EPISODE TWO

2.1K 129 25
                                    

عیدِ زندگی
از قلم
سحر قادر

####2nd EPISODE####
"حائمہ یار ویسے تم ایک بات تو بتاؤ۔" عون نے یو ٹرن لیتے ہوئے حائمہ سے پوچھا۔
وہ دونوں یونیورسٹی جا رہے تھے۔
"پوچھو، مگر کچھ الٹا مت پوچھنا!" حائمہ اسکی طرف متوجہ ہوئی۔
"تم نے واقعی بگ بی کا تحفہ قبول کر لیا؟ مطلب تم بگ بی سے تحفہ لے چکی ہو؟" عون کو ابھی تک بات ہضم نہیں ہوئی تھی۔
"عون تم بھول رہے ہو کہ  مسٹر ارحان آفندی یہ تحفہ میرے لئے لائے تھے، تو میں ایویں اسکو تمہاری سڑیل کزن کو لینے دیتی۔" حائمہ نےتپ کر جواب دیا تھا۔
"بگ بی تمہارے لئے پہلے بھی تو لاتے تھے مگر تم انھیں الماری کے کونے میں پھینک دیتی تھی۔" عون آج اسے تپانے کے موڈ میں تھا۔
" یار کیا ہو گیا اگر میں نے یہ گھڑی پہن لی اور اب یہ بگ بی کا راگ الاپنا بند کرو۔" حائمہ اس پہ چیخی تھی۔
"اوہو کیا ہو گیا ہے! آرام سے کہہ لو کہ تمہارا اب بگ بی کہنا بنتا نہیں ہے۔" عون نے اپنی مسکراہٹ دبائی تھی
"بھاڑ میں جاؤ تم اور تمہارا بگ بی مجھے تو سکون ملے گا نا۔" حائمہ نے منہ پھیر لیا تھا یعنی اب بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ نہ ڈالا جائے۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔ ۔  ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
"حائمہ حائمہ!" لائبہ کا سانس پھولا ہوا تھا۔
"کیا ہوا ہے؟ کیا تمہارے پیچھے منکر نکیر لگ گئے ہیں؟" حائمہ اسے پانی دیتے ہوئے بولی۔
"منکر نکیر کا تو پتہ نہیں مگر عون کی لڑائی ہو گئی ہے بلکہ پٹائی ہو گئی ہے۔" لائبہ نے بریکنگ نیوز سنائی تھی جس پر حائمہ نے پریشانی سے پوچھا "وہ کیوں؟؟"
"وہ ایمن نہیں ہے جسکو تم نے شاید باتیں سنائی ہیں۔ وہ اپنے ایس پی بھائی کو لائی ہے۔ بس آگے نہ پوچھو!" لائبہ نے مختصر کر کے معاملہ بتایا۔
"ابے اس ایس پی کی ایسی کی تیسی اب ہم سے پنگا لے گا۔ اسے تو ابھی ڈسپرین کی گولی دینی پڑے گی۔" حائمہ بازو چڑھاتے ہوئے بولی تھی۔
" حائمہ ایمن کا باپ رکن قومی اسمبلی ہے سوچ لو۔" لائبہ نے اسے ڈرانا چاہا تھا۔
"ارے واہ پھر تو لڑائی کا مزہ آئے گا بیٹا! سیاستدان ہے اسکا باپ اب تم گیم دیکھنا میری۔" حائمہ فورا کامرس بلاک کی طرف بڑھی تھی۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔،۔ ۔،۔
کامرس بلاک میں تو تماشہ لگا ہوا تھا۔
"ایس پی بھائی قسم لے لیں جو میں نے اسے کچھ کہا ہو۔" عون منمنا رہا تھا۔
ہ" اں تو وہ کون تھی جو تمہارا فون اٹھا کر دھڑلے سے بات کر رہی تھی۔" ایس پی صاحب تھانے سے باہر فل فارم میں تھے۔
"وہ میری کزن تھی مجھے تو پتہ بھی نہیں اس بارے میں عون...." ابھی بات کر رہا تھا کہ پیچھے سے اسکے سر پر تھپڑ پڑا تھا۔
"گدھے بہت ہی بزدل نکلا تو اور آپ محترم فرمائیں۔ کیا مسئلہ ہے یہ یونی ہے آپ کا تھانہ نہیں اور آپ نہ ہی الجھیں تو آپ کیلئے اور آپ کے خاندان کیلئے بہتر ہوگا۔ میں ہی تھی جس نے آپکی بہن سے بات کی تھی اور حائمہ آفندی کہتے ہیں مجھے!" حائمہ عون کو پیچھے کرتے ہوئے ایس پی زیغم کے سامنے آئی تھی اور ساتھ ہی لائبہ کو اشارہ کیا تھا۔
"اوہ بی بی تم مجھے دھمکی دے رہی ہو الٹا لٹکا دوں گا۔جانتی نہیں ہو تم ابھی مجھے!"  زیغم نے حائمہ کو جواب دیا تھا۔
"السلام علیکم! ناظرین میں حائمہ آپکی خدمت میں حاضر ہوں۔ ناظرین آپ نے دیکھا مشہور سیاسدان قمر علی جو کہ رکن قومی اسمبلی بھی ہیں، انکا بیٹا اپنے باپ کے اثر و رسوخ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کیسے دن دہاڑے بے گناہ لوگوں کو دھمکا رہا ہے۔" حائمہ شروع ہو چکی تھی اور لائبہ ویڈیو بنا رہی تھی۔
"بند کرو یہ سب یہ کیا ڈرامہ ہے؟" ایس پی صاحب بوکھلائے تھے۔
"ایس پی صاحب یہ تو ٹریلر ہے۔ اگر زیادہ آپ نے تنگ کیا نا تو میں یہ ویڈیو یوٹیب پہ چڑھا دونگی. خبردار جو اب آپ نے یا آپکی بہن نے عون کو تنگ کیا۔" حائمہ عون کا بازو پکڑ کر وہاں سے نکلی تھی۔
۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
حائمہ کی باتیں اسکے کانوں میں گونج رہی تھیں.
وہ سوچ رہا تھا کہ کیا وہ زیادہ غصہ کر گیا ہے۔
وہ بچپن سے حائمہ اور عون پر رعب جماتا ہوا آیا تھا.
عون تو چپ چاپ اسکی سن لیتا مگر حائمہ اسکی ناک میں دم کر دیتی تھی۔ شاید اسی لئے وہ اس سے بہت چڑتا بھی تھا.
جب عون اور حائمہ کے یونی میں داخلے کے وقت آغا جانی نے اسے ذمہ داری دی تھی کہ حائمہ اور عون کے معاملات تم نے دیکھنے ہیں تو حائمہ نے اسے واقعی دن میں تارے دکھائے تھے. وہ کچھ نہ کچھ کرتی ہی رہتی تھی جس پر ڈین کے سامنے اسے حاضر ہونا پڑتا تھا اور آہستہ آہستہ اب وہ حائمہ کو بلاوجہ بھی ڈانٹ دیتا تھا۔
وہ ان سے محض تین سال بڑا تھا مگر ایسے بات کرتا تھا جیسے وہ ہی انکے سب کام کرنے والا ہے۔
"مس نازش بات سنیں۔"ارحان نے نازش کو بلایا۔
"اگر آپ کسی کو ڈانٹ دیں مگر آپ اس سے بڑے ہیں تو کیا آپ کو اس سے معذرت کرنی چاہیے؟" ارحان نے اس سے پوچھا۔
"دیکھیں سر رشتوں میں یہ سب تو نہیں ہوتا اور اگر معذرت کرنی ہی ہے تو کیا فرق پڑتا ہے۔ بلکہ بڑے کو بڑے پن کا مظاہرہ کر کے معذرت کرنی چاہیے۔" مس نازش کہہ کر جا چکی تھیں۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
"نالائق گدھے خاندان کا نام ڈبو دیا تو نے. بزدلوں کی طرح سن رہا تھا۔" اسکی تو حائمہ عون کو لتاڑے جا رہی تھی۔
" وہ ایس پی ہے تھانے میں۔" عون نے الفاظ چبا کر ادا کئے تھے۔
" ہاں تو ایس پی تھانے میں ہی ہوتے ہیں اور ایس پی ہی تھا کوئی جن تو نہیں تھا۔"حائمہ بےفکری سےبولی تھی۔
"وہ بگ بی کا دوست تھا۔" عون اب بولا تو حائمہ کا سانس رکا تھا۔
"نالائق بتا نہیں سکتا تھا۔ اب تو تمہارا بگ بی مجھے زندہ نہیں چھوڑے گا۔" حائمہ نے کہا ہی تھا کہ فون بجنا شروع ہو گیا جس پر لکھا ہوا آ رہا تھا ارحان کالنگ۔
"اٹھاؤ اب میں کچھ نہیں کر سکتا۔" عون نے ہری جھنڈی دکھائی تھی.
حائمہ نے عون پر لعنت بھیجتے ہوئے فون اٹھایا تھا۔
"السلام علیکم!" ہمیشہ کی طرح کا ٹھنڈا لہجہ!
حائمہ تھوک نگلتے ہوئے بولی "وعلیکم السلام! دیکھیں میں نے کچھ نہیں کیا سب کچھ آپ کے دوست نے کیاتھا اور... "حائمہ بولے چلی جا رہی تھی کہ ارحان نے اسے ٹوکا۔
"حائمہ کیا کیا ہے تم نے؟ میں نے تو تمہیں اس دن کی بات کیلئے سوری کرنا تھا۔  میں کچھ ذیادہ ہی غصہ کر گیا تھا۔" ارحان نے جب فون کرنے کی وجہ بتائی تو حائمہ کا دل چاہا خودکشی کر لے۔
"نہیں کچھ بھی نہیں کچھ بھی تو نہیں کیا میں نے۔" حائمہ نے  اب اسے یقین دلانا چاہا مگر ارحان اسے جانتا تھا۔
ارحان فورا بولا "حائمہ سب سچ سچ بتاؤ مجھے کوئی جھوٹ نہیں سننا۔ تم نے پھر کچھ کیا ہے نا  یونی میں؟"
"اللہ جی یہ شخص کیوں ملک الموت بن کر میرے پیچھے لگا ہوا ہے۔" حائمہ نے سوچا تھا۔
" وہ بگ بی.." اس سے اگے حائمہ سے بولا نہیں گیا تھا۔ مگر بگ بی پر ارحان لاحول ولا قوۃ پڑھ چکا تھا۔
"حائمہ کیا کیا ہے تم نے بتاؤ۔ آج میں چچا جان کو بتاتا ہوں تمہارے سارے کارنامے۔" ارحان کا پارہ چڑھا تھا۔
"وہ ڈین والی بات بھی بتائیں گے کیا؟" حائمہ نے معصومیت سے پوچھا تھا۔
"جی بلکل ایک ایک کارنامہ بتاؤں گا۔" ارحان نے اسکے چودہ طبق روشن کئے تھے۔
"نہ کریں ابھی تو آپ معافی مانگ رہے تھے اگر آپ نے بتایا تو میں معاف نہیں کروں گی۔" حائمہ  منہ پھلا چکی تھی.
"عون ہے کیا تمہارے پاس؟" ارحان نے پوچھا۔
" یہ مت پوچھا کریں عون ہے تمہارے پاس بلکہ عون کی حفاظت کیلئے تو مجھے اسکے پاس ہونا پڑتا ہے۔" حائمہ نے یہ کہہ کر عون کو فون دیا تھا،
جو سب کچھ اگل چکا تھا۔
۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔  ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
"مہوش اماں سے کہنا آج اپنی بیٹی کی فاتحہ پڑھ لیں وہ۔" حائمہ اور عون گھر جا رہے تھے جبکہ حائمہ مہوش کو فون کر کے دہائیاں سنائے جا رہی تھی۔
"کچھ نہیں ہوتا حائمہ ارحان بھیا  میرا مطلب بگ بی کھا تو نہیں جائیں گے نہ تمہیں۔" مہوش نے اسے تسلی دی۔
"تم بگ بی کو نہیں جانتی۔" حائمہ اپنی ہی سنائے جا رہی تھی۔
" یار ایک تو یہ بگ بی کیا نام رکھا ہوا تم لوگوں نے عجیب ہے مجھ  سے بولا ہی نہیں جاتا شروع سے۔" مہوش تپ گئی تھی وہ شروع سے بگ بی کی بجائے ارحان بھیا ہی کہتی تھی۔
" بگ بی بڑے بھائی کو بلانے کا نیا طریقہ ہے نا لڑکی بگ برادر کو بگ بی بولنے میں کیا مسئلہ ہے؟" حائمہ اب وہ بات بھول کر نیا مسئلہ کھول چکی تھی۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
تائی امی کہاں ہیں؟"  حائمہ صوفیہ بیگم کو ڈھونڈتے ہوئے کچن میں آئی۔
"کیا ہوگیا ہے کوئی کام ہے کیا؟" انھوں نے پوچھا تھا۔
"نہیں وہ بس میں آج پلاؤ بناتی ہوں۔آپ مجھے بتاتی جانا کہ کیا کرنا ہے۔" حائمہ نے مدعا پیش کیا۔
" ارے خیریت تو ہے حائمہ طبیعت ٹھیک ہے نا؟" شازیہ اکرم اسکی بات سن کر بولیں تھیں۔
"کیا یار امی آپ نا مجھے ہلکا لیتی ہیں. اب تائی امی آئی تو ہوں کام کرنے!" حائمہ نے ابرو اچکاتے ہوئے کہا۔
" ضرور ارحان کی ڈانٹ سے بچنا ہے آج تم نے۔" صوفیہ بیگم مسکراتے ہوئے بولیں تھیں۔
"ارے چھوڑیں تائی امی جلاد ہے آپ کا بیٹا کب کب بچائیں گی مجھے مگر آج بچا لیں تو بڑی بات ہوگی۔" حائمہ نے یوں کہا جیسے اسے کوئی پریشانی ہی نہیں
جس پر شازیہ اور صوفیہ بیگم ہنسے بغیر نہ رہ سکیں تھیں۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
"السلام علیکم ابو! آج آپ جلدی آ گئے ہیں۔" حائمہ اکرم صاحب کو آتے دیکھ کر بولی۔
تو وہ بولے" ہاں ایک دوست کے ساتھ جانا ہے۔ ایک کام سے ابھی بس اسی لئے جلدی آ گیا۔" اکرم صاحب نے وجہ بتائی۔
"ابو کب تک واپس آئیں گے؟" حائمہ انکا کوٹ پکڑتے ہوئے بولی۔
"بیٹا تین دن لگ جائیں گے چلو تم جاؤ اور میرا کچھ سامان پیک کر دو۔" اکرم صاحب نے اسے کام دیا تو وہ اٹھ کر انکے کمرے میں چلی گئی۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔   ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
"ارے السلام علیکم! نانی کیا حال ہے آپ کا؟" حائمہ ویڈیو کال پر نانی سے بات کر رہی تھی۔
"میری پتری مینوں کی ہونا تو دس ٹھیک ہے نا سب کج اوتھے(میرا بیٹا مجھے کیا ہونا ہے تم بتاؤ اب ٹھیک ہے وہاں؟؟)" نانی نے اسے کہا۔
"آہو نانی ایتھے وی سب ٹھیک ہے (جی نانی یہاں بھی سب ٹھیک ہے)" حائمہ ان سے پنجابی میں بات کرتے ہوئے بولی۔
نانی اسے بولی "الا چل میرے پرا نال گل کرا میری۔ اودے نال گل ہی نئی ہوندی (چلو میرے بھائی سے بات کراؤ۔ میری اس سے تو بات ہی نہیں ہو پاتی)"
"جو آپ کا حکم نانی!" حائمہ حکم بجا لاتے ہوئے بولی.
" آغا جانی آپ کی بہن کا فون ہے۔" حائمہ آغا جانی کے پاس بیٹھتے ہوئے بولی اور پھر آغا جانی اپنی بہن سے بات کرنے لگے۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔   ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
" حائمہ بگ بی بلا رہے ہیں تمہیں۔" مہوش نے حائمہ کو بتایا۔
"اچھا تم نا تائی امی کو بولو تیار ہو جائیں میرے کام کیلئے۔" حائمہ جلدی سے نیچے بھاگی تھی۔
جیسے ہی اس نے لاؤنج میں قدم رکھا تو سامنے ایس پی زیغم کو بیٹھا دیکھ کر اسکی تیوری پر بل پڑے تھے۔
"او ہیلو مسٹر آپکو کوئی کام نہیں ہے جو منہ اٹھا کر یہاں آ گئے۔" حائمہ اسکے سامنے بیٹھتے ہوئے بولی ۔
انھیں میں نے بلایا ہے۔" ارحان اندر آتا ہوا بولا۔
"ایک تو یہ شخص جن کی طرح ہر جگہ حاضر ہو جاتا ہے۔" یہ بات حائمہ صرف سوچ سکی بولتی تو پھر اسکو ارحان نے چھوڑنا نہیں تھا۔
"کیوں بلایا ہے؟" حائمہ نے دنیا بھر کی معصومیت اپنے چہرے پر لاتے ہوئے پوچھا۔
"جیسے حائمہ کو تو پتہ ہی نہیں کہ اسنے کیا کارنامہ کیا ہے۔" ارحان نے طنز کیا تھا۔
"یقین کریں آپ غلطی انکی تھی میری نہیں
"حائمہ نے یقین دلانا چاہا۔
"مجھے کچھ نہیں سننا معافی مانگو انسے۔" ارحان اسکے سر پر آ کر کھڑا ہوا تھا۔
"معاف کر دیں آپ مجھے!" حائمہ کا انداز جان چھڑانے والا تھا۔
ایس پی صاحب کے چہرے پر تو اسکے انداز پہ مسکراہٹ آئی تھی جسکو چھپا کر وہ بولے " کوئی بات نہیں!"
"میں جا رہی ہوں تائی امی کے پاس۔" حائمہ ارحان کو سنا کر نکل گئی تھی۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔   ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
  ۔ ۔ ۔ ۔   ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
"اکرم یہ خطرناک ہو سکتا ہے۔" عباس صاحب کب سے انھیں فون پر سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے۔
"بھائی میں اس شخص کا حصہ اسے دلا رہا ہوں اور تو کچھ نہیں گھر آ کر بات کروں گا۔" اکرم صاحب نے فون کاٹ دیا اور گاڑی سے اتر کر زمین کا جائزہ لینے لگے۔
اچانک چند مسلح افراد انکی طرف بڑھے تھے۔
" کیا چاہتے ہو تم لوگ؟" اکرم صاحب نے انسے پوچھا جو غریب چوکیدار کی زمین پر قبضہ کرنا چاہ رہے تھے۔
" کچھ نہیں تم اس معاملے سے پیچھے ہٹ جاؤ ورنہ بیٹی تو تمہاری بہت بڑی چیز ہے۔ مزہ آئے گا اسکے ساتھ۔"  ایک نقاب پوش شخص خباثت سے بولا تھا۔
"زبان کو لگام دو اپنی۔" اکرم صاحب اسکو مارنے کیلئے آگے بڑھے تھے کہ ایک شخص نے رائفل کا رک انکی طرف کر دیا اور بولا "یہ تو وارننگ تھی اگر تم نہ مانے تو عمل ہوگا چلو ساتھیوں۔"
اور وہ لوگ چلے گئے تھے مگر اکرم صاحب کافی پریشان تھے۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
"ہاں اسی کی کسر رہ گئی تھی کہ ہر ایرے غیرے کو گھر بلاؤ اور مجھے کہو کہ معافی مانگو!" حائمہ اس وقت سے عون اور مہوش کے ساتھ لان میں بیٹھی ارحان اور ایس پی کو کوس رہی تھی۔
ایس پی صاحب جانے کیلئے نکلے تو حائمہ فورا اٹھ کر انکے پاس گئی تھی۔
"آپکو لگتا ہے کہ یہ کام کر کے آپ مجھے ہرا سکیں گے؟" حائمہ نے پوچھا تھا۔
زیغم مسکرایا تھا اور بولا "بہنوں سے کوئی لڑائی نہیں ہوتی بھول جائیں سب۔"
"ہاہاہا بہن چلیں دیکھتے ہیں کہاں تک بھائی بنیں گے۔" حائمہ نے کہا
"جب کبھی کوئی مسئلہ ہو میرے تھانے آ سکتی ہیں۔ آپ ارحان کی فیملی سے ہیں تو آپ کا کام تو فورا ہوگا۔" زیغم نے اسے کارڈ دیا اور گاڑی میں بیٹھ کر چلا گیا۔
"دیکھو تو سہی اس کڑوے کریلے کی فیملی بنا گیا مجھے نکما۔" حائمہ کارڈ دیکھ کر بڑبڑائی تھی۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
"امی میرے سے یہ کوکنگ نہیں ہوتی۔" حائمہ شازیہ اکرم کو یہ بات کوئی بیسویں دفعہ کہہ رہی تھی مگر وہ آج اس سے یہ سب کروانے کو تیار بیٹھی تھیں۔
" حائمہ!" عون بھاگتا ہوا آیا تھا اور اسکے پیچھے مہوش اندر آئی تھی جو اسے اسطرح دیکھ کر حیران ہو رہی تھی۔
"کیا ہوا ہے میراتھن میں حصہ لے لیا ہے یا کتا پیچھے لگ گیا ہے۔" حائمہ دیگچی میں چمچہ ہلاتے ہوئے بولی۔
"نہیں ان میں سے کچھ بھی نہیں ہوا مگر موت کا پیغام آ گیا ہے۔" عون ہانپتا ہوا کرسی پر بیٹھ گیا۔
"ارے واہ تمہارے مرنے پر میں بریانی دوں گی مگر اپنی بات کی وضاحت کرو ذرا۔" حائمہ اسے تنگ کرتی ہوئی بولی۔
"او بیٹا آخری سیمیسٹر کے پیپر ہو رہے ہیں اس ہفتے کے آخر سے۔" عون نے اسے خبر سنائی تو وہ بولی
"میں مر گئی امی! آپ کھانا بنائیں میں تو تیاری کرنے جا رہی ہوں۔"
عون بھی اٹھ کر تیاری کرنے چلا گیا. جبکہ مہوش انکو دیکھ کر حیران تھی کہ یہ لوگ کیسے پیپرز سے کچھ دن پہلے تیاری کر لیتے ہیں۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اکرم صاحب تین دنوں کی بجائے ایک ہفتہ لگا کر واپس آئے مگر وہ بہت پریشان تھے۔
حائمہ کے حوالے سے وہ کوئی بات برداشت نہیں کر سکتے تھے۔
انھوں نے ساری بات آغا جانی کو بتائی اور ساتھ ہی ایک تجویز دی۔
"آغا جانی میرا ایک دوست حائمہ کا رشتہ مانگ رہا ہے۔ میں چاہتا ہوں بس ہاں کر دوں اور حائمہ کے پیپرز کے بعد بس شادی کر دوں۔" اکرم صاحب نے مدعا پیش کیا۔
"اکرم کیا ہو گیا ہے تمہیں گھر کے لڑکے کو چھوڑ کر باہر دیکھ رہے ہو ۔حائمہ کی فکر مت کرو اسکی شادی ارحان سے ہوگی۔"
"آغا جانی حائمہ کو اچھا نہیں لگتا اور کیا ارحان میری بیٹی کو خوش رکھے گا؟ بھتیجا ہونا الگ بات ہے مگر مجھے اپنی بیٹی بہت عزیز ہے۔" اکرم صاحب نے پریشانی بتائی۔
"تم فکر مت کرو یہ میرا مسئلہ ہے ۔شادی کی تیاریاں شروع کرو دونوں بچوں سے میں خود بات کروں گا۔" آغا جانی نے فیصلہ سنایا تھا۔
"مگر آغا جانی.. " اکرم صاحب نے کچھ کہنا چاہا۔ مگر آغا جانی اپنا ہاتھ اٹھا کر بولے" جو فیصلہ ہو گیا سو ہو گیا۔ اب کوئی بات مت کرنا۔" اور اکرم صاحب خاموش ہو گئے۔
"اچھا آغا جانی میں آج شام پھر ایک کام کیلئے جا رہا ہوں۔ کل رات تک واپس آؤں گا۔" انھوں نے آغا جانی کو بتایا۔
"ٹھیک ہے!" آغا جانی نے مختصر جواب دیا۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  ۔ ۔
حائمہ آج یونیورسٹی آئی ہوئی تھی اسے ایک دوست سے کچھ نوٹس لینے تھے جبکہ عون نے کہا تھا کہ میں نے پیپرز کی تیاری چھوڑ کر نہیں جانا تمہارے ساتھ۔
اور حائمہ اس پر تلملاتے ہوئے اکیلی ہی یونیورسٹی چلی گئی تھی۔
  ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  ۔
۔ ۔ ۔  ۔  ۔  ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
"لائبہ یار کہاں رہ گئی ہو؟ ابھی تک آئی نہیں تم یونیورسٹی۔" حائمہ فون پر لائبہ سے پوچھ رہی تھی۔
"آتی ہوں یار دس منٹ لگ جائیں گے۔" لائبہ نے اسے کہا۔
"اچھا میں یونی کی پچھلی طرف جا رہی ہوں اگر کینٹین میں نہ ہوئی تو تم وہیں آ جانا۔" حائمہ نے اسے بتایا ۔
"وہاں جا کر کیا کرو گی؟ وہ تو ویران جگہ ہے۔ کوئی بھی ادھر نہیں جاتا۔" لائبہ نے اسے کہا من
"بس دیکھ آؤں نہ وہ جگہ اور تو کوئی وجہ نہیں۔" حائمہ نے اسے کہا۔
" اچھا جاؤ تمہارا کچھ نہیں ہو سکتا۔" لائبہ نے لمبی سانس کھینچ کر بولا
"اچھا صحیح پھر ملتے ہیں۔" حائمہ نے فون بند کر دیا۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
حائمہ یونیورسٹی کی پچھلی طرف گھوم رہی تھی کہ اچانک اس نے دو لوگوں کو باتیں کرتے ہوئے سنا۔
وہ لوگ یونیورسٹی کی ایک لڑکی کو اغوا کرنے کا منصوبہ بنا رہے تھے۔
جس لڑکی کی وہ بات کر رہے تھے حائمہ اسے جانتی تھی۔ حائمہ فورا سے ایک طرف چھپ گئی اور انکی باتیں سننے لگی۔
جب حائمہ سب سن چکی تو وہ وہاں سے بھاگی۔ مگر ان میں سے ایک نے اسکا بیگ دیکھ لیا تھا ۔
وہ بھی فورا اسکے پیچھے بھاگے تھے مگر حائمہ انھیں کہیں نہیں دکھی تھی۔
حائمہ فورا گاڑی میں بیٹھ گئی اور تھانے کی طرف گاڑی کی کہ کہیں وہ اسکے پیچھے نہ آئیں۔
وہ دونوں آدمی کچھ لوگوں سے پوچھ کر حائمہ کے پیچھے نکلے تھے۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
"حائمہ کہاں ہو تم دو بندے تمہارا پوچھ کر تمہارے پیچھے نکلے ہیں. سب ٹھیک ہیں نا؟" لائبہ جو تھوڑی دیر پہلے یونیورسٹی پہنچی تھی اسنے حائمہ سے پوچھا۔
"لائبہ میں بعد میں بات کرتی ہوں۔" حائمہ کے اس وقت پسینے چھوٹ رہے تھے اس سے ڈرائیونگ صحیح نہیں ہو رہی تھی۔
"عون فون اٹھاؤ!" حائمہ عون کو فون ملا رہی تھی مگر وہ نمبر بند کر کے امتحان کی تیاری میں مصروف تھا.
"ابو تو شہر میں موجود نہیں ہیں کیا کروں؟" حائمہ سوچ رہی تھی۔
"تایا ابو کو فون کرتی ہوں۔" اس نے کہا اور فون ملایا

عیدِ زندگی (مکمل) Tempat cerita menjadi hidup. Temukan sekarang