Last Episode

2.3K 169 182
                                    

انتقامِ وفا شروع ہو چکا ہے برائے مہربانی یہ آخری قسط پڑھ کر وہاں بھی نظر ڈال لیں

عیدِ زندگی
از قلم
سحر قادر

####LAST EPISODE#####
💞💞💞💞💞💞💞💞💞

"عون عون اٹھو!" مہوش نے عون کو اٹھایا جو سو رہا تھا۔
"کیا ہے؟" عون نے آنکھیں مسلتے ہوئے پوچھا۔
"آج چاند رات ہے۔" مہوش نے کہا تو وہ تپ کر بولا "سن چکا ہوں مولانا صاحب کا اعلان! اب کیا کروں بھنگڑے ڈالوں؟"
"نہیں وہ تم بعد میں ڈال لینا۔ پہلے مجھے بازار لے کر چلو۔" مہوش نے اسے ہاتھ سے پکڑ کر کھینچتے ہوئے کہا۔
"او میڈم مجھے کیا معلوم یہاں کی مارکیٹ کے بارے میں؟ میں تمہارے ساتھ جا کر کیا کروں گا؟ معذرت میں نہیں جا سکتا تمہارے ساتھ۔" عون نے مسئلہ بتایا۔
"عون ہم گوگل میں سے دیکھ لیں گے نا۔" مہوش نے اس سے منت بھرے لہجے میں کہا۔
"گوگل میپ سے تو ایسے کہہ رہی ہو جیسے ٹورانٹو شہر گھوم رہے ہو۔ بیٹا یہ پنجاب ہے یہاں کہ لوگ جس بے ترتیبی سے گھر بناتے اور بازار، گوگل میپ بتا ہی نہیں سکتا۔" عون نے اپنا سر پیٹا تھا۔
"تم چل رہے ہو سیدھی طرح یا پھر میں دوسرا طریقہ استعمال کروں؟" مہوش نے کہا۔
"رہنے دو! چل رہا ہوں! ایک تو جب سے شادی ہوئی ہے میرے ماں باپ بھی مجھ سے چھین لیے تم نےم میرا ہی دماغ خراب تھا جو شادی کیلئے مرا جا رہا تھا۔" عون بڑبڑا رہا تھا جبکہ مہوش پر اسکی بڑبڑاہٹ کا کوئی اثر نہیں تھا۔ وہ اسے لے کر باہر نکلی جہاں رونق لگی ہوئی تھی اور پارلر کا راستہ پوچھ کر وہ لوگ پارلر پہنچے،جہاں مہوش مہندی لگوانے لگی جبکہ عون باہر بیٹھے مرد حضرات کے ساتھ باتیں کرنے لگا۔
ہر کوئی بس خواتین سے تنگ تھا اور عون آج سوچ رہا تھا کہ شادی کیوں وبالِ جان ہے کیونکہ وہ آج سخت تھکا ہوا تھا۔ مگر مہوش! لیکن عون کیا کرتا محبت نے اسکی مت جو مار دی تھی بقول حائمہ کے۔
- - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - -
حائمہ کے سر سے ایک کاغذ آ کر ٹکرایا جسے اسنے پڑھا تو آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئ تھیں۔
کاغذ پر لکھا تھا۔

"اب کیوں آنسو بہا رہی ہو؟ جو تم چاہتی تھی وہی تو ہو رہا ہے۔ تمہیں تو خوشی منانی چاہیے۔ تم سے کوئی معافی بھی مانگے، محبت کا اقرار بھی کر لے تو تمہیں کیا تم تو بس اپنی انا کی تسکین چاہتی ہو۔"

حائمہ پڑھ کر حیران ہوئی تھی کیونکہ یہ لکھائی ارحان کی نہیں تھی اور نہ ہی عون کی بلکہ یہ لکھائی عکاشہ کی تھی۔ اور سوچنے والی بات یہ تھی کہ عکاشہ کیسے سب کچھ جان گیا کہ کیا ہونے والا ہے؟
"اف میرے خدا یہ کیا ہو رہا ہے؟" حائمہ اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گئی تھی۔
- - - - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - - - -
"ہیلو سالے کیا مسئلہ ہے کیوں تنگ کر رہا ہے؟" عون نے علی کا فون اٹھاتے ہوئے کہا.
"عون بھائی یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ؟" علی غصہ ہوا تھا۔
" تمہاری بہن میری بیگم تو تم سالے ہی ہوئے نہ۔ میرے اس میں روٹھی ہوئی محبوبہ بننے کی کیا ضرورت ہے۔" عون نے کہا وہ تو پہلے ہی بھرا بیٹھا تھا۔ اوپر سے اسے اب بندہ مل گیا تھا بھڑاس نکالنے کیلئے۔
"ہائے اللہ خدا کا خوف کریں میں کیوں بنوں گا روٹھی محبوبہ؟ وہ بھی آپکی؟ کچھ تو مجھ معصوم کا خیال کریں اور میں نے تو مہوش آپا سے بات کرنی تھی کیوں لے کر گئے انھیں پہلی عید ہی ہمارے ساتھ نہیں کرنے دی۔ اس سے اچھے تو واصف بھائی ہوتے ہفتے میں ایک بار ملانے تو لاتے۔" علی نے شکوہ کیا۔
"تمہاری بہت زبان چل رہی یہ آئیندہ واصف نامہ پڑھا نا میرے سامنے تو بتاؤں گا تجھے اور ایویں تو بہن سے لڑتا رہتا ہے۔ اب کیوں یاد آ رہی بیٹا؟ آنے دے کراچی روز لے کر آؤں گا نا جب اسے تو تو ہی کہے گا کہ بھائی تم ہی سنبھالو اور ہاں بہن تمہاری مہندی لگوا رہی ابھی بات نہیں ہو سکتی۔" عون نے کہا اور تھوڑی دیر کی بحث کے بعد وہ ایسے باتیں کر رہے تھے جیسے صدیوں کے بچھڑے ملے ہوں۔
- - - - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - - - -
حائمہ نے آگے پیچھے مڑ کر دیکھا کہ کون ہے پھینکنے والا مگر کوئی بھی نہیں تھا۔ جس پر وہ وہاں رکھے بینچ پر بیٹھ گئی جب کسی نے اسکی آنکھوں پر ہاتھ رکھا تھا۔
"کون ہے دیکھو میں نے شور کر کے سب کو بلا لینا ہے۔ ہاتھ ہٹاؤ!" حائمہ چیخنے لگی تو آنے والے کو اسکے منہ پر ایک ہاتھ رکھنا پڑ گیا۔
"کیا ہو گیا ہے کیوں شور کرنا ہے اور یہ آنکھیں روتی ہوئی اچھی تھوڑی لگتی ہیں۔ ایسے ہی انھیں خراب کر رہی ہو۔" ارحان نے کہا اور آ کر اسکے ساتھ بیٹھ گیا۔
" تم میرا مطلب آپ یہاں کیا کر رہے ہیں؟" حائمہ نے آنسو صاف کئے تھے۔
"میں بس ایک پاگل لڑکی کے پیچھے یہاں آیا ہوں۔" ارحان نے کہا تو وہ غصے سے اٹھ کر بولی "ہاں تو بہت جلد یہ پاگل لڑکی آپ کی زندگی سے چلی جائے ۔گی پریشان نہ ہوں۔"
"دیکھا پاگل تو ہو نا یہ کیسی محبت ہے تمہاری کہ تمہارے پاس چل کر آیا ہوں تو بھی تم سننا نہیں چاہتی۔" ارحان بھی اسکے ساتھ کھڑا ہوا تھا۔
" کیا کہنا چاہ رہے ہیں؟" حائمہ نے آگے پیچھے دیکھتے ہوئے کہا کہ کہیں کوئی آ ہی نہ جائے۔
ارحان گھٹنوں کے بل نیچے بیٹھا اور اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے کان پکڑتا ہوا بولا "پیاری بیوی معاف نہیں کرو گی اپنے معصوم شوہر کو؟ اب بس کرو مجھ سے نہیں ہوتی اور لڑائی۔"
"ارحان کیا کر رہے ہیں؟ اٹھیں!" حائمہ نے اسے اٹھانا چاہا مگر وہ نہیں اٹھا۔
"نہیں پہلے کہو کہ معاف کیا اور اب تم میرے ساتھ چلو گی۔" ارحان نے کہا تو وہ سٹپٹا کر بولی "اچھا بابا معاف کیا۔ اٹھیں تو سہی۔"جس پر ارحان بولا۔ "ایک منٹ رکو!" اور اپنی جیب سے ایک خوبصورت اور نفیس سا بریسلیٹ نکالا جس پر خوبصورت طریقے سے ارحان لکھا ہوا تھا اور حائمہ کا ہاتھ پکڑ کر اسے پہنا دیا۔ جس پر حائمہ کو منہ کھلا کا کھلا رہ گیا تھا۔
"منہ بند کر لو یہ تمہاری منہ دکھائی سوری میں بھول گیا تھا۔" ارحان نے کہا اور وہ دونوں ہنس دئے۔
"اچھا چلو میں اور تم گھومنے چلتے ہیں۔" ارحان نے کہا تو وہ بولی "اس وقت؟"
"ہاں نا چلو! تم نے کہا تھا کہ تم میرے ساتھ چلو گی۔" ارحان نے اسے کہا اور اسے لے کر باہر نکل گیا۔
- - - - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - - - -
"اوئے علی یہ میں کیا دیکھ رہا ہوں؟" عون نے حیرت سے کہا۔
"کیا دیکھ لیا ہے؟ مجھے بھی تو بتاؤ!" علی نے متجسس ہو کر پوچھا۔
"ارے بھئی فون رکھ بعد میں بتاؤں گا۔ فلحال سن کہ ہیر رانجھے کو مل گئی ہے یا پھر صاحبہ کو مرزا مل گیا ہے۔" عون نے ہڑبڑاہٹ میں کہا اور فون بند کر دیا کیونکہ اسے اپنی آنکھوں پر دھوکے کا گمان ہو رہا تھا۔ کیونکہ ارحان اور حائمہ وہ بھی ہنستے ہوئے باتیں کرتے ہوئے آ رہے تھے۔
" بگ بی یہ آپ اور حائمہ ہی ہیں نا؟" عون نے پاس آ کر پوچھا۔
"جی بلکل!"ارحان نے مسکرا کر کہا۔
" یا اللہ! میرے گناہ معاف فرما۔ قیامت جلد آنے والی ہے۔" عون نے ڈرامائی انداز میں کہا تو حائمہ بولی "بکواس نہ کرو!"
"حائمہ بہن ذرا چٹکی تو کاٹنا پتہ چلے کہ یہ خواب نہیں۔" عون تو آج تمام اداکاروں کو پیچھے چھوڑ چکا تھا۔
حائمہ کے چٹکی کاٹنے پر وہ بولا "چٹکی خواب میں بھی تو کاٹی جا سکتی ہے نا۔" جس پر حائمہ نے اسے ایک مکا مارا جس پر وہ اپنا کندھا سہلاتے ہوئے بولا" ہاں ہاں یہ تو ہٹلر کی بیوی کا یہ ہاتھ ہے۔ میرے کندھے کے دشمن نہ ہو تو۔"
"ہو گیا تمہارا ڈرامہ؟" ارحان نے پوچھا تو وہ ہنستے ہوئے ارحان کے گلے لگ کر بولا" بگ بی بگ بی! نہ پوچھے کتنی خوشی ہو رہی۔ اللہ آپ لوگوں کو ایسے ہی خوش رکھے۔"
اور پھر مہوش کے باہر آنے پر عون اور مہوش تو گھر آ گئے جبکہ حائمہ مہندی لگوا کر ارحان کو لے کر ایک جگہ پر آئی۔
- - - - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - - - -
اپر جہلم نہر کے کنارے کھڑے وہ نجانے کب سے باتیں کر رہے تھے۔
" ارحان پتہ ہے میں جب یہاں آئی تھی تو اس نہر کا سکون مجھے طوفان سے پہلے کی خاموشی لگتا تھا۔ مگر اب لگتا ہے کہ یہ طوفان ختم ہونے کے بعد کی خاموشی ہے۔ پہلے لگتا تھا کہ یہ اپنے اندر طوفان چھپا کر بہہ رہی ہے مگر اب لگتا ہے کہ تمام مشکلات کے بعد یہ چین کا پیغام دیتی پرسکون ہو چکی ہے۔ اور آرام سے اپنا سفر جاری رکھے ہے۔" حائمہ نے نہر کو دیکھتے ہوئے کہا جو رات میں مزید خوبصورت لگ رہی تھی۔

عیدِ زندگی (مکمل) Where stories live. Discover now