ساگر
از : تشہ گوہرآج ایک تھکا دینے والا دن تھا۔ وہ سڑک پہ چلتے چلتے تھکنے لگی تھی مگر کسی سواری میں جانے کا ارادہ نہیں تھا۔ تقریباً مہینہ ہونے کو آگیا تھا انھیں اس شہر میں آئے ہوئے اور ان کی جمع پونجی بھی ختم ہونے کے قریب تھی، اسی لیے وہ پیسے بچا رہی تھی۔ اسے اگلے مہینے کے راشن کے لیے چیزیں خریدنی تھیں اور ابھی تک اسے کوئی کام بھی نہیں ملا تھا کہ وہ بس میں ہی سفر کر لیتی۔ وہ تعلیم میں اچھی تھی اور گریجویشن کیا ہوا تھا لیکن اس ڈگری کے ساتھ اچھی جاب ملنا بہت ہی مشکل تھا۔ اس وقت بھی وہ ایک گھنٹہ پیدل چلتی چلتی اپنے گھر کے دروازے کے آگے کھڑی تھی اور اس کے دو مرتبہ بجانے پر بھی دروازہ نہیں کھلا تھا۔ ایک تو وہ یوں ہی تھکی ہوئی تھی اور پیدل چلنے سے ٹانگیں شل ہو رہی تھیں، اوپر سے دروازہ بند۔ اسے نا چاہتے ہوئے بھی غصہ آنے لگا تھا۔ وہ ابھی دروازہ پیٹنے ہی والی تھی کہ سامنے والے گھر سے اس کی امی نکلتے ہوئے دکھائی دیں۔
"آپ کہاں چلی گئی تھیں؟ میں کب سے انتظار کر رہی تھی۔" اس کی آواز میں کوفت نمایاں تھی۔
"بس زرا کچھ پیسے چاہیے تھے تو سوچا پڑوسی سے ادھار لے لوں۔" اس نے ماں کے عقب میں دیکھا جہاں اب ایک عدد "پڑوسی" نمودار ہو چکا تھا۔ اس نے عجیب سی نظروں سے اس پڑوسی کا سرسری جائزہ لیا جو اس کے ماں کے قریب مگر کچھ فاصلے پر کھڑا مسکرا کر اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ وہ تقریباً انتیس تیس کے قریب کی عمر کا مرد تھا اور شکل و صورت کا کافی اچھا تھا۔ اس نے ہلکی نیلی جینز کے اوپر سفید رنگ کی پلین سی شرٹ پہن رکھی تھی اوپر کا ایک بٹن بھی کھلا ہوا تھا۔ آستینوں کو کہنیوں تک موڑ رکھا تھا۔ اور مسکراتے ہوئے بہت اچھا لگ رہا تھا۔ مگر اس وقت اسے اس کے یوں دیکھنے پر شدید غصہ آیا تھا۔
"آپ نے کیوں لیے پیسے؟ میں گھر آ ہی رہی تھی۔ تھوڑا سا انتظار کر لیتیں آپ۔" وہ بد تمیز نہیں تھی مگر اس وقت واقعی غصہ آ رہا تھا اسے۔
"سبزی والا آیا تھا۔ آلو لینے تھے تمھارا انتظار کرتی تو چلا جاتا وہ۔" اس نے ایک افسوسناک نظر ماں پہ ڈالی۔
"کتنے پیسے لیے؟"
ماں نے جواب نہیں دیا بلکہ اس شخص ک دیکھا جو آنکھوں ہی آنکھوں میں اس کی ماں کو تسلی دے رہا تھا۔
"کتنے پیسے؟" اس نے زور دے کر اور اس شخص کو دیکھتے ہوئے کہا۔
"وہ میرا اور ماں جی کا ادھار ہے۔ آپ غصہ کیوں ہو رہی ہیں۔" اس شخص نے مسکرا کر یوں کہا جیسے وہ کوئی بہت ہی عجیب بات کر رہی ہو۔ اوپر سے اس دیدہ دلیری سے وہ اس کی ماں کو "ماں جی" کہہ رہا تھا جیسے وہ اس کی سگی ماں ہو۔
"آپ سے مطلب؟ میں اپنی امی سے پوچھ رہی ہوں۔ امی بتائیں کتنے پیسے لیے آپ نے؟" اس نے اسے جواب دے کر ماں کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔
"پانچ سو۔" اس کی می نے بتایا تو اس نے جھٹ اپنے پرس سے سارے پیسے نکالتے ہوئے نوٹ گنے۔ کل ملا کے چھے سو بیس روپے تھے۔ اس نے پانچ سو اس کی طرف بڑھائے۔ اس نے دونوں ہاتھ پینٹ کی جیبوں میں ڈال رکھے تھے۔ اب بھی باہر نہیں نکالے اور ہنوز مسکراتے ہوئے اسے دیکھ رہا تھا جیسے ٹی وی پہ کوئی ڈرامہ چل رہا ہو۔ اس لڑکی نے قریب جا کر اس کا ہاتھ اس کی جیب سے نکالتے ہوئے اس پہ پیسے دھرے۔ وہ جیسے اس کی اس حرکت سے محظوظ ہوا تھا۔
"آئیندہ آپ کو ہم پہ احسان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔" اس نے قدرے تنبیہی انداز میں اسے آنکھوں میں دیکھ کر کہا تھا۔
"اس میں احسان والی کیا بات ہے؟ پڑوسی کا پڑوسی پہ حق ہوتا ہے!" اس نے بڑے مزے سے پیسے واپس اس کے ہاتھ پہ رکھے جو جانے کے لیے پلٹ چکی تھی۔ اس پڑوسی کی اس حرکت پر جیسے مشکل سے ضبط کیا تھا۔
"آپ کا یا ہمارا ایک دوسرے پہ کوئی حق نہیں۔ اچھی طرح ذین نشین کر لیجیے اس بات کو!" اس نے پیسے تقریباً اس کے منہ پر پھنکے تھے۔ اس کا یوں دیدہ دلیری سے اسے دیکھنا اور حق جتانا اسے زہر لگ رہا تھا۔ وہ اب مزید اب اس شخص کے منہ نہیں لگنا چاہتی تھی اس لیے غصے کی ایک نظر اس پہ ڈال کر پلٹ گئی۔ اس کی ماں نے اندر جاتے ہی اس سے کہا تھا۔
"کیا ضرورت تھی اتنی برتمیزی کرنے کی۔ اس بے چارے نے تو بس مدد کی تھی۔"
"آپ کو مدد لینے کے لیے وہی ملا تھا؟" پرس اور فائل اس نے کچن کی سلیب پر رکھا اور پانی کی بوتل اٹھا لی۔
"میں تو سامنے والوں کے گھر گئی تھی۔ مجھے کیا پتا تھا کہ وہاں کوئی فیملی نہیں بلکہ اکیلا ہی رہتا ہوگا بےچارہ۔ اتنا اچھا تو ہے۔"
"تو آپ اسی "اچھے" کے ساتھ جا کر رہ لیں نا!" اس نے جیسے چڑ کر کہا اور پانی پی کر گلاس میز پہ رکھا۔ وہ بہت تھکی ہوئی تھی اس لیے اندر کمرے میں جاتے ہی سو گٸی۔ کھانا کھائے بغیر۔
۔۔۔
وہ ایک تین منزلہ عمارت تھی جس میں دو دو کمروں کے فلیٹ آمنے سامنے بنے تھے۔ امل کا گھر اس بلڈنگ کے گراؤنڈ فلور پہ تھا۔ اور سامنے والا گھر ساگر کا تھا۔ ساگر اکیلا رہتا تھا اور کچھ عرصے سے اسی گھر میں رہ رہا تھا۔ انھیں مہینہ ہو گیا تھا یہاں شفٹ ہوئے مگر ساگر نے آج پہلی بار سامنے والے گھر والے نئے پڑوسی دیکھے تھے۔ وہ گھر پہ کم ہی رہتا تھا مگر آج کوئی خاص کام نہیں تھا تو وہ گھر میں آرام ہی کر رہا تھا جب دروازے کی بیل بجی۔ وہ انھیں اندر ہی لے آیا تھا۔ وہ ماں کی طرح شفیق سی خاتون لگ رہی رہی تھیں۔ اتنی پہچان تو اسے ہو گئی تھی لوگوں کی۔
"بیٹا امی ہیں تمھاری گھر پہ؟" ان کے سوال پہ اسے ان خاتون کی شفقت اور معصومیت کا اندازہ ہوا۔
"نہیں! میں اکیلا رہتا ہوں۔"
"اچھا! وہ دراصل سبزی والا آیا ہے باہر۔ مجھے آلو لینے تھے۔ بیٹی گھر پہ نہیں ہے تو اس سے لے لیتی۔ تمھارے پاس سو روپے ہونگے بیٹا؟" ان کی بات مکمل ہوئی تو اس نے والٹ جیب سے نکالا۔ کم سے کم نوٹ بھی اس وقت اس کے پاس پانچ سو روپے کا تھا۔ اس نے وہی ان کی طرف بڑھا دیا۔
"نہیں بیٹا، بس سو روپے ہی چاہیں۔ وہ آئے گی تو میں واپس دے دوں گی تمھیں۔"
"ماں جی! آپ یہی رکھ لیں۔ میرے پاس کھلے نہیں ہیں اس وقت۔" وہ انھیں واپسی کی نیت سے دے بھی نہیں رہا تھا۔
"اچھا شکریہ بیٹا!" وہ اس سے پیسے لے کر آلو لینے چلی گئیں اور تقریباً گھنٹے بعد ہی اس کے لیے سالن روٹی لے آئی تھیں۔
"ارے ماں جی! ان سب کی کیا ضرورت تھی؟" وہ ان کی اس درجہ شفقت اور اپنائیت پر حیران بھی تھا اور خوش بھی۔
"تم اکیلے رہتے ہو تو کھانا کون بناتا ہے؟ تم بنا لیتے ہو؟" انھوں نے ٹرے رکھنے کے لیے ادھر ادھر کوئی میز ڈھونڈنے کی کوشش کی مگر نہ پا کر کچن کی سلیب پر رکھ دی۔
"نہیں! میں باہر کے کھانے کا عادی ہوں۔" وہ سمجھ سکتا تھا وہ کیوں لے کر آئیں تھی اس کے لیے کھانا۔ اس نے شاید ہی زندگی میں گھر کا بنا ہوا تازہ کھانا کھایا تھا۔ وہ اسے کھانا دے کر جا رہی تھیں جب ان کے گھر کا دروازہ بجنے کی آواز آئی تھی۔ اور کچھ ہی دیر میں وہ اس مغرور حسینہ سے حسین ملاقات کا شرف بھی حاصل کر چکا تھا۔ وہ غریب لوگ تھے یا نہیں لیکن امیر تو بالکل نہیں تھے۔ شاید سفید پوش تھے۔ اور اس کا اندازہ ساگر نے اس لڑکی کے پرس میں موجود پیسوں اور اس کی خودداری سے لگایا تھا۔ جو اس کی مدد کو انا کا مسئلہ بنا کر احسان کا نام دے رہی تھی۔ وہ لڑکی ایک آئیڈیل لڑکی تھی اگر اس کے مزاج میں کڑواہٹ کم ہو تو۔ جس طرح وہ اس کے منہ پہ پیسے مار کر گئی تھی، اس کی شخصیت ایسی تو نہیں تھی کہ کوئی بھی لڑکی اسے یوں بے عزت کر دیتی۔ بلکہ کوئی اور ہوتی تو اس کی احسان مند ہو جاتی۔ مگر اس لڑکی کی انا تو آئیفل ٹاور سے بھی اونچی تھی۔ وہ سر جھٹکتا کھانے کے لیے بیٹھ گیا۔ کھانا واقعی مزے کا تھا۔ برسوں بعد اس نے یوں گھر کا کھانا کھایا تھا۔
۔۔۔
دو دن بعد کی بات ہے۔ وہ اس وقت بھی ایک بلڈنگ سے انٹرویو دے کر نکلی تھی اور شدید گرمی کے باعث اس کا سر چکرانے لگا تھا۔ اس شہر کا موسم بھی عجیب تھا۔ کبھی اچانک بارش ہو جاتی اور کبھی اچانک سورج نکل آتا۔ اس نے صبح کا ناشتا کر رکھا تھا اور اب چار گھنٹے بعد بھوک بھی لگ رہی تھی اور کمزوری بھی محسوس ہو رہی تھی۔ مگر آج پھر وہ پیدل چل رہی تھی۔ وہ محنت اور مشقت سے نہیں گھبراتی تھی۔ اسے کچھ ہی دیر ہوئی تھی چلتے چلتے جب ایک کار کا ہارن سنائی دیا۔ وہ باہر لنچ کرنے کے ارادے سے نکلا تھا جب وہ مغرور حسینہ اسے سڑک کنارے پیدل چلتی نظر آئی تھی۔ کار اس کے قریب رکی مگر اس نے نہ ہی دیکھنے کی زحمت کی نہ رکنے کی۔ ہارن پھر بجا اور اس بار اس کو پکارا بھی گیا۔
"ارے۔۔۔۔۔آپ پیدل کہاں جا رہی ہیں؟ آئیں میں ڈراپ کر دوں۔" وہ پھر بھی اس کی طرف متوجہ نہیں ہوئی جیسے وہ اس سے نہیں کسی اور سے کہہ رہا ہو۔ اسے اس بار کار روک کر باہر ہی آنا پڑا۔ وہ اس کے سامنے آ کر رکا تو امل نے سر اٹھایا۔
"کیا بدتمیزی ہے؟" امل کو اس کا یوں سامنے آ جانا بہت برا لگا تھا۔
"معذرت! لیکن میں کہہ رہا تھا اس طرح اکیلی پیدل وہ بھی گرمی میں آپ کہاں جا رہی ہیں؟ میں ڈراپ کر دیتا ہوں۔ " اب وہ شائستگی اور نرمی سے مسکرا بھی رہا تھا۔ کالا چشمہ لگائے اسٹائل سے بال بنائے سفید شرٹ اور کالی پینٹ پہنے ہوئے وہ یوں تیار لگ رہا تھا جیسے کسی لڑکی کے ساتھ گھومنے جا رہا ہو یا گھوم کر آیا ہو۔ اوپر سے اس کے کلون کی مسحور کن خوشگوار مہک ۔۔۔اف!
"بہت شکریہ! میں چلی جاؤں گی۔" اس نے صاف صاف انکار کیا تھا۔ اگر وہ اس وقت مر بھی رہی ہوتی تو بھی اس شخص کے ساتھ کبھی بھی نہ جاتی۔
"آپ خواہ مخواہ تکلف کر رہی ہیں۔ میرے پاس گاڑی ہے۔ آرام سے ڈراپ کر دوں گا میں آپ کو۔ آئیں بیٹھیں۔" وہ یوں بولا جیسے وہ اس کی بات مان گئی ہو۔
"آپ کو سمجھ نہیں آرہی؟ میں آپ کے ساتھ جانا نہیں چاہتی۔" غصے سے کہہ کر وہ آگے بڑھ گئی تھی لیکن وہ جیسے اس کا پیچھا نہ چھوڑنے کی قسم کھا چکا تھا۔ اس کے ساتھ ہی چلنے لگا۔
"ویسے میں اتنی بری ڈرائیونگ نہیں کرتا۔ آپ بھروسہ کر سکتی ہیں مجھ پہ۔" اب اس کی برداشت سے باہر ہو گیا تھا۔ وہ ایکدم اس کی جانب مڑی اور زناٹے دار تھپڑ اس کے بائیں زخسار پر مار دیا۔ وہ ہکا بکا سا گال پہ ہاتھ رکھتا اسے بے یقینی سے دیکھنے لگا تھا۔
"گو ٹو ہیل!" کہہ کر وہ تیز تیز قدموں سے آگے بڑھ گئی۔ اب اتنی عقل تو اسے بھی تھی کہ تھپڑ کھانے کے فوراً بعد تو وہ اس کے پیچھے جا نہیں سکتا تھا۔ نہ ہی جانا چاہتا تھا۔ ایسا نہیں تھا کہ زندگی میں اس نے کبھی تھپڑ نہیں کھایا تھا۔ لیکن تھپڑ سے زیادہ وہ اس لڑکی کی جرات پہ حیران تھا۔ کیسے دھڑلے سے وہ اس چلتی بڑی سڑک پر کسی چیز کا لحاظ کیے بغیر اسے تھپڑ مار گئی تھی۔ کتنے لوگوں نے دیکھا ہوگا۔ وہ واپس گاڑی میں آگیا اور اسے دور جاتا دیکھتا اپنی گاڑی اس کے قریب سے زن سے بھگا لے گیا۔ یہ اس کے غصے کا اظہار تھا۔
۔۔۔
وہ گھر آئی اور ہمیشہ کی طرح مایوسی سے جاب نہ ملنے کا بتا کر کھانا کھا کر سو گئی۔ شام کو اس کی آنکھ کھلی تو کمرے کے باہر سے کچھ آوازیں آ رہی تھیں۔ یہ ٹی وی کی آواز نہیں تھی۔ کوئی ان کے گھر پر آیا تھا۔ وہ بالوں کو کیچر میں باندھتی، دوپٹہ سینے پر پھیلائے باہر نکلی تو ایک لمحے کو اسے حیرت کا شدید جھٹکا لگا۔ تھپڑ کھا کر بھی وہ اس کے گھر میں موجود تھا تو بہت ہی ڈھیٹ آدمی تھا۔
"تم یہاں کیا کر رہے ہو؟" امل نے ساری تمیز اور لحاظ ایک طرف رکھ دیا۔ وہ اس کے لہجے میں کاٹ اور نفرت صاف محسوس کر سکتا تھا۔
"ماں جی نے بلایا تھا۔" اس کے سوال کا جواب ساگر نے بغیر کسی تاثر کے دیا۔ اور یوں لگ رہا تھا جیسے وہ اس تھپڑ کو بھول چکا ہے جو چند گھنٹے پہلے کھایا تھا۔
"کون ماں جی؟" وہ سمجھ نہ سکی یہاں کون سی دوسری عورت تھی جسے وہ ماں جی کہہ ریا تھا۔ وہ نظریں گھما کر تلاش کرنے کی کوشش کر رہی تھی جب اس کی ماں نے کچن سے آواز لگائی۔
"میں نے بلایا تھا۔ چولہا فٹ کرنا تھا۔ اس کا پائپ اتر گیا تھا۔ مجھ سے ہو نہیں ریا تھا۔ تم سو رہی تھی تو میں نے سوچا ساگر کو بلا لوں۔"
"سو ہی رہی تھی مر نہیں گئی تھی۔" اس نے جل کر کہا۔ پتا نہیں کیوں یہ بندہ اسے زہر لگتا تھا۔ کچھ تھا، جو اسے کھٹکتا تھا۔ کچھ عجیب سا۔ اور اب تو نفرت ہی ہونے لگی تھی اس شخص سے۔
"کیسی باتیں کر رہی ہو۔ اللّٰہ نہ کرے تمھیں کچھ ہو۔" اس کی ماں نے دہل کر کہا۔ اس نے کوئی اثر نہیں لیا بلکہ آگے بڑھ کر اسے بازو سے پکڑ کر اٹھایا اور دروازے کی جانب دھکیلا۔
"کر دیا نا ٹھیک؟ اب جاؤ یہاں سے۔" وہ لڑکی اس کا ضبط آزما رہی تھی۔ اتنی تذلیل! پہلے تھپڑ اور اب دھکے۔
"آپ مجھے اس طرح نہیں نکال سکتیں۔ مجھے ماں جی نے بلایا ہے۔ انھی کی اجازت سے جاؤں گا۔ آپ کے کہنے سے نہیں۔" وہ اس کی گرفت سے بازو چھڑاتا واپس کرسی پر بیٹھ گیا۔ اس کا اطمنان دیکھ کر تو امل کا دماغ گھوم گیا۔
"امی! نکالیں اسے یہاں سے۔ اور یہ آئیندہ ہمارے گھر نہیں آئے گا۔" امل کو ماں پہ بھی غصہ آرہا تھا جنھوں نے اس مصیبت کو گھر بلا لیا تھا۔
"ایسے کیسے نکال دوں؟ مدد کی ہے اس نے۔ اور چائے بنا رہی ہوں، بغیر پیے تو نہیں جانے دے سکتی میں۔" اس کی ماں کو بھی اس کا رویہ سمجھ نہیں آرہا تھا۔ پتا نہیں ایک دم سے اسے کیا ہو گیا تھا۔ وہ ایسی تو نہیں تھی۔ ساگر مسکرا نہیں رہا تھا پھر بھی اسے لگا جیسے وہ اس کا مذاق اڑا رہا ہے۔ اسے اپنی بے عزتی محسوس ہوئی۔ وہ دھڑ سے اپنے کمرے کا دروازہ بند کرتی اندر بند ہو گئی تھی۔
۔۔۔
YOU ARE READING
Saagar (Complete)
Romanceوہ ساگر جیسا تھا۔ ساری زندگی اس نے لوگوں کی بھیڑ میں بھی تنہا گزاری تھی۔ اسے کبھی محبت نہی ملی مگر اسے محبت ہو گٸ تھی۔ کیا زندگی میں اس کے لیے محبت تھی ہی نہی؟ کیا وہ اس محبت کا حقدار نہی تھا جو سب کو ملتی تھی؟ کیا وہ محبت دے کر بھی محبت پا نہی سکتا...