SURPRISE 4th Epi

1.7K 121 30
                                    

عیدِ زندگی
از قلم
سحر قادر

####EPISODE 4#####
✈✈✈✈✈✈✈✈✈✈✈✈

حائمہ نے نانو امی کو کال ملائی وہ دن کو انکی کال نہیں سن پائی تھی مگر ابھی اسنے خود کو نارمل کر لیا تھا۔
"السلام علیکم نانی!" حائمہ نے کہا تو وہ بولی
"وعلیکم السلام مری پتری کتھے سی تو دیاڑی فون کیتا تو چکیا نئی تینوں نی پتا تیری نانی تیرے نال گل کیتے بغیر رہ نئی سکدی۔( وعلیکم السلام بیٹا کہاں تھی تم دن کو فون کیا تم نے اٹھایا نہیں تمہیں معلوم نہیں کہ تمہاری نانی تمہارے ساتھ بات کئے بغیر نہیں رہ سکتی)"
" ارے نانی میں وی تاڈے بغیر نئی رہ سکدی بس سر وچ درد سی(ارے نانو امی میں بھی آپ کے بغیر نہیں رہ سکتی بس میرے سر میں درد تھا)" حائمہ نے انسے کہا ۔
" پتر تو خوش تے ہے نا؟ (بیٹا تم خوش تو ہو نا)" انھوں نے اس سے پوچھا تو وہ لمبی سانس کھینچ کر بولی "جی نانو بس اب آپ آ جائیں کراچی۔
"کی لیاوا تیرے واسطی پنجاب توں۔(تمہارے لئے پنجاب سے کیا لاؤں میں)" نانو نے کہا
تو وہ ہنستے ہوئے بولی "باجرہ لے آئیے گا اسکی روٹی بنائیں گے اور دیسی گھی بھی اسکے پراٹھے کھائیں گے. اچھا نانو بعد میں بات ہوگی۔" اسنے کیا اور فون بند کر دیا۔
وہ پیچھے مڑی تو ارحان کھڑا تھا۔
ابھی ہی آفس سے آیا تھا۔ شرٹ کے کف مڑے ہوئے بال ماتھے پر آئے ہوئے تھے حائمہ نے اسے دیکھا۔ وہ بھی اسے ہی دیکھ رہا تھا دونوں کی نظریں ملیں تھیں۔
"مجھے تو لگا تھا تم انکار کر دو گی۔ مگر تم تو دوسروں کو شادی کی دعوت دے رہی ہو۔" ارحان فورا دوسری طرف دیکھتا ہوا بولا۔
"مجھے لگتا ہے یہ فیصلہ آپ پر بھاری پڑ رہا ہے۔ اگر اسکا بوجھ نہیں اٹھا سکتے تھے تو فیصلہ کیا ہی کیوں تھا؟" حائمہ نے اسے کہا۔
" میں نے یہ فیصلہ اپنی پوری رضامندی سے کیا ہے۔ تمہاری طرح نہیں ہوں۔" میں ارحان نے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
"میں نے بھی اپنی مرضی سے لیا ہے کسی کے دباؤ میں میں نہیں آتی۔" حائمہ نے کہا تو ارحان آگے بڑھا تھا حائمہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے کہا۔
"حائمہ آفندی تم کس کو دھوکہ دے رہی ہو مجھے یا خود کو؟ میں بتا رہا ہوں بہت برا انجام ہوگا اسکا۔ اس لئے بہتر ہے کہ انکار کر دو۔"
حائمہ نے اوپر چہرہ کر کے اسکی سیاہ آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔
"گویا میرے کندھے پر بندوق رکھنا چاہتے ہیں۔ بہت غیرتمند ہیں آپ تو!" حائمہ نے مسکراتے ہوئے کہا
وہ دو منٹ تک اسکی سر مئی رنگ آنکھوں میں دیکھتا رہا اور پھر منہ پھیر لیا۔
حائمہ وہاں سے چلی گئی تھی۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
"ارے حائمہ کھانے پر نہیں آئی کیا؟" آغا جانی نے کہا۔
"نہیں آغا جانی وہ اپنے کمرے میں کھانا کھائے گی۔" شازیہ اکرم نے کہا تو ارحان کے منہ میں نوالہ جاتے ہوئے رکا تھا۔
"خیریت طبعیت تو ٹھیک ہے نا اسکی؟" آغا جانی فکر مند ہوئے تھے۔
"آغا جانی وہ آپ کا حکم سن کر ابھی سے مایوں بیٹھ رہی ہے اور کچھ نہیں ہوا اسے۔" عون نے کہا تو سب ہنس پڑے تھے
" بہت شریر ہو گئے ہو تم۔ امتحان ہو گئے ہیں اب ارحان کی شادی کے بعد سے تم بھی آفس جایا کرو گے۔" آغا جانی نے اسے کہا تو اکی آنکھیں کھلی تھیں۔
"آغا جانی آپ کو تو میں ہی ایک نظر آتا ہوں۔" عون نے منہ بنایا تھا۔
"بیٹا اس لئے کہ مجھے تم سے سب سے زیادہ پیار ہے۔" آغا جانی ابکی بار اسکے انداز میں بولے تو سب کے ساتھ وہ بھی ہنس دیا تھا۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔
حائمہ کل سے کمرے میں بند تھی۔ ارحان اس سے بات کرنا چاہتا تھا مگر وہ اسے موقع نہیں دے رہی تھی۔
مگر آج صوفیہ بیگم نے اسے موقع دے دیا۔
حائمہ صوفیہ بیگم اور ارحان کو آج لہنگا اور شیروانی خریدنے جانا تھا۔ صوفیہ بیگم نے اسے کہا کہ جاؤ حائمہ کو بلا کے لاؤ تو وہ اسے بلانے گیا۔
دروازے پر دستک دی تو اس نے پوچھا کون ہے؟؟
"ارحان! ماما کہہ رہی ہیں باہر آ جاؤ شاپنگ پر جانا ہے۔ آج ختم کرنی ہے شاپنگ!" ارحان نے اسے جواب دیا اور چلا آیا۔
حائمہ تیار ہو کر نیچے آئی اور وہ لوگ چلے گئے تھے۔ مگر حائمہ گاڑی میں بھی خاموش تھی۔
صوفیہ بیگم کی موجودگی کا خیال کرتے ہوئے وہ بھی کچھ نہیں بول پایا تھا۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
"ارے دادی آ گئی آغا جانی چچی دیکھیں تو پورے چار سال بعد دادی کراچی آئیں ہیں بمعہ خاندان!" عون نے نانی کو گھر کے گیٹ سے اندر داخل ہوتے دیکھا تو بھاگتا ہوا ٹیرس سے اندر آیا اور ساتھ جیو نیوز بن کر خبر بھی سنا دی۔
"بلکل نئی بدلیا تو عون اجے وی انج ای رولا پاندا ایں(تم تو بلکل نہیں بدلے عون ابھی بھی پہلے کی طرح شور کرتے ہو)" نانو نے اسے کہا تو وہ ہنس دیا۔
حائمہ کی نانو یعنی عون کے دادا کی بہن سے ملنے کے بعد وہ انکے بیٹے اور پوتے سے ملا۔
"ارے میری بہن آئی ہے کیسی ہیں آپا؟" آغا جانی نے کہا۔
تو وہ بولی" چل رین دے ایڈا توئی پیار ہوندا نا میرے نال تے تو ہر سال پنجاب آوندا(چلو چھوڑو اگر تمھیں مجھ سے اتنا ہی پیار ہوتا تو تم ہر سال پنجاب آتے)" نانو نے گلہ کیا تھا۔
ایسے ہی اب ملنے ملانے کا کام جاری تھا۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
"حائمہ بیٹا تمھیں کوئی لہنگا پسند ہی نہیں آ رہا تم ادھر دیکھو میں اس طرف دیکھتی ہوں۔" صوفیہ بیگم نے اسے کہا اور چل دی۔
ارحان نے موقع پایا تو فورا اسکے پاس آیا اور بولا "تم نے انکار کیوں نہیں کیا ابھی تک؟"
"ارحان اگر میں نے انکار کرنا ہوتا تو یوں شاپنگ نہ کر رہی ہوتی۔" حائمہ نے لاپرواہ سے انداز میں جواب دیا۔
" تم پچھتاؤ گی!" ارحان نے کہا تو وہ اسکی طرف پلٹ کر بولی "حائمہ آفندی نے پچھتانا نہیں سیکھا۔" اور پھر لہنگے دیکھنے لگی۔
۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
"پھپھو حائمہ کہاں ہے؟"
حائمہ کے ماموں کے بیٹے عکاشہ نے شازیہ اکرم سے پوچھا۔
"بس بیٹا وہ ارحان اور صوفیہ بہن شاپنگ پر گئے ہیں۔ ابھی آتے ہی ہونگے۔" شازیہ اکرم نے جواب دیا۔
" السلام علیکم!" حائمہ اور ارحان نے اندر داخل ہوتے ہوئے ایک ساتھ کہا تو عون نے گلا صاف کیا تھا۔ جس پر ارحان اسے ایک گھوری سے نواز چکا تھا۔
"ارے میری دھی آ گئی!" نانو اٹھ کر اسے ملیں۔
"کیسی ہیں نانو اب آپ کے آنے سے رونق لگے گی۔" حائمہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔
"کی گل اے حائمہ پنجابی بھل گئی ایں (کیا بات ہے پنجابی بھول گئی ہو حائمہ)" نانو نے کہا۔
"نہیں نانو بس دل نہیں چاہ رہا پنجابی میں بات کرنے کو۔" حائمہ نے کہا اور ماموں سلیمان سے ملی اور پھر عکاشہ سے ارحان بھی سب سے ملا اور پھر صوفیہ بیگم بھی ملیں۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
" حائمہ کیا بات ہے؟ آج کل پریشان ہو۔" عون نے پوچھا تو وہ اسے بس دیکھ کر رہ گئی۔
"اب تم مجھے بھی نہیں بتاؤ گی۔" عون نے کہا تو وہ بولی "نہیں بس ایسے ہی۔"
"بس ایسے ہی جب میں نے چماٹ ماری نا تو تمہیں پتہ چل جائے گا۔" عون نے بھی فورا جواب دیا۔
"یار کیا ہو گیا ہے تم دونوں بھائی مجھے کیوں دھمکاتے رہتے ہو؟" حائمہ نے تپ کر کہا تو عون نے اس سے پوچھا۔
" کیا کہا ہے بگ بی نے؟"
حائمہ نے ساری بات بتائی تو عون بولا "تم بے فکر ہو جاؤ تمہیں میں اپنی بہن سمجھتا ہوں۔ بگ بی نے کچھ کیا تو میں پوچھ لوں گا انھیں۔"
حائمہ ہنستے ہوئے بولی" تم پوچھو گے جسکی بولتی انکو دیکھ کر بند ہو جاتی ہے۔"
"اب تم ہلکا لے رہی ہو مجھے میں انتہائی غیرت مند انسان ہوں تم دیکھ لینا۔" عون نے یقین دلانے والے لہجے میں کہا تو وہ ہنس کر بولی "چلو ٹھیک ہے دیکھ لیں گے۔" اور دونوں ہنسنے لگے۔
"چلو عکاشہ کے پاس چلتے ہیں اور پھر شام کو میں مہوش کو لینے بھی جاؤں گا۔ وہ تو دو دن سے اپنے گھر ہی ہے میں کل جا نہ سکا۔" عون نے کہا اور وہ لوگ اٹھ کر اندر چلے گئے۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
"عکاشہ یار تم تو بہت ہی بورنگ انسان ہو تمہیں پتنگ اڑانا بھی نہیں آتی۔" حائمہ اور عون دونوں کا عکاشہ کے بارے میں یہی خیال تھا۔
وہ لوگ کب سے بیٹھے عکاشہ سے باتیں کر رہے تھے اس بات سے بے خبر کہ کوئی انکو دیکھ رہا ہے۔
عون کی نظر ارحان پر پڑی تو وہ اٹھ کر اسکے پاس گیا۔
" بگ بی جلنے کی بو آ رہی ہے مجھے۔" عون نے معنی خیز انداز میں کہا۔
"فضول گوئی سے پرہیز کرو۔" ارحان نے ناگواری سے کہا۔
"بگ بی حدِ ادب! آپ کا ہونے والا سالا ہوں میں۔" عون نے کہا تو ارحان اسے کہنے لگا "تم میرے بھائی ہو تو حائمہ کے دیور ہوئے نہ کہ میرے سالے۔"
"بگ بی بس کریں حائمہ کو میں نے بہن ہی سمجھا ہے۔" عون نے ڈرامائی انداز میں کہا تو ارحان بولا
"واقعی؟"
"جی اور بڑا پیار ہے آپکو میری بھابھی سے۔ آپ چاہتے ہیں کہ میں اسکو آپ کے رشتے کے حوالے جانوں۔ آئے ہائے بگ بی کیا کرتے ہیں!"آپ عون نے مزے لینے والے انداز میں کہا.
ارحان نے ایک نظر عکاشہ سے باتیں کرتی حائمہ کو دیکھا اور پھر اسکے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولا "یہ پیار تو مجھے تم سے بھی ہے اظہار کروں کیا اسکا۔"
"نہیں رہنے دیں میں ایسے ہی ٹھیک ہوں۔" عون نے کہا اور وہاں سے کھسک گیا۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔
Stay tuned!!

عیدِ زندگی (مکمل) Donde viven las historias. Descúbrelo ahora