mera yeh ishq last episode

58 8 0
                                    

Mera yeh ishq
By #FRM
Last Episode
☆◇☆♡☆♡☆♡☆♡☆♡☆¡
رات کی سیاہی پھیل چکی تھی شاہ ولاز میں سب اپنے اپنے کمروں میں جاچکے تھے اریض دادی کی دوائیاں لےکر جیسے ہی کمرے میں داخل ہوا رک گیا سامنے قنوت منہ پھلائے بیڈ پر بیٹھی ہے۔
" کیا ہوا قنوت "اریض نے قنوت کو منہ پھلائے دیکھا تو پوچھا
" کچھ نہیں "قنوت نے منہ کا زاویہ بگاڑ کر کہا
" تو ایسے کیوں بیٹھی ہو "اریض اسکے سامنے بیٹھ گیا
" اریض مجھے بھوک لگی ہے"قنوت نے کہا
" یار قنوت اتنی سی بات رکو میں کچھ کھانے کو لیکر آتا ہوں"اریض اٹھتے ہوئے بولا
" اریض"قنوت مے اسے پکارا
" جی جانم"اریض نے مسکرا کر کہس
" مجھے بار بی کیو کھانا ہے"
" نو پرابلم ڈیئر اریض از ہیئر ابھی آرڈر کرتا ہوں"اریض نے سر جھکا کر حکم بجا لانے والے اسٹائل میں کہا
" افففف اریض مجھے باہر جاکر کھانا ہے"قنوت نے چڑ کر کہا
" قنوت موسم میں خنکی ہے ایسے میں اسوقت باہر جانا ٹھیک نہیں"اریض نے اسے سمجھایا
" مجھے نہیں پتہ مجھے باہر جاکر ہی کھانا ہے"قنوت نے ضدی لہجے میں کہا
" ضد نہ کرو یار میں آرڈر کر رہا ہوں"اریض نے مصنوعی غصے سے کہا
" نہ کرو آرڈر لوگ اپنے بچوں کے لئے کیا کیا نہیں کرتے اور ایک آپ ہو کنجوس باپ"قنوت نے اسے شرم دلانی چاہی
" بچے کو آنے تو دو"اریض نے اس سے ہنستے ہوئے کہا
" اسی کا من ہو رہا کھانے کا "قنوت نے لاچاری سے جواب دیا تو اریض ہنس دیا
" اوہ ہیلو چیمپئن ابھی سے بار بی کیو کھانے کا موڈ بیٹا باپ کے جیسا بننا ماں کی طرح چٹورہ نہ بننا"اریض نے کہا تو قنوت کا منہ بن گیا
" اللہ اللہ میرے کھانے پر نظر رکھتے آپ"قنوت نے شکوہ کیا
" ارے جانم خفا کیوں ہورہی ہو تم پر سے نظر ہٹتی ہی کب ہے "اریض نے رومانوی انداز میں کہا
" باتیں نہ بنائیں مجھے باہر جانا ہے"انوت جھینپ گئی
" جو حکم سرکار" اریض نے اسکا ہاتھ پکڑ کر کہا اور اسے لئے گھر سے تھوڑا دور لے آیا   جہاں لائیو باربی کیو ہورہا تھا قنوت نے آرڈر کیا اور اریض کو دیکھنے لگی
" کیا دیکھ رہی ہو" اسے تکتا دیکھ اریض نے پوچھا
" آپ بہت اچھے ہو "قنوت نے کہا
" آپکو ابھی پتہ چلا جانم"اریض نے اسے شوخ نظروں سے دیکھ کر کہا
" نہیں پتہ تو بہت پہلے ہی چل گیا تھا "قنوت نے بھی کہا
" کب پتہ چلا تھا "اریض نے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا
" جب گرمی کے موسم میں برفباری کی تھی"قنقت اس لمحے کو یاد کر کے مسکرائی
" ہاہاہا وہ تو اسد کا آئیڈیا تھا میں نے اسے بتایا تھا کہ قنوت نے یہ شرط رکھی ہے تو اس نے ارینج کیا سب "اریض نے مسکراتے ہوئے کہا
" ویسے اسد بھائی کا جواب نہیں کتنی اچھی پلاننگ کی تھئ  "قنوت نے سراہا
" ہاں نہ ورنہ میں ترس جاتا آئی لو یو سننے کو"اریذ نے بتایا
" ہممم اچھا اریض اگر اسد بھائی ارینج نہ کرتے تو کیا ہوتا "قنوت نے مسکراتے ہوئے کہ
" تمہیں یہی لگتا کہ میں تم سے پیار نہیں کرتا "اریضنے مصنوعی جفگی سے کہا
" ایسا کیوں لگتا "قنوت نے حیرانی سے پوچھا
" ارے بھئی تم نے شرط رکھی تھی وہ پوری نہ ہوتی تو گلہ تو رہ جاتا نا "اریض نے کہا
" جی نہیں میں نے تو وہ شرط ایسے ہی رکھی تھئ میں تو شادی والے دن بول ہی دیتی آپ کو"قنوت نے کہا
" ہائے جانم  کیا یاد دلا دیا جانتی ہو جب اس برف باری میں تم ہاتھ پھیلا کر گھوم رہی تھی مجھے خوشی ہورہی تھی کیوں کہ تمہاری خوشی میری زندگی میں بہت اہم ہے "اریض نے اسے دیکھ کر آنکھیں ایک جذب سے بند کی
" جی اسی لئے آپ مجھے مری لے گئے تھے"قنوت نے مسکرا کر اسکے کندھے پر سر رکھا
" ہاہاہا لیکن تم دوسرے ہی دن بھاگ نکلی کہ سردی بہت ہے "اریض نے کہا تو قنوت نے سر اٹھا کر اسے دیکھا
" بھئی کراچی والوں کے لئے تو زیادہ ہی ٹھنڈ ہے نا مری میں"قنوت نے برجستہ کہا
" اچھا جی آپ کو ہی برفباری دیکھنے کا شوق تھا اسی لئے تو لے گیا تھا "اریض نے اسکے سر سے اپنے سر کو ملا کر کیا
" لیکن مری کی برفباری بھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی جو ہماری چھت پر ہوئی تھی"قنوت ابھی بھی اسی لمحے میں مقید تھی
" ہائے سچی "
" مچی "
" چلو اب گھر چلیں "
" تھوڑی دیر بیٹھتے ہیں نا"
" قنوت مائیں اپنے بچے کے لئے بہت کچھ کرتی ہیں اور ایک تم ہو"اریض نے اسکا پینترا اسی پر آزمایا
" اللہ اللہ آنے تو دیں بچے کو"قنوت نے خفگی سے کہا
" ہاہاہا چلو اب" دونوں ہنسے پھر اریض نے قنوت کا ہاتھ پکڑ کر اسے اٹھایا اور دونوں گھر کی طرف چل دئے
☆◇☆♡☆♡☆♡☆♡☆♡◇☆◇
دانین کی آنکھ کھلی اسکا گلا خشک ہو رہا تھا اس نے  پانی کا گلاس اٹھا کر پیا اس نے بہت برا خواب دیکھا تھا کہ اسد کو چوٹ لگی ہے اور وہ بری طرح زخمی حالت میں اسکا نام لے رہا یے ۔ اس نے اسد کا نمبر ملایا لیکن نمبر بند تھا
" یا اللہ خیر " دانین نے دل سے اسد کی سلامتی کی دعا کی اسکو ایک پل چین نہیں آرہا تھا تھوڑی دیر میں اسے باہر ہلچل محسوس ہوئی وہ بھاگتی ہوئی باہر نکلی اسکا دل کسی انہونی کی طرف اشارہ کر رہا تھا 
☆♡☆♡☆♡☆♡☆♡♡☆♡☆◇
" مام " خضر نے تہمینہ بیگم۔کو آواز دیتے ہوئے دروازہ پیٹ ڈالا
" کیا ہوا بیٹا"
" مام صبوحی کی طبعیت خراب ہورہی ہے ہمیں ابھی نکلنا ہوگا" تہمینہ بیگم خضر کے کمرے کی طرف بڑھیں جہاں صبوحی درد سے بے حال ہورہی تھئ خضر نے صبوحی کو سہارا دیکر کھڑا کیا اور تہمینہ بیگم نے اسے چادر اوڑھائی ۔
" بیٹا تم اسے گاڑی تک لے چلو میں فائل اور اپنی چادر لیکر آتی ہوں " تہمینہ بیگم اندر گئی اور دانین باہر شور سنکر انکے پاس آئی
" کیا ہوا بھائی "دانین نے پوچھا
" صبوحی کی طبعیت اچانک خراب ہوگئی ہے اسے ہاسپٹل لے جارہا ہوں"خضر نے صبوحی کو گاڑی میں بٹھادیا
" میں بھی آتی ہوں بھائی"دانین نے کہا
" ارے نہیں دانین ماما آرہی ہیں تم پریشان نہ ہو "خضر اسکی پریشان شکل دیکھ کر بولا
" بھائی مجھے آبھی کی فکر لگی رہے گی میں بھی چلتی ہوں "دانین نے بضد کہا
" اچھا ٹھیک ہے "خضر نے دانین سے کہا
" دانین اپنا حجاب لئے باہر نکلی اور صبوحی کو سہارا دیکر گاڑی میں بٹھانے لگی۔ تہمینہ بیگم بھی گاڑی میں آکر بیٹھیں
" میں بھی چلتا ہوں" خاور صاحب نے کہا
" نہیں ڈیڈ آپ گھر پر رہیں"خضر نے سہولت سے انہیں منع کیا
" بیٹا کوئی بھی مسئلہ ہو فون کرنا " خاور صاحب نے کہا  ۔ خضر بھی گاڑی میں آکر بیٹھا ابھی گاڑی اسٹارٹ ہی کی تھی کہ اسکا فون بجا
" ہیلو"خضر نے فون اٹھا کر کہا
" جی بات کر رہا ہوں"جواب سر ہلا کر دیا پھر اسکے چہرے پر پریشانی چھا گئی
" کیا ؟؟؟؟؟" خضر نے اگلی بات سنی اور گاڑی سے باہر نکلا اور گھر میں داخل ہوا خاور صاحب جو خضر کو گاڑی میں بیٹھتا دیکھ اندر جارہے تھے۔
" ڈیڈ بات سنیں"خضر نے پکارا تو وہ پلٹے
" کیا ہوا"انہوں نے خضر کو پریشان دیکھ کر پوچھا
" ڈیڈ آپ صبوحی کو لے جائیں ماما اور دانین ہیں اسکے ساتھ"
" میں لے جائوں اور تم کہاں جارہے"
" ڈیڈ میں آپکو بتاتا ہوں کال پر فی الحال آپ جائیں "
" خیریت تو ہے نا "
" ڈیڈ میں کال کرتا ہوں"
" خاور صاحب موبائل اور والت لیکر خضر کے ساتھ باہر نکلے گھر لاکڈ کیا
" کیا ہوا آپ چل رہے اور خضر کہاں ہے؟"تہمینہ بیگم نے خاور صاحب سے پوچھا
" وہ پیچھے آرہا ہے مجھے فکر ہورہی تھی بہت اسلئے میں نےاسے کہا کہ میں جاتا ہوں وہ پیچھے آئے "خاور صاحب نے انہیں مطمئن کرنے کو کہا جبکہ وہ خود ٹینس تھے
" اچھا " خضر کو دوسری گاڑی کی طرف بڑھتا دیکھ تہمینہ بیگم نے کہا لیکن صبوحی خضر اور خاور کی شکل دیکھ کر سمجھ گئی تھی کہ ضرور کوئی بات ہے" خاور صاحب وہاں سے نکلے اور خضر دوسری طرف بڑھا جہاں اسد ہاسپٹل میں تھا اسکا ایکسیڈنت ہوگیا تھا لیکن خضر گھر میں کسی کو نہیں بتا سکتا تھا سوائے خاور صاحب کے ۔ صبوحی کی کنڈیشن خراب تھی وہ ہاسپٹل جارہی تھی تہمینہ بیگم کو بھی بتا کر پریشان نہیں کیا جاسکتا تھا اور دانین کو تو بلکل بھی نہیں بتایا جاسکتا تھا اسلئے خضر نے خاور صاحب کو بس اتنا کہا کہ آپ انکے ساتھ جائیں میں فون پر بتاتا ہوں خضر کی خود کی حالت خراب تھی ایک طرف اسکی متاع حیات تھی جو ایک نئی زندگی کو جنم دینے جارہی تھئ  اسکا بھائی ہاسپٹل میں تھا خضر نے اپنے اثر و رسوخ سے میڈیا تک بات جانے سے روکنے کی کوشش کی تھی وہ خود ہاسپٹل پہنچا۔
☆♡☆♡☆♡☆♡☆♡☆♡☆♡
خاور صاحب صبوحی کو لیکر ہاسپٹل پہنچے اسے فورا لیبر روم میں شفٹ کیا گیا   خاور صاحب نے فون پر خضر سے بات کرنی چاہی لیکن موقع نہیں ملا ۔ دانین بار بار اسد کا فون ٹرائی کر رہی تھئ لیکن فون نہیں لگ رہا تھا وہ سب کو پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی ۔
" ماما فکر نہ کریں اللہ آبھی کے لئے آسانی کرےگا"دانین نے انہیں تسلی دیتے ہوئے کہا
" آمین میرا بچہ تم بھی دعا کرو " تہمینہ بیگم نے اسکا ماتھا چومتے ہوئے کہا خاور صاحب بار بار خضر کو فون کر رہے تھے انکو فکر ہورہی تھئ کیوں کہ ایسے وقت میں اگر وہ صبوحی کو اکیلا چھوڑ کر کہیں گیا ہے تو معاملہ گھمبیر ہوسکتا ہے وہ ابھی یہی سوچ رہے تھے اسی وقت  لیبر روم کا دروازہ کھلا اور ڈاکٹر بچے کو لئے باہر آئی
" مبارک  ہو بیٹی ہوئی ہے "ڈاکٹر نے انہیں خوشبری سنائی
" ماشاءاللہ رحمت فرمائی اللہ نے "تہمینہ بیگم نے بچی کا ماتھا چوم کر کہا انکی آنکھوں میں خوشی کے آنسو آگئے تھے ۔
"اور میری بہو کیسی ہے"خاور صاحب نے پوچھا
" زچہ بچہ دونوں ٹھیک ہیں" ڈاکٹر نے انہیں بتایا  خاور صاحب نے اسی وقت اسٹاف میں پیسے بانٹے رات کافی ہوگئی تھی اسلئے مٹھائی نا بانٹ سکے خاور صاحب نے ایک بار پھر فون لگایا  تو فون لگ گیا
" السلام علیکم میاں"خاور صاحب نے ہنستے ہوئے کہا
" وعلیکم السلام ڈیڈ "خضر نے انکی آواز کی کھنک سے خوشی کا اندازہ لگالیا کہ سب ٹھیک ہے
" مبارک ہو اللہ نے رحمت سے نوازا ہے"خاور صاحب نے کہا
" اللہ کا شکر ہے اور صبوحی کیسی ہے ڈیڈ "خضر نے ان سے پوچھا 
" وہ بھی ٹھیک ہے لیکن تم کہاں ہو"خاور صاحب نے کہا
" ڈیڈ صبوحی کو فون دیں اور میری شہزادی کا دیدار کروائیں" خضر نے بے تابی سے کہا
" پہلے تم بتائو " خاور صاحب نے کہا
" بتاتا ہوں ڈیڈ " خضر نے سامنے اسد کو دیکھ کر کہا
" " ڈیڈ اسد کا ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے"خضر نے کہا
" اسد تو دبئی میں تھا نا"خاور صاحب نے کہا
" نہیں وہ سرپرائز کے چکر میں آگیا تھا لیکن ۔۔۔۔۔"خضر نے کہا
" یا اللہ"خاور صاحب نے دل پر ہاتھ رکھ کر کہا
"کیا ہوا ڈیڈ "دانین انکی طرف آتے ہوئے بولی
" " ڈیڈ ہمت سے کام۔لیں" خضر نے اسد کو دیکھتے ہوئے کہا لیکن ان کے ہاتھ سے فون چھوٹ گیا تھا جسے دانین نے اٹھا لیا۔
" کیا ہوا ہے بھائی"دانین نے خضر سے پوچھا اسکی حالت بھی عجیب ہورہی تھی
" دانین اسد کا ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے "خضر نے اسد کو دیکھتے ہوئے کہا
" کیا بھائی لیکن"دانین سے آگے بولا نہ گیا
" ڈیڈ کو سنبھالو میں یہاں دیکھ رہا ہوں"
" بھایی اسد" دانین کی آواز ہلکی سی نکلی آنسو بے آواز اسکی آنکھوں سے ٹپکنے لگے اس نے خضر سے ہاسپٹل کا  نام پوچھا خضر نے اسے نام بتادیا تھا
" ڈیڈ ماما کو سنبھالئے گا میں آتی ہوں"دانین نے خاور صاحب سے کہا
" دانین ابھی میرا بچہ کیسے جائو گی "خاور صاحب نے اس سے کہا
" چلی جائوں گی آپ ماما کو سنبھالئے گا چابی دیں مجھے "دانین نے ان سے کہا
" بیٹا آپ"خاور صاحب نے کہا
" ڈیڈ مجھے اسکے پاس جانا ہے پلیز"دانین نے انکی بات کاٹ کر کہا
" دانین تم کیسے ڈرائیو کرو گی بیٹا "خاور  صاحب نے اس سے کہا
" ڈیڈ پلیز مجھے اسکے پاس جانے دیں "دانین نے روتے ہوئے انکی منت کی
" ایک کام۔کرو اریض کو لے جائو" خاور صاحب کسی طور اسکے اکیلے جانے پر راضی نہیں تھے اس نے چابی انکے ہاتھ سے جھپٹی اور باہر بھاگی۔
" دانین دانین رکو تو "  خاور صاحب نے اسے پکارا لیکن وہ جا چکی تھی خضر کو فون کر کے بتایا کہ دانین چابی لیکر بھاگی ہے ۔خضر نے پریشانی سے اسد کو دیکھا وہ خود پریشان تھا کہ کیا کرے ۔
☆◇☆♡☆♡☆♡☆♡☆♡☆♡☆
دانین چابی لیکر بھاگتے ہوئے گاڑی تک پہنچی وہ بری طرح رو رہی تھئ اس نے راستہ جیسے تیسے عبور کیا ایسا لگ رہا تھا کہ وہ اپنی جگہ سے ہلی ہی نہیں ہے۔اور راستہ لمبا ہوتا جارہا تھا اسکے کانوں میں اسد کی آوازیں گونج رہی تھی

" دیکھنا دانی میرے مرنے پر سب سے زیادہ تم ہی روئو گی "

" جب تک میری سانس میں سانس ہے یہ انگوٹھی تمہارے ہاتھ میں رہے گی میرے مرنے کے بعد چاہو تو  اتار دینا"

" میرے عشق سے آج تمہیں نفرت ہورہی ہے کل اسی عشق پر تمہیں رشک آئے گا "

" آئی عشق یو دانی"

"عشق ہے بائی گاڈ دانی سچا عشق ہے"

" آئی عشق یو دانی"

" جب تمہیں مجھ سے عشق ہوجائے تو بے شک مجھے آدی کہہ لینا میں سمجھ جائوں گا "

" میری سانسیں رک رہی ہوں تو ایک بار سچے دل سے آئی عشق یو کہہ دینا مرنے کا مزہ آجائے گا"

بے تحاشہ روتے ہوئے اسد کی باتیں اسکے کانوں میں گونج رہی تھیں ایک دو جگہ گاڑی لگتے لگتے بچی  وہ آخر کار مطلوبہ جگہ پہنچ چکی تھی اس نے ریسیپشنسٹ سے پوچھا اور روم کی طرف بڑھی ۔جہاں اسد آنکھیں موندے پڑا تھا اسکے ہاتھ پر پٹہ بندھا ہوا تھا سر پر الگ پٹی بندھی ہوئی تھئ دانین روتی ہوئی آگے بڑھی
☆♡☆♡☆♡☆♡☆♡☆♡☆♡▪

میرا یہ عشقحيث تعيش القصص. اكتشف الآن