❤#Mera_ye_Ishq❤
By #FRM
Episode 34
☆◇☆♡☆♡☆♡☆♡☆♡☆♡
ولیمے ہوئے ایک ہفتہ گزر گیا تھا۔روٹین کے کام شروع ہوگئے تھے آج موسم خوشگوار تھا دانین نے آہستہ سے آنکھیں کھولیں اور گردن موڑ کر گھڑی کو دیکھا جو صبح کے دس بجا رہی تھی وہ جھٹکے سے اٹھی "آج اتنی دیر تک کیسے سوتی رہ گئ،نماز کے لیے بھی نہیں اٹھی"اس کا دل اداس ہوا اس نے ساتھ سوئے اسد کو دیکھا تھا اسد نے بھی اسے نہیں اٹھایا تھا۔ کتنے ہی لمحے بیت گئے وہ اسد کو تکتی رہی دل عجیب لہہ میں دھڑک رہا تھا وہ خود انجان تھی کہ کیا کر رہی ہے اس نے ہلکی سا ہاتھ سر پر مارا اور بیڈ سے اترنے لگی تبھی اسد نے اسکا ہاتھ پکڑ لیا ۔
" دیکھو نا اچھا لگ رہا تھا "اسد نے شرارت سے کہا
" تم۔۔۔۔تم جاگ رہے تھے"دانین نے حیرت سے پوچھا
" ہممم تم اتنے پیار بھری نظروں سے دیکھ رہی تھی اسلئے میں نے کچھ کہا نہیں۔"اسد نے گھمبیر لہجے میں کہا
" مانسٹر چھوڑو مجھے، تمہاری میٹنگ ہے نا آج جلدی سے اٹھو"دانین نے ہاتھ چھڑاتے ہوئے کہا
" اوکے جناب " اسد اس کا ہاتھ چھوڑتا اٹھ کر بیٹھا دانین خود سے الجھی ہوئی تھی اسکی فیلنگز بدل رہی تھی اسے اب اسد کا نام لیتے شرم آتی تھی اسے خود پتہ نہیں تھا کہ اسے کیا ہورہا ہے اسنے اٹھ کر اسد کے کپڑے نکالے اسد نہانے جا چکا تھا اسد کی شرٹ اٹھا کر وہ رکھنے لگی تھی کہ اچانک اس شرٹ کی خوشبو اسے مہکا گئی وہ شرٹ کو ہاتھوں میں لئے آنکھیں بند کئے مسکرا رہی تھی تبھی باتھ روم کا دروازہ کھلا وہ سٹپٹا گئی اور جلدی سے کمرے سے باہر نکلی، باہر نکل کر اسے اپنے ہاتھ میں شرٹ دیکھی "اففف دانی" خود پر ہنسی آگئی وہ اندر گئی تو اسد شرٹ کے بغیر اسکی طرف پیٹھ کئے یہاں وہاں دیکھ رہا تھا دانین گڑبڑاگئی اور پلٹی جیسے ہی وہ پلٹی اسد کی نظر اس پر پڑی۔
" دانی شرٹ نکال لی تو ہاتھ میں لیے کیوں کھڑی ہو" اسد اس کے قریب آیا اور اس کے ہاتھ سے شرٹ لی ۔اسکے بکھرے بالوں سے پانی ٹپک رہا تھا اور اس طرح بنا شرٹ وہ پہلی بار دانین کے سامنے آیا تھا دانین نظریں نہیں اٹھا پارہی تھی اسد نے نا سمجھی سے اسے دیکھا پھر مسکرا دیا اسد کی شرارتی رگ پھڑکی اس نے رخ موڑ کر شرٹ کا اوپر والا بٹن توڑ دیا دانین اسکے رخ موڑنے پر فوراً باہر کی جانب بھاگی اسکا دل اتھل پتھل ہورہا تھا وہ نیچے صبوحی کے پاس آگئ جو ٹیبل پر ناشتہ لگوا رہی تھی صبوحی نے سر اٹھا کر اسے دیکھا جس کی پلکیں لرز رہی تھیں اور وہ ٹیبل سیٹ کرنے کی بجائے بس چمچ ہی صحیح کئے جارہی تھی۔ صبوحی اسکو دیکھتی رہی وہ اسکی کیفیت کو سمجھ گئی وہ آہستہ سے چلتی اس کے پاس آئی اور کندھوں سے تھام کر اسے کرسی پر بیٹھایا "اسلام علیکم بھابھی"دانین کو فوراً شرمندگی ہوئی صبوحی نے پانی کا گلاس اسے تھمایا"وعلیکم اسلام. اب بتائیے زرا دانین جی کیا ہوا ہے ایسا جو آپ کی یہ حالت ہے "صبوحی نے شرات سے پوچھا
" کک کچھ نہیں آبھی وہ اسد کی شرٹ"دانین ہکلاتے ہوئے بولی
" کیا ہوا اسد کی شرٹ کو"صبوحی نے حیرت سے پوچھا
" وہ ۔۔۔۔۔"دانین ابھی کہہ ہی رہی تھی
" دانی یار ذرا کمرے میں آنا " اسد کی آواز پر وہ اچھلی اور اسکے ہاتھ سے پانی چھلکا ۔
" سنبھال کر دانی کیا ہوا ہے اتنا گھبرا کیوں رہی جاؤ دیکھو کیوں بلا رہا یے"صبوحی نے اسکی حالت سے محفوط ہوتے ہوئے کہا
دانین دھڑکتے دل کے ساتھ کمرے میں آئی اسد نے اسے شیشے میں دیکھا دانین نے اسے شرٹ پہنے دیکھا تو لمبا سانس لیتی آگے بڑھی
" یار دانی شرٹ کا بٹن ٹوٹا ہوا ہے کیسے پہنوں یہ "اسد نے خفگی بھرے لہجے میں کہا
" تم دوسری پہن لو"دانین نے مشورہ دیا
" نہیں مجھے یہی پہننی ہے تم بٹن لگا دو"اسد نے کہا
" اچھا اتارو شرٹ میں لگا دیتی ہوں "دانین نے سوئی میں دھاگا ڈال کر اس کو دیکھا
" یار اب میں نہیں اتار رہا تم ایسے ہی لگ دو نا پلیز"
"ایسے "اسے حیرت ہوئی
"ہاں ایسے ہی "اسد دل ہی دل میں مسکرا رہا تھا "اچھا لگا دیتی ہوں " دانین سوئی دھاگا لیے آگے آئی وہ انگلیوں میں دھاگے کو مڑورتی اسد کے سامنے کھڑی تھی اسد نے اسے دیکھا وہ گھبرائی سی بہت پیاری لگ رہی تھی ۔
" دانی جلدی لگاؤ نا دیر ہورہی ہے "دانین نے بٹن اٹھایا اور اسد کی شرٹ پر بٹن لگانے لگی لیکن گھبراہٹ میں دو بار سوئی اسکے ہاتھ سے چھوٹ گئی دو بار بٹن چھوٹ گیا اوپر سے اسد شرارت سے اسے دیکھ کر اور پزل کر رہا تھا بٹن تو اس نے لگا لیا لیکن دھاگا توڑنے کے لئے اسے اسد کے اور قریب جانا تھا وہ اسکے قریب ہوئی تو دانین کی سانسیں اسد اپنی گردن پر محسوس کررہا تھا اس نے دانین کے گرد بازو پھیلانے کے لیے آہستہ سے ہاتھ اٹھائے لیکن پھر ہوا میں ہی روک دیے دانین دھاگا توڑ کر فوراً پیچھے ہوئی اس کی تیزی دیکھ کر اسد مسکرایا
"تھینکس" دانین سر جھکائے جلدی سے خود بھی فریش ہونے چلی گئ۔
" بس دانی کچھ دن اور پھر میرا عشق تمہیں اظہار کرنے پر مجبور کردےگا ابھی تو تمہیں آگہی ہونا شروع ہوئی ہے آگے آگے دیکھو ہوتا ہے کیا " اسد مسرور سا تیار ہوکر ناشتے کے لئے نیچے چلا گیا۔
☆♡☆♡☆♡☆♡☆♡☆♡☆♡☆
شاہ ولاز میں بھی سب ناشتے پر بیٹھے تھے حسنہ بیگم کی طبعیت سست تھی ۔
" تائی امی اب آپ زیادہ آرام کیا کریں "سعدیہ بیگم نے کہا
" ارے میں ٹھیک ہوں ابھی تو مجھے قنوت اور اریض کے بچوں کو کھلانا ہے "حسنہ بیگم نے کہا قنوت شرما کر سر جھکا گئی
" انشاءاللہ اماں" زینب شاہ نے کہا
" قنوت تم نے سنا نا دادی نے کیا کہا"اریض نے سرگوشی کی
" اللہ اللہ آپ کو تو بس موقع چاہئے " قنقت نے اسے گھورتے ہوئے کہا
"موقع کیا چاہئے میں تو دادی کے لئے کہہ رہا " اریض نے معصومانہ انداز میں کہا
" سن لیا میں نے بھی"قنوت نے کہا
" بیوی سننا نہیں عمل بھی کرنا ہے "قنوت نے اسے گھورنے کو سر اٹھایا لیکن اسکی نظروں کی تاب نہ لاتے ہوئے شرما کر سر جھکا گئی تو اریض ہنس دیا۔
" کیا ہوا اریض"حسنہ بیگم نے اسے ہنستے دیکھا تو پوچھا
" دادی فیملی پلاننگ کر رہا تھا" اریض نے برجستہ کہاقنوت نے سنا تو شرما کر کچن میں بھاگ گئی اور سب ہنستے ہوئے ناشتہ کرنے لگے۔
☆◇☆♡☆♡☆♡♡☆♡☆♡☆
شام کے سائے پھیلے اسد آج بہت خوش تھا مسکراہٹ اسکے ہونٹون سے جدا نہیں ہورہی تھی ۔
" بھائی آج بہت خوش ہوں" اسد نے اریض کو فون کیا تھا
" ہمممم دانین پر اثر ہونا شروع ہوگیا "اریض نے مسکرا کر کہا
" ہاں آپ کو پتہ تھا"اسد حیران ہوا
" نہیں تمہاری آواز کی کھنک بتا گئی اللہ خوش رکھے تم دونوں کو " اریض نے دل سے دعا کی
" بس بھائی اسے عشق کا عین بھی ہوجائے میرے لئے بہت ہے "اسد نے آنکھیں بند کر کے جذب سے کہا
"انشاءاللہ اللہ بہتر کرے گا " اسد اریض سے بات کر کے جیسے ہی گھر میں داخل ہوا اسکی نظر صوحی پر پڑی ۔
" کیا ہورہا ہے آبھی"صبوحی کے برابر بیٹھتے ہوئے اس نے پوچھا
" کچھ نہیں آج دانین کچن میں کھانا بنا رہی ہے اسلئے آج میں یہاں ہوں "صبوحی نے بوریت والی شکل بنا کر کہا
" اچھی بات ہے نا آپ کو اب آرام کرنا چاہئے "اسد نے کچن کی طرف دیکھ کر کہا
" میں بور ہوجاتی ہوں اسد بیٹھے بیٹھے"صبوحی نے منہ بنا کر کہا تو اسد ہنس دیا
" دو تین مہینوں بعد کہاں آرام ملےگا آپ کو اسلئے ابھی آرام ہی کریں آپ میں بھی دیکھوں میری بیگم کیا بنا رہی ہے"اسد نے اٹھتے ہوئے کہا
" صبح کیا ہوا تھا اسد"صبوحی نے پوچھا تو اسد اٹھتے اٹھتے بیٹھ گیا
" کچھ نہیں"اس نے حیرانی سے کہا
" دانین کچن میں آئی کچھ گھبرائی ہوئی تھی تم نے آواز دی تو سٹپٹا گئی"صبوحی نے کہا تو اسد کے چہرے پر جاندار سی مسکان آگئی
" ہاہاہا آبھی اصل میں دانی جی کو محبت ہونے لگی ہے اب وہ مجھ سے شرمانے لگی ہے میرے قریب آنے پر گھبرانے لگی ہے صبح بھی یہی ہوا تھا "اسد نے مزے لیکر کہا
" اچھا اب زیادہ پریشان نہ کرنا اسے بہت معصوم ہے وہ"صبوحی نے اسد سے کہا
" کوئی معصوم نہیں پوری جلاد ہے "اسد نے مسکرا کر کہا
" اچھا جائو دیکھو کیا کر رہی"صبوحی نے اسد سے کہا تو وہ اٹھ کر کچن میں آیا
" کیا ہورہا ہے دانی" اسد کی نظر جیسے ہی دانین پر گئی اسکی ہنسی چھوٹ گئی کھانا دانین بنا چکی تھی توا رکھتے وقت اسکا ہاتھ ٹچ ہوا وہی ہاتھ دانین نے چہرے پر پھیرا تھا جس سے گال پر کالا نشان رہ گیا تھا ۔
" کیا ہوا ہے اسد " دانین چڑی تو اسد ہنسی ضبط کرتا اسے اسٹیل کی پلیٹ پکڑائی اور خود اس کے پیچھے کھڑا ہوا اور گال پر اپنی انگلی سے چھو کر بتایا کہ یہ نشان دیکھو دانین اسد کے اس قدر قریب کھڑا ہونے پر گڑبڑائی تو اسد نے ٹشو اسے دیا اور کہا صاف کرلو اور خود کچن سے باہر چلا گیا جبکہ دانین گال پر ہاتھ رکھے کھڑی رہ گئی تھوڑی دیر بعد ککر کی سیٹی سے وہ ہوش میں آئی اور کھانا سرو کرنے لگی صبوحی نے بھی اسکی مدد کی دانین نے پہلی بار کھیر بنائی تھی اور ساتھ چکن بھی بنایا تھا سب نے تعریف کی ۔
" ویسے دانی تم نے کھانا اتنا اچھا کیسے بنا لیا "اسد نے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا وہ کچھ گم سم سی لگ رہی تھئ
" چل ہٹ بدمعاش میری بہو کے ہاتھ میں ذائقہ ہے "تہمینہ بیگم نے دانین کی طرف داری کی
دانین مسکرا رہی تھی سب کے ساتھ لیکن اسکا گال ابھی تک دہک رہا تھا اسکا دل تیز تیز دھڑک رہا تھا وہ خود انجان تھی کہ کیا ہورہا ہے اسے.
☆♡☆♡☆♤☆♡☆♡☆♡☆♡♡☆
انکی شادی کو دو مہینے ہوچکے تھے صبح کا موسم بہت خوشگوار تھا آج دانین بہت خوش تھی اور پرجوش بھی تھی اسد کو آج جلدی جانا تھا وہ ناشےہ کرکے نکل گیا دانین نے کام کی فہرست بنائی اور صبوحی کو دکھائی تہمینہ بیگم بھی دانین کی خوشی میں خوش تھیں انہیں اسد کا کہا یاد تھا کہ انہیں ہر بات میں دانین کا ساتھ دینا ہے اور وہ تو دانین کو ویسے بھی بہت پسند کرتی تھیں دانین کام نبٹا کر بیٹھی تھی لیکن اسد صبح کا نکلا ہوا تھا شام تک نہ کوئی فون آیا نہ ہی مسج. دانین نے فون کیا تو نمبر بند آرہا تھا دانین کو وسوسے ستانے لگے وہ فکرمند سی بار بار باہر دیکھتی اور پھر مایوس ہوکر بیٹھ جاتی تہمینہ بیگم اور صبوحی اسکی حالت پر محظوظ ہورہی تھیں ۔ وہ صبح سے کام میں لگی تھی اب اسد کے لئے پریشان ہورہی تھی
" کیا ہوا دانی بیٹا "تہمینہ بیگم نے پوچھا
" کچھ نہیں ماما "دانین نے انہیں جواب دیا
" اسد آجائے گا کہیں چلا گیا ہوگا "تہمینہ بیگم نے مسکرا کر کہا
" ماما کبھی وہ اتنا لیٹ نہیں ہوتے فون بھی بند ہے "دانین انکے پاس آکر بیٹھی
" رکو میں خضر سے پوچھتی ہوں"صبوحی کمرے میں جانے لگی تو خضر کی گاڑی کا ہارن بجا
" لو آگئے"تہمینہ بیگم نے کہا لیکن جیسے ہی اندر آئے وہ سب کھڑی ہوگئیں
" ہائے اللہ" صبوحی نے دیکھا تو دل پر ہاتھ رکھے آگے بڑھی
" ارے خضر کیا ہوا" اسد خضر کو سہارا دئے اندر لارہا تھا خضر کی گاڑی کا شام میں ایکسیڈنٹ ہوگیا تھا اس نے اسد کو فون کرکے بلایا تھا اسکے بعد اسد کے فون کی بیٹعی ختم ہوگئی تھی اسلئے فون بند آرہا تھا خاور صاحب انجان تھے کہ خضر کا ایکسیڈنٹ ہوا ہے خضر کو ہاتھ میں چوٹ لگی تھئ باقی ہلکی خراشیں تھیں ۔
"خضر آپ تھیک ہیں نا " صبوحی کئی بار پوچھ چکی تھی اسد نے خضر کو کمرے میں تکئے کے سہارے بٹھایا ہوا تھا خضر نے صبوحی کو دیکھا اسکی آنکھیں نم تھیں خضر نے اردگرد کا خیال بھی نہ کیا اور صبوحی کو گلے لگا لیا صبوحی اسکے گلے لگ کر رو رہی تھی دانین کو وہ لمحہ بہت خوبصورت لگا اسکی بھی آنکھیں نم ہوگئیں ۔
" چلو خضر کو آرام کرنے دہتے ہیں"تہمینہ بیگم نے کہا
" جی مام چلتے ہیں"صبوحی خضر سے الگ ہوتے ہوئے بولی
" ارے آبھی آپ کہاں چلیں آپ تو دوا ہیں بھائی کی آپ انکے پاس رہیں ہم جاتے ہیں چلو دانی"اسد نے دانین کو دیکھ کر کہا
" ویسے اسد تمہاری بیوی بھی پریشان تھی کب سے گھڑی کے پینڈولم کی طرح چکر کاٹے جارہی تھی کہ تم آئے کیوں نہیں فون کیوں بند ہے " صبوحی نے دانین کی طرف دیکھ کر کہآ
" اچھا مسز آپ کو فکر ہورہی تھی"اسد نے اسکی آنکھوں میں دیکھ کر پوچھا
" وہ۔۔۔مجھے کچن میں کام ہے " دانین گھبرا کر کہتی بھاگ گئی
" ہاہاہا "اسد کا قہقہہ گونجا
" ارے یہ کیا "خضر نے حیرت سے کہا
" کیا بھائی"اسد نے پوچھا
" دانین اور گھبرانا شرمانا "خضر نے پہلی بار دانین کو ایسے دیکھا تھ
" یہ سب میرے عشق کی کرامات ہیں بھائی "اسد نے فرضی کالر اکڑائے
" اللہ خوشیاں دکھائے تمہیں بھی اور بیگم کچھ کھانے کو لے آئیں بھوک لگی ہے"خضر نے اسد سے کہا پھر صبوحی سے کہا
" ابھی لاتی ہوں"صبوحی کہتی ہوئی اٹھی
" آپ آرام کریں بھائی میں بھی فریش ہوجائوں" اسد اپنے کمرے میں آیا تو کمرے کا دروازہ بند تھا اسد کچن میں آیا
" دانی"اسد نے دانین سے کہا جو سوپ بنا چکی تھئ
" جی"دانین نے سر اٹھا کر کہا
" کمرے کی چابی دو مجھے اور لاکڈ کیوں کیا ہے؟"اسد نے اسے دیکھ کر کہا
" وہ کمرے میں مچھر مار دوا اسپرے کیا ہے"دانین نے رخ موڑ کر کہا
" ہاں تو اب تو کھول دو"اسد نے کہا
"ابھی تو ڈالی ہے "دانین نے اب بھی رخ موڑ کر کہا اور صبوحی کو دیکھا
" میں کپڑے کہاں بدلوں " اسد نے اس سے پوچھا
" میرے کمرے میں بدل لیں خضر کا نائٹ سوٹ پپن لیں۔"صبوحی نے اسد سے کہا تو دانین نے سکھ کا سا نس لیا اسد نے خضر کا لال ٹی شرٹ اور بلیک ٹرائوزر پہنا ۔ خاور صاحب بھی آچکے تھے خضر کے ایکسیڈنٹ کا سنا تو وہ اسکے کمرے میں اسکا حال پوچھنے گئے پھر سب نے مل کر کھانا کھایا صبوحی نے خضر کیساتھ کمرے میں کھانا کھایا ۔ کھانے کے بعد سب لائونج میں بیٹھے تھے اسد نے اپنے نئے گانے کی ویڈیو بنائی تھئ وہ سی ڈی لایا تھا سب کو دکھانے ۔ ابھی سی ڈی لگانے کا سوچا ہی تھا تو اریض قوت کے ساتھ گھر میں داخل ہوا ۔
السلام علیکم "اریض نے اندر آتے ہوئے کہا
" وعلیکم السلام "اسد کھڑا ہوکر جواب دیتا ہوا گلے ملا
" کیسے ہو اسد " اریض نے پوچھا
" میں تھیک بھائی آپ اس وقت " اسد نے وقت دیکھا تو 11 30 ہورہے تھے ۔
" ہان قنوت کو لئے نکلا تھا تو سوچا دانی سے ملتا چلوں اور تم سے ایک کام بھی تھا "اریض نے کہا
" اچھا بولیں"اسد نے اس سے کہا
" کمرے میں چلیں"اریض نے قنوت کو صبوحی سے بات کرتا دیکھا اور اسد سے کہا
" یہاں آجائیں خضر بھائی کو بھی پوچھ لیں "اسد نے خضر کے کمرے کی طرف اشارہ کر کے کہا
" کیا مطلب"اریض نے پوچطا
" خضر بھائی کا ایکسیڈنٹ ہوگیا تھا شام میں"اسد نے بتایا
" اوہ اچھا چلو وہیں چلتے ہیں"اسد اریض کو لئے خضر کے کمرے میں گیا
" السلام علیکم خضر بھائی"اریض نے سلام کیا
" وعلیکم السلام "خضر نے مسکرا کر کہا
" اب کیسی طبعیت ہے" اریض خضر سے باتیں کرنے کے بعد اسد کی طرف مڑا۔
" اسد یار دانی نے مجھ سے یہ شلوار قمیض منگوایا تھا اسوقت دانی کو میں نے کہہ دیا کہ ہاں مجھے پتہ ہے سائز کا لیکن اب مجھے لگ رہا کہ ایک بار چیک کروالوں "اریض نے اسد سے کہا
" میرے لئے منگوایا"اسد نے پوچھا
" ہاں عید کے لئے شاید "اریض نے کندھے اچکا کر کہا
" اچھا ابھی سے عید کی تیاری کر رہی "اسد نے مسکرا کر کہا
" نہیں اسے اچھا لگا تھا اور تمہیں تو پتہ ہے اس برینڈ کے کپڑے دوبارہ نہیں ملتے اسلئے اس نے مجھے کہا لے لو تم پہن کر چیک کرلو نا تاکہ میں بدلوالوں اگر کوئی کمی ہو تو ورنہ دانی کا پتہ ہے نا منہ بنا لے گی" اریض نے کہا تو اسد ہنس دیا
" اچھا ریلیکس رہیں میں پہن کر آتا "اسد نے اس سے کہا
" پورا سوٹ پہننا " اریض نے کہا
" اوکے بھائی"اسد کپڑے بدلنے گیا اریض اور خضر ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرائےاسد کپڑے بدل کر آیا تو اریض نے اسکو کفلنگ دی جس پر اسد نام لکھا تھا ۔
" بھائی یہ بھی لگائوں کیا "اسد نے کفلنگ دیکھ کر کہا
" بلکل پرفیکٹ دکھنا چاہئے بندے کو "اسد نے بلیو رنگ کا شلوار قمیض پہنا تھا وہ بہت زیادہ ہینڈسم لگ رہا تھا ۔
" چلو پکچر بناتے ہیں"اریض نے موبائل نکالتے کہا
" ابھی کہہ رہے تھے کہ چیک کرو اب کہہ رہے پکچر بناتے"اسد نے حیرانی سے کہا
" اب ہینڈسم سنگر ساتھ ہو تو پکچر تو بنتی ہے نا باس"اریض نے اپنی اور اسکی کئی ساری پکچرز لیں خضر اور اریض بھی ساتھ ساتھ پکچر بنا رہے تھے۔
" اسد وہ دانین"صبوحی نے آکر اسد کو کہا
" کیا ہوا آبھی "اسد دانین کا سن کر فورا بولا
" اسد وہ دانین کمرے میں ۔۔۔۔۔" اسد نے آگے کا کچھ سنا نہیں اور بھاگتا ہوا کمرے کی طرف بڑھا۔ کمرہ آدھا کھلا ہوا تھا اسد اندر گیا تو اندر اندھیرا تھا اس نے جیسے ہی لائٹ کھولنی چاہی تو اسی وقت الیکٹریسٹی چلی گئی ۔
" دانی کیا ہوا کہاں ہو " اسد کے ہاتھ میں موبائل بھی نہیں تھا وہ اندازے سے آگے بڑھنے لگا ابھی وہ بیڈ کی طرف بڑھا ہی تھا کہ لائٹ روشن ہوئی سامنے دیوار پر اسد کی بچپن سے لیکر اب تک کی پکچرز لگی تھئ دیوار پر ہیپی برتھ ڈے مائے ڈیئر بیسٹ فرینڈ اسد لکھا ہوا تھا اس نے بیڈ پر دیکھا تو خوبصورت سا کارڈ گلابوں کے بیچ رکھا گیا تھا جس پر ہیپی برتھڈے لکھا ہوا تھا ۔اسد مڑا تو دانین نے سلور رنگ کا سوٹ پہنا ہوا تھا جس کا ڈوپٹہ اسد کے سوٹ کا ہمرنگ تھا دانین نے حجاب بھی اسی رنگ کا کیا ہوا تھا ۔
" ہیپی برتھ ڈے اسد محمود خدا تمہیں دنیا بھر کی خوشیاں دے " دانین نے مسکرا کر کہا
" یہ سب بہت خوبصورت ہے دانی"اسد سراہے بغیر نہ رہ سکا
" تمہیں پسند آیا نا "دانین نے پوچھا
" ان سب سے زیادہ مجھے تمہارا حجاب کرنا پسند آیا تم بہت زیادہ حسین لگتی ہو جب تم اس طرح حجاب کرتی ہو " اسد اسے دیکھتا ہوا بولا جس کے دل کی دھڑکن اسد کی تعریف پر ہی بڑھ گئی تھی اسکی ہتھیلیاں بھیگنے لگی تھئ ۔ اسد اسکے قریب ہوا اور اسکا ماتھا چوم لیا اور اسکی بند آنکھوں کو دیکھ کر بولا " آئی عشق یو دانی" دانین دل کی دھڑکن کو سنبھالتی سر جھکا گئی اسد کو اسکا یہ روپ بھی بہت بھایا ۔
" اچھا اب سمجھ آیا یہ پلان تمہارا تھا مجھے یہ سوٹ پہنانے کا اور یہ سب" اسد نے ماحول ہلکا پھلکا بنانے کو کہا
" جی اب آپ کو تو اپنا برتھڈے یاد رہتا نہیں اسلئے اسی کا فائدہ اٹھا کر سرپرائز پلان کیا " دانین نے مسکراتے ہوئے کہا
( اسے صبح کی بات یاد آگئی جب اسد جلدی نکل گیا تھا اور یہ سب ناشتہ کر رہے تھے
" آبھی دعا کریں اسد کو یاد نہ آجائے کہ آآج انکا برتھ ڈے ہے"
" بے فکر رہو دانین اسد کو صرف تمہارا برتھڈے یاد رہتا اور تم دونوں کی فرینڈشپ اینیورسری یاد رہتی اسکے علاوہ اسے مام ڈیڈ کا بھی برتھڈے یاد نہیں رہتا " خضر نے مسکراتے ہوئے اسکی معلومات میں اضافہ کیا تھا ۔
" سچ دانی وہ بہت چاہتا ہے تمہیں اسی لئے تو دیکھو صرف تمہیں یاد رکھا ہوا ہے اس نے " دانین اسکی بات پر سر جھکا کر مسکرا دی تھئ ۔)
" چلیں اب نیچے سب آپکا انتظار کر رہے "دانین نے اسد سے کہا
" کیا مطلب "اسد نے پوچھا
" مطلب نیچے چل کر دیکھ لیں"اسد دانین کے ساتھ نیچے آیا تو ٹی وی لائونچ میں ٹیبل پر کیک رکھا ہوا تھا اور ساتھ فریسکو کے سموسے اور چاٹ بھی تھی۔
" لو بھئی آگیا برتھڈے بوائے"اریض نے کہا
اسد ہنستے ہوئے خاور صاحب سے ملا خضر بھی وہیں بیٹھا تھا اسد سب سے ملتا ہوا کیک کی طرف آیا اور کیک کاٹتے وقت اس نے دانین کا ہاتھ پکڑا اور اسکے ساتھ کیک کاٹا اسد نے دانین کو کیک کھلایا پھر دانین نے سب کو کیک سرو کیا اور اسد کے لئے بڑی پلیٹ میں سموسے لیکر آئی۔
" چلیں اب یہ کھائیں"دانین نے اسد سے کہا
" اتنے سارے سموسے"اریض نے کہا
" بھائی اسد کے لئے کچھ بھی نہیں انہیں میں نے آج ڈنر میں صرف سوپ پلایا تھا اب انکو بھوک بھی لگی ہوگی"دانین نے کہا تو اریض نے رشک والے انداذ میں ہاتھ اٹھایا
" چلو بھئی کھالو ہمیں نہیں دیا دانی بس اپنے شوہر نامدار کی فکر ہے کہ اسے بھوک لگی ہوگی ہمارا بھی کچھ خیال کرلو لڑکی" اریض نے دہائی دی دانین نے سموسے کی ٹرے لاکر رکھی ساتھ نمکو اور کولڈ درنک بھی رکھی اسد بہت خوش تھا ۔ جب اریض اور قنوت گئے تو دانین کچن سمیٹ کر کمرے میں چلی گئی اسد کچن میں کولڈرنک لینے آیا تو صبوحی خضر کے لئے ہلدی والا دودھ بنا رہی تھی۔
" مبارک ہو اسد "صبوحی نے کہا
" خیر مبارک آبھی"اسد نے جواب دیا
" تمہارا عشق کامیابی کی طرف بڑھ رہا "صبوحی نے کہا
" ہممم بس دعا کریں"اسد نے مسکرا کر کولڈ ڈرنک گلاس میں ڈالی
" تم نے نوٹ نہیں کیا "سبوحی نے پوچھا
" کیا نوٹ نہیں کیا "اسد پوچھے بغیر نہ رہ سکا
" دانی اب تمہارا نام نہیں لیتی آپ کہہ کر مخاطب کرتی اور دوسروں کے سامنے انکا خیال انکو بھوگ لگی ایسا کہتی۔"صبوحی نے مسکرا کر کہا
" ہممم مجھے بھی یہ بدلائو اچھا لگا آبھی بس وہ سمجھ جائے میریے جذبات یہی بہت ہے"اسد نے کولڈ درنک پیتے ہوئے کہا
" سمجھ گئی ہے ماننا باقی ہے بس ویسے اسد بیوی کی محبت کا اندازہ تو ۔۔۔۔۔۔" ان دونوں کے مابین بات ہوئی اور اسد مسکراتا ہوا کمرے کی طرف بڑھا جہاں دانین تھک کر سو چکی تھی اسد نے اسکے ماتھے پر پیار کیا اور فین پیج کھول لیا اور اپنی ابھی کی پکچر اپلوڈ کی ساتھ لکھا
"بیوٹی فل سرپرائز فروم مائی وائف" اور دانین کو دیکھا پھر پوسٹ پر کمنٹس کرتے کرتے وہ بھی نیند سے بے حال ہوکر سونے کے لئے لیٹ گیا۔
☆♡☆♤☆♤☆♤♤☆♤☆♤☆♤☆
أنت تقرأ
میرا یہ عشق
Romanceیہ کہانی ہے دو دوستوں کی جو اچھے دوست تھے دکھ سکھ کے ساتھی تھے پھر محرم بن کر دشمن بنے ایک دوسرے کے ۔ منتشر ذہن اور رشتوں کی کہانی۔