ایسے ہی مسکراتی رہا کرو کل رات سے تمہیں اداس دیکھ کر میرا دل بھی دکھ رہا ہے رات کھانا بھی صحیح سے نہیں کھایا سوئی بھی نہیں ہو ایسے کیسے چلے گا"صبوحی کی آنکھوں میں آنسو آگئے اسے بلکل امید نہیں تھی خضر اس پر اس قدر دھیان دے رہا ہے
"محبت ہو تم میری تمہارے دل کا حال میں نہیں جانوں گا تو اور کون جانے گا"وہ جیسے صبوحی کے ذہن میں اٹھنے والا سوال جان گیا تھا
"خضر"صبوحی نے اپنے ہاتھوں کو دیکھا جو خضر کے ہاتھوں میں قید تھے
"میں بہت خوش ہوں بہت زیادہ مجھے اپنی محبت پر بہت فخر ہے "صبوحی نے سچے دل سے کہا
"مجھے بھی "خضر نے اس کے بال کان کے پیچھے کیے
"میں ملازمہ سے کہہ کر کمرے میں ناشتہ بھیجواتا ہوں کھا کر کچھ دیر سوجانا رات سے جاگ رہی ہو اور اب ان آنکھوں میں مجھے اداسی نہیں چاہیے"صبوحی نے سر ہلایا
"جاؤ اب آرام کرو"وہ پلٹ گئ تبھی خضر بولا
"ایک منٹ"
"جی"اس نے رخ موڑا
"مسکراہٹ تو دیتی جاؤ تاکہ ان دو مہینوں میں میری آنکھوں میں تمہاری اداس آنکھوں کے بجائے خوبصورت مسکراہٹ قید رہے "صبوحی مسکرائی
"تھینک یو"خضر سینے پر ہاتھ رکھ کر ہلکا سا جھکا
صبوحی مسکرائی اور نیچے بھاگ گئی ۔
محبت بھی کتنی عجیب ہوتی ہے سب کچھ بھلا دیتی ہے بس اپنے محبوب کا ساتھ چاہتی ہے ہر وقت ہر دم ۔ صبوحی اور خضر نکاح کے بعد دو ہفتے ایک ہی چھت کے نیچے رہے خضر کی صبح اسے دیکھے بغیر نہیں ہوتی تھی اور نہ صبوحی کی رات اس سے بات کئے بغیر ہوتی تھی ۔
صبح ان دو دلوں کو الگ ہوجانا تھا اور دو مہینے انہیں دو صدیوں کے برابر لگ رہے تھے ۔ خضر کا حال بھی صبوحی جیسا ہی تھا وہ بھی دوری سے پریشان تھا لیکن مرد تھا خود پر کنٹرول کیے ہوئے تھا ۔ ناشتے کے بعد ان لوگوں نے وہاں سے رخصت لی دو نفوس کی نگاہیں التجائوں میں تھی کہ دور نہ جائے لیکن جانا تو تھا واپس آنے کے لئے جانا ضروری تھا۔
☆♡☆♡☆♡☆♡☆♡☆♡☆♡☆♡☆♡
اسد کی صبح آنکھ غیر معمولی ہلچل سے کھلی اس نے کمرے سے باہر جھانکا تو تہمینہ بیگم صفائی کروا رہی تھیں۔
"مام آپ لوگ آگئے" آسد کو خوشگوار حیرت ہوئی
" ہاں تمہاری فکر میں وہاں دو ہفتے بڑے مشکل سے نکلے سب کچھ طے بھی کرنا لازمی تھا گاوں میں باتیں بنتے وقت نہیں لگتا"تہمینہ بیگم نے اپنے لاڈلے کو پیار کرتے ہوئے بتایا
" اچھا کیا ڈیسائیڈ ہوا"اسد نے ایکسائیٹد ہوکر پوچھا
" دو مہینے بعد رخصتی کی بات کر لی ہے گاوں میں مہندی مایوں اور رخصتی کریں گے یہاں شہر میں وہ مزہ کہاں وہاں اچھے سے شادی انجوائے کریں گے"۔تہمینہ بیگم نے اسے بتایا
"اور ولیمہ؟"اسد نے پوچھا
"ولیمہ خضر نے کہا اسد سے پوچھ کر رکھیں گے ۔"تہمینہ بیگم نے اسے بتایا
" بھائی کہاں ہے؟"اسد کو بھائی کا خیال آیا
" وہ ڈائریکٹ آفس گیا ہے تمہارے پاپا کے ساتھ"
" ٹھیک ہے میں فریش ہوکر آتا ہوں ناشتہ بنا دیں۔"وہ اٹھتا ہوا بولا
" اچھا میں بناتی ہوں جلدی سے آجاؤ"تہمینہ بیگم نے مسکرا کر اپنے بیٹے کو دیکھا وہ وہاں پریشان ہورہی تھیں کہ پتہ نہیں کیسا ہوگا دانین کا سن کر جس حال میں وہ نکلا تھا وہ ڈر گئی تھیں لیکن خضر نے انہیں دلاسہ دیا اسد کا بھی فون آجاتا تھا تو وہ وہاں رک گئیں تھیں لیکن جیسے سب کچھ طے پایا وہ گھر آگئیں۔
اسد کمرے میں آیا اور فون اٹھایا دانین کا مسج موجود تھا
"ہیپی گڈ مارننگ آدی واسی"اسد کے ہونٹوں پر مسکان آگئی۔
" یو ٹو بل بتوڑی"اسد جانتا تھا ابھی تڑکتا جواب آئے گا ۔
" مانسٹر"
اسد ہنستے ہوئے فریش ہونے چل دیا ۔ دو ہفتے اسد نے دانین کا بہت خیال رکھا وہ اسے زندگی کی طرف لے ہی آیا تھا صبح سے شام دونوں ساتھ رہتے اس بیچ اسد کا سنگنگ کامپیڈیشن بھی جاری و ساری تھا دو مہینے تک کامپیڈیشن چلنا تھا اسکے بعد ایک مہینے بعد فائنل تھا ۔ لیکن آج کل اسد کو کچھ الگ سا محسوس ہونے لگا تھا وہ دانین کے ساتھ خوش ہوتا لیکن واپس آکر وہ جیسے سوچ میں پڑ جاتا وہ خود کی کیفیت سمجھنے سے قاصر تھا ۔ ناشتہ کرنے کے بعد وہ تیار ہو کر یونی جانے کو روانہ ہوا وہ پورا راستہ سوچتا رہا کہ کیا ہوا ہے یار کیا مسئلہ ہے لیکن جواب نہیں ملا یونی پہنچ کر دانی کو مسج کیا
"کہاں ہو چڑیل"
"آگئی پیچھے تو دیکھو"دانین کا مسج پڑھ کر وہ مسکرایا
اسد نے دیکھا وہ اریض کی گاڑی سے اتر رہی تھی جب سے وہ بیمار ہوئی تھی اسے گاڑی ڈرائیو کرنے سے سب نے روکا ہوا تھا ۔ دانین نے ٹی پنک کرتی پر بنفشی رنگ کا ڈوپٹہ پہنا ہوا تھا وہ سامنے سے آرہہ تھی لیکن اسد کو محسوس ہورہا تھا وہ سلو موشن میں اسکی طرف بڑھ رہی ہے ۔
"السلام علیکم آدی واسی"دانین نے سلام کیا تو چونکا
"وعلیکم۔السلام یہ تم نے کیا پیچھے تو دیکھو لگایا ہوا ہے؟" بات کو مزاح کا رنگ دینے کو ہنستے ہوئے بولا
"کچھ بھی مت بولو اچھا میرا آج ایک ہی لیکچر ہے تم کب فری ہوگے"دانین نے اس سے پوچھا
میرا آج ٹیسٹ ہے اسلئے تھوڑا وقت لگے گا"اسد نے اپنا شیڈول بتایا
"ٹھیک ہے میں لائبریری میں انتظار کروں گی"دانین اسکو کہہ کر آگے بڑھی
" اوکے "اسد بھی مڑ کر دوسری طرف جانے لگا اسد نے جاتے جاتے پھر مڑ کر دانین کو دیکھا آج کل اسکی نظر دانین کو ہی دیکھتے رہنا چاہتی تھی جب وہ آس پاس ہوتی وہ خوش رہتا جب گھر چلی جاتی وہ اداس ہوجاتا اسے کہیں مزہ نہیں آتا تھا ۔یونی سے واپس آکر وہ لیٹ گیا کیوں کہ شام میں شاپنگ کے لیے نکلنا تھا ۔ شام کے سائے پھیلے تو اسد تیار ہوکر آئینے کے سامنے کھڑا پرفیوم چھڑک رہا تھا آج اسنے بلو شرٹ پہنی تھی کانوں میں دانین کی آواز گونجی
" اگر میری آنکھیں نیلی ہوتی تو میں تو نیلا رنگ ہی پہنتی کیوں کہ پرسنالٹی اور پیاری لگتی ہے"
"آج جانا ہے یہ راز دانین مجھے تمھارے علاوہ کسی کا محبت سے دیکھنا پسند ہی نہیں.میں صرف تَب ہی اچھا دِکھنے کے لیے تیار ہوا جَب تم نے مجھے دیکھنا ہوتا تھا. میں اپنی تصویریں بھی تَب ہی بناتا تھا. جب تم کہتی کہ آج تمھیں دیکھنے کو بہت دل کر رہا ہے اپنی تصویر ہی سِنڈ کر دو کیسے لگ رہے ہو۔ جب تم۔میری گرل فرینڈز کو دیکھ کر منہ بناتی مجھے اچھا لگتا تھا اور میں خوش ہوتا تھا آج کل بس تم ہی تم ہو میری صبح کی پہلی سوچ رات کا آخری خیال میری تنہائیوں تک پر تمہارا راج ہے"
اسد نے آنکھیں بند کیں تو دانین کا مسکراتا سراپا اسکی آنکھوں میں آن سمایا
کالے شولڈر کٹ بال سامنے کے بالوں کی چند لٹیں جسے وہ اسٹائل سے آگے رکھا کرتی تھی سفید رنگت لمبی گھنیری پلکیں اور خوبصورت آنکھیں جو رنگ بدلتی ایسا اسد کو ہمیشہ لگتا تھا۔ اور گالوں میں پڑتے ڈمپلز ۔ موبائل پر مسج ٹون بجی تو اسد نے جھٹ سے آنکھیں کھول دیں ۔
" تم۔کیا لڑکیوں کی طرح تیار ہونے بیٹھ گئے میں مال پہنچ گئی ہوں"دانین کا مسج تھا
" آگیا بس پانچ منٹ"اسد نے مسج لکھا اور جلدی جلدی بال بنانے لگا
دانین نے غصے والا اموجی بھیجا ۔
" ایک تو یہ لڑکی حواسوں پر خود چھائی ہوئی ہے اور غصہ بھی مجھ پر کر رہی ہے "
اسکی بڑبڑاہٹ خضر نے سنی جو اسکے کمرے میں آرہا تھا۔
" اوہ تو مطلب تم جان گئے"خضر نے کہا تو اسد چونکا
" کیا جان گیا"اسد نے ناسمجھی سے پوچھا
" یہی کہ دانین سے محبت ہوگئی ہے تمہیں"اسد جو کمرے سے باہر نکل رہا تھا تھم سا گیا خضر کو حیران نظروں سے دیکھا
" بھائی کیا کہہ رہے ہو"اسد نے حیرانی سے اسے دیکھ کر پوچھا
" ابھی تم جاو رات میں بات کرتے ہیں"خضر نے اسکا کہا
اسد کا دماغ خضر کی بات میں اٹک سا گیا تھا ۔ وہ مل میں انٹر ہوا تو سامنے دانین کالے شلوار سوٹ میں کھڑی تھی
" اسد کہیں تمہاری کوئی ڈیٹ شیٹ تو نہیں "دانین اسے گھورتی بلکل اس کے سامنے آکر بولی
" کیوں"اسد نے پوچھا
" آج تم بہت ہینڈسم۔لگ رہے ہو اسلئے پوچھا"
" میں ہمیشہ ہی ہینڈسم لگتا ہوں" اسد نے چڑ کر کہا
پہلی بار اسد کو برا لگ رہا تھا کہ دانین نے اسکو ڈیٹ کا کیوں کہا جبکہ اس سے پہلے کئی بار وہ اسے ایسا بول چکی تھی شاید دل کی دنیا بدلی تھی جذبے بدلے تھے تو یہ بات بری لگ رہی تھی۔
☆♡☆♡☆♡☆♡☆♡☆♡♡☆♡☆♡
دانین ہاسپٹل سے گھر آگئی تھی سب اسکا خیال رکھ رہے تھے لیکن قنوت اسکا بہت خیال رکھتی تھی ہر وقت اسکے ساتھ رہتی گھر سے باہر وہ جاتی تو اسے کال کر کے پوچھتی گھر پر ہوتی تو اسکے کھانے پینے کا بے حد خیال رکھتی تھی وہ گھر میں سب کا ہی خیال رکھتی تھی ۔ اریض قنوت کے بارے میں ہی سوچ رہا تھا وہ اٹھ کر ٹیرس پر آیا شام کے سائے ہر سو چھا رہے تھے اس کی نظر لان میں بیٹھی قنوت پر گئ قنوت کو لان میں بیٹھنا اچھا لگتا تھا اس وقت بھی وہ شام کی چائے سے محظوظ ہو رہی تھی اریض فوراََ نیچے کی جانب بھاگا
"کیسی ہو قنوت ؟" آواز پر قنوت نے سر اٹھا کر اسے دیکھا
"ٹھیک ہوں" ۔ اریض سامنے رکھی کرسی پر بیٹھ گیا
"جاب کیسی چل رہی ہے؟"
"بہت اچھی ۔:
"اچھا اگر میں تمہیں کہوں کہ تم یہ ہوم ٹیوشن چھوڑ دو تو؟"قنوت سیدھی ہوئی
"لیکن آپ ایسا کیوں کہیں گے۔"قنوت نے اس سے پوچھا
"یہاں تمہیں کس چیز کی کمی ہے ؟:"اریض نے پوچھنا ضروری سمجھا
"کسی بھی چیز کی نہیں لیکن میں اپنا خرچہ خود اٹھانا چاہتی ہوں اریض!! ماموں نے مجھے اتنا پیار دیا ہے میری ضرورت کی ہر چیز مجھے بن مانگے مل جاتی ہے لیکن پھر بھی میں چاہتی ہوں کہ امی کو خوش کرنا ہو یا کسی کو کوئی گفٹ دینا ہو یا کچھ بھی تو میں اپنے کمائے پیسوں سے کروں۔ "اریض جانتا تھا وہ نہیں مانے گی لیکن پھر بھی اس نے کوشش کی
"اچھا جناب ہمیں تو کوئی گفٹ نہیں دیا آج تک۔"اریض نے منہ بنایا
"کیا چاہیے آپ کو؟"قنوت نے اسکو دیکھ کر مسکا کر پوچھا
"جو تمہارا دل کرے دے دو"۔اریض نے اس پر چھوڑ دیا
"پھر بھی آپ بتائیں آپ کوکیا پسند ہے مجھے آئیڈیا ہوجائے گا "قنوت نے کہا تو اریض اسکو دیکھ کر مسکریا
" جو کہوں گا مجھے دو گی؟"اریض نے اس سے پوچھا
"آپ مانگ کر دیکھیں۔"قنوت نے کہا تو اریض کا دل کیا کہ اسکا ساتھ مانگ لے لیکن یہ قبل از وقت بات تھی اسلئے دل کر سمجھایا
"ٹھیک ہے مجھے آئسکریم کھانی ہے اور وہ بھی تین "اریض کی بات پر قنوت مسکرائی
" چلیں ٹھیک ہے کھلادوں گی"قنوت نے مسکرا کر کہا
" ابھی چلو مجھے ابھی کھانی ہے"وہ جھٹ سے اٹھا
" ارے امی سے اجازت تو لے لوں"قنوت اتنی جلدی پر گھبرائی
" اسکی فکر نہ کرو میں ماما کو کہہ کر آتا ہوں تم گاڑی میں بیٹھو "وہ اندر بھاگا قنوت نے سر پر ہاتھ مارا
" اففف اریض بھی نا ہر وقت بس جلدی جلدی لگی رہتی ہے پیسے تو لے لوں اب دکان والا میرا چاچا تو لگتا نہیں ہے" وہ بڑبڑاتی ہوئی اندر گئی اور پرس اٹھا کر باہر آگئی اریض گاڑی کے پاس کھڑا اسکا انتظار کررہا تھا وہ گاڑی کی جانب بڑھی اریض نے دروازہ کھولا اور اسے دیکھا نکھری نکھری سی وہ لڑکی اسکے دل کے بہت قریب ہوگئی تھی۔
☆♡☆♡☆♡☆♡♡☆♡☆☆♡♡☆♡☆
☆♡☆♡☆♡☆♡☆♡☆♡♡☆♡☆♡☆
اسد نے خضر کی شاپنگ بھی خود کرنی تھی کیوں کہ خضر نے کہہ دیا تھا میں بزی ہوں میری شاپنگ تم کرلینا۔ آج دانین اور اسد شاپنگ کر رہے تھے اچانک دانین کی نظر ایک برائیڈل سوٹ پر پڑی لیکن تہمینہ بیگم اور اسد ولیمے اور رخصتی کا سوٹ لے چکے تھے
وہ بہت ہی خوبصورت میکسی اسٹائل سوٹ تھا سرمئی رنگ کا شیفون کا بلاؤز جس پر دبکے کا باریک مگر بھاری کام کیا گیا تھا اس کے ساتھ لال رنگ کا شیفوں ڈوپٹہ جس کے چاروں طرف دبکے کا سلور کام تھا اور پورے ڈوپٹے پر نازک سی چھن بنی ہوئی تھی آستینوں پر بھی ہیوی کام تھا
"کیا ہوا دانی؟"اسدنے اسے سوٹ کے پاس کھڑے دیکھ کر پوچھا
آدی یہ سوٹ دیکھو کتنا پیارا ہے نا؟"اسد نے ایک نظر میکسی کو دیکھا اور پھر دانین کو
"" تو لے لو نا۔"اسد نے کہا
"آدی واسی ہم بھابھی کا سوٹ لے چکے ہیں۔" دانین نے اسکی عقل پر ماتم کرتے ہوئے کہا
"تم اپنے لیے لے لو۔"اسد نے اس سے کہا
"میری شادی نہیں ہے جو میں یہ ہیوی سوٹ لوں ۔"دانین نے اسے گھورتے ہوئے کہا
"تو کیا کرنا ہے "اسد کو بھی وہ میکسی اچھی لگی تھی
"کچھ نہیں بس مجھے اچھا لگ گیا "۔دانین نے کہا تو اسد نے اسکو دیکھا
" اب میرے لئے پسند کرو کچھ میں تمہارے لئے کرتا ہوں بھائی کی شاپنگ ہوچکی بھابھی کی بھی ہوگئی اب ہم دونوں کریں گے اپنی شاپنگ ۔"اسد نے اسے کہا
"ہاں ٹھیک ہے چلو"دانین دکان سے باہر نکل گئ
"یہ پیک کردیں"اسد نے جلدی سوٹ لے لیا ۔
دانین نے اسد کے لیے آسمانی رنگ کا شلوار قمیض لیا اور اپنے لئے سرمئی رنگ کا سوٹ جس میں سی گرین اور ٹی پنک موتیوں کا نازک سا کام تھا اور ڈوپٹہ تین رنگوں میں تھا جس پر نازک سی بیل بنی ہوئی تھی۔
"واہ دانی تم نے سوٹ بہت اچھا پسند کیا۔" اسد اپنا سوٹ دیکھ رہا تھا اس نے جیسے ہی نظر اٹھائی نظر تھم گئ دانی اپنے لیے گئے سوٹ کا ڈوپٹہ اوڑھ کر اسد کو دکھانے آرہی تھی
(پتہ نہیں ہر رنگ ایسا کیوں لگتا ہے جیسے تمہارے لئے بنا ہے۔) اس نے دل میں کہا اور ڈوپٹہ اس کے کندھے سے اٹھا کر سر پر رکھا ۔
"ماشاءاللہ۔" اسد نے بے خودی میں کہا دانین اسکا انداز دیکھ کر تھم سی گئی ایسا لگا وقت تھم گیا تھا ۔ دانین نے سر جھکایا تو اسد ہوش میں آیا ۔
"ویسے دانی تم نے رنگ اچھا پسند کیا ہے"اسد نے اپنی جھینپ مٹانے کے لئے کہا
" اچھا ہے نا مجھے بھی اسکا کنٹراسٹ بہت پسند آیا "دانین نے بھی خوشی سے کہا
" " میرا ولیمے کا سوٹ ؟"اسد نے اس سے پوچھا
" وہ تم خود جاکر لے آنا ابھی میں تھک گئی ہوں"دانین نے بیٹھتے ہوئے کہا
" عجیب لڑکی ہو شاپنگ سے کبھی لڑکیاں تھکتی بھی ہیں"اسد نے حیرانگی سے اسے دیکھ کر کہا
" آدی واسی وہ تمہاری گرل فرینڈ ہیں جو تھکتی نہیں میں دوست ہوں تمہاری اور مجھے یہ بھی پتہ ہے کہ مال کل بھی کھلے گا"دانین نے اپنی طرف سے صحیح بات کی
اسد کو جانے کیوں گرل فرینڈ والی بات غصہ دلا گئی وہ دانین کی اور اپنی بات کرنا چاہتا تھا اور دانین مسلسل اسے گرل فرینڈ کا کہہ رہی تھی۔
" اب کیا ہوا تمہیں بھوک لگی ہے مجھے" دانین نے اسد کا لال ہوتا چہرہ دیکھا تو اس سے کہا
" ایٹ یور سروس میم بتائیں کہاں کا کھانا کھائیں گی"۔اسد نے خود کو کمپوز کر کے مسکرا کر کہا
دانین نے ہنس کر اس کے کندھے پر چپت لگائی اور آگے بڑھ گئی جب کہ اسد کندھے پر اسکے ہاتھ کے لمس کو محسوس کر کے مسکرا دیا۔
☆◇☆◇☆♡☆♡◇☆◇☆◇☆◇☆◇▪
أنت تقرأ
میرا یہ عشق
Romanceیہ کہانی ہے دو دوستوں کی جو اچھے دوست تھے دکھ سکھ کے ساتھی تھے پھر محرم بن کر دشمن بنے ایک دوسرے کے ۔ منتشر ذہن اور رشتوں کی کہانی۔