مومنہ اسکول جانے لگی تھی اور ایک مہینہ بھی ہو گیا تھا اسے سکول میں داخل ہوئے۔ ایک دن مومنہ اس سے اپنا ہوم ورک کرتے کرتے میتھس کا سوال حل کروانے آئی۔
"اپنی کتاب لے کر آؤ۔ اس میں سے سمجھا دوں گی دیکھ کر تا کہ تمھیں پھر سے نہ بھولے۔"
اور مومنہ جو اپنی کتاب نکال رہی تھی، کتاب نکالتے ہی اس کے ہاتھ سے پھسل کر نیچے گر گئی۔ وہ کتاب اٹھانے جھکی تو گود میں رکھا اس کا بیگ بھی الٹ گیا۔ اس کے بیگ سے کافی ساری چاکلیٹس اور کینڈیز باہر نکل آئیں۔ مومنہ ایکدم گھبرا کر وہ سب اٹھانے لگی مگر تب تک امل دیکھ چکی تھی۔
"یہ کہاں سے آئیں تمھارے پاس؟"
"وہ۔۔۔آپی میری۔۔دوست نے دی ہیں۔" اس کے اٹکنے سے امل سمجھ گئی تھی کہ وہ جھوٹ بول رہی ہے۔
"کون سی دوست؟ جھوٹ بول رہی ہو نا تم؟ جس اسکول میں تم پڑھتی ہو وہاں کوئی لڑکی اتنی امیر نہیں ہے کہ تمھیں اتنی مہنگی مہنگی چیزیں دے دے۔ سچ سچ بتاؤ چوری تو نہیں کی تم نے؟" امل اس کو ڈپٹ کر بولی تو اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔
"قسم لے لیں آپی۔ میں نے چوری نہیں کی۔"
"تو پھر کہاں سے آئیں اتنی مہنگی چاکلیٹس تمھارے پاس؟ اور وہ بھی اتنی ساری؟"
مومنہ روہانسی ہونے لگی۔ امل نے اسے بازو سے پکڑ کر زور سے ہلایا۔
"بولو!"
"وہ ساگر بھائی۔۔۔انھوں نے دی ہیں۔" وہ آہستہ سے یوں بولی جیسے کوئی جرم کیا ہو۔ اور اسی لیے وہ بتا نہیں رہی تھی۔ امل کے چہرے پہ ایک رنگ آیا اور ایک گیا۔ اس نے فوراً سے اس کے بیگ سے ساری چاکلیٹس نکالیں اور دوپٹہ اوڑھتی تن فن کرتی وہاں سے نکلی۔ مومنہ کی تو جیسے سانس اٹک گئی تھی۔ وہ زور زور سے اس کے گھر کا دروازہ بجا رہی تھی۔ بجا نہیں رہی تھی، توڑنے کی کوشش کر رہی تھی۔
"آرہا ہوں۔۔۔!"
اندر سے آواز آئی اور پھر دروازہ کھل گیا۔ دروازہ کھلنے کی دیر تھی اس نے یہ بھی نہ دیکھا کہ سامنے وہی ہے یا کوئی اور۔ وہ اکیلا رہتا تھا تو اس کے علاوہ اور کون ہوتا۔ امل نے وہ ساری چاکلیٹس اور کینڈیز والا پیکٹ اس پر پھینکا۔
"میری بہن سے دور رہو۔ بہت اچھی طرح جانتی ہوں میں تم جیسے لوگوں کو۔ بچی سمجھ کر شیشے میں اتار رہے ہو! لیکن کان کھول کر سن لو۔ آئیندہ اگر مجھے تم یا تمھاری کوئی بھی چیز اپنی بہن کے آس پاس بھی نظر آئی تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا۔" اپنی سنا کر وہ مڑنے والی تھی جب اندر سے ایک اور آدمی باہر نکلا۔
"الماری سیٹ کر دی ہے۔ پیسے دے دینا اس سوزوکی والے کو۔"
کہہ کر وہ آدمی سلام کرتا باہر نکل گیا۔ امل کی آواز اتنی ہلکی نہ تھی کہ اسے سنائی نہ دیتا اور اگر وہ جانتی کہ اندر وہ اکیلا نہیں تھا تو شاید تھوڑا لحاظ رکھتی، یا شاید تب بھی نہ رکھتی۔ وہ بھی اس سے مزید کچھ کہے پلٹ گئی اور اپنے گھر میں آگئی۔ پیچھے وہ دروازے پہ سرخ چہرہ لیے کھڑا تھا۔ پتا نہیں اگر وہ تھوڑا سا خوش ہو رہا تھا تو اس لڑکی کو کیا مسئلہ تھا۔ اس نے جھک کر وہ پیکٹ اٹھایا جو امل کے پھینکنے کے باعث اس کے سینے سے ٹکرا کر نیچے گر گیا تھا۔ بالکل وہی انداز تھا جب پہلی بار وہ پیسے اس کے منہ پر پھینک کر گئی تھی۔
۔۔۔
مومنہ اس سے ڈرتے ڈرتے بات کرتی تھی۔ اس دن کے بعد سے ساگر کا نام اس کے سامنے کسی نے نہیں لیا تھا۔ امل کو کچھ سکون تھا کہ جیسے وہ شخص اب ان کی زندگیوں سے دور چلا گیا تھا۔ لیکن یہ خوشی بھی مختصر تھی۔ دو ہفتے بعد کی بات ہے۔ وہ ٹیوشن سے آدھا گھنٹہ پہلے ہی گھر آگئی تھی۔ جہاں وہ پڑھانے جاتی تھی ان لوگوں نے کسی شادی میں جانا تھا تو اسے جلدی چھٹی دے دی۔ وہ گھر آئی تو صرف مومنہ موجود تھی اور ٹی وی دیکھ رہی تھی۔ اس نے مومنہ سے پوچھا۔
"امی کہاں ہیں؟"
"وہ ساگر بھا۔۔۔۔۔۔" وہ ٹی وی دیکھنے میں مگن تھی۔ بے اختیار الفاظ اس کے منہ سے پھسلتے ہی وہ اچانک رکی تھی۔ "پڑوس میں گئی ہیں۔" مومنہ نے اپنی طرف سے بات سنبھال لی تھی۔ مگر وہ ساگر کا نام سن چکی تھی۔
"کیا؟ ساگر کے گھر؟ وہاں کیا کر نے گئی ہیں؟"
"پتا نہیں!۔۔وہ ان کے دوست آئے ہیں تو ۔۔۔وہ امی کو بلا کر لے گئے۔ آنے والی ہونگی اب تو!"
مومنہ نے ڈرتے ڈرتے کہا۔ امل جانے لگی تھی پھر اس کے دوست کا خیال کر کے رک گئی۔ اس کی امی تھوڑی دیر میں آئی تھیں اور ہاتھ میں ایک ڈش بھی تھی جس میں سے بریانی کی خوشبو آ رہی تھی۔
"ارے آج تم جلدی آگئی؟" امل نے صاف محسوس کیا تھا کہ وہ اسے یوں دیکھ کر تھوڑا گھبرا گئی تھیں۔ پتا نہیں وہ ساگر سے اتنی بد گمان کیوں رہتی تھی۔
"جی! یہ آپ کے ہاتھ میں کیا ہے؟" امل نے انجان بنتے ہوئے پوچھا۔
"یہ؟ بس وہ پڑوسیوں سے ملنے گئی تھی تو زارا کی امی نے زبردستی بریانی دے دی۔"
بریانی کی خوشبو سے صاف پتا چل رہا تھا کہ وہ انھوں نے ہی بنائی ہے۔ پھر بھی ساگر کا نام چھپانے کی غرض سے انھوں نے جھوٹ بول دیا۔
"اچھا؟ زارا کی امی سامنے والے گھر میں کب سے شفٹ ہو گئیں؟ صبح تو میں نے ساگر کو اس گھر سے نکلتے دیکھا تھا۔" اس نے جیسے ماں کا جھوٹ پکڑ لیا تھا۔
"وہ بس بے چارہ مجھ سے پوچھ رہا تھا کہ میں بریانی بنا دوں گی اس کے لیے؟ اس کا دوست آیا ہے۔"
"تو بازار سے نہیں ملتی بریانی؟ یا بازار بند ہو گئے سارے؟"
"بازار کا کھانا گھر جیسا تھوڑی ہوتا ہے۔"
"تو آپ کو ساتھ لانے کی کیا ضرورت تھی؟"
"وہ تو اس نے اصرار کیا کہ اب کہاں میں الگ سے جا کر پکاؤں گی۔ ویسے بھی زیادہ ہی بنوائی تھی اس نے۔"
"اچھاااا۔۔۔۔۔۔اب میں سمجھی کہ ہمارے پڑوسی اتنے اچھے کیوں ہیں جو روز روز کچھ نہ کچھ بھیج دیتے ہیں اور آپکو بھی پکانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔"
امل نے تحمل سے کہا لیکن آخر میں غصے والے تاثرات آ گئے۔
"ہاں تو اگر میں بتا دیتی کہ ساگر کے گھر سے آئے ہیں تو تم کھاتی؟ ویسے بھی پکاتی تو میں ہی تھی۔ "
"آپ؟ آپ پکا کر دے کر آتی تھیں اسے؟" اسے جیسے ماں کی بات پر یقین نہیں آیا۔
"دے کر نہیں آتی تھی۔ وہیں پکا کر آ جاتی ہوں۔ تم ہی نے تو کہا تھا کہ وہ یہاں نہ آئے میں وہاں چلی جایا کروں۔"
اسے ماں کی بات پر افسوس بھی ہوا اور غصہ بھی آیا۔ اس کی طنز میں کی گئی بات کو وہ سنجیدہ لے گئی تھیں۔
"امی۔۔۔میں نے۔۔۔"
غصے اور حیرت کے مارے اس کے منہ سے کچھ نکل نہیں سکا۔ وہ پیر پٹختی اندر چلی گئی اور احتجاجاً اس نے کھانا بھی نہیں کھایا۔
۔۔۔
ساگر کا دوست آیا تھا۔ وہ اسے باہر بھی کھانا کھلا سکتا تھا مگر اس نے اپنے دوست کو جب امل کی امی کا بتایا کہ وہ اس کا بالکل ماں کی طرح خیال رکھتی ہیں اور بہت مزے کا پکا پکا کر اس کو دیتی بھی ہیں تو وہ بھی ان کے ہاتھ کا پکا کھانا کھانے کی فرمائش کرنے لگا۔ یوں بھی کچھ عرصے سے ساگر ان سے فرمائشی کھانے بنوانے لگا تھا۔ پہلے تو وہ خود گھر میں جو بھی بناتی تھیں، اسے بھی بھجوا دیتی تھیں پھر وہ انھیں چیزیں لاکر دے دیتا تھا اور وہ بنا کر دینے لگیں۔ وہ ان سے جتنا بھی بنواتا تھا آدھا انھیں دے دیتا تھا۔ یوں دونوں کی ضرورت پوری ہو جاتی تھی۔ وہ صرف ماں کے کھانے کی لالچ میں ان سے کھانا بنواتا تھا، ورنہ وہ اس سے کچھ نہیں لیتی تھیں۔ پھر اس نے خود کو ان کا بیٹا کہنا شروع کر دیا۔ اب وہ کبھی کبھار ان کے ساتھ چائے بھی پینے لگا تھا، جب امل گھر میں نہیں ہوتی تھی۔ پھر وہ اس کے گھر ہی آ کر چائے پینے لگیں اور چھے بجے سے پہلے واپس چلی جاتی تھیں۔ وہ صرف ان کی وجہ سے پانچ بجے ہی گھر آ جاتا تھا ورنہ پہلے رات گئے ہی آتا تھا یا اکثر کئی کئی دن گیراج میں ہی گزار دیتا تھا۔ اب اسے لگتا تھا کہ جیسے زندگی اس پر کچھ مہربان ہے۔ اسے ماں مل ہی گئی آخر۔ وہ اس سے اس کی باتیں پوچھتی تھیں اور وہ ان سے اپنی بہت سی باتیں کیا کرتا تھا۔ وہ اس سے اپنے اور امل کے بارے میں بھی باتیں کرتی تھیں۔ ان کی باتوں میں زیدہ تر امل، مومنہ اور امل کے ابو ہوتے تھے۔ کبھی وہ اپنے بچپن کی یا دل کی باتیں بھی اس سے کر لیا کرتی تھیں۔ ان کا ایک انوکھا سا تعلق بن چکا تھا اس سے جیسے کوئی ہمدرد ہو یا کوئی دکھ کی بات سمجھنے والا۔ ایک دن یونہی وہ ان کے ساتھ چائے پی رہا تھا اور مومنہ زارا کے گھر گئی ہوئی تھی۔ زارا اس کی کلاس فیلو بھی تھی اور محلے میں ہی رہتی تھی پانچ گھر آگے۔
"ماں جی! آپ کی بیٹی مجھے پسند نہیں کرتی۔"
وہ اس چاکلیٹ والے واقعے کے بعد ان کے گھر میں موجود تھا جب امل کا ذکر چھڑ گیا۔
"بس بیٹا تم برا مت ماننا۔ جب سے اس کی منگنی ٹوٹی ہے وہ ایسی ہو گئی ہے۔ پہلے ایسی نہیں تھی۔"
اس دن بھی وہ بتانے والی تھیں تو امل نے انھیں ٹوک دیا تھا۔ آج دوبارہ وہ یہ بات چھیڑ بیٹھیں۔
"منگنی؟ آپ اس دن بھی کچھ بتا رہی تھیں اس حوالے سے۔" اس نے چائے کے کپ سے ایک گھونٹ بھرا۔
"ہاں بس کیا بتاوں بیٹا تمھیں! امل کے ابو کی وفات کے بعد، میں نے اس کی منگنی کر دی تھی۔ مگر کچھ عرصے بعد ہی ان لوگوں نے رشتہ توڑ دیا۔ رشتہ توڑنا تھا تو ویسے ہی توڑ دیتے، پتا نہیں کیا کیا الزام لگا دیے اس پر۔ بس پھر اسی لیے ہم وہ شہر چھوڑ کر یہاں آ گئے۔ تب سے ہر ایک سے چڑ جاتی ہے۔"
انھوں نے اسے یہ بھی بتایا کہ مومنہ ان کی بہن کی بیٹی ہے۔ اس کے والدین بہت چھوٹی عمر میں اسے چھوڑ گئے تھے تب سے وہ ان کے پاس تھی۔ لیکن ان کے شوہر یعنی امل کے والد کے جانے کے بعد کس طرح زندگی ان پر تنگ ہو گئی تھی، رشتہ دار سب بدل گئے اور پھر انھوں نے امل کی منگنی کر دی اور کیسے اس کے منگیتر وقار نے، جو اپنے نام کے بالکل الٹ تھا، ان کی بیٹی کو رسوا کرنے کی کوشش کی اور لوگوں نے بھی جیسے مان لیا۔ جب باپ سر پہ نہ رہے تو لوگ کیسے نوچنے کو آ جاتے ہیں۔ کچھ عرصہ انھوں نے اپنا زیور بیچ کر گزارا کیا اور پھر امل نے گریجویشن کر لی۔ مگر منگنی والے واقعے کے بعد سے جیسے بہت کچھ بدل گیا۔ پھر انھوں نے وہ گھر بھی اور شہر ہی چھوڑ دیا۔ وہاں ان کے جاننے والے رہتے تھے اور امل کے حوالے سے عجیب و غریب سوال کرتے اور طنز کیا کرتے تھے۔ امل خوبصورت تھی تو اسی وجہ سے خاندان کے کئی لڑکے اس پر لٹو تھے اور اپنی ماؤں کو اس کے گھر رشتہ لینے جانے کا کہتے تھے۔ جب اس کے والد حیات تھے تو کئی لوگوں نے باقائدہ رشتہ کی بات بھی کی تھی۔ امل کی امی اور بابا نے یہی کہا کہ ابھی وہ پڑھ رہی ہے جب پڑھ لے گی تب دیکھیں گے۔ لیکن بعد میں سب ہی بدل گئے۔ پہلے اچھا جہیز ملنے کی امید تھی، اب وہ بھی نہ رہی۔ اور رہی سہی کسر اس کی منگنی ٹوٹنے سے نکل گئی۔ اب تو وہ عورتیں جو پہلے امل کے لیے شیرینی ٹپکاتی تھیں، زہر اگلنے لگ گئی تھیں۔ اسے لیے انھیں گھر بدر ہونا پڑا۔ ہر ماں کی طرح امل کی امی بھی یہی چاہتی تھیں کہ کوئی ایسا ہو جو لالچ کے بغیر ان کی بیٹی کو محبت اور مان سے بیاہ کر لے جائے۔
"کوئی بات نہیں ماں جی! میں برا نہیں مانتا۔ اب آپ نے مجھے اپنا بیٹا بناپیا ہے تو میں بھی اسی فیملی کا حصہ سمجھتا ہوں خود کو۔ آپ پریشان نہ ہوں۔ کسی اچھی جگہ رشتہ ہو جائے گا آپ کی بیٹی کا۔"
وہ اسے "آپ کی بیٹی" ہی کہا کرتا تھا۔
"ویسے تمھاری عمر کیا ہے بیٹا؟"
"میری؟ بس کچھ مہینے میں تیس کا ہو جاٶں گا۔"
"کام کیا کرتے ہو؟"
"میرا گاڑیوں کا گیراج ہے۔ نٸ پرانی گاڑیوں کو خریدنا بیچنا اور ٹھیک کرنا وغیرہ۔"
"مطلب ٹھیک ٹھاک کما لیتے ہو۔" انھوں نے جیسے اندازہ لگایا۔
"جی۔ شکر ہے اللّٰہ کا۔"
"اچھا۔ کوئی لڑکی پسند ہے تمھیں؟"
وہ ان سے جھوٹ نہیں بولنا چاہتا تھا۔
"ہے۔ لیکن وہ مجھے پسند نہیں کرتی۔ سوچ رہا ہوں دوسری ڈھونڈ لوں۔ آپ کی نظر میں ہو کوئی تو بتائیے گا۔" وہ مسکرا کر کہہ رہا تھا اور چاۓ کا گھونٹ بھر رہا تھا۔ اس کی بات پر جیسے وہ ہنس پڑی تھیں۔
"ہاہا۔۔۔اچھا۔۔ میری مومنہ بڑی ہوتی تو اسی سے کروا دیتی۔ چلو اللّٰہ تمھارے لیے بھی کوئج سبب بناۓ۔"
انھوں نے اس کے سر پہ پیار سے ہاتھ پھیرا۔ وہ اندر ہی اندر حیران ہوا تھا۔ وہ اس کی سگی ماں نہی تھیں مگر اس کی بات کی گہرائی تک بن کہے ہی سمجھ گئی تھیں۔
"بس ماں جی! آپ کی محبت میں آ جاتا ہوں۔ اپنی ماں تو میں نے دیکھی نہیں۔ یتیم خانے میں کچھ زندگی گزاری اور پھر بس جن کے ساتھ رہا انھوں نے کھبی ماں باپ والا سلوک نہیں کیا۔ آپ ہی ہیں جو اتنی محبت دیتی ہیں تو چلا آتا ہوں۔"
"تم خود بھی تو کتنے اچھے ہو۔ اللّٰہ تمھیں قدردان اور وفا شعار محبت کرنے والی بیوی عطا کرے۔ آمین۔"
وہ بس مسکرا کر رہ گیا۔ وہ اس پر آمین بھی نہ کہہ سکا۔
۔۔۔

YOU ARE READING
Saagar (Complete)
Romanceوہ ساگر جیسا تھا۔ ساری زندگی اس نے لوگوں کی بھیڑ میں بھی تنہا گزاری تھی۔ اسے کبھی محبت نہی ملی مگر اسے محبت ہو گٸ تھی۔ کیا زندگی میں اس کے لیے محبت تھی ہی نہی؟ کیا وہ اس محبت کا حقدار نہی تھا جو سب کو ملتی تھی؟ کیا وہ محبت دے کر بھی محبت پا نہی سکتا...