عیدِ زندگی
از قلم
سحر قادر####EPISODE 11####
💞💞💞💞💞💞💞💞"چچی آج آپکی بیٹی کے سارا دن آفس میں تنگ کیا ہے۔" ارحان شازیہ اکرم اور صوفیہ بیگم کے پاس بیٹھتے ہوئے بولا۔
"بیٹا اب میں کیا کہوں؟ یہ لڑکی کسی کے قابو میں نہیں آتی۔"
"ارے شازیہ کیا ہر وقت بچی کے پیچھے پڑی رہتی ہو۔ یہی تو دن ہیں اسکے کھیلنے کودنے کے۔" اکرم صاحب نے اندر داخل ہوتے ہوئے کہا۔
" مگر چاچو اب وہ اتنی چھوٹی نہیں رہی حرکتیں دیکھیں آپ اسکی۔" ارحان کا لہجہ کافی سنجیدہ تھا۔
" ارحان خبردار جو اب ایک لفظ بھی میری بہو کے خلاف کہا۔" صوفیہ بیگم کے ہنستے ہوئے کہا جس پر ارحان بادلِ نخواستہ خاموش ہو گیا۔ جبکہ اکرم صاحب سوچوں کے گرداب میں پھنس چکے تھے
ارحان پہ انھیں یقین تھا مگر اب انکی پریشانی بڑھتی چلی جا رہی تھی۔
- - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - -
رات کا وقت تھا حائمہ لان میں اکیلی بیٹھی تھی۔
"حائمہ ارحان تمہارے ساتھ ٹھیک نہیں تو کیوں کر رہی ہو برداشت اتنا! سب چھوڑ دو۔" لائبہ نے اسے کہا۔
"یہ مجھ سے نہیں ہو گا۔" حائمہ نے لمبی سانس بھری۔
"کہیں تمہیں محبت تو نہیں ہو گئی ارحان سے؟" لائبہ نے شکی لہجے میں پوچھا جس پر حائمہ کی خاموشی سے اسے جواب مل گیا۔
" اگر محبت کرتی ہو تو بتا دو اسے۔ کیا معلوم اسکے دل میں نرمی پیدا ہو جائے۔" لائبہ بولی جسکے جواب دیتے ہوئے حائمہ بولی۔
"میں چاہوں تو اپنی محبت کا اظہار کر دوں اسکے سامنے وہ میرا محرم ہے اور مجھے اسی سے محبت ہے اور یہ اقرارِ محبت میں اپنی ذات کے سامنے کر چکی ہوں۔ مگر میں اسکے سامنے نہیں کر سکتی کیونکہ وہ مجھ سے نفرت کرتا ہے۔ یہ زبردستی کا رشتہ ہے اس کیلئے۔ ایسے شخص سے محبت کا اظہار کیوں کروں جو مجھ سے نفرت کا دعویدار ہے۔ میں اپنی ذات کی نفی نہیں کر سکتی۔ ویسے بھی محبت اعزاز ہوتی ہے اور اسے اعزاز ہی کی طرح لینا چاہیے نا کہ خیرات کی طرح۔" اسکی آنکھوں سے آنسو نکل کر اسکا چہرہ بھگو چکے تھے۔
" یار خود کو ہلکان کیوں کر رہی ہو چھوڑ دو یہ زبردستی کا رشتہ۔" لائبہ نے تاسف سے کہا۔
"لائبہ کیسے چھوڑ دوں آغا جانی تایا ابو، تائی امی، عون، امی اور ابو سبکی خوشیوں کا خون کر دوں۔" حائمہ نے آنکھیں میچی تھیں۔
"دوسروں کی خوشیوں کیلئے کب تک برداشت کرو گی؟ اگر ہمسفر خوش ہو تو سفر اچھا کٹتا ہے چاہے راستہ خاردار ہی کیوں نہ ہو لیکن اگر ہمسفر ہی ناراض ہو تو پھولوں بھرا راستہ بھی دشوار ہو جاتاہے۔" لائبہ نے اسے پھر سمجھانا چاہا۔
"لائبہ بس میں خود سے جڑے لوگوں کو اپنی ذات کی وجہ سے دکھ نہیں دے سکتی۔" حائمہ نے فون کاٹ دیا تھا۔
" حائمہ!!!"
اپنے نام کی پکار سن کر وہ پلٹی تھی مگر پیچھے کھڑی شخصیت کو دیکھ کر وہ حیران رہ گئی تھی۔
- - - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - - -
"حائمہ آج تو بڑی چہک رہی ہو تم!" عون نے اس سے پوچھا۔
"بس ایسے ہی!" حائمہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔
"کچھ تو ہے بتاؤ نا!" عون امنے سرگوشی کرتے ہوئے پوچھا۔
"عون جب آپ کو یہ معلوم ہو جائے کہ آپکے پرواہ کرنے والے موجود ہیں تو پھر کوئی غم نہیں رہتا۔" حائمہ نے اسے جواب دیا۔
"کیا جگ بی؟" عون نے بات ادھوری چھوڑی۔
"عون جب دل کیا بتا دوں گی اب جان چھوڑو۔" حائمہ نے ہنستے ہوئے اسکے سامنے ہاتھ جوڑے تھے۔
"السلام علیکم!" آغا جانی اپنے دونوں بیٹوں اکرم آفندی اور عباس آفندی کے ساتھ ناشتے کی میز پر آئے۔ دوسری طرف سیڑھیوں سے نیچے اترتا ہوا ارحان آ رہا تھا جسکے چہرے پر خلاف معمول مسکراہٹ تھی۔
اسکو دیکھ کر حائمہ کے چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ آئی اسے رات کو کچن میں کی گئی گفتگو یاد آئی تھی۔
"کیا بات ہے بیٹا آج بڑے خوش ہو؟" شازیہ اکرم نے ارحان سے پوچھا جو پہلے سے ناشتے کی میز پر موجود تھیں۔
"بس ایسے ہی چچی!" ارحان جواب دیتے ہوئے بیٹھا۔
"رشتوں کو جوڑ کے رکھنے والے ہمیشہ خوش ہی رہتے ہیں۔" اکرم صاحب نے کہا جس پر ارحان پہلو بدل کر رہ گیا۔
"ارے کل آفس میں کیا کیا میرے شیر اور شیرنی نے؟" آغا جانی نے پوچھا۔
"آغا جانی میں نے تو ارحان کے حصے کا بھی سارا کام کیا تھا مگر یہ تو ایسے ہی بیٹھا رہا تھا وہاں۔" حائمہ نے عون کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
" جاؤ جھوٹی! چاچو کل عدالت چلے گئے تھے تو میں نے سارا کام کیا تھا۔" عون نے کہا اس سے پہلے کہ حائمہ کچھ کہتی ارحان بولا تھا "سارا کام ہی تم لوگوں نے کیا ہے اور وہ کام سر کھانے کا تھا۔"
" اچھا چھوڑو سیکھ جائیں گے اکرم تم آفس سے واپسی پر میرے پاس آنا۔" آغا جانی نے اکرم آفندی، عباس آفندی اور عون آفندی کو آفس کیلئے اٹھتے دیکھ کر کہا۔
ارحان اٹھنے لگا تو حائمہ بولی "میرے ساتھ جائیے گا نا۔"
"تم ڈرائیور کے ساتھ آ جانا۔" ارحان نے خود پر ضبط کر کے کہا۔
"کیوں ڈرائیور میری پھپھی دا پتر اے؟ (کیوں ڈرائیور میری پھپھو کا بیٹا ہے)۔" حائمہ نے تیکھے لہجے میں کہا جس پر کمرے کی طرف آغا جانی بولے "بلکل ٹھیک کہہ رہی ہے حائمہ بیٹھ جاؤ یہیں!"
- - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - -
"ارے اکرم صوفیہ بتا رہی تھی کہ شمائلہ مہوش کہ شادی کرنا چاہ رہی ہے۔" عباس صاحب نے گاڑی چلاتے ہوئے کہا جس پر پیچھے بیٹھے عون کے کان کھڑے ہوئے تھے۔
"اچھا کوئی رشتہ ہے انکی نظر میں؟" اکرم صاحب نے فوراً پوچھا۔
"ارے اکرم کیا بات کرتے ہو رشتہ سبکو پتہ ہے وہیں کریں گے نا شادی۔" عباس صاحب نے کہا۔
" ہاں وہ رشتہ تو اچھا ہے۔" اکرم صاحب نے سر ہلاتے ہوئے کہا جبکہ پیچھے بیٹھے عون کے چہرے پر حیرانگی تھی۔
"یہ مہوش کی بچی واقعی میں شادی کر رہی ہے اور یہ رشتے والا تو دیکھو نا مہوش کو تو ابھی پوچھوں گا مجھے بتایا بھی نہیں اپنی شادی کا یعنی عون آفندی کے ساتھ اتنی بڑی کاروائی؟"عون نے سوچا تھا جسکے چہرے پر پریشانی کے سائے تھے۔
- - - - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - - -
شازیہ اکرم اور صوفیہ بیگم بھی کمرے میں جا چکی تھیں آغا جانی بھی کمرے میں تھے۔
ارحان کمرے میں اپنی فائل لینے گیا تھا جبکہ حائمہ کچن میں آم کا ملک شیک بنا رہی تھی سب کچھ وہ جوسر مشین میں ڈال چکی تھی مگر اسے چلا نہیں رہی تھی۔
"حائمہ کیا سوچ رہی ہو چلاؤ مشین!" ارحان کچن میں آیا تھا تا کہ اسے آفس کیلئے بلا سکے پہلے ہی بہت دیر ہو گئی تھی۔ مگر یہاں وہ ایسے ہی کھڑی تھی۔
"ارحان آپ چلا لو یہ۔" حائمہ نے اسے کہا۔
"کیوں؟" اسنے ایک ابرو اٹھایا۔
"وہ اسلئے کہ جب میں جوسر مشین چلاؤں تو ایک دم سے یہ سب اچھلتا ہے اور مجھے ڈر لگتا ہے۔" حائمہ نے بے بسی سے بتایا۔
"اففف حائمہ تمہیں اکیس توپوں کی سلامی دینی چاہیے۔" ارحان نے دانت پیستے ہوئے کہا اور پھر ملک شیک بنایا جسکو پی کر وہ لوگ آفس کیلئے نکلے۔
"ارحان کیا ہو گیا ہے؟" حائمہ نے گاڑی کی تیز رفتاری پر چوٹ کرتے ہوئے کہا۔
" چپ کر جاؤ آواز نہ آئے اب!" ارحان نے آفس کے سامنے گاڑی روکتے ہوئے کہا وہ دونوں گاڑی سے اتر کر لفٹ کے سامنے آئے۔ ساتھ ہی سیڑھیاں تھیں جن ہر حائمہ چڑھنے لگی تو ارحان بولا "حائمہ لفٹ کے ذریعے جائیں گے ہم اوپر!"
"ارحان آپ کو پتہ ہے میں...." حائمہ منمنائی تھی۔
" حائمہ چلو!" ارحان نے اسے بازو سے پکڑ کر لفٹ کے اندر کیا تھا۔
"ارحان پلیز!" حائمہ کی آنکھوں میں نمی آئی تھی۔
"حائمہ بچوں کی طرح چھوٹی چھوٹی باتوں پر یوں نہ کیا کرو۔" ارحان نے اسے کہا۔
" ارحان مجھے چکر آرہے ہیں۔" حائمہ نے سر تھامتے ہوئے کہا۔
"کچھ نہیں ہوتا حائمہ!" ارحان نے کہا لیکن تب تک حائمہ بے ہوش ہو چکی تھی ارحان نے اسے تھاما تھا۔
اسنے فورآ گراؤنڈ فلور کا بٹن دبایا تھا۔
اب وہ خود کو کوس رہا تھا کہ اسنے یہ کیوں کیا جبکہ اسے معلوم تھا کہ حائمہ کو لفٹ سے فوبیا ہے اور اسکی حالت لفٹ میں خراب ہو جاتی ہے
وہ بمشکل اسکو گاڑی تک لایا اور پھر ہسپتال لے گیا۔
- - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - -
"اکرم آفندی تمہیں لگتا ہے سمجھ نہیں آتی میری بات۔" وہ شخص آج اکرم آفندی کے آفس میں موجود تھا۔
"جو بکواس کرنی ہے کرو اور دفعہ ہو جاؤ۔" اکرم صاحب نے اسے کہا۔
"لگتا ہے اپنی بیٹی تمہیں عزیز نہیں یاد رکھو تمہارا داماد..." اس شخص نے بات ادھوری چھوڑی۔
"کون دیتا ہے تمہیں فضول خبریں؟" اکرم صاحب نے اس سے پوچھا۔
" ارے ہم مخبر کا نام بتا دیں تو دھندا کیسے چلے مگر ایک بات تو طے ہے تمہاری بیٹی کا گھر تباہ ہو جائے گا۔" اس شخص نے کہا۔
" دفعہ ہو جاؤ یہاں سے؟" اکرم صاحب چلائے تھے۔
" جا رہا ہوں لیکن یقین کر لو کیونکہ اس وقت بھی تمہاری بیٹی تمہارے داماد کی وجہ سے ہسپتال میں موجود ہے۔" اس شخص نے جاتے ہوئے کہا۔
"اکرم صاحب نے حائمہ کا نمبر ملایا اور پھر ارحان کا دونوں کے نمبر بند تھے پھر انھوں نے سٹاف سے پوچھا تو حائمہ کی بے ہوشی کی خبر سن کر وہ کرسی پر ڈھے گئے تھے۔
عون جب آفس میں آیا تو انھیں پریشان دیکھ کر وہ بھی فکر مند ہوا اور پھر انھیں ہسپتال لے گیا۔
- - - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - - -
جاری ہے!!!!Stay tuned!!!!
YOU ARE READING
عیدِ زندگی (مکمل)
Humorحائمہ ارحان عون یہ میرا دوسرا ناول ہے جو میں واٹ پیڈ پر دے رہی ہوں دوسری بات یہ کہ یہ ناول مجھے جلد ختم کرنا ہے تو جلدی میں ٹائپنگ کرتے ہوئے غلطیاں ہو جاتی ہیں پروف ریڈنگ کا موقع نہیں ملتا اگر غلطیاں نظر آئیں تو معزرت چاہوں گی کہانی ایک خاندان کی...