Episode 17

1.7K 159 139
                                    

عیدِ زندگی
از قلم
سحر قادر

#####EPISODE 17#####
💞💞💞💞💞💞💞💞💞

"پھپھو آ رہی ہیں ویسے تو انکے گھر سے یہاں آنے میں ایک گھنٹہ لگ جاتا ہے۔ لیکن وہ ہو سکتا ہے فل سپیڈ میں آدھے گھنٹے میں آ جائیں۔" عون نے اسے کہا۔
"ویسے مہوش نے کیا کہا؟" حائمہ نے پوچھا۔
"چھوڑو اسے!" عون کو ابھی بھی اسکی ہاں کرنے والی بات پر غصہ تھا۔
"اچھا میرا کام کب کرو گے؟" اب حائمہ نے اس سے سوال کیا کیونکہ بغیر کام کے وہ بھی اسکا کام کرنے والی نہیں تھی۔
"کر دونگا جب پھپھو آئیں گی۔ ویسے نیچے چلو گی تم؟" عون نیچے جانے کیلئے اٹھا تو وہ بھی اسکے ساتھ نیچے آئی۔
عون صوفیہ بیگم سے بات کرنے انکے پاس چلا گیا۔
جبکہ حائمہ کچن میں گئی اور ملازمہ سے کہہ کر ٹیبل پر کھانا لگوایا اور ملازمہ کھانا لگا کر چلی گئی۔
- - - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - - -
"ماما میں نے پھپھو کو آغا جانی کی بیماری کا بہانہ کر کے بلایا ہے  لیکن اب آپ انسے میرے رشتے کی بات کریں۔" عون صوفیہ بیگم کے ساتھ بیڈ پر بیٹھتے ہوئے بولا۔
"عون کیوں ضد کر رہے ہو؟ مہوش کی بات اسکے پھپھو کے بیٹے سے بچپن سے طے ہے۔ تم بچوں کو اور مہوش کو نہیں معلوم لیکن بڑوں کو تو معلوم ہے نا!" صوفیہ بیگم اسکے بالوں کو سیٹ کرتے ہوئے بولی۔
" ماما میں مہوش کو بتا دیتا ہوں کہ یہ بچپن سے طے کیا گیا ایک فضول رشتہ ہے۔" عون سیدھا ہو کر انکے ہاتھ پکڑ کر بولا۔
" معون دیکھو مجھے غصہ مت دلاؤ ثناء والی بات تو میں اور تمہارے بابا مذاق میں کر رہے تھے لیکن اصل میں تمہارے بابا نے تمہارے رشتے کے بارے میں سوچ لیا ہے۔" صوفیہ بیگم نے لمبا سانس بھر کر کہا۔
" کیا؟ کب؟ کیوں کیا بابا نے ایسا؟ مجھے صرف مہوش سے شادی کرنی ہے ماما۔" عون اب بچوں کی طرح ضد کرتے ہوئے بولا۔
" عون بس درانی صاحب کی بیٹی مایا سے تمہاری شادی ہو گی۔" صوفیہ بیگم نے ہاتھ اٹھا کر کہا۔
تو وہ بولا" ماما اس مایا سے میں نے نہیں کرنی شادی۔" عون نے کا انداز فیصلہ کن تھا۔
صوفیہ بیگم اسے کچھ کہنے لگی تھیں مگر اس وہ انکے ماتھے پر بوسہ دیتے ہوئے بولا "میری پیاری ماما پریشان نہ ہوں اب یہ کام میں خود کر لوں گا۔" اور باہر نکل گیا جبکہ پیچھے صوفیہ بیگم سر پکڑ کر بیٹھ گئیں تھیں کیونکہ وہ جانتی تھیں کہ اب اس نے کوئی گل ضرور کھلانا ہے۔
- - - - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - - - -
دائیں ہاتھ پر پلستر ہونے کی وجہ سے وہ کھا نہیں پا رہی تھی صبح اسے اکرم صاحب نے خود کھانا کھلایا تھا۔
ارحان جو کچن کے سامنے سے گزر رہا تھا اسے وہاں بیٹھا دیکھ کر اسکے سامنے آ بیٹھا۔
"ہیلو مسز کیا حال ہے؟" ارحان اسے کشمکش میں دیکھ کر بولا۔
"کچھ نہیں آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔" حائمہ نے منہ بنایا تھا۔
"واقعی؟" ارحان نے دونوں ہاتھ میز پر ٹکائے تھے۔
"ہاں نا آپ کا اور میرا رشتہ ہی کیا رہا ہے اب؟" حائمہ نے گڑبڑا کر کہا تھا۔
"پھر میری اتنی عزت کیوں کرتی ہو؟" ارحان آج موڈ میں تھا۔
"میں ہر کسی کی عزت کرتی ہوں۔" حائمہ نے نظریں چرائیں تھیں۔
"خیر تم ماننا نہ چاہو تو الگ بات ہے۔ چلو میں کھانا کھلا دیتا ہوں تمہیں۔" ارحان اسکے سامنے سے آٹھ کر اسکے ساتھ والی کرسی پر آبیٹھا۔
"کیا کر رہے ہیں؟" حائمہ نے آگے پیچھے دیکھا تھا اور پھر اسے دیکھ کر بولی" مجھے کچھ نہیں کھانا جائیں آپ۔"
"کیا یار اب تم بائیں ہاتھ سے کھانا کھاؤ گی؟" ارحان نے چمچ اسکے آگے کیا تھا۔
مگر حائمہ نے منہ موڑ لیا تھا۔
"اوہو ہو ہو یہاں تو فلمی سین چل رہا ہے۔" عون جو صوفیہ بیگم سے بات کرکے آ رہا تھا ارحان کو چمچ اٹھائے دیکھ کر بولا۔
"بیٹا تیرے ہوتے ہوئے ہو ہی نہ جائے کوئی سین!"
" اب بیوی گھاس نہیں ڈال رہی تو میرا کیا قصور ہے اس میں۔" عون نے دوبدو جواب دیا اور فریج سے جوس نکالنے لگا۔
" زیادہ بکواس نہ کرو تم۔" ارحان نے دانت پیستے ہوئے اسے کہا جس نے غلط وقت پر تشریف کا ٹوکرا لایا تھا۔
"حائمہ بھابھی کھا لو نا کھانا۔ اب بگ بی کب سے انتظار کر رہے ہیں۔" عون کی آنکھوں میں شرارت تھی۔
" تم دونوں بھائی انتہائی فضول ہو۔" حائمہ یہ کہہ کر وہاں سے اٹھ گئی تھی جبکہ ارحان پیچھے اسے دیکھتا سانس بھر کر رہ گیا تھا۔
"بھائی کیوں اتنی ٹھنڈی آہیں بھر رہے ہیں۔ مان جائے گی میری بہن بہت اچھی ہے۔" عون نے جوس پیتے ہوئے کہا۔
" بہن کے کچھ لگتے تم تو دفعہ ہو جاؤ پہلے یہاں سے۔" ارحان اٹھ کر اسکی طرف بڑھنے لگا مگر وہ پہلے ہی بھاگ گیا تھا۔
- - - - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - - - -
" اکرم صاحب آپ ارحان کے ساتھ غلط کر رہے ہیں۔ مرد ذات میں انا تو ہوتی ہے۔ اب بچہ غلطی مان رہا ہے تو معاف کر دیں نا۔" شازیہ اکرم نے اکرم صاحب سے کہا جو کتاب پڑھ رہے تھے۔
وہ انکی طرف مڑکر بولے "وقت دیا ہے تھوڑا میں نے اسے منا لے حائمہ کو۔ اگر اسنے منا لیا تو ٹھیک ورنہ...." اکرم صاحب ابھی بول رہے تھے کہ شازیہ اکرم نے انکی بات کاٹی اور بولیں۔
" حائمہ تو ناسمجھ ہے ارحان جیسا لڑکا کہیں نہیں ملنا۔ آپ حائمہ کو بولیں وہ آپ کی بات مانے گی۔"
"دیکھیں شازیہ بیگم آج اگر ارحان کو احساس نے دلایا تو وہ ساری زندگی اپنی مرضی کرے گا اور میری بیٹی کوئی غلط فیصلہ نہیں لے گی۔ جب تک ارحان اپنی تمام انا پسِ پشت نہیں ڈال دیتا تب تک میں حائمہ پر دباؤ نہیں ڈالوں گا۔" اکرم صاحب نے کتاب بند کرتے ہوئے انھیں تفصیلاً جواب دیا تھا۔
"آپ اپنی بیٹی کا گھر برباد کریں گے۔" شازیہ اکرم اب ناراض ہوئی جبکہ اکرم صاحب نے ایک لمبی سانس بھری اور دوبارہ سے کتاب کا مطالعہ شروع کر دیا۔
- - - - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - - - -
حائمہ اپنے کمرے کی طرف جا رہی تھی کہ اسے چکر آئے۔
اسکا کافی خون بہا تھا جسکی وجہ سے اسے کافی کمزوری سی تھی۔ اسنے پاس پڑے میز کا سہارا لیا تھا لیکن میز پر پڑے شیشے کے ڈیکوریشن پیسز زمین بوس ہوئے تھے۔
کانچ کے کچھ ٹکرے حائمہ کے پاؤں میں بھی چبھے تھے مگر اسکی کافی بچت ہو گئی تھی۔
ملازمہ کو اسنے سب صاف کرنے کا کہا اور خود کمرے میں چلی گئی جبکہ ارحان نے شیشے کے گرنے کی آواز کے گرنے کے بارے میں ملازمہ سے پوچھا تو اسکے بتانے پر وہ فوراً حائمہ کے کمرے میں گیا تھا۔
"کیا کر رہے ہیں آپ میرے کمرے میں؟" حائمہ نے اسےدیکھ کر پوچھا جو بیڈ پر بیٹھی تھی۔
ارحان چپ چاپ اسے نظر انداز کرتا ہوا الماری کی طرف بڑھا اور وہاں سے فرسٹ ایڈ باکس نکال کر اسکے سامنے زمین پر بیٹھ گیا۔
"آپ یہاں کیوں بیٹھ رہے ہیں ادھر بیٹھ جائیں۔" حائمہ نے صوفہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
" نہیں میں ٹھیک ہوں۔ پاؤں ادھر کرو اپنے۔" ارحان نے اسے کہا۔
"کیا؟ کیوں؟" حائمہ نے اپنے پاؤں فوراً پیچھے کئے تھے۔
"حائمہ پلیز!" ارحان نے آرام سے اسے کہا لیکن وہ پاؤں آگے نہیں کر رہی تھی۔
" حائمہ تمہیں میری بات سمجھ نہیں آ رہی کیا؟" اب کے ارحان نے سر اٹھا کر غصے میں کہا تھا۔
ایک لمحے کو تو حائمہ ڈر گئی تھی آج ارحان پرانے والا ہٹلر ارحان لگا تھا اسے۔
اس نے ڈرتے ڈرتے پاؤں آگے کئے تھے جس پر ارحان نے ان میں سے کانچ نکال کر آرام سے زخموں پر مرہم لگا دیا تھا۔
" اب ایک کام کرئے گا مادام جب کمرے سے باہر نکلنا ہو تو مجھے میسج کر دیجئے گا یا ملازمہ کو بلا لیجیے گا۔" ارحان کے لہجے میں طنز اسنے محسوس کر لیا تھا۔
"مجھے نہیں چاہیئے عارضی سہارے۔" جس پر ارحان اسے شعلہ بار نظروں سے گھورتا باہر چلا گیا تھا جبکہ وہ وہیں بیٹھی سر جھکا گئی تھی۔
تھوڑی دیر بعد شازیہ اکرم کھانے کی ٹرے لئے اندر داخل ہوئیں۔
اسنے سر اٹھا کر انھیں دیکھا تو وہ بولی "بیٹا مجھے بتاتی میں کھانا دے جاتی۔ اب ارحان مجھے کہہ کہمر گیا ہے کہ تمھیں بھوک لگی ہے۔" شازیہ اکرم نے اسے کہا جس پر وہ خاموش رہی اور پھر کھانا کھانے لگی۔
"آیا بڑا ہمدرد!" حائمہ نے غصے سے سوچا تھا۔
- - - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - -
" حائمہ پھپھو کو تو خوب غصہ آیا ہوگا۔" عون نے حائمہ سے کہا جو کہ ارحان کی ہدایات نظرانداز کرتی پھر سے نیچے آ کر لاؤنج میں صوفے پر بیٹھی ہوئی تھی۔
عون اسکے سامنے بیٹھا شمائلہ بیگم کے بارے میں تکے لگا رہا تھا جو کہ کب کی آئیں ہوئیں تھیں اور آغا جانی کے کمرے میں تھیں۔
تھوڑی دیر بعد وہ اور آغا جانی باہر آئے جنکے پیچھے پیچھے سارے گھر والے ہی لاؤنج میں آ گئے تھے۔
"بھئی برخوردار یہ کیا حرکت تھی؟" آغا جانی نے پوچھا۔
"بس آغا جانی پھپھو کی یاد آ رہی تھی۔" جس پر سب ہنس دئے تھے۔
شمائلہ بیگم عون کے ساتھ آ کر بیٹھیں اور بولیں "میرے بھتیجے کو کیوں میری یاد آ رہی تھی؟"
عون نے صوفیہ بیگم کی طرف دیکھا جو اسے تنبیہ کر رہیں تھیں۔ جبکہ حائمہ اسے اشارہ کر رہی تھی کہ بولو۔
ارحان حائمہ کے ساتھ آ کر بیٹھا اور اپنا بازو صوفے پر پھیلا لیا تھا، جس پر حائمہ سیدھی ہو کر بیٹھی تھی اور دل میں اسے بدتمیز کا لقب دے چکی تھی۔
"ہاں بھئی بولو عون!" ارحان نے اسے کہا۔
"پھپھو میرا یقین کریں میں نے سب سے بات کی لیکن کسی نے میری نہیں سنی۔ بابا زبردستی میری درانی صاحب کی مایا چھایا سے شادی کرنا چاہتے ہیں۔ جو میں کروں گا نہیں پھپھو۔ صاف صاف بتاؤں تو آپ مہوش کی شادی اس لنگور میرا مطلب اپنے شوہر کے بھانجے سے سے نہ کریں، کیونکہ میں مہوش سے شادی کرنا چاہتا ہوں اب تو آفس بھی جاتا ہوں اور شریف بچہ ہوں۔ پھپھو کیا وہ لنگور میرا مطلب جو کوئی بھی ہے آپ کو مجھ سے زیادہ پیارا ہے؟" عون نے ایک ہی سانس میں سارا مدعا بیان کیا تھا جس پر سب حیران بیٹھے تھے۔
" مگر میں کیسے یقین کر لوں کہ تم میری بیٹی کو خوش رکھو گے؟" شمائلہ بیگم کے منہ سے بے ساختہ نکلا تھا۔
"پھپھو اب خودکشی تو حرام ہے وہ تو میں نہیں کر سکتا۔ ویسے بھی وہ مشکل ہے مگر اگر میری شادی مہوش سے نہ ہوئی تو میں سب کو چھوڑکر چلا جاؤں گا۔" عون نے سنجیدگی سے کہا جس پر سب حیران ہوئے تھے کیونکہ عون کبھی بھی اتنا سنجیدہ نہیں ہوتا تھا۔
شمائلہ بیگم پرسوچ انداز میں بولیں "بیٹا مگر مہوش کے بابا نہیں مانیں گے۔"
" مپھپھو میں منا لوں گا انھیں بعد میں۔ پہلے آپ تو راضی ہو جائیں آپ کو تو کوئی اعتراض نہیں ہے نا؟" عون نے کہا۔
"ہاں بچے تم واصف سے زیادہ اچھے ہو۔ مجھے تو خوشی ہو گی کہ میری بیٹی آفندی ہاؤس کی بہو بنے مگر....." شمائلہ بیگم کہہ رہی تھی کہ عون انکے سامنے سر کرتا ہوا بولا
" اگر مگر کچھ نہیں پھپھو آج سے میں آپ کا بیٹا۔ بڑوں نے تو بات کرنی نہیں تھی کیونکہ آپ نے بچپن سے جو رشتہ طے کیا ہوا تھا۔ اسلئے میں نے خود کام کر لیا۔ سارا صحیح کیا تھا نا!
سب اسکی بات پر مسکرا دئے اور شمائلہ بیگم نے بھی اسکے سر پر ہاتھ رکھ دیا۔ جس پر سب خوش ہو کر باتیں کرنے لگے لیکن حائمہ مسلسل ارحان کی بازو کی وجہ سے پریشان ہوئی جا رہی تھی۔
حائمہ اٹھ کر جانے لگی مگر ارحان نے اسکا ہاتھ پکڑلیا۔
سب کا دھیان انکی طرف نہیں تھا مگر پھر حائمہ خاموشی سے واپس بیٹھ گئی۔
"کب تک غصہ کرنا ہے تم نے بتا دو مجھے۔" ارحان نے آہستگی سے اسے کہا۔
"کیوں تمہیں کیا مسئلہ ہے دوسری ڈھونڈی ہوئی ہے کیا کوئی؟" حائمہ نے سب کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
ہ"اں ڈھونڈی ہوئی ہے مگر تمہیں نہیں چھوڑنا۔" ارحان نے مسکراہٹ دبائی تھی۔
"ہاں تو کرو اس سے شادی اور میں خود خلع لے لوں گی۔" حائمہ نے اسکی طرف دیکھتے ہوئے آہستہ آواز میں کہا تھا۔
جس پر ارحان نے زور سے اسکی دوسری بازو زور سے پکڑتے ہوئے کہا "آئندہ ایسی ویسی کوئی بکواس کی نہ تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا۔"
- - - - - - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - - - - - -
جاری ہے!!!!!

Stay tuned!!!!!

to socha surprise me aj hi episode de du fiker na kre kal bhi duu gi epi. Aj ki episode baqi episode se thori long hi he kal bhi koshish hogi k long episode duuu ap sbko. Ab ache ache long long sahi review de aun ki shaadi ki suggestions bhi de de jaldi se! Aj to arhaan or haima k scenes bhi zada he.
ناول اپنے اختتام کی طرف جا رہا ہے جلد ہی اس ناول کا سفر اختتام پزیر ہو جائے گا کیسا لگا اس ناول کو پڑھتے ہوئے ضرور بتائیں مجھے کوئی بات بری لگی وہ بھی بتائیں
سحر قادر!!

عیدِ زندگی (مکمل) Tempat cerita menjadi hidup. Temukan sekarang