Episode 7
❤#Mera_ye_Ishq❤
By #FRM
☆♡☆♡☆♡☆♡♡☆♡☆♡☆♡♡
دانین اسد کو سی آف کر کے گھر آئی تو تھکی ہوئی تھی اسلئے موبائل نہیں دیکھا صبح بھی اسکی آنکھ دیر سے کھلی اس نے اسد کو فون ملایا اس سے بات کر کے فون کاٹا پھر اس کو منانے کے لئے وہ فون کرتا رہا اس نے دیکھا 15 مسڈ کال تھیں لیکن وہ یہ نہ جان سکی کہ 8 مسڈ کال مغیث کر چکا تھا اس نے اسد سے بات کرکے فون رکھا اور فریش ہوکر باہر ہی بیٹھ گئی اسد کے مسج کا ریپلائی کر کے وہ سیدھی ہوئی تو
سائرہ کا مسج تھا
تم۔کب تک آئو گی. سائرہ اسکی یونی فیلو تھی
"آرہی ہوں۔"وہ تقریبا بھاگتے ہوئے کمرے میں گئی اور اپنا بیگ اٹھایا اور باہر نکلی۔
ان سب کی کمٹمنٹ تھی ان کے برتھڈے پر تھیم سے کام۔کرتے تھے آج سویرا کا برتھ ڈے تھا اسکا فیورٹ رنگ پنک تھا آجکی تھیم پنک تھی اسلئے سب نے پنک رنگ کی کرتیاں لی تھیں اور ڈیکوریشن کاسنی رنگ کا تھا اسلئے وہ اسے بلا رہی تھئ
"اچھا مما میں نکلتی ہوں سویرا کا برتھڈے ہے لیٹ ہوجائوں گی بصرہ کے ساتھ جارہی ہوں "گاڑی کا ہادن بجا تو وہ زینب شاہ سے کہتی باہر کی طرف بڑھی
ٹھیک ہے اپنا خیال رکھنا"زینب شاہ نے اپنی بیٹی کو پیار سے دیکھتے ہوئے کہا
"اوئے دانی کدھر کو چلی"اریض جو باہر سے آیا تھا دانین کو جاتا دیکھ پوچھ بیٹھا
"سویرا کا برتھڈے ہے بھائی واپسی پر بیل دوں تو لینے آجائیے گا پلیز"دانین نے رک کر اسے جواب دیا اور باہر کی طرف لپکی جہاں بصرہ زور زور سے ہادن بجا رہی تھی
"اچھا ٹھیک ہے ایک منٹ رکو "اریض نے اسے روکا
"جی بھائی"وہ رکی
" زیادہ میک اپ نہ کرنا سب ڈر جائیں گے"اریض نے سیریس شکل بنا کر کہا
"بھاییییییی"دانین نے اسے گھوری دکھائی اور باہر بھاگی
" اچھا جائو میں آجائوں گا لینے"اریض نے پیچھے سے کہا
دانین کے گھر سے نکلنے کے بعد مغیث گھر میں داخل ہوا۔
"ارے مغیث بیٹا "زینب شاہ نے مغیث کو دیکھ کر کہا
سلام پھپھو"مغیث نے مسکرا کر سلام کیا
"وعلیکم سلام "زینب شاہ نے مسکرا کر جواب دیا
"کیسے ہیں بھائی"اریض نے مصافحہ کرکے پوچھا
"ٹھیک ہوں"مغیث نے یہاں وہاں دیکھتے ہوئے کہا
" دانین کہاں ہے؟"آخر وہ پوچھ بیٹھا
" وہ سویرا کا برتھڈے ہے وہاں گئی ہے"اریض نے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا مغیث بھی بیٹھ گیا
" اکیلی"مغیث کا لہجہ اریض کو برا لگا
" ہاں وہ تو اکیلی جاتی ہے"اریض نے مسکرا کر کیا
" گاڑی لیکر گئی ہے "اگلا سوال آیا مغیث کی طرف سے
"نہیں بصرہ کے ساتھ گئی یے "اریض نے پر سکون لہجے میں جواب دیا
" مجھے ایڈریس بتائو اسکا"مغیث نے تھوڑا رکھائی سے کہا
" ایک منٹ مغیث بھائی وہ اپنی دوست کی برتھڈے پر گئی ہے "اریض اس سے زیادہ خوش اخلاقی نہ دکھا سکا تو روڈ ہوگیا
" ہاں تو وہاں کا پتہ دو مجھے اس سے کام ہے"مغیث کا لہجہ عجیب ہوا
" آپ کال کرلیں "اریض کسی طور اسے ایڈریس دینے کے موڈ میں نہیں تھا
" وہ فون پر جواب نہیں دے رہی"مغیث نے چڑ کر جواب دیا
" تو آپ رک جائیں وہ رات تک آجائے گی"اریض کا لہجہ بھی عجیب ہوا اسے مغیث کا دانین کو لیکر ایسے بات کرنا برا لگ رہا تھا کچھ بھی تھا دانین سے وہ کتنا بھی جھگڑ لے اپنی بہن میں جان تھی اسکی
" دن کے دو بجے سے رات تک کون سی برتھ ڈے منائی جاتی ہے"مغیث کا انداز اریض کو تپا گیا تھا
اریض کو غصہ تو بہت آرہا تھا لیکن وہ ضبط کرتا رہا اور زینب شاہ بھی بھتیجے کے تیور دیکھ کر ٹھٹک گئی تھی
" بھائی ان لڑکیوں کا تو پتہ ہے نا تیار ہونے میں ہی شام کردینی ہے انہوں نے "اریض نے اب بھی تحمل سے جواب دیا
" پھر بھی مجھے اتنی آزادی اچھی نہیں لگتی"مغیث نے ناگواری سے کہا
" برا مت مانئیے گا مغیث بھائی ہمارے یہاں عورتوں کو مرد کے شانہ بشانہ چلنے کی پوری آزادی ہے"اریض اسکی طبعیت صاف کرنے کے موڈ میں تھا
" اور میں اس چیز کو غلط مانتا ہوں"مغیث کا اپنا موقف تھا
" آپ مانتے رہیں بھائی اپنا اپنا پوائنٹ آف ویو ہے"اریض نے کہہ کر سکوں سے صوفے کی پشت سے ٹیک لگایا اسکا اس طرح بات کرنا مغیث کو غصہ دلا گیا
" میری کل کی فلائٹ ہے دانین سے کہنا مجھے کال کرلے"وہ جانے کے لئے اٹھا
" ارے مغیث بیٹھو تو" زینب شاہ نے بگرے تیور دیکھے تو کہآ
" نہیں پھپھو کل صبح نو بجے نکلنا ہے مجھے دعائوں میں یاد رکھئے گا"مغیث بمشکل مسکرایا
" اتنی جلدی تم نے تو کہا تھا دو مہینے کے لئے آئے ہو"زینب شاہ نے حیرانی سے کہا
" ہاں لیکن کل کال آگئی ارجنٹ ٹکٹ کروالی ہے صبح نو بجے فلائٹ ہے 6 بجے نکلوں گا گھر سے "مغیث نے جواب دیا
" چلو جائو اللہ اپنے امان میں رکھے" زینب شاہ نے دعائیں دیں وہ اریض سے ہاتھ ملا کر نکل کھڑا ہوا اسے دانین پر غصہ آرہا تھا پیچھے اریض نے اسکی پشت کو گھورتے ہوئے اپنی ماں سے کہا
" مام یہ ایسے کیوں ہیں؟"
" اسکی ماں نے اسے اپنے جیسا بنا دیا یے عورتوں کو آزادی دینے کے حق میں نہ وہ ہے نا ہی یہ"زینب شاہ کو بھی اپنی بھابھی کی عادت سے چڑ تھی
" خیر اپنی اپنی سوچ ہے مام "اریض نے کہا تو زینب شاہ نے اسے گھورا
" تم کچھ زیادہ برائیاں نہیں ڈھونڈنے لگے مغیث میں"حسنہ بیگم نے آتے ہوئے کہا
ارے دادو آئیں بیٹھیں"اریض نے ان کو بیٹھنے کو کہا
حسنہ بیگم بیٹھتے ہی شروع ہوگئیں
کیا کہہ رہے تھے مغیث کے بارے میں ۔"" انہوں نے انکا عندیہ لینا ضروری سمجھا ! آخر دانین کی خوشی بھی عزیز تھی انہیں
"ویسے ہی بہت الگ طبعیت ہے انکی "اریض کھل کر نہیں کہہ سکا ماں کے سامنے
" جیسے کہ"حسنہ بیگم نے کریدا
" اب دیکھیں نہ دانین دوست کے گھر گئی اور انکو برا لگ رہا جبکہ میری بہن ہے مجھے برا نہیں لگ رہا لڑکی ہے تو کیا اپنی مرضی سے سانس نہیں لے سکتی کیا اس پر منہ بنا کر گئے ہیں"اریض کو اس پر ابھی تک غصہ تھا
" اسے اچھا نہیں لگتا ہوگا اور تم ذرا زبان سنبھال کر بات کیا کرو کیا پتہ دانین کا نصیب میں کیا لکھا ہے" حسنہ بیگم نے ان تک بات پہنچانی ضروری سمجھی
" اماں اللہ میری بیٹی کا نصیب اچھا کرے مغیث ویسے برا نہیں ہے اماں بس تھوڑا کنزرویٹیو مائنڈ ہے"زینب شاہ نے کہا
" تھوڑآااااا"اریض نے آنکھیں بڑی کر کے کہا
" اریض" زینب شاہ نے آنکھیں دکھائیں
" جو بھی ہے مما میری بہن کو دنیا میں سب سے زیادہ پیار کرنے والا انسان ملے جس کے ساتھ وہ کھل کر جی سکے اور اماں مغیث بھائی جیسے لوگ کہتے بیوی سانس بھی پوچھ کر لے تو مہربانی کر کے معاف کریں"اریض انکی بات سے پہلے اپنی بات کر گیا کہیں وہ لوگ ایسا سوچے نہ بیٹھے ہوں
" اچھا اب میں کچن میں جارہی ہوں " زینب شاہ نے اپنا دامن چھڑایا اور چلی گئیں
" اور اگر بہن کی بھی خواہش ہوئی تو کیا کروگے" حسنہ بیگم نے اریض کے کان تک بات پہنچائی
اریض چونکا کچھ دیر چپ رہا اسے اب سب سمجھ آرہا تھا
" دادو دانین کو ہم سب جانتے ہیں اسے مغیث بھائی سے اٹریکشن ہوسکتی ہے لیکن وہ پگلی جانتی نہیں کہ اس کے دل میں کیا ہے؟"اریض اپنی بہن کو جانتا تھا اسکے دل کی بات سن سکتا تھا جو وہ خود نہہں سن رہی تھئ
" اب بتائو تم جانتے ہو اسکے دل میں کیا ہے؟"حسنہ بیگم کو اریض کی بات پر تجسس ہوا
" ہاں یہ بات میں سو فیصد یقین سے کہہ سکتا ہوں "اریض پر یقین تھا
" وہ کیسے"حسنہ بیگم نے اس سے پوچھا
" اب دیکھیں نہ دادی دس سال سے دانین کا صرف ایک دوست ہے بیچ میں اسکی کالج اور اسکول کی دوستیں بدلتی گئیں لیکن اسکی جگہ دانین نے کسی کو نہیں دی اور آج بھی صبح اٹھ کر پہلا مسج اور رات کا آخری مسج اسی کو کرتی ہے وہ خود انجان ہے اس سے کہ اسے اسد سے محبت ہے "اریض دانین کو جانتا تھا اوراسد کو بھی جانتا تھا
" انجان تو اسد بھی ہوگا"حسنہ بیگم۔نے کہا
" ہاں دونوں انجان بنے بیٹھے ہیں دادی لیکن اسد کی آنکھوں میں میں نے دیکھا ہے وہ بنا کہے میری بہن کے دل کی بات جان لیتا ہے اسکی تکلیف پر دکھ بھی اسد کو ہوتا ہے "ارہض نے کہا اسے وہ دن یاد آیا جب دانین نے نیا جوتا پہنا تھا اور اسے لگ رہا تھا اسے چلنے میں پرابلم ہورہی تھی اسد نے اس کے جوتے اتروائے اور خود کے بھی اتار کر ننگے پائوں چلا تھا جبکہ وہ ڈریسنگ کے معاملے میں بہت ٹچی تھا
" اور اگر دانین نے مغیث سے شادی کی ضد کی تو؟حسنہ بیگم نے دانین کی جذباتیت کے زیر نظر کہا
" ہم اسکی ضد نہیں مانیں گے وہ بے وقوف ہے ہم نہیں" اریض اب جان گیا تھا اور وہ اپنی بہن سے بہت پیار کرتا تھا اور ایسی کسی بےوقوفی کی اجازت وہ دانین کو نہہں دے سکتا تھا
▪☆▪☆☆▪▪▪▪▪▪▪▪☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
اسد کو اسلام آباد آئے ایک دن ہوچکا تھا آج اسکا آدیشن تھا وہ جلدی اٹھ گیا تھا لیکن ابھی بھی بستر میں تھا کہ فون بجا
آسمان نہ رہے یہ زمیں نہ رہے۔
اس نے اٹھ کر فون اٹھالیا
"شکر ہے تم نے فون اٹھالیا "
اسدجاگ رہا تھا اور اسی کے انتظار کر رہا تھا۔
"میں انتظار کر رہا تھا۔" اسد نے شیشے میں اپنے بال بناتے ہوئے کہا
"کس کآ؟"دانین نے پوچھا
"تمہارے فون کا اور کس کا ۔"اسد نے کہا
"اچھا جی اور میں فون نہ کرتی تو۔"دانین نے اسے چڑایا
"ایسا کبھی ہوا ہی نہیں کہ تم مجھے فون نہ کرو یاد ہے پچھلی بار ہماری لڑائی ہوئی تھی تب بھی تم۔نے مجھے گائوں فون کیا تھا بات نہیں کی تھی لیکن فون ضرور کیا تھا"اسد نے یاد دلایا تو دانین مسکائی
"اچھا بس زیادہ ہوا میں نہ اڑو اب مجھے بتآئو کونسی ہوٹل میں رکے ہو؟" دانین نے پوچھا تو اسد کی رگ شرارت پھڑکی
"ہوٹل میں نہیں ثناء کے گھر پر ہوں "۔اس نے اندازہ لگایا کہ ابھی دانی دانت پیس کر بولے گی اور یہی ہوا
"واٹ تم۔وہاں کیا کر رہے ہو؟؟"دانین کو واقعی میں جھٹکا لگا
"ارے اتنے پیار سے اسنے ا صرار کیا اور میں خوبصورت لڑکی کا دل کیسے توڑ سکتا ہوں۔"اسد مسکراہٹ دباتا ہوا بولا
"اسد تم میری بات سنو۔"دانین نے غصے سے کہا
"دانی تم۔میری بات سنو یار "۔اسد نے اسی کے اسٹائل میں کہا
"مجھے کچھ نہیں سننآ تم کیوں رکے اسکے گھر ۔" دانین کو اس پر حیرت ہوئی کہ وہ وہاں کیسے رک گیا اتنی چیپ حرکت وہ نہیں کر سکتا وہ اسکی شرات سمجھ چکی تھی
"میں تو ہوٹل جارہا تھا وہ ہی بضد تھی کہ میں اسکے گھر رکوں تو میں انکار نہ کر پایا۔"
دانین نے ہونٹ پھینچتے ہوئے کچھ دیر کا توقف کیا
" اچھا بچو ابھی بتاتی ہوں"
اور اسد سے کہا۔
"ٹھیک ہے تمہاری مرضی" ۔اور کھٹ سے فون بند کردیآ۔
پہلی بار دانین نے ایسا کیا تھا دوسری طرف اسد حیران تھا وہ اسے تنگ کر رہا تھا لیکن اتنا شدید ردعمل کا اسے اندازہ نہیں تھا۔
اسد نے چھ سے سات بار فون کیااسے لگ رہا تھا سانس رکنے لگی اسکی تب دانین نے فون اٹھالیا۔
"ہمممم۔" ( دل میں کہا اب آئےگا لائن پر)
"بس کرو اٹیک دوگی مجھے دیکھو سانس اکھڑ گئی میری ۔" اسد نے کہا تو وہ آنکھیں بھینچ گئی وہ جانتی تھی اسد کی ایسی حالت ہوتی تھئ
"تم نے سوچا ہے مجھے کتنا برا لگ رہا ہے تمہیں بھی عام۔لڑکوں کی طرح حرکت کرتا دیکھ۔"دانین نے شرم دلانی چاہی
"عام لڑکوں والی حرکت؟" ادد حیران ہوا
"جی یہ چیپ لڑکوں کی طرح لڑکی کے گھر رکنا کوئی اچھی عادت ہے کیا؟"دانین کہاں چپ ہونے والی تھی
"میری بات تو سن لو دانی۔"
"ڈونٹ ٹاک ٹو می۔"دانین کو اب غصہ آنے لگا تھا وہ بتا ہی نہیں رہا تھا
"ارےےےے لڑکی کنٹرول یار ۔"اسد دانین کے غصے کو جانتا تھا
"تم میری بات سنو ابھی اسی وقت تم اسکا گھر چھوڑ کر ہوٹل جارہے ہو۔" دانین نے دو ٹوک بات کی
"ارے لیکن سنو تو۔"اسد نے کچھ کہنا چاہا
ہاں کہ ناں؟" دانین نے پوچھا
"میں لگژری ہوٹل میں ہی ہوں دانی"اسد نے ہات مانتے ہوئے کہا
"اوکے تم نے مجھ سے جھوٹ کیا نا بائے۔" دانین خوش ہوگئی ( آگیا نہ لائن پر مانسٹر) اور مسکراتے ہوئے فون بند کردیا۔
اسد جانتا تھا دانین مطمئن ہوگئی ہے اب اسے ثناء سے نبٹنا تھا ابھی وہ سوچ ہی رہا تھا ثناء بولڈ ڈریس میں اسکے روم میں داخل ہوئی۔اسد کو بولڈ ڈریسنگ سخت نا پسند تھی لیکن وہ کچھ کہتا نہیں تھا اسے لڑکیاں سر پر ڈوپٹہ لئے اچھی لگتی تھی شروع سے ہی دانین کو بھی وہ بنا ڈوپٹے کہیں جانے کی اجازت نہیں دیتا تھا دانین بھی اسد کی بات مان کر ڈوپٹہ لازمی لیتی تھی سر پر نہیں بھی لہتی اوڑھتی ضرور تھی اور ڈوپٹہ نہیں بھی ہوتا تو وہ اسٹالر ضرور پہنتی تھی ۔
"ارے تم اٹھ گئے۔"ثناء سمجھی وہ سویا ہوا ہوگا
وہ اسکے برابر آکر بیٹھ گئی۔ اسد کھڑے ہوتے ہوئے ولا ۔
ثناء میں ابھی باہر جارہا تھا " اسد نے جلدی سے کہا کہیں وہ کوئی پروگرام نہ بنائے بیٹھی ہو
کہاں آڈیشن تو 2 بجے ہے نا۔"ثناء اسکے ساتھ وقت گزارنے صبح صبح تیار ہوکر آئی تھی
"ہاں ابھی باہر چکر لگانے جارہا ہوں "اسد نے جواب دیا
کسی کا فون آیا تھا کیا ؟ اسد کے ہاتھ میں فون دیکھ کر اس نے پوچھا
"ہوں دانی کی کال تھی۔" دانین کو ثناء بھی جانتی تھی
"اوہ دانین کو مسئلہ ہے کیا"۔ثناء نے کہا
"اسے کیا مسئلہ ہوگ"ا۔اسد کو غصہ آگیا
"تو صبح صبح اس نے تمہیں فون کیوں کیا۔"ثناء مشکوک ہوئی
"وہ تو روز کا معمول ہے۔"
"لیکن ابھی تم۔ہمارے یہاں ہو تو وہ کیوں فون کر رہی ہے۔"ثناء آپے سے باہر ہو رہی تھی
"ثناء لیو اٹ یار کیوں بات کو طول دے رہی ہو "۔اسد نے ضبط کرتے ہوئے کہا
"تم۔اسے فون کر کے کہو ابھی کہ تم یہیں رہو گے۔" ثناء پر بھی جنون طاری ہوگیا وہ اسد کی دیوانی تھی اسے چاہتی تھی اسکا دانین کو اہمیت دینا ثناء کو غصہ دلٹا تھا ۔
اسد خود کو کنٹرول کررہا تھا وہ دانی کے بارے مین کسی کی بات نہیں سنتا تھا
"ملائو نمبر کہو اسے اسد ۔"ثناء اسکے سامنے کھڑی کہنے لگی
"ثناء لیو دس ٹاپک"۔اسد نے رخ موڑا
"نو وے مسٹر اسد میں تم سے پیار کرتی ہوں اور مجھے دانین شاہ کا نام تک سننا نہیں پسند کجا کہ تم اسکی باتیں مانو"۔ثناء نے کہتے اسکا رخ اپنی طرف موڑا
"ثناء بس کردو پلہز میں جا رہا ہوں" ۔اسد نے اسے کندھوں سے تھام۔کر کہا۔
نہیں آج تم اس دانین کو بتائو گے کہ ثناء تمہارے لیئے اہم۔ہے وہ نہیں۔" اسد طنزیہ مسکراہٹ ہنسا وہ ثناء کو بھی جانتا تھا الٹرا ماڈرن لڑکی جس کا اسکے علاوہ بھی کئی لوگوں سے کانٹیکٹ تھا بس اسد کو وہ زیادہ اہمیت دیتی تھی
"میں ایسا کچھ نہیں کرنے والا ۔"اسد نے والٹ جیب میں رکھا اور بال بنانے کے لئے آگے بڑھا
"کیوں اسد۔"ثناء نے اسے دیکھتے ہوئے کہا
"کیوں کیا بس نہیں کروں گا۔" اسد نے ڈریسنگ تک جاتے ہوئے رک کر کہا
"وجہ بتائو کہ کیوں نہیں کروگے۔" ثناء نے اسکی پشت کو گھورتے پوچھا
"ثناء تم۔جائو شام میں ملتے ہیں ۔اسد نے بیزاری سے کہا"
"لیکن اسد ۔۔۔۔"ثناء کو توہین محسوس ہوئی کہوں کہ اسد نے اسکی بات کو اہمیت نہیں دی
"میں شام میں ملتا ہوں ابھی مجھے جانا ہے ۔" اسد نے اسے کہا اور بیگ میں سے کچھ نکالنے لگا
ثناء نے کچھ دیر اسے دیکھا پھر بھاگ کر اسکو پیچھے سے گلے لگا کر روتے ہوئے کہنے لگی۔
"اسد آئی لو یو۔"
اسد اس آفت کے لئے تیار نہہں تھا لڑکھڑا گیا۔
اس نے اپنا رخ ثناء کی طرف کیا اور اسکی آنکھیں صاف کرتے ہوئے کہا
"تم تو ایسے بی ہیو کر رہی ہو جیسے میں نے تمہیں کچھ کہا ہے تمہارےشہر میں مہمان ہوں گھمانے کی ذمہ داری تمہاری ہی ہے ۔ اب میں نکلتا ہوں کیز میرے پاس ہیں باہر نکلو تو روم بند کردینا "
اسکی بات سنکر ثناء اسکے گلے لگ گئی۔ اسد بہت براڈ مائنڈڈ تھا لیکن لڑکیوں کا اتنا آگے بڑھنا اسے برا لگتا تھا لیکن وہ ظاہر نہیں کرتا تھا ۔
"اوکے۔"ثناء نے مسکرا کر کہا
وہ اسے پیچھے چھوڑتا ہوا باہر نکلا ۔
" تمہیں میرا بننا ہی پڑے گا اسد " ثناء نے اسکے نکلتے ہوئے کہا اور خود باہر نکلی
"تم خوش ہو نا۔" باہر نکلتے ہی اس نے مسج کیا
دانی نے مسج پڑھ کر اسمائلی کے ساتھ مسج لکھا گڈ بوائے اب آڈیشن کی تیاری کرو۔""
"اوکے میم۔"
دونوں نے مسکرا کر فون کو دیکھا ۔
☆♡☆♡☆♡☆♡♡☆♡☆♡☆♡☆♡
قنوت حیرت زدہ سی اخمد شاہ کو دیکھے گئی انکی شکل کسی سے ملتی تھی لیکن وہ یاد کرنے پر بھی یار نہ کر پائی ۔
سعدیہ بیگم اپنے بھائی سے مل کر بہت خوش ہوئیں قنوت نے اچھا سا کھانا بنایا کھانے کے بعد جب قہوہ ک دور چلا تو احمد صاحب نے سعدیہ بیگم کو مخاطب کرتے کہا
"اب آپ میرے ساتھ رہیں گی" اجمد ضاہ نے سعدیہ کے سر پ ہاتھ رکھتے ہوئے بڑے بھائیوں کی طرح کہا ۔
"بہت شکریہ بھائی لیکن یہ گھر۔۔۔۔۔"
"اس گھر کی فکر نہ کرو یہ گھر قنوت کی امانت ہے اسکی دیکھ بھال میں خود کیا کروں گا۔"
قنوت الگ حیران تھی کہ اتنے سالوں میں کبھی کوئی پوچھنے نہیں آیا اور آج انہیں اپنے ساتھ لے جانے کو تیار تھے وہ۔
"کیا ہوا قنوت؟" اخمد شاہ نے سوچ میں ڈوبی اس نازک لڑکی کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔انہیں وہ بلکل دانین کی طرح معصوم لگی۔
"آں ہاں کچھ نہہں بس سوچ رہی تھی کہ اچانک سے رشتےدڑ ملے ہیں خوش ہو یا حیران۔ "قنوت نے اپنے دل کی بات انکی شفقت بھری آواز سنکر کہہ دی جبکہ سعدیہ بیگم اسے آنکھیں دکھا رہی تھیں۔
"صحیح کہا بیٹا اتنے سال تم لوگوں کی خبر نہ لے سکا اس کے لئے شرممدہ ہوں لیکن اب تم لوگ میرے ساٹھ میرے گھر رہو گے"۔ احمد ذاہ نے شرمندگی سے کہا قنوت بھی شرمندہ ہوگئی اس نے شاید انکی شفقت کو غلط سمجھا تھا۔
"جائو اپنے اور امی کے ضروری سامان لے لو ۔ "
"جی اچھا"
۔ وہ کہہ کر اپنے اور سعدیہ بیگم کے کپڑے پیک کرنے لگی اور کچھ دیر میں وہ ماں بیٹی احمد شاہ کے ساتھ شاہ ولاز جارہی تھیں۔
☆♡☆♡☆♡☆♡☆♡♡☆♡☆♡☆
أنت تقرأ
میرا یہ عشق
Romanceیہ کہانی ہے دو دوستوں کی جو اچھے دوست تھے دکھ سکھ کے ساتھی تھے پھر محرم بن کر دشمن بنے ایک دوسرے کے ۔ منتشر ذہن اور رشتوں کی کہانی۔