❤#mera_yeh_Ishq❤
By #FRM
Episode 15
☆◇☆♡☆♡☆♡☆♡☆
نکاح کے بعد بیچ کا پردہ گرا دیا گیا خضر صبوحی کو دیکھ کر دیکھتا رہ گیا وہ سامنے بیٹھی تھی گلے میں نازک سا سیٹ اور کانوں میں جھمکے ماتھے پر نازک سا ٹیکا ناک میں ست رنگی لونگ جو خضر کو بہت پسند تھی سر پر نیٹ کا گولڈن ڈوپٹہ پہنے جس سے چہرا ڈھانپا گیا تھا ۔ خضر بہت خوش تھا آج اسے اسکی محبت مل گئی تھی اس نے جیسی لڑکی اپنے لئے سوچی تھی صبوحی بلکل ویسی تھی ۔آج وہ اسکا محرم۔بن گیا تھا آج وہ اسکی ہوگئی تھی ۔ اس نے دل میں اللہ کا شکر ادا کیا کہ اس نے جلد بازی میں غلط فیصلہ نہیں کیا ورنہ وہ صبوحی کو کھو دیتا۔ جبکہ صبوحی سوچ رہی تھی کہ اس نے نکاح تو کر لیا اب کیا کرنے والا ہے ۔ ۔سب ایک دوسرے کو مبارکباد دے رہے تھے اسد نے خضر کو گلے لگایا
" مبارک ہو بھائی ۔ "اسد نے مسکرا کر کہا
"خیر مبارک ۔"پھر اسد صبوحی کے پاس آیا۔
"مبارک ہو آبھی۔" اسد نے صبوحی کو دیکھ کر کہا جو کچھ پزل دکھ رہی تھی
" خیر مبارک"صبوحی نے مسکر کر کہا
" آبھی آپ میرے کمرے میں جائیں ایک گفٹ رکھا ہے وہاں "اسد نے سرگوشی کرتے ہوئے کہا
" ابھی کیسے "صباحی نے بھی ہلکی آواز میں کہا
" میں ہوں نا "اسد نے فرضی کالر اکڑائے
" لیکن اسد"صبوحی نے روکنا چاہا
" بھئی اب نکاح ہوگیا تو اب آبھی کمرے میں جائیں ہمیں ہلا گلا کرنا ہے ویسے بھی میری پیاری آبھی تھک گئ ہوں گی"اسد نے سب سے کہا
"اسد صحیح کہہ رہا ہے جاؤ بیٹا آرام کرو"صبوحی مسکرا کر سر ہلاتی اسد کے کمرے میں آگئ وہاں اندھیرا تھا صبوحی نے بورڈ کی طرف بڑھنا چاہا لیکن اسی وقت کوئی اندر آیا ۔ساتھ ہی کمرے میں اسکرین پرایک فلم چلنے لگی ۔ساتھ ساتھ اسد کی اواز میں گانا تھا ۔ایک دن آپ یوں ہم کو مل جائیں گے
پھول ہی پھول راہوں میں کھل جائیں گے۔
میں نے سوچا نہ تھا۔ایک دن زندگی اتنی ہوگی حسین
جھومے گا آسمان گائے گی یہ زمیں
میں نے سوچا نہ تھا۔۔۔۔۔ایک سلائیڈ شو تھا جس میں صبوحی اور خضر کے بہت سارے پوز تھے ایک میں صبوحی ڈائننگ پر بیٹھی خضر کو ٹیڑھی نظر سے دیکھ رہی تھی خضر مسکرا رہا تھا ۔ ایک میں خضر اسکو ٹیڑھی نظر سے دیکھ رہا تھا صبوحی منہ موڑ کر کھڑی تھی ۔ایک پوز میں دونوں آمنے سامنے کھڑے تھے ایک دوسرے میں کھوئے ہوئے تھے ایک میں صبوحی کو خضر گرنے سے بچا رہا تھا ایک میں صبوحی سیڑھی پر بیٹھی تھی اور خضر نے ہاتھ آگے کیا ہوا تھا ایک میں چھت پر خضر نے صبوحی کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا ایک میں خضر نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے دیوار سے لگایا تھا ۔
اندر آنے والا خضر تھا وہ دونوں حیران تھے کہ کیسے ۔یہ تصویریں لی گئیں ہیں جیسے ہی فلم ختم۔ہوئی لائٹ کھل گئی اور اسد مسکراتا ہوا اندر آیا ۔
"کیسی لگی میری ڈائریکشن ۔"اسد نے اندر آکر ہاتھ باندھ کر پوچھا
"اسد یہ تم نے کیسے؟"خضر پوچھے بغیر نہ وہ سکا
"بڑے بژھیا بتاتا ہوں بتاتا ہوں ۔ آپ دونوں سنئے۔" اسد کمرے میں موجود کرسی پر بیٹھ گیا اور گویا ہوا
"میں جب آیا تو آپ دونوں کی کہانی سنی سن کر اندازہ ہوا کہ بھئی یہ لوگ تو پور پور محبت میں ڈوبے ہوئے ہیں بس غلط فہمی ہوگئی ہے اور محبت کو اسدانین کا جادو سامنے لے ہی آیا ۔"اسد ابھی کہہ رہا تھا تو خضر نے ٹوکا
" یہ اسدانین کیا ہے" خضر نے پوچھا
" او ہو بڑے بھیا اسد اور دانین ملائو تو اسدانین ہی بنتا ہے" اسد نے بتایا پھر ان دونوں کو شرارت سے دیکھتا کھڑا ہوا
"اور اب جب کہ آپ دونوں باضابطہ طور پر ایک دوسرے کے جانی دشمن بن گئے ہیں تو اب باقی دشمنی آپ دونوں مل کر پوری کرلیں میں تو چلا" اسد نے ہاتھ کھڑے کرتے ہوئے کہا اور کمرے سے باہر نکلا .
اسد کے جاتے ہی کمرے میں خاموشی چھا گئ صبوحی سرجھکائے کھڑی تھی جبکہ خضر اس کو دیکھ رہا تھا خضر نے قدم اس کی طرف بڑھائے تو صبوحی کی ہتھیلیاں بھیگنے لگی
"ہممم تو کیا شکایتیں کی گئی میرے بھائی سے۔"خضر اب بلکل اس کے سامنے کھڑا تھا
صبوحی سے بولنا دوبھر ہوگیا
"میں نے وہی کہاں تھا جو سچ تھا"صبوحی نے جواب دینا ضروری سمجھا
"اور سچ کیا تھا مسزز"صبوحی نے سر اٹھایا
"اتنے معصوم مت بنیں"صبوحی نے منہ بنا کر کہا
"نہیں مجھے سچ میں جاننا ہے تمہارے دماغ میں میرے بارے میں کیا چل رہا ہے"وہ سنجیدہ نظر آرہا تھا کچھ دیر وہ خاموش رہی
"مجھ سے شادی کیوں کی خضر"اس کی آواز بھیگی خضر بے چین ہوا
"کیا تم مجھ سے شادی نہیں کرنا چاہتی تھی"خضر نے الٹا سوال داغا
"میری نہیں اپنی بات کریں جب آپ دل سے راضی نہیں تھے تو کیوں مجھے اپنایا "صبوحی اسکے منہ سے سننا چاہتی تھی
"میں دل سے راضی ہوں صبوحی"خضر نے اس کو کندھوں سے تھاما
"جھوٹ۔۔آپ دل سے راضی نہیں تھے آپ نے خود مجھے فون پر کہا تھا ۔۔۔میں تو اب تک حیران ہوں یہاں آئے کس مقصد کے لیے تھے اور کر کیا دیا "صبوحی کے دل سے یہ پھانس نہیں نکل رہی تھی
"صبوحی سنو میری بات "خضر نے اسکو کہنا چاہا
"مجھے۔۔"صبوحی کہنا چاہ رہی تھی لیکن خضر نے ٹرک دیا
"ششش"خضر نے اس کے ہونٹوں پر انگلی رکھی صبوحی کا سانس اٹک گیا
"اب میں بولوں گا اور تم سنو گی"
"ہاں میں نے تمہیں فون کیا تھا رشتے سے انکار کے لیے میں یہاں آیا بھی اسی لیے تھا میں تمہیں دیکھنا چاہتا تھا کہ کون ہے یہ لڑکی جس نے مجھے چیلنج کیا ہے لیکن صبوحی تمہیں دیکھتے ہی میرا دل ہار گیا سب کچھ الٹ گیا میں جس مقصد کےلیے آیا تھا وہ سب بھول گیا بس یاد رہا تو یہ کہ صبوحی بس خضر کی ہے "صبوحی اسے نم آنکھوں سے دیکھ رہی تھی
"میں نے غلط کیا مجھے معاف کردو لیکن میرا یقین کرو میں نے تم سے نکاح سچے دل سے کیا ہے محبت کرنے لگا ہوں تم سے وہ خضر جس نے کسی لڑکی کو آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھا تھا وہ خضر اب ہر وقت صبوحی کو دیکھنا چاہتا ہے"صبوحی نے سر جھکادیا ایک موتی ٹوٹ کر گال پر گرا
غلط فہمی کے بادل چھٹے تو محبت نے مسکرا کر اپنے قدم دل کی سر زمیں پر رکھے ۔
خضر نے اسکا جھکا سر اٹھایا صبوحی نے آنکھیں بند کرلیں اسکی پلکیں لرز رہی تھیں خضر نے اس کی گال اپنے ہاتھوں سے صاف کئے صبوحی نے ہلکے سے آنکھیں کھولیں خضر اسی کو دیکھ رہا تھا
"اب بھی کوئی شکایت ہے"صبوحی نے سر ہلایا خضر نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا "کیا؟؟؟"
"آپ نے میرا بہت دل دکھایا ہے"اس نے رخ موڑ لیا
"صبوحی ایک بار میری طرف دیکھو " صبوحی نے اسے دیکھا تو اس بار خضر نے جھک کر اسکی لونگ کو چوم لیا صبوحی اسکی گرفت سے نکل کر پیچھے ہوئی اس کو خضر سے بلکل ایسی امید نہیں تھی "دل دکھایا ہے تو مرہم بھی میں ہی رکھوں گا " خضر نے اسکا ہاتھ تھاما اور سونے کی انگوٹھی اس کو پہنادی
"معافی مل سکتی ہے"اس کے سوال پر صبوحی سر جھکائے آنکھیں بند کرتی اسکے کشادہ سینے میں سما گئی خضر نے مسکراتے ہوئے اسکے گرد اپنی گرفت مضبوط کی اور اسکے ماتھے پر اپنی محبت ثبت کی صبوحی نے سر اٹھا کر اسے دیکھا اور مسکرادی ۔
" اگر باہر نہیں جانا تو میں کمرہ لاکڈ کردوں"
صبوحی گھبرا کر اسکے حصار سے نکلی
"کسی نے دیکھ لیا تو کیا ہوگا "وہ گھبرا کر دروازے کی جانب بڑھنے لگی جب خضر نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا
" کہاں جارہی ہو"خضر نے پوچھا
"خضر کسی نے ہمیں ساتھ دیکھ لیا تو کیا سوچے گا"صبوحی گھبراتے ہوئے بولی
" اچھا چلی جانا لیکن پہلے وہ کہو جو میں سننا چاہتا ہوں"خضر بھی اپنے دل کی تسلی چاہتا تھا
" کیا سننا ہے" صبوحی نے پوچھا
" کسی نے کہا تھا یو آر نتھنگ ٹو می اب بیان بدلا کہ وہی ہے"اسکا ہاتھ ابھی تک خضر کے ہاتھ میں تھا
" خضر"وہ بلش ہوگئی
" بتاؤ "خضر نے اصرار کیا
" یو آر ایوری تھینگ ٹو می"اس نے محبت پاش لہجے میں کہا
" اینڈ یو آر ٹو مچ ٹو می" خضر نے مسکرا کر کہا تو وہ بھی مسکرادی
"آرام کرو میں چلتا ہوں"خضر اس کا ہاتھ چھوڑتا کمرے سے باہر نکل گیا صبوحی نے اپنے ہاتھ پر موجود انگوٹھی کو دیکھا پھر مسکراتے ہوئے اس پر لب رکھ دیے
☆◇☆♡☆♡☆♡☆♡☆♡☆♡☆♡☆♡
رات کا آخری پہر تھا چاند اپنی پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا لیکن اسد کا دل بجھا بجھا سا تھا دو دن سے دانین کا کوئی اتا پتا نہیں تھا اسد کو کچھ اچھا نہیں لگ رہا تھا اسکی طبعیت بھی سست ہورہی تھی
اس کو ایک پل چین نہیں تھا اس نے کتنی بار فون ملایا دانین کو لیکن اب اسکا فون بند آرہا تھا رات کے اس پہر وہ اریض کو فون کر کے پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا اسلئے خود پر جبر کیے بیٹھا رہا نیند اسکی آنکھوں سے کوسوں دور تھی صبح فجر کی نماز پڑھ کر وہ تازہ ہوا میں گھومنے نکل گیا
پرسوں سے اسکا دل کچھ عجیب ہورہا تھا بیٹھے بیٹھے ایسا لگتا کہ دل دھڑک نہیں رہا اسلئے وہ تازہ ہوا میں سانس لینے نکل آیا صبح کا منظر بہت خوبصورت لگ رہا تھا اس نے اریض کو فون کرنا چاہانمبر بھی ملایا لیکن کاٹ دیا( (یہ جانے بغیر کہ مس کال اریض تک پہنچ چکی تھی ) لیکن پھر رہنے دیا کہ یہ وقت کسی کو پریشان کرنے کا نہیں تھا دو گھنٹے یہاں وہاں گھومتے گھامتے وہ گھر پہنچا۔
"خیریت اسد تم کتنی دیر بعد واپس آئے ہو۔"خضر نے اسے دیکھ کر پوچھا
"بس بھائی اچھا لگ رہا تھا کھلی فضاء میں رہنا ۔"اسد نے کہا
"چلو آجاؤ ناشتہ ابھی لگنے ہی والا ہے۔"خضر اسے لئے ڈائننگ روم میں آیا جہاں ناشتہ لگ رہا تھا
وہ سب ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھ گئے ۔ ناشتہ کرنا ابھی شروع ہی کیا تھا کہ اسد کا فون بجا سب نے اسد کو حیرانی سے دیکھا کیوں کہ اسد نے جلدی میں پانی کا گلاس گرا دیا تھا اچانک سے اسکے ہاتھ کپکپائے خضر نے اسکے ہاتھ کی لرزش دیکھ لی
"ہیلو بھائی السلام علیکم"وہ فون کان سے لگاتا اٹھ کر باہر آگیا خضر نے اسے دیکھا اور اٹھا
"وعلیکم۔السلام"اریض نے جواب دیا
"کیسے ہیں بھائی؟"اسد نے اسکی خیریت پوچھی
"ٹھیک ہوں اسد تم بتاو"اریض ایک دم سے اسے نہیں بتانا چاہ رہا تھا
"بھائی دانی دو دن سے کہاں بزی ہے اسکا فون بھی بند جارہا ہے" ( اسکا دل عجیب ہونے لگا یہ کیفیت اسکی پرسوں سے ہورہی تھی ایک دم سے اسے لگتا کہ دل دھڑکنا بند ہوجائے گا وہی کیفیت ابھی ہورہی تھی اس نے خشک ہونٹوں پر زبان پھیری)"
" اسد میری بات تحمل سے سنو"اریض نے اس سے کہا تو وہ ٹھٹکا
" جی اریض بھائی آپ کہیں "اس نے تیز ہوتی دھڑکن سے کہا
" اسد دانی دو دن سے اسپتال میں ایڈمٹ ہے" اسد نے دیوار کا سہارا لیا۔ خضر جو اس کے پیچھے باہر آیا تھا فوراً اسد کے پاس آیا
" کیا ہوا ہے اسے اور مجھے کیوں نہیں بتایا آپ نے"اسد نے ہلکی آواز میں کہا اس کی حالت عجیب ہورہی تھی
" اسد تمہارے بھائی کا نکاح تھا اسلئے دانین نے بھی تمہیں اپنی پریشانی کا کچھ نہیں بتایا ہوگا"اریض اسکی آواز سے اسکا دکھ سمجھ رہا تھا
" ہوا کیا ہے اسے "اسد اب بھی دھیمی آواز میں بولا
" نروس بریک ڈاون ہوا ہے دو دن سے بےہوش ہے"اریض کی بات سنکر اسد ڈھے گیا فون اسکے ہاتھ سے گرنے لگا تو خضر نے اس سے فون پکڑا جہاں اریض ہیلو ہیلو کر رہا تھا۔
" ہیلو میں اسد کا بھائی بات کر رہا ہوں"خضر نے اسکو سہارہ دیکر دیواز سے لگایا
" السلام علیکم۔بھائی "اریض نے خضر کو جواب دیا وہ اسد کی کیفیت سمجھ رہا تھا
" وعلیکم۔السلام کیا ہوا ہے ؟خضر نے بھائی کی حالت دیکھ کر کہا
" دانی کی طبعیت خراب ہے دو دن سے وہ اسپتال میں ہے " اریض نے بھیگے لہجے میں کہا
" اب کیسی ہے"خضر نو پوچھا
" ابھی تک ہوش نہیں آیا آپ اسد کو سنبھالیں "اریض نے خضر کو کہا
" جی آپ دانین کا خیال رکھیے گا"خضر نے فون بند کیا اچانک اسد ہوش میں آیا اور کمرے میں گیا خضر اسکے پیچھے کمرے میں آیا اپنا چند سامان اٹھا کر اسد جانے لگا تبھی خضر بولا
" ایک منٹ اسد "اسد رکا اور خضر کو دیکھا
" ایسے وقت میں ہوش سے کام لینا چاہئے جذباتی ہوکر باہر نہیں نکلو۔"خضر نے اس کو سمجھانا چاہا
" یہ آپ کہہ رہے ہو بھائی آپ جانتے ہو دانی اسپتال میں ہے "ااسد نے غم و غصے سے بھائی کو دیکھا
" جانتا ہوں لیکن تم اس طرح بدحواسی میں جاؤ گے تو کیا صحیح سلامت پہنچ سکو گے "خضر نے اس سے کہا تو وہ چٹخ گیا
" تو کیا کروں بولیں سانس نہیں آرہا مجھے خود پر غصہ آرہا کہ وہ ہاسپٹل میں ہے اور میں جو اسکی دوستی کا دم بھرتا ہوں اس بات سے انجان تھا" اسد کی آواز اونچی ہوگئی
" خود کو کمپوز کرو یار ایسے مت کرو جانتا ہوں دانی کا سن کر تم خود کو روک نہیں پارہے لیکن میری جان خود پر کنٹرول رکھو اور میری گاڑی لےجاو ہم مینج کرلیں گے " وہ دونوں باہر آئے اسد کی نیلی آنکھوں میں لال ڈورے پڑ گئے تھے گورا رنگ ایک دم۔لال بھبھوکا ہو رہا تھا وہ خود پر بہت ضبط کئے ہوئے تھا سب نے اسے دیکھا لیکن کہا کچھ نہیں ۔ خضر نے اسے چابی لاکر دی وہ اس کے گلے لگ کر باہر نکل گیا۔ اور گاڑی اسٹارٹ کرکے تھوڑا آگے جھیل کے پاس روک کر زور سے چیخا
"کیوں کیوں دانی کیوں مجھ سے چھپائی اپنی حالت کیوں ۔ تبھی پرسوں سے میرا دل مجھے سگنل دے رہا تھا میں ہی سمجھ نہیں پایا دانی میں نہیں سمجھا کہ دل کیا کہنا چاہ رہا ہے کہ میری دانی وہاں بے سدھ پڑی ہے آئی ایم سو سوری دانی میں اپنی خوشیوں میں تمہارا غم بھول گیا تم تو اتنی نازک سی ہو میں خود تمہیں سنبھال کر رکھتا تھا میں نے ہی تمہیں ایسے وقت میں اکیلا چھوڑ دیا "
اسد کی آنکھوں سے آنسو رواں دواں تھے اسے دانین کی چھوٹی چھوٹی باتیں یاد آرہی تھی۔
☆♡☆♡☆♡☆♡☆♡☆♡♡☆♡☆♡☆
ہاسپٹل کے کاریڈور میں زینب شاہ بیٹھی اللہ سے مدد مانگ رہی تھیں تسبیح کے دانے ایک ایک کر کے گر رہے تھے اسی طرح آنکھ سے آنسو بھی گر رہے تھے انہوں نے کب سوچا تھا کہ وہ اپنی لاڈلی بیٹی کو ایسی حالت میں دیکھیں گی
" خود کو سنبھالو زینی انشاءاللہ دانی ٹھیک ہوجائےگی" سعدیہ بیگم نے انہیں دلاسہ دیا۔
" تم نے دیکھا نا سعدیہ کیسی بے سدھ ہوئی ہے وہ اسے کہو ماں کا دل پھٹ جائے گا ایک بار آنکھیں کھول دے" وہ روتے روتے سعدیہ بیگم۔کے گلے لگ گئیں۔
" گھر فون کیا تم نے"سعدیہ بیگم نے سنبھل کر پوچھا
" ہاں کردیا تائی امی آنے کی ضد کر رہی تھیں اریض نے کہا ہے کہ وہ کل انہیں یہاں لے آئے گا تم بھی خود کو سنبھالو زینی "سعدیہ بیگم نے کہا
" بس دعا کرو میری جان آنکھیں کھول لے "
" ضرور کھولے گی اور تم تو ماں ہو ماں کی دعا بھلا رد کرتا ہے کیا رب بس دعا کرو اور حوصلہ مت ہارو" سعدیہ بیگم نے انہیں خود سے لگاتے ہوئے کہا وہ خود بھی دل سے دعاگو تھی کہ دانین کو ہوش آجائے
☆♡☆♡☆♡☆♡☆♡
أنت تقرأ
میرا یہ عشق
Romanceیہ کہانی ہے دو دوستوں کی جو اچھے دوست تھے دکھ سکھ کے ساتھی تھے پھر محرم بن کر دشمن بنے ایک دوسرے کے ۔ منتشر ذہن اور رشتوں کی کہانی۔