عیدِ زندگی
از قلم
سحر قادر####EPISODE 19#####
💞💞💞💞💞💞💞💞💞"اور حائمہ کیا کرتی ہو سارا دن؟" ایمن نے حائمہ سے پوچھا۔
اس سے پہلے کے حائمہ جواب دیتی ارحان بولا
"یہ جیتو پاکستان دیکھتی ہیں اور سرِعام بھی اور دوسروں کا سر کھاتی ہیں۔"
ک"یوں مذاق کرتے ہیں ارحان بھائی؟" ایمن مسکراتے ہوئے بولی۔
جبکہ حائمہ ارحان کو گھور رہی تھی۔
" ارے سچ بتا رہا ہوں!" ارحان نے نچلا ہونٹ دباتے ہوئے کہا۔
"حیرت ہے بھئی مجھے تو لگا تھا یہ جوڈو کراٹے کی مشق کرتی ہوگی کیونکہ جیسے یہ مجھ سے لڑی تھی مجھے لگا تھا کوئی بلیک بیلٹ ونر ہے، "زیغم نے ہنستے ہوئے کہا اور حائمہ کے سامنے بریانی کی تاکہ وہ کھا سکے مگر حائمہ صرف زبردستی مسکرا سکی تھی۔
"حائمہ صحیح سے کھانا کھاؤ نا۔" ایمن نے کہا جس پر حائمہ نے اسے کہا" نہیں میں کھا رہی ہوں تم فکر مت کرو۔" اور سب کھانا کھانے لگے۔
حائمہ کی طرف کسی نے دھیان نہیں دیا تھا جو دائیں ہاتھ پر پلستر ہونے کی وجہ سے بائیں ہاتھ سے بمشکل تھوڑا سا کھانا کھا سکی تھی۔
"ارحان چلیں!" حائمہ نے الفاظ کو چباتے ہوئے۔ ارحان سے کہا جو مسلسل باتیں کئے جا رہا تھا۔
" تھوڑی دیر تو بیٹھو شادی کے بعد پہلی بار آئے ہو۔" زیغم نے کہا جس پر حائمہ نے کہا "بھائی پہلی بار آئیں ہیں آخری بار نہیں۔"
حائمہ کے چہرے پر کسی قسم کے کوئی تاثرات نہیں تھے۔ ارحان اسکے تیور دیکھتے ہوئے اٹھا تھا۔
پھر زیغم اور اسکی فیملی انھیں باہر تک چھوڑنے آئے تھے۔
- - - - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - - - -
"خلیل درانی تم اس وقت!" عباس صاحب کے منہ سے نکلا۔
آفندی ہاؤس میں سب کھانا کھا کر فارغ ہو چکے تھے۔ ارحان اور حائمہ بھی واپس آ چکے تھے مگر گاڑی میں ہونے والی گفتگو وہ دونوں ہی جانتے تھے۔ شمائلہ بیگم بھی ابھی ابھی گھر روانہ ہوئیں تھیں، کہ ایسے میں درانی صاحب اپنی بیٹی مایا کے ساتھ آفندی ہاؤس میں داخل ہوئے تھے۔
"میں جانتا ہوں مجھے اور مایا کو دیکھ کر آپ لوگوں کو اچھا نہیں لگا مگر میں آپ لوگوں سے بات کرنا چاہتا تھا۔" درانی صاحب نے مایا کو دیکھا جس نے سر جھکایا ہوا تھا اور پھر سب کی طرف دیکھا۔
"نہیں برخوردار ایسی کوئی بات نہیں۔ بیٹھیں ہم سب ہمہ تن گوش ہیں۔" آغا جانی نے انھیں بیٹھنے کا کہا۔
" آغا جانی میری بیٹی نے میری تیس سالہ دوستی کا بھی خیال نہیں کیا جو میری عباس صاحب کے ساتھ تھی۔ اسنے مجھے سب کی نظروں میں شرمندہ کر دیا ہے۔ میں آپ سب سے معافی مانگنے آیا ہوں۔" درانی صاحب کے لہجے سے پشیمانی صاف ظاہر تھی۔
خلیل درانی صاحب عباس صاحب کے سب سے عزیز دوست تھے۔ جنکی بیٹی نے حائمہ پر حملہ کروا دیا۔
" خلیل بھائی کوئی بات نہیں ہم نے مایا کو معاف کیا اور اس میں آپ کا تو کوئی قصور نہیں تھا۔" اکرم صاحب نے ان سے کہا۔
" نہیں اکرم قصور میرا ہی ہے بچپن میں اسکی ماں مر گئی اور میں نے اسے آیا کہ حوالے کر دیا اور یہ ضدی اور خودسر بن گئی۔ بجائے اسکے کہ میں اسے ماں اور باپ دونوں کا پیار دیتا میں نے اسے تلخ اور باغی بنا دیا۔" درانی صاحب آج خود سے ناراض لگ رہے تھے۔
"بابا ایسی باتیں کیوں کر رہے ہیں آپ ہی تو واحد رشتہ ہیں میرا دنیا میں۔ آپ کا کوئی قصور نہیں میں ہی آپ کی اچھی بیٹی نہیں۔ ہمیشہ سکول کالج یونیورسٹی ہر جگہ میں نے آپ کو شرمندہ کروایا۔"
مایا درانی صاحب کے سامنے نیچے بیٹھ کر بولی اور پھر سب کی طرف دیکھا اور ہاتھ جوڑ دئے اور کہا۔
" اور اب میں قاتل بھی بننے لگی تھی۔ آپ کیوں معافی مانگتے ہیں بابا ؟ میں مجرم ہوں میں معافی مانگتی ہوں سب سے۔ پلیز مجھے معاف کر دیں۔"
سب کو اس پر ترس آ رہا تھا۔ ارحان نے اسے معاف کر دیا اس بات پر گھر میں واویلا اس لئے نہیں ہوا تھا کیونکہ سب جانتے تھے کہ وہ کتنی دفعہ سائیکاٹرسٹ کے علاج کرنے پر ٹھیک ہوئی ہے۔ مگر ہر بار وہ اپنے ساتھ کچھ برا کر کے ذہنی دباؤ میں چلی جاتی ہے۔
ماں کی کمی نے اسے نفسیاتی بنا دیا تھا اور آفس میں بھی عباس صاحب نے اسے اسلئے رکھا تھا تا کہ وہ دوبارہ بیمار نہ ہو۔
ایسی لڑکی سے جو اپنی زندگی برباد کرتی رہتی ہے، اس سے بدلہ لے کر آفندی خاندان نے کیا کرنا تھا۔ اسلئے آغا جانی نے اسکے سر پر ہاتھ رکھا اور اسے معاف کر دیا اور اسے آفس آنے کی اجازت بھی دے دی۔
- - - - - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - - - - -
"کیوں فون کیا ہے تم نے؟" مہوش نے کہا۔
"وہ کیا ہے نا کہ کل ساجد چاچو آ رہے ہیں رشتہ طے کرنے۔ مجھ سے سوالات کریں گے۔" عون نے مسکراتے ہوئے کہا۔
"تو میں کیا کروں؟" مہوش نے اس سے پوچھا۔
"تم مجھے بتاؤ وہ کس قسم کی باتیں پسند کرتے ہیں تا کہ میں ان پر ذرا رعب ڈال سکوں۔" عون نے کہا جسکے جواب میں مہوش بولی۔
" تمہیں ذرا شرم نہیں آ رہی اپنے پھپھا پہ رعب ڈالو گے۔"
" نہیں پھپھا پر نہیں ہونے والے سسر پر!" عون نے شرارت سے کہا جس پر توقع کے مطابق مہوش تپ کر بولی تھی "عون کے بچے دفعہ ہو جاؤ!"
" ہائے کیوں میرے بچوں کی دشمن بنی ہو۔" عون نے مسکراہٹ دبائی تھی۔
"بکواس بند کرو!" مہوش فون کاٹنے لگی تھی جس پر عون بولا" اچھا کپڑے کو نسے پہنوں وہ تو بتا دو۔"
مگر مہوش فون کاٹ چکی تھی۔
جس پر عون ہنس رہا تھا وہ ہمیشہ ایسے ہی مہوش کے غصے کا گراف چڑھا دیتا تھا۔
- - - - - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - - - - -
" ویسے تم نے میری بات کا جواب نہیں دیا۔" ارحان نے گاڑی چلاتے ہوئے حائمہ سے کہا۔
"کونسی بات کا جواب؟" حائمہ جو باہر دیکھ رہی تھی اسے ایک نظر دیکھ کر بولی۔
"یہی کہ اگر محبوبہ تم ہو تو؟" ارحان نے ابرو اٹھائے تھے۔
"کیوں جھوٹ بولتے ہیں آپ کی محبوبہ ثناء ہو سکتی ہے مایا ہو سکتی ہے بلکہ کوئی بھی ہو سکتی ہے۔ مگر میں نہیں۔" حائمہ نے اسکی طرف مڑ کر کہا تھا۔
" ایسی کوئی بات نہیں تم غلط سمجھ رہی ہو۔" ارحان نے گئیر بدلتے ہوئے کہا۔
" رہنے دیں سب سمجھتی ہوں میں۔" حائمہ نے منہ بنایا تھا۔
" ماچھا تمہیں عورت پر اعتراض تھا مگر نامعقول کہنے پر نہیں مطلب تم خود کو نا معقول سمجھتی ہو۔" ارحان کے چہرے پر شرارت رقص کر رہی تھی جسے دیکھے بغیر حائمہ بولی۔
" نہیں میں خود کو نامعقول نہیں سمجھتی۔"
"تو پھر اعتراض کیوں نہیں اٹھایا اس بات پر۔" ارحان نے اگلا سوال داغا۔
" کیونکہ نامعقول لوگ ہی دوسروں کو نامعقول کہتے ہیں اور اگر آپ اس نامعقول لفظ پر اعتراض اٹھائے تو یہ اعتراض آپ کی نامعقولیت ثابت کر دیتا ہے۔ اسلئے انسان کو چاہیے کہ نامعقول انسان کو نامعقول جواب دینے کی نامعقولیت سے پرہیز کرتے ہوئے معقول انسان ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے معقول طریقے سے بات کا برداشت کر جائے۔"
حائمہ نے تپ کر تیزی سے کہا جس پر ارحان کا قہقہہ گاڑی میں گونجا تھا، جس پر حائمہ نے منہ بنا لیا تھا۔ مگر یہ بھی سچ ہے کہ ارحان کو اس طرح کھل کر ہنستے ہوئے اسنے پہلی دفعہ دیکھا تھا۔ اور وہ اسے ہنستا دیکھ کر حیران ضرور ہوئی تھی۔
آ" چھا بابا سوری میں مزاق کر رہا تھا۔" ارحان نے اسکے ناراض چہرے کو دیکھ کر ہنسنا بند کرتے ہوئے کہا تھا۔
"حائمہ!" ارحان نے اسے بلایا جو راستے کے ختم ہونے کا انتظار کر رہی تھی اس بات سے بے خبر کے ارحان گاڑی جان بوجھ کر الٹے سیدھے رستوں پر ڈال کر اور موڑ مڑ کر راستے کو لمبا کر چکا تھا۔ تا کہ گھر دیر سے پہنچیں۔
"کیا ہے!" حائمہ نے من پھیر کر کہا تھا۔
"یہ بات تو ماننی پڑے گی کہ تمہاری پنجابی اور اردو دونوں اچھی ہیں۔" ارحان یہ کہتے ہوئے پھر ہنسا تھا اور اب کی بار حائمہ نے تپ کر اسے دیکھا تو جو آج اسے تنگ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہا تھا۔
"اچھا پلیز منہ مت بناؤ اب نہیں کہتا کچھ۔" ارحان نے اسے کہا۔
"دیکھ کر گاڑی چلائیں اور ذرا جلدی کریں مجھے گھر جانا ہے۔" حائمہ نے دانت پیس کر کہا جس پر ارحان نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے گاڑی کی سپیڈ تیز کردی تھی۔
گاڑی میں کی جانے والی باتوں کو سوچتے سوچتے ہی آج وہ سو گئی تھی۔
- - - - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - - - -
" السلام علیکم ساجد چاچو!" حائمہ ساجد صاحب سے ملی اور انھیں کہا۔
"وعلیکم السلام!" ساجد صاحب جو سب سے باتیں کر رہے تھے اسے دیکھ کر چونکے۔
"" ساجد چاچو آپ سے اکیلے میں بات کرنی ہے۔" حائمہ نے انسے کہا۔
جس پر وہ اٹھ کر اسکے ساتھ ایک کمرے میں آ گئے تھے۔
حائمہ نے انھیں ایک پلان بتایا اور عون کو بلانے چلی گئی۔
" حائمہ ساجد چاچو آ گئے ہیں کیا؟" عون نے اس سے پوچھا۔
" ہاں اور وہ کہہ رہے ہیں اگر تم انھیں پسند نہ آئے تو وہ انکار کر دیں گے۔" حائمہ نے آواز کو خوفناک بناتے ہوئے کہا۔
"اب ڈراؤ تو نہیں نا!" عون نے منہ بسور کر کہا
نہیں نہیں ڈرو نہیں انھوں نے کہا ہے پورے دس بجے تم انسے ملو۔ وہ وقت کے پابند لوگ پسند کرتے ہیں۔ اسلئے جاؤ جلدی سے جا کر کپڑے تبدیل کرو۔" حائمہ نے اسے دھکیلا تھا اور وہ بھی بھاگا تھا۔
حائمہ نے پیچھے اپنا کام کیا اور باہر نکل گئی۔
- - - - - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - - - - - -
" کہاں گئی تھی تم!" ارحان نے اسے سیڑھیوں سے نیچے آتے دیکھ کر مسکراتے ہوئے کہا۔
" عون کو بلانے گئی تھی۔" حائمہ نے ناراضگی سے جواب دیا۔
"راستہ دیں ارحان!" حائمہ نے ارحان سے کہا جو اسکے سامنے کھڑا ہو گیا تھا۔
"اور اگر نہ دوں تو؟!" ارحان نے پوچھا۔
جس پر حائمہ نے تپ کر کہا۔
" آپ کو تو کچھ زیادہ ہی شوق ہے میرے راستے میں دیوارِ چین بننے کا اور ایک بات یہ بابا اور تایا ابو نے تو آفس سے دو ہفتوں کا آرام کیا ہے اور عون کی تو بات ہی اور ہے۔ آپ کس خوشی میں چھٹیاں کر رہے ہیں۔" حائمہ غصہ کرتے کرتے ایک دم اس سے سوال کر بیٹھی تو وہ ہنس کر بولا "چلو کچھ تو نظر آیا آپکو کہ شوہر گھر ہے۔"
تمیز سے بات کریں حائمہ لفظ شوہر پر بولی تھی۔
" وہ کیا ہے نا کہ میری ایک عدد بیوی ہے، جو بیمار ہے اور اپنا خیال نہیں رکھ سکتی۔ اسلئے میں گھر ہوں۔" ارحان نے اسے کہا۔
"اسلئے میں گھر ہوں۔" حائمہ نے اسکی نقل اتاری اور بولی "کسی اور کو بیوقوف بنائیے گا اور ہٹیں پیچھے۔" جس پر ارحان بولا کبھی مسکرا کر بھی بات کر لیا کرو اور اسکے سر پر چپت لگا کر چلا گیا جبکہ وہ پیچھے منہ کھول کر اسے دیکھتی رہ گئی تھی۔ ارحان کے تیور زیادہ ہی بدل گئے تھے۔
- - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - - -
" ساجد چاچو تیار ہو جائیں۔ وہ آتا ہوگا دومنٹ میں۔" حائمہ نے ساجد صاحب سے کہا جو عون کا انتظار کر رہے تھے۔
"بچے اتنا مشکل کام بتا دیا۔ میں ایسا نہیں ہوں۔" ساجد صاحب اسے بولے تو وہ انکو بٹھاتی ہوئی بولی "ارے چاچو آپ کونسا ہم سے بہت زیادہ ملے ہیں۔ جو اسے پتہ ہو کہ آپ کیسے ہیں؟ بس تیار ہو جائیں۔"
" السلام علیکم!" عون سوٹڈ بوٹڈ ہو کر کمرے میں داخل ہوا جس پر حائمہ نے اپنی مسکراہٹ دبائی تھی۔
" صاحبزادے آپ پورے تیرہ منٹ پہلے آئیں ہیں کیا اتنے فارغ ہیں آپ؟" ساجد صاحب نے غصے سے گھڑی کو دیکھتے ہوئے کہا جس پر عون ایک لمحے کو گڑبڑایا مگر پھر حائمہ کے اشاروں پر اپنی گھڑی دیکھتا ہوا بولا۔
"نہیں تو ابھی دس بج چکے ہیں۔ یہ دیکھیں۔" عون کے اپنی گھڑی آگے کی اور پھر موبائل پہ وقت بھی دکھایا جس پر واقعی دس بجے تھے۔
" برخوردار یہ دیکھیں!" ساجد صاحب نے اپنا فون آگے کیا جس پر نو بج کر سینتالیس منٹ ہوئے تھے پھر کمرے کی گھڑی دکھائی جہاں نو بج کر سینتالیس تھے اور پھر حائمہ کی گھڑی اور فون پر بھی یہی ٹائم تھا اور جب گوگل کیا تو بھی عون غلط ثابت ہوا جس پر عون کے پسینے چھوٹنے لگے تھے۔
" اب کیا تاویل پیش کریں گے آپ اس نااہلی کی موصوف؟" ساجد صاحب نے تیوری پر بل ڈال کر کہا جس پر عون جل تو جلال تو پڑھ کر گردن اکڑا کر بولا۔
"دراصل مجھے وقت سے آگے چلنا پسند ہیں۔"
جس پر حائمہ اور ساجد صاحب دونوں کی ہنسی چھوٹ گئی تھی۔ تب عون کو سمجھ آیا کہ یہ ٹائم حائمہ نے آگے کیا تھا۔ تبھی تو وہ اسے وقت کی طرف اشارہ دے کر آئی تھی۔
"بھئی عون تم تو بہت کام کی چیز ہو۔" ساجد صاحب نے کہا جس پر وہ شکر کر رہا تھا کہ چلو اچھا ہوا اب رشتہ طے ہوگا میرا جبکہ حائمہ کو بعد میں پوچھنے کا پلان بنا رہا تھا۔
- - - - - - - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - - - - - -
"عون ماشاءاللہ بہت اچھا بچہ ہے اور مہوش کو بھی اعتراض نہیں تو بس بچوں کی خوشی کو دیکھتے ہوئے میری طرف سے ہاں ہے آغا جان۔" ساجد صاحب نے کہا تو سب کے چہروں پر خوشی پھیل گئی اور شازیہ اکرم سب کو مٹھائی کھانے لگیں۔
"آغا جانی تاریخ طے کریں نا۔" عون نے آغا جانی کے کان میں سرگوشی کی جو اتنی اونچی ضرور تھی کہ سب سن سکیں۔
سب نے قہقہہ لگایا تھا۔
" آغا جانی اسی مہینے کی 28 تاریخ رکھ لیتے ہیں۔" ساجد صاحب نے کہا۔
"بلکل ٹھیک ہے۔" سب نے ایک ساتھ کہا اور یوں تاریخ طے ہوگئی اور سب خوش گپیوں میں۔ مصروف ہو گئے جب حائمہ کے نمبر پر ارحان کا میسج "آیا اپنی شادی پر بھی ایسے خوش ہوتی تم تو کتنا مزہ آتا۔"
جس پر حائمہ نے اسے گھورا تھا اور لکھ کر جواب دیا تھا کہ "اپنی شادی پر آپ کی شکل بھی بینگن جیسی ہی بنی ہوئی تھی۔" اور غصے والے ایموجی بھیج کر موبائل سائڈ پر رکھ دیا۔ جس پر ارحان نے مسکرا کر اپنا فون جیب میں ڈالا اور اسے دیکھنے لگا۔
حائمہ اسے یوں اپنی طرف دیکھتا پا کر گڑبڑا گئی تھی اور اٹھ کر کچن میں چلی گئی تھی اور وہ مسکرا کر رہ گیا تھا۔
- - - - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - - - -
جاری ہے؛!!!!!!Stay tuned!!!!!
آج کی قسط کیسی لگی آج تو لمبی تھی تھوڑی یہ قسط اور اب تین دنوں میں لگاتار تین اقساط دی ہیں میں نے آپ کو.
نامعقول والا سین کیسا لگا اور عون کی شادی اگلی قسط میں ہوگی جو 28 کو دوں گی اب ذرا اچھا سا کارڈ تو بنا کر دیں آپ لوگ عون کی شادی کا اور بنا کر بھیج دیں!!!
ایک پیغام آپ سب کے نام...
جس چیز کی حاجت ہو پھر اسکو بانٹنا شروع کر دیں....
چاہے وہ دولت ہو رزق ہو دوستی ہو یا پھر پیار!!!
ماں باپ کا خیال کریں،،،، ،
خوش رہیں، آباد رہیں!!! آمین
سحر قادر
---------------
YOU ARE READING
عیدِ زندگی (مکمل)
Humorحائمہ ارحان عون یہ میرا دوسرا ناول ہے جو میں واٹ پیڈ پر دے رہی ہوں دوسری بات یہ کہ یہ ناول مجھے جلد ختم کرنا ہے تو جلدی میں ٹائپنگ کرتے ہوئے غلطیاں ہو جاتی ہیں پروف ریڈنگ کا موقع نہیں ملتا اگر غلطیاں نظر آئیں تو معزرت چاہوں گی کہانی ایک خاندان کی...