MERA YEH USHQ
EPISODE 27
☆♡☆♡☆♡☆♡☆♡☆♡☆♡☆♡☆
صبوحی نے فون نکالا
" اس کی ایک پکچر تو بھیجیں آبھی مجھے پتہ ہے اس نے میرے سامنے نہیں آنا ہے" اسد نے مظلوم بن کر مسج کیا جس پر صبوحی مسکرا دی۔پھر کچھ توقف کے بعد بولی
" قنوت چلو تمہاری پکچر تو لے لوں ۔" صبوحی نے قنوت کی دو تین پکچرز لیں پھر دانین کو قنوت کے ساتھ بٹھاکر اسکی پکچر لی اور اپنی اور دانین کی ایک پکچر لی اور اسد کو واٹس ایپ کی ۔ دانین نے بلو رنگ کا شلوار قمیض پہنا تھا جس کا ڈوپٹہ پیلا تھا وہ بنا میک اپ کے بھی بہت پیاری لگ رہی تھی۔
" چلین اب دانین کو تیار کرتے ہیں" قنوت نے کہا تو دانین نے اسے گھوری سے نوازا
" اب نند نا بنو یار مجھے بھی اپنی بہن کو تیار کرنے کا موقع ملنا چاہئے نا " قنوت نے اتنی معصومیت سے کہا کہ دانین کو اس پر بے اختیار پیار آیا اور وہ اسکے گلے لگ گئی۔
" اب پتہ چلا اریض بھائی اسی معصومیت پر مر مٹے ہوںگے" دانین نے اسکے کان میں کہا تو وہ شرما دی۔
" قنوت آپ چلیں ہم دونوں مل کر اسے سجائیں گے"صبوحی نے دانین کے بالوں کی لٹ اسکے کان کے پیچھے کرتے کہا
" یار صرف نکاح ہے آج" دانین نے کہا
" قنوت آپی آج نکاح ہے آپکا آج کے دن آپ کے شوہر نامدار سے آپکا رشتہ مضبوط ہوگا ایک نیا احساس ہوگا اور ایسے میں آپ کا تیار ہونا بنتا ہے تاکہ آپکے شوہر نامدار کہیں اور نہ دیکھ پائیں" قنوت نے دانین کے کہے الفاظ دہرائے جس پر دانین سر پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ گئی وہ اریض اور قنوت کے نکاح میں اتنی محو تھی کہ اسے اپنا نکاح فی الوقت یاد نہیں رہا تھا۔
" چلیں اب" صبوحی نے کہا تو وہ جبرا مسکرادی۔
قنوت اور صبوحی نے دانین کی نہ نہ پر کان نہ دھرے اور اسے تیار کردیا شربتی گلابی رنگ پر میٹ سلور کام والا فراک جس پر میٹ سلور گوٹا لگا تھا اور نیٹ کا ڈوپٹہ جس پر گوٹے کا بہت خوبصورت کام کیا ہوا تھا ۔ دانین نے پہلے شور کیا پھر چپ ہوکر بیٹھ گئی ایک بار بھی آئینے میں نہیں دیکھا ۔صبوحی نے اسکا ڈوپٹہ ایسے سیٹ کیا کہ گھونگھٹ بھی اسی ڈوپٹے کا نکالا جا سکے۔ وہ بہت پیاری لگ رہی تھی صبوحی نے اسکی بلائیں لیں اور قنوت کے ساتھ مل کر ایک سیلفی بنائی۔ دانین اب تک سر جھکائے بیٹھی تھی اسکے کانوں میں ابھی تک صبح کی آوازیں گونج رہی تھیں ۔
" ہیلو"دانین نے انجان نمبر دیکھ کر کہا
" ہیلو وڈ بی مسز اسد" مغیث کی طنزیہ آواز موبائل سے ابھری
" مغیث"دانین نے ہلکی آواز میں کہا
" ویسے تالیاں بجانی چاہئے دانین شاہ کہا کھیل کھیلا میرے بولنے کی دیر تھی تم لوگ تو نکاح بھی کر رہے ہو"مغیث طنزیہ کہتا اسے پھر زخمی کرگیا
" آپ اپنا گھر بسا چکے ہیں اسلئے مجھ پر الزام عائد نہ کریں"دانین نے ہمت کر کے غصے والے لہجے میں کہا
" ہاہاہا الزام کیسے لگا سکتا ہوں تم لوگ تو بہت بڑی چیز نکلے دوستی جیسے پاک جذبے کو اپنی محبت کے لئے استعمال کیا " مغیث نے کڑوے لہجے میں کہا
" مغیث " اب کی بار دانین کی اواز تیز ہوئی اسکی دوستی پر بات آئے وہ کہاں سن سکتی تھی۔
" اچھا ہوا دانین میں نے تم سے شادی نہیں کی ورنہ شادی کے بعد بھی تم لوگ دوستی کی۔۔۔۔۔۔ " اس سے پہلے مغیث آگے کہتا دانین نے لائن کاٹی اور موبائل ہی بند کردیا اور کمرہ لاک کر کے رونے لگی
" دیکھو اسد وہ ہماری دوستی کو کیا کیا کہہ گیا اسد کیوں کیا تم نے ایسا کیوں اپنے جذبات بدلے میں کس کو کہوں اپنا درد میرے ہر درد کے مسیحا تم خود تھے اب میں اکیلی ہوگئی ہوں اسد ۔ تم سے آج میرا جو رشتہ بنے گا اسکے بعد بھی میں اکیلی ہی رہوں گی کیوں کہ تم نے مجھ سے میرا دوست میرا رازدار میرا سایہ چھین لیا اسد کیوں کیا ایسا کیوں اسد" روتے روتے کافی دہر ہوگئی تو وہ منہ پر مانی کے چھینٹے مار کر باہر آگئی تھی۔
ابھی صبح کا منظر پھر اسے اداس کر گیا اس نے نمی کو اندر دھکیلا کہ ابھی وہ کوئی تماشہ نہیں کرنا چاہتی تھی۔ قنوت نے اس کا ڈوپٹہ صحیح کیا اور اسکا چہرہ اوپر کیا تو دانین نے اپنے آپ کو دیکھا وہ حیران تھی ۔ وہ اپنی تیاری پر حیران نہیں تھی اسے اپنی آنکھیں حیران کر گئیں جو مسکرا رہی تھیں ۔ اسے حیرت ہوئی کیوں کہ آنکھیں تو دل کا آئینہ ہوتی ہیں اور ابھی وہ دل سے اداس تھی لیکن اسکی آنکھیں اسکے دل کے ساتھ نہیں تھیں کیا؟ وہ سوچ میں پڑ گئی تھی۔
" لو جی یہ تو خود کو دیکھ کر ہی گم سم ہوگئیں سوچیں اسد کا کیا ہوگا" صبوحی نے چھیڑا تو وہ ہوش میں آئی اور مسکرائی لیکن دماغ اسکا اب بھی الجھا ہی ہوا تھا ۔
مغرب کی اذان کے بعد ان دونوں کا نکاح پڑھایا گیا ۔
دانین شاہ ولد احمد شاہ آپکا نکاح اسد محمود ولد خاور محمود ایک لاکھ حق مہر سکہ رائج الوقت کیا جاتا ہے کیا آپ کو قبول ہے؟
مولوی صاحب نے دو بار پوچھا تیسری بار میں قنوت نے دانین کو کہنی ماری تو اس کی زبان سے ہاں نکلا قنوت نے کہا میری جان کہو قبول ہے۔
قبول ہے دانین نے کپکپاتی آواز میں کہا پھر نکاح نامے پر دستخط کرتے وقت اسے بہت رونا آیا اسکے ہاتھ کانپ رہے تھے لیکن وہ کچھ کر نہیں سکتی تھی ۔
پہلی دستخط کرتے وقت اس نے دل میں کہا
" اسد تم نے مجھ سے میرا دوست جدا کیا اب میں تم سے ہر خوشی دور کردوں گی۔ ( جبکہ اسدکی ہر خوشی اس سے شروع اسی پر ختم تھی)
دوسری دستخط پر اس کے الفاظ تھے ۔"میں ہر قدم تمہارا ساتھ دوں گی تاکہ تم خوش نہ رہ سکو ۔( جبکہ اسکا ساتھ ہی اسد کی اولین خوشی تھا)
تیسری دستخط پر اس نے دل میں کہا
" تم کبھی کھل کر مسکرا نہیں سکو گے"( وہ پگلی جانتی ہی نہیں تھی کہ اسے اپنے ساتھ دیکھ کر ہی وہ طمانیت سے مسکرا دیا کرتا تھا) تم جو کام کہو گے اسکا الٹا کروں گی تاکہ تمہیں پچھتاوا ہو۔
وہ دل ہی دل میں اس سے مخاطب تھی۔ نکاح کے بعد قنوت اور دانین کو ساتھ میں ڈرائنگ روم میں بٹھایا گیا ۔ دونوں بہت خوبصورت لگ رہی تھیں ۔ اسد دانین کے ساتھ آکر بیٹھا دانین سرک کر دور ہوئی ایسا اس نے انجانے میں کیا کیوں کہ دل تیز تیز دھڑک رہا تھا ۔ اسد نے مسکرا کر اپنی جھلی کو دیکھا جس کے ہاتھوں کی کپکپاہٹ اسکی نروسنیس کو ظاہر کر رہی تھی اسد نے اسکی پلکیں دیکھیں جو لرذ رہی تھیں اس نے لب دانتوں میں دبائے مسکرا کر اسے دیکھا ۔ دانین نے رخ موڑ لیا۔
أنت تقرأ
میرا یہ عشق
Romanceیہ کہانی ہے دو دوستوں کی جو اچھے دوست تھے دکھ سکھ کے ساتھی تھے پھر محرم بن کر دشمن بنے ایک دوسرے کے ۔ منتشر ذہن اور رشتوں کی کہانی۔