ہاسپٹل کے بلز اور آخری رسومات کا خرچہ سب ساگر نے کیا تھا۔ ان دونوں لڑکیوں کے پاس صرف چند ایک زیور کے علاوہ کوٸ جمع پونجی نہی تھی جو وہ خرچا کر لیتیں۔ امل ساگر سے پیسے لینے کے حق میں نہ تھی اور اس نے وہ زیور ساگر کو دینے کی کوشش کی تھی لیلن ساگر نے یہ کہہ کر انکار کر دیا تھا کہ وہ اس کی ماں کی امانت ہیں اور انھی دنوں لڑکیوں کے ہیں۔چہلم تک امل اپنے ہی گھر میں رہی۔ امل کی امی نے تاکید کی تھی کہ اب وہ ساگر کے ساتھ ہی رہے۔ اور ساگر سے انھوں نے کہا تھا کہ وہ ان کی بیٹی کا خیال رکھے۔
انھیں شاید ساگر کی طرف سے اتنی فکر نہی تھی جتنی امل کی طرف سے تھی۔ وہ جانتی تھیں کہ امل ساگر کو شدید ناپسند کرتی ہے لیکن اس مشکل وقت میں اور کوٸ ایسا نہی تھا جو ان کی دونوں بچیوں کا سہارا بنتا یا انھیں ڈھال فراہم کرتا۔ مرد کا سہارا کتنا ضروری ہوتا ہے وہ جانتی تھیں۔ اور اس وقت وہ طاقت ساگر کے پاس تھی۔ وہ اس پہ بھروسہ بھی کرتی تھیں۔
مرنے سے ایک دن پہلے انھوں نے امل کو اپنے پاس بلا کر بہت مشکل سے کچھ باتیں سمجھاٸیں تھیں۔ کہ وہ ساگر کے گھر چلی جاۓ اور اپنا گھر چھوڑ دے۔ یوں بھی وہ کراۓ کا تھا۔ اور اب جبکہ اس کی شادی ہو گٸ اور انھوں نے رخصتی کا اعلان بھی کر دیا تھا تو اسے ساگر کے گھر رہنا چاہیے۔
اور یہ کہ وہ ساگر کا خیال رکھے۔ وہ اچھا انسان ہے۔ اور اس سے بدگمان نہ ہو۔ اور اسے کبھی چھوڑنے کا نہ سوچے۔ انھیں یہ خدشہ تھا کہ کہیں وہ ان کے بعد کسی دن جذبات میں آ کر ساگر سے علیحدہ نہ ہو جاۓ۔
اور چند ایک ضروری باتیں تھیں کچھ زیور اور مومنہ سے متعلق۔
امل کو تو کچھ ہوش ہی نہی رہا تھا۔ ساگر نے سب کچھ سنبھالا تھا باوجود اس کے کہ وہ خود بھی کافی دکھی تھا۔ اندر ہی اندر وہ بہت اداس تھا۔ امل سے بھی زیادہ۔ مگر ظاہر نہی کرتا تھا۔ وہ کمزور پڑا تو ان دونوں کو کیسے سنبھالے گا۔
اس نے امل کو اپنے گھر جانے کے لیے مجبور نہی کیا۔ وہ چہلم تک وہیں رہی پھر جب تعزیت والوں کا آنا جانا رک گیا اور مالک مکان نے کرایہ مانگا تب وہ سمجھ گٸ تھی کہ یوں اکیلے رہنا ان کے لیے ٹھیک نہی تھا۔ مگر وہ پھر بھی ساگر کے گھر رہنا نہی چاہتی تھی باوجود اس کے کہ اب اصولاً اسے وہیں رہنا چاہیے تھا۔۔ویسے بھی نکاح ہونے سے وہ اس سے محبت نہی کرنے لگی تھی۔ وہ ایک مجبوری کا رشتہ تھا جو دنیا دکھاوے کے لیے تھا۔
۔۔۔
امل کا شوگر لیول ایکدم لو ہو گیا تھا۔ مومنہ ساگر کو۔بلا لاٸ تھی۔ وہ اسے اٹھا کر گاڑی میں ڈال کر ہسپتال لے گیا تھا۔
تین گھنٹے ڈرپ چڑھنے کے بعد وہ ہوش میں آٸ تھی۔ اس دن کے بعد سے ساگر نے اس کی الگ رہنے کی ضد نہی مانی تھی۔ وہ اسے اپنے گھر لے آیا تھا اور اس کے غصے اور بدتمیزی کے باوجود اس نے اسے اپنے گھر نہی جانے دیا تھا۔
YOU ARE READING
Saagar (Complete)
Romanceوہ ساگر جیسا تھا۔ ساری زندگی اس نے لوگوں کی بھیڑ میں بھی تنہا گزاری تھی۔ اسے کبھی محبت نہی ملی مگر اسے محبت ہو گٸ تھی۔ کیا زندگی میں اس کے لیے محبت تھی ہی نہی؟ کیا وہ اس محبت کا حقدار نہی تھا جو سب کو ملتی تھی؟ کیا وہ محبت دے کر بھی محبت پا نہی سکتا...