جب میں چلا گیا تھا تو انھوں نے میرے ڈاکومنٹس پھینکنے کے لیے چوکیدار کو دے دیے تھے۔ لیکن چوکیدار نے پھینکے نہی تھے۔ وہ اپنے گھر لے گۓ تھے۔ ان کے بیٹے سے میری دوستی تھی۔ میں اس سے ملنے گیا تو اس نے مجھے دے دیے تھے۔ عماد ہی ان کا بیٹا ہے۔ اس کے بابا چوکیدار تھے اس گھر میں۔ ہم ساتھ پڑھتے تھے نا۔ ۔۔۔۔پھر میں نے یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا تھا۔ اسی دوران ایک ایکسچینج پروگرام کے تحت ایک سمسٹر مانچسٹر میں پڑھا تھا۔ احمر سے وہیں میری دوستی ہوٸ۔ پھر پاکسان آکر وہ عماد سے ملا۔ زوار احمر کا دوست تھا اس طرح ہم چاروں کی دوستی ہوٸ تھی۔"اسے لگا اس نے امل کو تسلی بخش جواب دے دیا ہے۔ یقیناً اس کی غلط فہمی دور ہو گٸ ہو گی۔ مگر اگلے سوال کی اسے اس وقت توقع نہی تھی۔
"تمھارے پاس یونیورسٹی کی فیس اور باقی اخراجات کے پیسے کہاں سے آۓ؟"
وہ سینے پہ بازو لپیٹے یوں پوچھ رہی تھی جیسے اب تو اسے رنگے ہاتھوں پکڑ لے گی۔
"میں نے ایک سال تک کام کیا۔ کچھ پیسے جمع کیے۔ پھر ایک کالج کا کلاس فیو تھا اس کی والدہ کسی این جی او کی ممبر تھیں انھوں نے اسکالرشپ اپروو کروا دی تھی۔ میری فیس بھی اسکالرشپ سے جاتی تھی اور مجھے کچھ پیسے بھی مل جاتے تھے۔ ساتھ میں کچھ پارٹ ٹاٸم بھی کر لیتا تھا۔"
امل کچھ دیر خاموش ہو گٸ۔ سمجھ نہی آیا اب کیا کرے۔ پھر جیسے اچانک اسے ایک اور وجہ مل گٸ۔
"اور وہ پیسے؟ وہ کہاں سے آۓ؟ تمھارا گیراج ہے نا؟ لیکن اتنے سارے پیسے کوٸ ایک ساتھ نہی کما سکتا۔ وہ کہاں سے آۓ؟ دیکھو مجھ سے جھوٹ مت بولنا۔ میں گھر چھوڑ کر نہی جاٶں گی۔ مجھے سچ سننا ہے۔"
وہ کچھ کہنے والا تھا آخری جملے پر حیرت سے اسے دیکھا۔ پھر گلا کھنگار کر بولا۔
"وہ سارے پیسے میرے نہی ہیں۔ کچھ عماد کی امانت تھی۔ اس نے گھر خریدنا تھا اور کچھ انوسٹمنٹ فنڈز تھے جو احمر کو دینے ہیں۔ وہ پارٹرشپ کر رہا ہے احمر اور زوار کے ساتھ۔ اور بینک سے ایک ساتھ اتنے پیسے نہی نکلتے۔ اس لیے اس نے میرے پاس رکھوا دیے تھے۔ وہی لینے آیا تھا ابھی۔"
اب کے امل واقعی کچھ بول نہی سکی۔ اس کے پیچھے الماری کھلی پڑی تھی۔ امل نے جا کر دراز کھولی جیسے اب بھی یقین نہ ہو۔ اب وہ دراز خالی نہی تھی مگر بہت تھوڑے سے پیسے تھے اس میں۔ لاکھ دو لاکھ کے قریب۔
"آپ کو مجھ پر اعتبار نہی ہے۔"
وہ پوچھ رہا تھا یا بتا رہا تھا امل کو سمجھ نہی آیا۔ وہ اس کے سامنے آ کر رکی۔
"تو یہ بات تم نے مجھے پہلے کیوں نہی بتاٸ؟"
وہ اس سے یوں پوچھ رہی تھی جیسے سارا قصور اسی کا ہے۔
"بتا بھی دیتا تو آپ نے کون سا مان لینا تھا۔ اب بھی تو آپ نے نہی مانا۔"
وہ مایوسی سے اسےدیکھ رہا تھا۔

YOU ARE READING
Saagar (Complete)
Romanceوہ ساگر جیسا تھا۔ ساری زندگی اس نے لوگوں کی بھیڑ میں بھی تنہا گزاری تھی۔ اسے کبھی محبت نہی ملی مگر اسے محبت ہو گٸ تھی۔ کیا زندگی میں اس کے لیے محبت تھی ہی نہی؟ کیا وہ اس محبت کا حقدار نہی تھا جو سب کو ملتی تھی؟ کیا وہ محبت دے کر بھی محبت پا نہی سکتا...