٢٣۔

191 17 0
                                    


ساگر کا فون بجا تھا۔ اس نے امل سے نظریں ہٹا کر جیب سے فون نکالا اور کال کرنے والے کا نام دیکھ کر اس کے ہونٹوں پر بے ساختہ مسکراہٹ آ گٸ۔ اس نے کال پِک کی۔

”ہاں میری جان۔۔۔۔“

اس نے مسکرا کر امل کو دیکھتے ہوۓ کہا تھا۔

امل کے ماتھے پہ ایک دم بل پڑے تھے۔ وہ اتنے پیار سے کسے ”میری جان“ کہہ رہا تھا۔

”اچھا۔۔۔۔۔۔واقعی؟ دیٹس گریٹ۔۔۔ٹھیک ہے میں تیاری کر لیتا ہوں۔ کب کرنی ہے شادی؟“

ساگر کے ہونٹ اب بھی مسکرا رہے تھے اور وہ کنکھیوں سے امل کے تاثرات دیکھ کر محظوظ ہو رہا تھا۔

”صحیح۔۔۔۔۔اوکے۔۔۔۔خدا حافظ“

اس نے مسکراتے مسکراتے فون کاٹا اور جیب میں رکھ لیا۔ امل نے ذرا سا اچک کر نام دیکھنے کی کوشش کی تھی مگر کامیابی نہی ہوٸ۔

”کس کا فون تھا؟“

امل نے یوں پوچھا جیسے جواب جاننے میں دلچسپی نہ ہو۔ اندر سے اس کادل پوری طرح اس پر دھیان لگاۓ بیٹھا تھا۔

ساگر ہلکا سا کھانسا اور ادھر ادھر دیکھنے لگا جیسے سنا ہی نہ ہو۔ امل نے اس کا گریز نوٹ کر لیا تھا۔ اس کے ہونٹ سختی سے ایک دوسرے میں پیوست ہو گۓ۔

”آج موسم کافی اچھا ہے۔۔۔۔“

وہ پارک میں نظریں گھماتا کہہ رہا تھا جیسے موسم انجواۓ کر رہا ہو۔

”میں نے کچھ پوچھا ہے تم سے؟ کس کا فون تھا؟“

امل کی تحکمانہ آواز اور اس کے چہرے کے زاویے دیکھ کر ساگر کو اسے مزید تنگ کرنے کا دل چاہا۔

”ایک دوست ہے۔۔۔“

اس نے سادگی سے عام سے انداز میں کہا۔

”تو یہ ”میری جان“ کیوں کہہ رہے تے تم اسے؟ اور شادی کی تیاری؟ ۔۔۔۔۔۔ تم شادی کر رہے ہو دوسری؟“

امل روہانسی ہو گٸ آخری جملہ بولتے ہوۓ۔ ساگر کا ہنسی کنٹرول کرنا مشکل ہو گیا۔ کیسے کیسے خیال آتے تھے اسے۔ وہ اس وقت اندر سے ڈری ہوٸ اور باہر سے بہادر شیرنی بننے کی کوشش کر رہی تھی۔

”آپ اجازت دیں گی؟“

اس نے سنجیدہ شکل بنا کر سوال کیا۔ اسے یہ جیلس امل روزانہ دیکھنے کو تھوڑی ملتی تھی۔

”کر لو۔۔۔۔میری بلا سے۔۔۔“

اس نے مضبوط بننے کی ناکام کوشش کی۔ غصے کے مارے اس کے نتھنے پھولنے لگے تھے اور ہونٹ سختی سے ایک دوسرے میں پیوست کر رکھے تھے۔ ماتھے پہ ہکی سی تیوری بھی چڑھی ہوٸ تھی۔  وہ جواب میں کچھ نہی بولا بلکہ زیرِ لب کچھ گنگنانے لگا تھا۔ امل سے کنٹرول کرنا مشکل ہو گیا۔

”بھاڑ میں جاٶ تم۔۔۔۔“

کہہ کر وہ پیر پٹختی اٹھ کر چل پڑی۔ ساگر ایک دم اٹھ کر اس کے پیچھے بھاگا۔

Saagar (Complete)Onde histórias criam vida. Descubra agora