عیدِ زندگی
از قلم
سحر قادر####EPISODE 3####
"حائمہ تم پہلے دوسری شاپنگ کر لو۔ باقی لہنگا وغیرہ بعد میں لے لیں گے۔" مہوش نے اسے کہا۔
"صحیح جو کرنا ہے کرو مجھے کیا۔" حائمہ نے کہا۔
حائمہ عون نے اسے بلایا جو شاپنگ مال میں آگے پیچھے دیکھ رہی تھی۔
"ہاں بولو کیا ہے؟" حائمہ اس سے پوچھ رہی تھی۔
"حائمہ مجھے ابھی تک یقین نہیں آ رہا تم میری بھابھی بنو گی۔" عون نے اسے کہا تو وہ تپ گئی تھی۔
"عون تم سے کوئی سیدھی بات نہیں ہوتی اور خبردار جو کوئی بھابھی شابھی کہا مجھے۔" حائمہ نے پیچھے مڑ کہ اسے کہا تو وہ ہنسی روکتے ہوئے بولا۔
"شابھی تو نہیں کہوں گا۔ مگر یار بھابھی تو تم بن ہی رہی ہو نا۔"
" عون تمہارا قتل میرے ہی ہاتھوں سے لکھا ہے۔" حائمہ نے الفاظ کو چباتے ہوئے ادا کیا۔
"اچھا وہ بعد میں کرنا پہلے شاپنگ کرو بہت بولتے
ہو تم دونوں۔" مہوش نے لڑائی بند کروائی۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
"ارحان ہیں۔" ثناء نے نازش سے پوچھا۔
"جی سر اندر ہی ہیں۔" نازش نے شائستگی سے جواب دیا۔
"اچھا انہیں بتاؤ کہ انکی کزن ثناء آئی ہے۔" ثناء نے مغرور سے انداز میں کہا۔
نازش نے ارحان سے پوچھ کر اسے کہا "سر آپکو بلا رہے ہیں۔" اور ثناء اندر چلی گئی۔
جبکہ نازش لا شعوری طور پر ثناء اور حائمہ کا مقابلہ کرنے لگی ثناء بھی خوبصورت تھی۔ مگر حائمہ کی بات الگ تھی اسکی خوبصورت سرمئی رنگ آنکھیں ہی سب چیزوں پر بھاری تھیں۔ صاف بےداغ چہرہ دودھ کی طرح کی رنگت اور گھنے بھورے رنگ کے بال وہ بلاشبہ بہت پیاری تھی۔
۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
"صوفیہ تم اپنے خاندان والوں کو رشتہ کے بارے میں بتا دو۔ منگنی کا جھنجھٹ تو ہم نے پالا ہی نہیں ہے۔" آغا جانی نے صوفیہ بیگم سے کہا تو وہ سر اثبات میں ہلا گئیں۔
"اور ہاں شائستہ ذرا جمیلہ آپا کو فون ملاؤ بڑی خفا ہو رہیں تھیں کہ انکی نواسی کا رشتہ انسے پوچھے بغیر ہی کر دیا۔ انکو تو راضی کروں ورنہ یہ نانی نواسی تو مجھے تنگ کر دیں گی۔" آغا جانی نے ہنستے ہوئے شازیہ اکرم سے کہا۔
نفیل آفندی کی خوشی کا تو اندازہ ہی نہیں تھا۔ انکی خواہش پوری ہو رہی تھی۔
صوفیہ بیگم کے خاندان میں انکا ایک بھائی اور ایک بہن ہی قریبی تھی۔ اسلئے انھوں نے انھیں مطلع کیا باقی دور پار کے رشتہ داروں کو انھوں نے براہ راست شادی کے کارڈ بھیجنے کا فیصلہ کیا۔
اپنی بہن کو جب انھوں نے بتایا تو وہ تھوڑی ناراض ہوئیں تھیں۔ کیونکہ وہ ثناء کی شادی ارحان سے کرنا چاہتی تھیں مگر صوفیہ بیگم نے انھیں راضی کر لیا تھا۔
۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
"آؤ ثناء تم میرے آفس کیسے خیریت تو ہے۔" ارحان نے چہرے پر مسکراہٹ لاتے ہوئے پوچھا۔
"ہاں وہ مجھے شاپنگ پہ جانا ہے تو تم میرے ساتھ چلو۔" ثناء نے اس سے کہا۔
"مگر میں آفس سے کیسے جا سکتا ہوں۔" ارحان نے کہا تو وہ بولی۔
"میں اتنے عرصے بعد آئیں ہوں اور تم نخرے کر رہے ہو. کیسے دوست اور کزن ہو تم!"
ارحان کے ذہن میں اچانک آیا جب عون اور مہوش نے اسے ساتھ شاپنگ پر جانے کیلئے کہا تھا اور اس نے آفس کے کام کا کہہ کر بہانہ بنا لیا تھا اور اب وہ ثناء کے ساتھ جائے گا تو وہ لوگ کیا سوچیں گے۔
"سوچ کیا رہے ہو چلو میں تمہیں لے کر ہی جاؤں گی۔" ثناء نے اسے اٹھایا اور شاپنگ پر لے کر چلی گئی۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
"حائمہ وہ دیکھو ارحان بھائی!" مہوش نے ارحان کو ثناء کے ساتھ دیکھ کر کہا تو حائمہ نے بھی دیکھا۔
" ہمم اس کھڑوس کو تو دیکھو میرے ساتھ آتے ہوئے تو اسکو موت پڑ رہی تھی اور اس چڑیل کے ساتھ کیسے مزے سے گھوم رہا ہے۔" حائمہ بڑبڑائی تھی
اسکی بڑبڑاہٹ مہوش تو نہ سکی مگر عون نے سن لی تھی اور اسکی شرارت کی رگ پھڑکی تھی۔
"حائمہ تو کیا خیال ہے دو دو ہاتھ ہو جائیں۔" عون نے اسے کہا۔
"رہنے دو اس پہاڑ جیسے آدمی اور چڑیل کے متھے(منہ) نہیں لگنا مجھے۔" حائمہ نے کہا۔
" او محترمہ پنجابی سے پرہیز کرو سمجھ نہیں آتی اور پوچھنا تو پڑے گا۔ آخر کو میری بھابھی ماں کے حق کی بات ہے۔" عون نے بولا تو حائمہ نے چونک کر اسکی طرف دیکھا اور پوچھا۔
"یہ بھابھی ماں کیا ہے؟"
"بھئی تم میری بھابھی بنو گی اور بھابھی ماں جیسی ہوتی ہے۔ تو تم میری بھابھی ماں ہی ہوئی نا۔" عون نے جیسے اسکی عقل پر ماتم کیا تھا۔
"بیٹا پہلے اس لاٹ صاحب اور صاحبہ کو پوچھ لوں پھر تمہارا دماغ بھی ٹھکانے لگاؤں گی۔" حائمہ نے زبردستی مسکراہٹ چہرے پر لاتے ہوئے کہا اور ارحان کی طرف بڑھ گئی۔
پیچھے پیچھے عون اور مہوش شاپنگ بیگز اٹھائے چلے آ رہے تھے۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔
"اکرم کیا بات ہے تم پریشان سے لگ رہے ہو آج کل۔" عباس صاحب نے اکرم صاحب سے پوچھا
لوگ ابھی میٹنگ سے فارغ ہوئے تھے۔
"بھائی بس حائمہ کی وجہ سے پریشان رہتا ہوں۔" اکرم صاحب نے لمبی سانس کھینچی۔
"کیوں بھئی حائمہ کے حوالے سے کیوں پریشان ہو؟ اپنے تایا کے گھر آئے گی۔ تمہاری نظروں کے سامنے رہے گی اور میں کیا تمہیں ظالم لگتا ہوں۔ میری بھی بیٹی ہے وہ۔" عباس صاحب نے انھی لتاڑا تھا۔
" نہیں بھائی بس وہ زمین والا معاملہ ہے۔" اکرم صاحب نے کہا تو عباس آفندی حیران ہوتے ہوئے بولے کہ" اس سے حائمہ کا کیا لینا دینا؟"
تب اکرم صاحب نے انھیں تمام بات بتائی اور جلدی شادی کی وجہ بھی تو عباس آفندی بولے کہ
" میں تو پہلے ہی منع کر رہا تھا۔"
"بھائی بس اب میں سوچ رہا ہوں حائمہ کی شادی ہو تو تب ہی کیس دائر کروں۔" اکرم صاحب نے کہا اور پھر وہ اور عباس صاحب اس معاملے پر غور کرنے لگے۔
۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
"معافی چاہتی ہوں آپکے آفس کے کام میں مداخلت کرتے ہوئے مگر آپکو دیکھ کر ملے بغیر نہ رہ سکی۔" حائمہ نے ان دونوں کو شاپنگ کرتے ہوئے دیکھ کر طنز کیا۔
"تمہیں کیا مسئلہ ہے ارحان جو بھی کرے تمہیں کیا؟ " ارحان کے بولنے سے پہلے ہی ثناء بولی تھی۔
"لگتا ہے انھوں نے آپکو بتایا نہیں کہ اب سب کچھ مجھے ہی ہے۔" حائمہ نے مسکراتے ہوئے کہا تو ارحان نے ابرو اچکائے تھے کہ واقعی؟
"کیا کہنا چاہ رہی ہو؟ جلدی کہو!" ثناء تپی تھی۔
"ارے ڈیئر کزن تمہیں ابھی خالہ نے بتایا نہیں اور بگ بی آپ نے بھی نہیں بتایا۔" عون نے انٹری ماری تھی۔
"کیا کہہ رہے ہو؟ کیا نہیں بتایا تم نے مجھے ارحان؟" ثناء نے ارحان سے پوچھا تھا تو وہ بولا "دراصل..."
"ارے میں بتاتا ہوں بگ بی اور حائمہ کی شادی ہو رہی ہے نا اور اس میں چار چاند تو بگ بی کی سب سے اچھی کزن ثناء کو ہی لگانے ہیں۔" عون نے حائمہ کی طرف دیکھ کر آنکھ دباتے ہوئے کہا۔
ثناء تو ہکا بکا ہی رہ گئی تھی۔
"بھائی ہم لوگ ابھی شادی کے کارڈز لینے جا رہے ہیں۔ آپ حائمہ کو گھر چھوڑ دیں۔ ثناء کو ہم خود چھوڑ دیں گے راستے میں۔" مہوش نے کہا تو عون اور حائمہ اسکے حملے پر عش عش کر اٹھے تھے۔
"چلو حائمہ!" ارحان نے کہا جو کب سے خاموش تماشائی بنا کھڑا تھا۔ اور حائمہ ثناء پر ایک جتاتی نظر ڈال کر چلی گئی جبکہ پیچھے عون اور مہوش اپنی مسکراہٹ دبانے کی ناکام کوشش کر رہے تھے۔
۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
گاڑی کا فضا میں خاموشی تھی دونوں کوئی بات نہیں کر رہے تھے۔
اچانک ارحان کا فون بجا تھا ارحان کی عادت تھی کہ وہ گاڑی میں کال بہت کم اٹھاتا تھا اگر اٹھائے بھی تو سپیکر پر لگا دیتا تھا۔
ابھی بھی اسنے عادتاً سپیکر آن کر دیاتھا اور سامنے سڑک پر دھیان دے رہا تھا۔
"ارحان یہ مجھے کیا پتہ چلا ہے؟تم شادی کر رہے ہو۔" ایس پی زیغم کی آواز گاڑی میں گونجی تھی۔
حائمہ نے یہ سن کر اپنا منہ کا رخ پھیر لیا تھا اور سامنے دیکھ رہی تھی۔
"ہاں ہو رہی ہے۔اس میں حیرانی والی کیا بات ہے؟" ارحان نے اس پر ایک نظر ڈالتے ہوئے کہا۔
"ابے کس سے کر رہا ہے! حیرانی والی بات تو یہ ہے۔ حائمہ جسے تم نامعقول بےوقوف کم عقل اور دردِ سر کہتے تھے۔ جس کے بارے میں تم کہتے تھے کہ اس کے ساتھ کوئی سکون سے نہیں رہ سکتا، اسی سے شادی کر رہے ہو۔" ایس پی زیغم تو بنا رکے سارے پول کھولنے پر تلے تھے۔
ارحان کا دل چاہا گاڑی کہیں مار دے کیونکہ حائمہ سب سن چکی تھی اور حیرانی کی بات یہ کہ وہ کچھ بولی بھی نہیں تھی۔
" تم سے بعد میں بات کرتا ہوں۔ ابھی حائمہ کو گھر چھوڑنا ہے مجھے۔ اللہ حافظ!" ارحان نے کال کاٹ دی اور سامنے دیکھنے لگا مگر اسکا دھیان حائمہ کی طرف تھا جو چپ بیٹھی تھی۔
تھوڑی دیر کے توقف کے بعد حائمہ بولی "اگر کوئی آپکو شدید ناپسند ہو تو اسکو اپنی زندگی میں نہیں لانا چاہیے۔ اپنی مرضی سے فیصلہ کریں دوسروں پر مت جائیں۔"
" اور تم نے بھی تو دوسروں کیلئے فیصلہ کیا ہے۔" ارحان نے طنز کیا تھا۔
"آپ غلط سمجھ رہے ہیں میں نے اپنی مرضی سے یہ فیصلہ لیا ہے۔" حائمہ نے کہا اور سچ بھی یہی تھا کہ اسنے آغا جانی کے کہنے پر سوچا تھا۔ مگر فیصلہ خود لیا تھا ارحان سے اسکو کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ سوائے اس بات کے کہ وہ اسکی ہر وقت بےعزتی کرتا رہتا تھا مگر ارحان نے جتنا کچھ سنا تھا وہ اسے سن کر بدگمان تھا۔
"جھوٹ تو ہمیشہ سے لاجواب بولتی ہیں آپ۔" حائمہ آفندی ارحان نے اسکی طرف دیکھتے ہوئے کہا تو وہ اسکی سیاہ آنکھوں میں دیکھ کر بولی "بعض اوقات حقیقت وہ نہیں ہوتی جو آپکو لگتی ہے اسلئے بدگمان نہیں ہونا چاہیے۔"
"گھر آ چکا ہے تم جاؤ۔" ارحان نے کہا۔
حائمہ گاڑی سے اتر گئی تھی۔
ارحان نے تیزی سے گاڑی موڑی تھی اور چلا گیا تھا۔
حائمہ اسکی گاڑی کو دیکھ رہی تھی اور پھر ایک لمبی سانس لے کر وہ اندر چلی گئی تھی۔
آج کی بات چیت نے حائمہ کو ذہنی طور پر پریشان کر دیا تھا۔
وہ سوچ رہی تھی کہ کیا اس نے غلط فیصلہ کیا ہے ذہن پہ ایک بوجھ سا تھا وہ سوچ سوچ کر پریشان تھی کہ کیا اسے فیصلہ بدل دینا چاہیے۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
"ارے واہ آج تو مزہ آ گیا۔" عون مہوش سے بولا.۔
وہ لوگ ثناء کو اسکے گھر چھوڑ کر واپس آ رہے تھے
"عون وہ تمہاری کزن ہے تم اسکے ساتھ ایسے بات کیوں کر رہے تھے۔ میری اور حائمہ کی تو الگ بات ہے۔" مہوش نے اس سے پوچھا۔
"ارے چھوڑو ایسی نک چڑی کزن کو، بچپن میں تو مجھے مار بھی لیتی تھی اور اسکا نخرہ مجھ سے برداشت نہیں ہوتا۔" عون نے جواب دیا۔
حائمہ بھی تو لڑتی ہے تمہارے ساتھ پھر اسکی اور تمہاری کیسے بنتی ہے۔" مہوش نے سوچتے ہوئے پوچھا۔
حائمہ اسکی طرح فالتو نخرے نہیں کرتی، وہ دوستانہ طبیعت رکھتی ہے، اور ہم لوگ آپس میں تو لڑ سکتے ہیں کسی اور کو یہ اجازت نہیں دیتے کہ وہ ہمیں کچھ کہے اور میری کوئی بہن بھی نہیں ہے اسلئے بچپن سے حائمہ کو ہی بہن سمجھا ہے۔" عون نے لمبا جواب دیا تھا۔
" مگر بگ بی کی تو اس سے بہت اچھی دوستی ہے۔" مہوش نے اگلا سوال پوچھا۔
" بگ بی کو اپنے جیسے سڑے ہوئے لوگ پسند ہیں۔ چھوڑو انھیں تم نے جو وہاں عین موقع پر تیر پھینکا مزہ آ گیا۔" عون نے مسکراتے ہوئے کہا تو وہ ہنس دی اور بولی " بس تمہاری اور حائمہ کی صحبت کا اثر ہے۔"
تو وہ ہنس دیا اور بولا "اچھی بات ہے حائمہ تو آجکل زخمی شیرنی بنی ہوئی ہے۔ اب تم اور میں ہی مزہ کریں گے۔"
" رہنے دو مجھے بگ بی سے ڈانٹ نہیں کھانی۔" مہوش نے فورا کہا تھا۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
"ارے حائمہ بیٹا عون اور مہوش کہاں ہیں؟" صوفیہ بیگم نے پوچھا۔
" تائی امی وہ ثناء کو چھوڑنے گئے ہوئے ہیں، ابھی آ جائیں گے۔" حائمہ نے کہا اور اپنے کمرے میں چلی گئی تھی۔
صوفیہ بیگم کا فون بجا تو انھوں نے دیکھا شمائلہ آفندی کا فون تھا۔
"السلام علیکم شمائلہ کیا حال ہے؟" صوفیہ بیگم نے خوشدلی سے کہا۔
" وعلیکم السلام بھابی میں ٹھیک ہوں آپ سنائیں۔" انھوں نے بولا تو صوفیہ بیگم بولی "بس آغا جانی نے اچانک فیصلہ کر دیا۔ اب شادی کی تیاریاں جاری ہیں۔
" بھابھی مجھے تو یقین مانیں مجھے بہت خوش ہوئی یہ سب سن کر۔ ساجد آج کہہ رہے تھے کہ مہوش کافی دنوں سے آپکی طرف ہے اسے واپس لے آؤں۔" شمائلہ آفندی نے فون کی وجہ بتائی۔
" ارے مہوش کو شادی تک یہیں رہنے دو۔ شادی والا گھر ہے بہت کام ہے یہاں اور ساجد بھائی کو میری طرف سے کہنا مہوش ہماری اپنی بچی ہے۔ اسے یہاں کوئی تکلیف نہیں ہوگی۔" صوفیہ بیگم نے کہا۔
" ارے بھابھی کیسی بات کر رہی ہیں۔ آپ تو جانتی ہیں وہ ملک سے باہر ہی رہتے ہیں۔ اسی لئے چاہتے ہیں جب گھر آئیں تو بچوں کے ساتھ وقت گزاریں۔" شمائلہ بیگم نے انکو تسلی دی۔
" اچھا چلو کل صبح اسے بھیج دوں گی اور شام کو عون اسے واپس لے آئے گا۔" صوفیہ بیگم نے کہا تو وہ بولی "ٹھیک ہے اور پھر شادی کی تیاریوں پر بات ہونے لگی۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
"ماما حائمہ کہاں ہے؟ شام ہونے والی ہے مگر وہ نظر نہیں آ رہی۔" عون نے پوچھا تھا۔
"ارے بیٹا اپنے کمرے میں ہے جب سے آئی ہے۔ میں نے بھی نہیں بلایا اچانک فیصلہ ہوا ہے اسے وقت لگے گا۔ سمجھنے میں اللہ اسے خوش رکھے۔" جواب شازیہ اکرم نے دیا تھا۔
"ارے چچی فکر کیوں کر رہی ہیں۔ یہیں تو ہو گی وہ دیکھیے گا میں اور وہ مل کر آپ کا دماغ گھومائیں گے۔" عون نے انکے کندھے دباتے ہوئے کہا تو مہوش بولی" ممانی آپ پھر بیلن سے ان کی پٹائی کرئے گا۔"
" ارے نہیں بیٹا یہی تو رونق ہیں گھر کی۔" شازیہ اکرم نے مسکراتے ہوئے کہا۔
تو عون اسے چڑاتے ہوئے بولا "بیرونی دشمنوں کی سازشیں ناکام ہو چکی ہیں۔" جس پر صوفیہ بیگم بولی "عون تنگ نہ کرو اسے حائمہ اور تم ہی ایک دوسرے کے مذاق برداشت کر سکتے ہو۔ یہ معصوم بچی نہیں۔"
" اللہ ہونے والی بہو کے خلاف ہو گئیں۔ اس لڑکی کیلئے یا اللہ میری توبہ!" عون نے کانوں کو ہاتھ لگایا
سب نفوس ہنسے تھے۔
" اچھا مہوش بیٹا کل تم اپنے گھر جانا۔ شام کو عون لے آئے گا۔ ساجد بھائی کو تمہاری یاد آ رہی ہے۔" صوفیہ بیگم نے بتایا تو عون نے کہا" مجھے ڈیوٹی قبول ہے پر فیس لوں گا۔"
" ایک ڈنڈا لگے گا تو فیس مل جائے گی۔" ابکی بار شازیہ اکرم نے جواب دیا تو عون بولا "چچی آپ بھی!"
"جی میں بھی!" شازیہ اکرم نے کہا اور سب اسکے منہ کے زاویے دیکھ کر ہنسنے لگے۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
"چشم بد دور حائمہ آفندی! یعنی میری ہونے والی بھابھی ماں تشریف لائیں ہیں۔ عون نے حائمہ کو دیکھ کر کہا جو لان میں آ رہی تھی۔
حائمہ نے اسے ایک نظر اٹھا کر دیکھا اور بولی" اندر کو کھسک لو ورنہ خون پی جاؤں گی تمہارا۔"
"اچھا جا رہا ہوں۔" عون نے کہا اور اٹھ کر اند جانے لگا کہ اچانک مڑ کر بولا "بگ بی کا انتظار کر رہی ہو؟"
"عون کے بچے!" حائمہ اسکی طرف بڑھی مگر وہ پہلے ہی بھاگ گیا تھا۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
Stay tuned!
STAI LEGGENDO
عیدِ زندگی (مکمل)
Umorismoحائمہ ارحان عون یہ میرا دوسرا ناول ہے جو میں واٹ پیڈ پر دے رہی ہوں دوسری بات یہ کہ یہ ناول مجھے جلد ختم کرنا ہے تو جلدی میں ٹائپنگ کرتے ہوئے غلطیاں ہو جاتی ہیں پروف ریڈنگ کا موقع نہیں ملتا اگر غلطیاں نظر آئیں تو معزرت چاہوں گی کہانی ایک خاندان کی...