2.

207 12 2
                                    

وہ اپنی امی سے ناراض تھی کہ انھوں نے ساگر کو کیوں بلایا تھا۔ اس کے بعد اس کا اور ساگر کا ایک دو بار سرسری سا سامنا ہوا لیکن وہ اسے نظر انداز کر کے نکل گیا جیسے دیکھا ہی نہ ہو۔ امل نے شکر کیا تھا۔ اس کی ایک چھوٹی بہن تھی مومنہ، جو اس کی خالہ کی بیٹی تھی۔ خالہ خالو، مومنہ کی پیدائش کے سال بعد ہی ایک ٹریفک حادثے میں گزر گئے تھے، تب سے وہ اِنھی کے ساتھ رہتی تھی۔ دو سال پہلے امل کے والد بھی گزر گئے تو زندگی بہت مشکل ہو گئی تھی ان کے لیے۔ اس نے ٹیوشن پڑھا پڑھا کر گھر کا خرچ پورا کرنے کی کوشش کی تھی۔ اور ان کی جمع پونجی بھی اب آہستہ آہستہ ختم ہو چکی تھی۔ اس کی چھوٹی بہن مومنہ جو نو سال کی تھی اور چوتھی جماعت میں پڑھتی تھی، اس وقت اپنی دادی کے پاس تھی۔ دادی خود اپنے غریب بیٹے کے ساتھ رہتی تھیں اور مومنہ کی چچی مستقل طور پر ایک اور فرد کا اضافہ برداشت نہیں کر سکتی تھیں۔ ہاں لیکن ان کے شہر بدلنے کی وجہ سے کچھ دن تک وہ وہاں رک گئی تھی۔ اب اُسے بھی کچھ دنوں میں واپس آنا تھا۔ امل کی امی نے سال پہلے امل کا رشتہ طے کر دیا تھا کسی رشتے والی کے توسط سے۔ ان کا خیال تھا کہ امل کی شادی کر کے وہ ایک فرض سے فارغ ہو جائیں گی تو زندگی کچھ آسان ہو جائے گی۔ مگر کچھ عرصے بعد امل کے منگیتر نے اس سے بات کرنے اور ملنے جلنے کا کہا۔ جب امل نے بتایا کہ ان کے ہاں شادی سے پہلے یوں ملنے کا رواج نہیں تو اس نے چھپ کر ملنے کی بات کی۔ امل کو یہ بات عجیب لگی اور اس نے دو ٹوک انکار کر دیا۔ اس بات پر اس لڑکے اور اس کے گھر والوں نے نہ صرف رشتہ توڑ دیا، بلکہ امل کے کردار پہ بہت کیچڑ اچھالا۔ نتیجتاً انھیں وہ شہر چھوڑنا پڑا۔ اب وہ کچھ عرصے سے اس شہر میں تھیں اور اسی وجہ سے امل کو ساگر کی بےتکلفی پسند نہیں آ رہی تھی۔ حالانکہ اس نے امل سے ایسی کوئی بات یا حرکت نہیں کی تھی کہ وہ اسے گھٹیا انسان لگتا۔ وہ عادتاً اور اخلاقاً اچھا انسان تھا۔ مگر امل اس سے بہت نفرت کرتی تھی۔
۔۔۔
وہ مومنہ کو لینے جانے کی تیاری کر رہی تھی جب دروازے پر دستک ہوئی۔ اس نے دروازہ کھولا تو سامنے ساگر کھڑا تھا۔ امل کے ماتھے پہ بل پڑے۔
"ماں جی ہیں گھر پہ؟" اس نے امل کے تاثرات نظر انداز کرتے ہوئے پوچھا۔
"نہیں!"
کہہ کر وہ دروازہ بند کرنے لگی تھی جب اس نے دروازے کو ہاتھ سے پکڑ کر روکا۔ وہ دروازہ چھڑانے میں ناکام ہو رہی تھی۔ وہ کافی طاقتور تھا۔
"کیا بدتمیزی ہے؟ دروازہ چھوڑو!" امل نے شدید غصے کے عالم میں اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
"آپ کے گھر میں مرچیں زیادہ ہیں تو تھوڑی مجھے بھی دے دیں۔"
"نہیں ہیں!" وہ تڑک کر بولتی اب بھی دروازہ چھڑانے کی کوشش کر رہی تھی۔
"تو پھر آپ اتنی مرچیں کیوں چباتی ہیں؟" آرام اور سکون سے سوال کیا۔ وہ یوں کھڑا تھا جیسے جانے کا ارادہ نہ ہو۔
"تم سے مطلب؟ ہٹو۔۔۔۔" وہ اب اسے دھکا ہی دینے والی تھی۔ مگر اس پر تو جیسے دھکے کا بھی اثر نہیں ہو رہا تھا۔
"لگتا ہے اس دن والا تھپڑ بھول گئے تم۔" وہ بے بسی محسوس کرتے غصے میں کہہ رہی تھی۔
"نہیں! یاد ہے۔ ویسے کبھی کسی لڑکی سے تھپڑ نہیں کھایا تھا میں نے۔ یہ شرف بھی آپ نے بخش دیا۔" اب کے وہ ہلکا سا مسکرایا تھا۔ امل نے ایک اور تھپڑ مارنے کے لیے ہاتھ اٹھایا تھا مگر وہ اس کی کلائی اس کے گال چھونے سے پہلے ہی پکڑ چکا تھا۔
"ایک ہی کافی ہے۔ پتا ہے آپ بہت طاقتور ہیں۔" وہ جیسے اس کا مذاق اڑانے والے انداز میں بولا تھا۔
"ہاتھ چھوڑو میرا!" اس کی گرفت میں اپنا بسزو قید پا کر وہ غصے سے غرائی۔ وہ اس کی طاقت کے سامنے کچھ بھی نہیں تھی اور وہ یوں اس کی کلائی پکڑے کھڑا تھا جیسے اسے باور کروا رہا ہو کہ وہ کتنا طاقتور ہے۔
"میں نے کب پکڑا!" وہ یوں انجان بنا پوچھ رہا تھا جیسے واقعی اسکا ہاتھ اس نے نہیں کسی اور نے پکڑا ہو۔
"گھٹیا کمینے انسان! ہاتھ چھوڑو میرا۔۔" وہ اب باقاعدہ اسے گالیاں دے رہی تھی۔ اور اس کی آنکھوں میں آنسوں آ گئے تھے۔ شاید بے بسی سے۔۔۔۔۔ یا تکلیف کی وجہ سے۔۔۔۔۔۔
"میں آپ کو چوٹ پہنچانے نہیں آیا تھا۔ ماں جی سے کچھ کام تھا اس لیے آیا تھا۔ آپ کی ناراضگی اپنی جگہ، مگر مجھے ذلیل کرنے کا حق میں کسے کو نہیں دیتا۔" وہ آہستگی سے اس کا ہاتھ چوڑ کر واپس پلٹ گیا تھا۔ امل نے جاتے جاتے بھی اسے گالی دے دی تھی۔ یہ جانے بغیر کہ اس کے چہرے کا رنگ بدلا تھا اور اس کی مسکراہٹ غائب ہوئی تھی۔
۔۔۔
دو دن بعد وہ پھر سے ان کے گھر میں موجود تھا۔ وہ دن بھر کی تھکی ہاری پیدل چل چل کر جب گھر پہنچی تو اس منظر کو دیکھنے کی توقع تو اسے بالکل بھی نہیں تھی۔ مومنہ آ چکی تھی اور اس وقت وہ مومنہ کے ساتھ گپ شپ میں مصروف تھا۔ اس کی مومنہ سے یوں بے تکلفی امل کو بالکل پسند نہیں آئی۔ جبکہ اس کی امی کچن میں چائے کے ساتھ ساتھ پکوڑے بھی بنا رہی تھیں۔ اُف توبہ اتنی فضول خرچی۔ ایک تو وہ کمانے کے لیے اتنی ہلکان ہو رہی تھی اوپر سے اس فضول شخص کی خاطر مدارت دیکھ کر تو اسکا دماغ گھوم گیا۔
"امی! میں سارا سارا دن سڑکوں پر نوکری کی تلاش میں اس لیے نہیں گھومتی کہ میرے کمائے پیسے آپ اس طرح کے لوگوں پہ اڑا دیں۔" اس کا یہ جملہ وہاں موجود تینوں افراد نے سنا تھا۔
"ایسے نہیں کہتے بیٹا! وہ مہمان ہے۔" اس کی امی نے نرمی سے گھرکا۔
"مہمان کبھی کبھی آنے والے کو کہتے ہیں۔ روز روز منہ اٹھا کر آنے والے کو نہیں۔" اس نے غصے سے جواب دیا اور اندر کمرے کی طرف بڑھی جب اسے مومنہ کا خیال آیا۔
"اور تم اندر آؤ۔ تمھیں کتنی بار سمجھایا ہے اس طرح انجان لوگوں سے نہیں بات کرتے۔"
"ساگر بھائی انجان تو نہیں ہیں۔ سامنے والے گھر میں تو رہتے ہیں۔" مومنہ کا اس کے پاس سے اٹھنے کا کوئی ارادہ نہ تھا۔ اس کو ساگر بھائی بہت اچھے لگے تھے۔ وہ مومنہ کہ پاس آئی اور اسے بازو سے پکڑ کر اٹھایا اور زبردستی اندر لے گئی۔
"آئیندہ میں تمھیں اس انسان کے آس پاس نہ دیکھوں!" وہ مومنہ کو غصے سے ڈپٹ رہی تھی۔ مومنہ بس حیرت سے اسے دیکھے گئی۔ اس کی اتنی پیار کرنے والی اور شفیق اور رحم دل آپی کو کیا ہو گیا تھا اچانک۔ مومنہ چپ چاپ وہیں بیٹھ گئی۔
"بیٹا! اس کی بات کا برا مت ماننا۔ یہ پہلے ایسی نہیں تھی۔ بس جب سے اس کی منگنی ٹوٹی۔۔۔۔" ابھی وہ اتنا ہی بول پائی تھیں کہ دروازہ کھلا اور سامنے سے اس کا غصیلا وجود نمودار ہوا۔
"امی! آپ ہر ایرے غیرے کے سامنے ہماری ذاتی زندگی مت کھولنے لگ جایا کریں۔ لوگ اتنے بھی اچھے نہیں ہوتے جتنے بننے کا دکھاوا کرتے ہیں۔" وہ اپنی منگنی کا یوں تذکرہ سن کر مذید غصے میں آگئی۔ کم از کم وہ اس شخص کے سامنے تو بالکل بھی اپنی ذاتی زندگی زیرِ بحث آتے برداشت نہیں کر سکتی تھی۔ اس کی امی خاموش ہو گئی تھیں۔ شاید وہ اپنی بیٹی کو مزید پریشان نہیں کرنا چاہتی تھیں۔
"لو بیٹا! تم چاۓ پیو اور پکوڑے کھاؤ۔ بتاؤ مجھے کیسے بنے ہیں؟" اس کے لیے کبھی کسی نے یوں پکوڑے نہیں بنائے تھے۔ اس کی آنکھیں بھرانے لگی تھیں۔ وہ ان کے سامنے رونا نہیں چاہتا تھا۔ خاص طور پہ تب جب ان کی بیٹی بھی اندر ہی موجود تھی۔
"بہت شکریہ ماں جی! آپ نے بلاوجہ ہی تکلف کیا۔" اس نے مروتاً کہا تھا ورنہ اسے بہت اچھا لگ رہا تھا اس کے لیے یوں خاص اہتمام کرنا۔
"پیٹ بھر کے کھانا۔ اور کبھی کچھ چاہیے ہو تو بلا جھجھک مانگ لینا۔ یہ بھی تمھارا اپنا ہی گھر ہے۔" انھوں نے اتنے پیار اور اپنائیت سے کہا تھا۔
"بہت شکریہ ماں جی!" وہ ممنونیت سے بولا تھا۔ اور اندر بیٹھی امل ماں کی اس فیاضی پر غصے سے پیچ و تاب کھا رہی تھی۔
۔۔۔
"آپی! میرا ایڈمیشن کب ہو گا نئے سکول میں؟"
مومنہ کو آئے ایک ہفتہ تو ہو گیا تھا اور اس کی پڑھائی کا حرج بھی ہو رہا تھا۔ وہ ویسے بھی پڑھائی میں اچھی تھی۔ اس لیے اسے اپنے وقت ضائع ہونے کی فکر بھی تھی۔
"ہو جائے گا چندا! میں بس زرا کوئی کام ڈھونڈ لوں تو پھر تمھارا ایڈمیشن بھی کروا دوں گی۔" امل نے اسے نرمی سے سمجھایا۔
"کب ملے گا آپ کو کام؟"
"پتا نہیں! آسان ہوتا تو فوراً مل جاتا۔"
"آپ ساگر بھائی سے کہیں وہ ضرور آپ کی ہیلپ کر دیں گے۔" اس نے سادگی میں کہا تھا مگر امل کو جیسے اس کا نام سنتے آگ لگ گئی۔
"خبردار جو آئیندہ تم نے اس کا نام بھی لیا تو! وہ کوئی اچھا انسان نہیں ہے۔ بہت چالاک ہے۔ تم دور ہی رہو اس سے۔ اور کوئی تمھارا بھائی وائی نہیں ہے وہ، سمجھیں؟" امل نے اسے سمجھاتے ہوئے ڈپٹا تھا۔
"تو پھر وہ ہمارے کیا لگے؟" مومنہ اس کی بات پر الجھی۔
"کچھ نہیں لگے۔ وہ غیر ہے! اور غیر مردوں سے دور رہنا چاہیے۔ میں تمھیں اس کے آس پاس بھی نہ دیکھوں مومنہ!"
"پر وہ تو ہمارا اتنا خیال رکھتے ہیں۔" مومنہ کو اس کا بلاوجہ ساگر کو برا کہنا سمجھ نہیں آ رہا تھا۔
"کیا خیال رکھ دیا اس نے تمھارا جو تھمیں میری باتیں سمجھ نہیں آ رہیں؟" امل کو اب ٹھیک ٹھاک غصہ آ گیا تھا۔
"کل لے کر آئے تھے اتنی ساری چیزیں۔ تبھی تو امی نے چائے کے ساتھ پکوڑے بھی بنائے تھے ورنہ میں اتنے دنوں سے کہہ رہی تھی تو امی نے کہا کہ گھر میں راشن اور پیسے نہیں ہیں۔"
امل کے تو گویا پیروں سے زمین نکل گئی۔ تبھی اس کی امی اس سے اتنی اپنائیت دکھا رہی تھیں کہ اس کی منگنی تک کا قصہ بتانے لگیں۔ امل نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، اور سیدھی کچن میں گئی۔ وہاں پر حقیقت میں کچھ اضافی اشیاء موجود تھیں جو اس نے نہیں خریدیں تھیں۔ اس نے یہ بھی نہیں پوچھا کہ اس کی ماں نے کون سے چیزیں خریدیں تھی۔ اس نے ساری اضافی چیزیں اٹھائیں اور سامنے والے دروازے پر جا کر دستک دی۔ ارادہ اسے اچھی طرح ذلیل کرکے چیزیں واپس کرنے کا تھا مگر اس نے دروازہ ہی نہیں کھولا۔ شاید اس وقت وہ گھر پہ نہیں تھا۔ امل وہ سارا سامان اس کے دروازے کے آگے رکھ آئی۔
۔۔۔
"امی! آئیندہ آپ اس انسان کی کوئی چیز بھی گھر میں نہیں رکھیں گی۔" امل نے ماں سے کہا جو اپنے بستر پر لیٹ کر ٹی وی دیکھ رہی تھیں۔
"کیوں کیا ہوگیا؟"
"وہ راشن لے آیا اور آپ نے بھی خیرات سمجھ کے رکھ لیا!"
"او ہو امل! کیا ہو گیا ہے تمھیں؟ وہ اپنی خوشی سے لایا تھا۔ میں نے نہیں منگوایا تھا۔"
"تو آپ نے واپس کیوں نہیں کیا؟ اسی وقت واپس کرتیں اسے۔"
"میں نے تو منع کیا تھا پر اس نے اتنی اپنائیت سے کہا کہ مائیں بیٹوں کی لائی چیزوں کو انکار نہیں کرتیں، تو میں کیا کرتی؟ میں نے رکھ لیں۔"
"اُف۔۔۔!" امل اپنی ماں کی سادگی سے حیران اور پریشان تھی۔ اس کی امی شروع سے ہی ایسی تھیں۔ جبھی تو رشتہ کرتے وقت بھی انھیں ان چالاک لوگوں کے داؤ پیچ نظر نہیں آئے۔
"میں واپس کر کے آئی ہوں اور اب اگر وہ کچھ لایا اور آپ نے رکھ لیا تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا۔"
"کتنی بری بات ہے امل۔ وہ کیا سوچتا ہوگا؟ میں نے تمھیں یہ تربیت تو نہیں دی تھی۔" اس کی امی افسوس سے اسے دیکھنے لگیں۔
"امی! وہ انسان مجھے ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ ضرور کوئی بات ہے۔ ورنہ ایسے ہی نہیں کوئی انجان لوگوں سے اتنا بے تکلف ہو جاتا۔" امل نے اپنے دل میں کھٹکتا خیال ماں کو بھی سمجھانے کی کوشش کی۔
"وہ بس اپنائیت کی وجہ سے آتا ہے۔ اکیلا رہتا ہے کوئی فیملی نہیں ہے اس کی۔ اس لیے۔ تم تو پتا نہیں کیا سمجھنے لگ جاتی ہو۔ ہر ایک وقار جیسا نہیں ہوتا۔ اتنا تمیز والا لڑکا ہے ساگر۔ کبھی آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھا کہ کون سی چیز کہاں پڑی ہے۔ مجھے تو کسی اچھے گھر سے تعلق لگتا ہے اس کا۔" اس کی امی تو پورے دل و جان سے فریفتہ تھیں اس ساگر پہ تو وہ اب امی کو کیا سمجھاتی۔ سمجھانا بیکار تھا۔
"جو بھی ہے لیکن وہ میری موجودگی میں ہمارے گھر نہ ہی آئے تو اچھا ہے۔ آپ کو بہت ہمدردی ہے اس سے تو آپ اس کے گھر چلی جایا کریں۔ مگر مجھے وہ یہاں نظر نہ آئے۔" اس نے اپنے طور پہ طنز کیا تھا مگر اس کی امی کو وہ مشورہ اچھا لگا۔
۔۔۔
ایک ہفتے بعد اسے ایک گھر میں ٹیوشن مل گئی۔ جب تک اچھی جاب نہیں ملتی وہ اس ٹیوشن سے کچھ تو گزارہ کر ہی لے گی۔ اس نے سوچا تھا اور روزانہ وہ شام کو ٹیوشن پڑھانے جاتی تھی۔ اب تین سے چھے بجے تک وہ گھر پہ نہیں ہوتی تھی اور اس دوران ساگر اکثر ان کے گھر شام کی چائے پیا کرتا تھا اور اس کی ماں سے ڈھیروں باتیں کیا کرتا تھا۔ مومنہ بھی اس سے کافی گھل مل گئی تھی۔ وہ مومنہ کو کبھی چاکلیٹس تو کبھی آئسکریم لا کر دیتا تھا۔ اس بات کا امل کو پتا نہیں تھا۔ ایک دن پتا چل گیا۔ مومنہ کا داخلہ اس نے کروا دیا تھا۔ پیسوں کی ضرورت تھی تو اس نے اپنی سونے کی ایک انگوٹھی جو اس کے والد نے اسے میٹرک پاس کرنے کی خوشی میں دی تھی وہ بیچ دی اور مومنہ کا ایڈمیشن کروا دیا۔ اس کی امی کو پتا چلا کہ اس نے انگوٹھی بیچ دی تو وہ بہت خفا ہوئی تھیں۔
"کیا ضرورت تھی وہ انگوٹھی بیچنے کی؟ کتنے پیار سے لائے تھے وہ تمھارے لیے۔"
"جب وہ ہی نہیں رہے تو ان کی نشانی رکھ کر میں نے کیا کرنا تھا۔ انگوٹھی رکھنے سے وہ واپس آ جاتے تو میں کبھی نہ بیچتی۔"
"ہم ادھار لے لیتے کسی سے۔"
"کون دیتا ہم جیسے انجان لوگوں کو ادھار؟ اور واپس بھی تو کرنا ہوتا اگر بھولے بسرے کوئی دے بھی دیتا تو۔"
" ساگر سے لے لیتے۔ اتنا خیال رکھتا ہے۔ ادھار بھی دے دیتا اور مہلت بھی۔"
"اس شخص کا تو نام بھی نہ لیں آپ میرے سامنے۔ اس سے ادھار لینے کے بجائے اگر مجھے اپنا آپ بھی بیچنا پڑتا تو میں بیچ دیتی۔"
"کیسی باتیں کر رہی ہو؟ اچھا جو مرضی کرو۔ میں اب کچھ نہیں کہوں گی۔ ماں کو تو پتا نہیں کیا سمجھ رکھا ہے۔" اس کی امی نے اسے اس کے حال پہ چھوڑ دیا۔
۔۔۔

Saagar (Complete)Tahanan ng mga kuwento. Tumuklas ngayon