Episode 18

1.7K 219 152
                                    

عیدِ زندگی
از قلم
سحر قادر

####EPISODE 18####
💞💞💞💞💞💞💞💞

"میری مرضی جو میرا دل کہے گا میں وہ کہوں گی۔" حائمہ کے ماتھے پر بل پڑے تھے۔
"تمہاری تو...." ارحان اسے کچھ کہنے والا تھا کہ حائمہ بولی "بازو چھوڑو کیا اس پر پلستر کروانا چاہتے ہو؟"
"انتہائی نامعقول عورت ہو تم!" ارحان نے اسے کہا۔
"عورت ہو گی آپکی محبوبہ! میں لڑکی ہوں۔" حائمہ چہرے پر مسکراہٹ لاتے ہوئے سیدھی ہو کر بیٹھی اور سب کی باتیں سننے لگی تھی جس پر ارحان بولا تھا۔
"کیا پتہ محبوبہ بھی تم ہی ہو۔"
ابھی حائمہ جواب دینے لگی تھی کہ ارحان کا فون بج اٹھا تھا اور وہ باہر چلا گیا۔
"کھڑوس کہیں کا!" حائمہ نے دل میں کہا جب اسے عون کہ آواز آئی۔
"مس حائمہ ہم سے بھی باتیں کر لیں یا آج آپ.....؟" عون نے جان بوجھ کر بات ادھوری چھوڑی تھی جس پر حائمہ نے اسے آنکھیں دکھائیں تھیں۔
"ہاں پھپھو تو رشتہ پکا نا؟" حائمہ نے پوچھا۔
"بیٹا میری طرف سے تو پکا مگر ساجد سے بات کرنی ہو گی اور وہ میں بھائی بھابھی کی مرضی کے بغیر تو نہیں کر سکتی نا۔ عون کی خوشی اپنی جگہ لیکن بھائی اور بھابھی میری بیٹی کو اس گھر میں لانا نہیں چاہتے۔ خود بات بھی نہیں کی تو اس سب کو نظرانداز کرکے میں کیسے ساجد سے بات کروں؟" شمائلہ بیگم نے عباس آفندی اور صوفیہ بیگم کو دیکھ کر کہا جس پر عون اور حائمہ کے چہرے سے مسکراہٹ غائب ہوئی تھی۔
" کیسی باتیں کر رہی ہو شمائلہ تمہاری بیٹی میری بیٹی ہے۔ میں تو صرف اسلئے چپ تھا کیونکہ مہوش کا رشتہ بچپن سے طے تھا۔" عباس صاحب کچھ دیر کی خاموشی کے بعد بولے تھے۔
"رہنے دیں بھائی صاحب آپ کو بچوں کی خوشی عزیز ہی نہیں ہے۔ بہانے کیوں کر رہے ہیں؟" شمائلہ آفندی نے اب کی بار ناراضگی سے کہا تھا۔
عون اچانک اٹھا تھا اور اپنے کمرے کی جانب چلا گیا تھا جبکہ حائمہ بھی اسکے پیچھے اٹھی تھی اور اسکے کمرے میں گئی تھی۔
"شمائلہ چھوڑو نا میری غلطی تھی میں معافی چاہوں گا۔ بس اب بچوں کی خوشی کا خیال کرو۔" عباس صاحب بولے تو شمائلہ بیگم مسکرا کر بولیں "بھائی میں تو مزاق کر رہی تھی مگر بھتیجا تو ناراض ہو گیا۔"
"چھوڑو اسے خود مزاق کرتا تھا تب تو اسے سمجھ نہیں آتی تھی۔ اب مزہ آئے گا۔" صوفیہ بیگم بولیں تو آغا جانی بولے
"بری بات میرے شیر کے ساتھ دھوکہ!" جس پر سب ہنس دئے لیکن عون کی حالت نے سب کو ہی مزہ دیا تھا۔
- - - - - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - - - - -
" عون یار کیا ہوا ہے؟" حائمہ آ کر بیٹھی تھی۔
عون نے اسے دیکھا لیکن ابھی بھی منہ بنایا ہوا تھا۔
عون نے مایا کو یاد کیا جو آج کل انکے آفس میں شوقیہ طور پر کام کر رہی تھی اور یونیورسٹی میں بھی حائمہ اور عون کو تنگ کرتی تھی۔
"اللہ مجھے اس چڑیل سے شادی نہیں کرنی۔" عون نے دل میں ہی توبہ کی تھی مایا سے شادی کرنے سے۔
"عون کیا سوچ رہے ہو بتاؤ؟" حائمہ اب کی بار زور سے بولی تھی جس پر عون نے چونک کر اسے دیکھا تھا۔
"کچھ نہیں!" عون نے کہا اور سر نیچے جھکا لیا۔
"اوہو یار پھپھو مذاق کر رہی تھیں۔ کل ساجد چاچو آئیں گے اور دیکھنا رشتہ پکا ہو جانا ہے۔" حائمہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔
"ہاں یہ تو ہے۔" عون نے چہرے پر مسکراہٹ لاتے ہوئے کہا۔
"اچھا اب میرا کام کرو تمہارا تو ہو گیا۔" حائمہ نے ماتھے پر بل ڈالتے ہوئے کہا۔
"میں نے کہا تھا تمہیں ایک بات بتاؤں گا۔" عون کے دماغ میں کھچڑی پک رہی تھی وہ ایک تیر سے دو شکار کرنا چاہتا تھا۔
"تو بتا دو اب کیا تمہیں باقاعدہ خط لکھوں کہ عزت مآب جناب عون آفندی صاحب! آپ کا اقبال بلند ہو مجھ فدویہ پر رحم کریں اور ناچیز کو اپنے رازوں کے دنیا سے کچھ راز مرحمت فرمائیں۔" حائمہ نے کچھ اس انداز سے تپ کر کہا کہ عون کی ہنسی چھوٹ گئی مگر پھر وہ خود کو سنبھالتے ہوئے بولا۔
" درانی صاحب ہیں نا میرے بابا کے دوست؟"
"ہاں ہیں! پھر؟" حائمہ متجسس ہوئی۔
"جن کی ایک بیٹی بھی ہے جو ہمارے ساتھ یونیورسٹی میں پڑھتی تھی۔" عون نے یاد دہانی کرائی۔
"ہاں یاد ہے وہ نک چڑی مایا جو سر سے میری شکایتیں لگایا کرتی تھی مگر وہ تمہیں کیوں یاد آ گئی؟" حائمہ کو حیرانی ہوئی۔
"وہ نا شوقیہ طور پر نوکری کر رہی ہے وہ بھی ہمارے آفس میں۔ اور ارحان کے آفس میں تم جانتی ہو وہ ارحان پر لٹو ہے اور بگ بی کے سامنے ادائیں دکھاتی ہے۔لیکن اس پر متضاد یہ کہ بابا اسکا رشتہ میرے سے طے کرنا چاہتے اب تم بتاؤ میں شادی کر بھی لیتا ویسے لیکن کیا میری غیرت یہ گوارا کرے گی کہ وہ بگ بی کو پسند کرتی ہو اور تمہیں بھی برا لگے گا۔"
عون نے اسے ساری بات بتائی۔
یہ سچ تھا کہ مایا ارحان کو پسند کرتی تھی لیکن یہ بات صرف کچھ لوگوں کو پتہ تھی۔ اگر بڑوں کو پتہ ہوتی تو شاید عباس صاحب اسی کی شادی ارحان سے کرتے کیونکہ انھیں درانی صاحب کے ساتھ دوستی کا رشتہ مزید مضبوط کرنے کا بہت شوق تھا۔
" عون اور تم اب بتا رہے ہو مجھے۔" حائمہ نے اسے کہا۔
"یار میرا تو کوئی نہیں مگر وہ تمہارا گھر برباد کرے گی۔" عون نے لہجے کو خوفناک بنایا تھا
جس پر حائمہ ایک دن سے گڑبڑا کر اٹھی تھی۔
"وہ۔۔۔اسکو۔۔۔" حائمہ رکی تھی۔
"وہ کیا؟" عون نے استفسار کیا۔
"اسکو تو میں چھوڑوں گی نہیں دیکھنا تم۔" حائمہ غصے سے باہر نکل گئی جبکہ عون پیچھے قہقہہ لگا کر رہ گیا کیونکہ اب ارحان اور حائمہ کی لڑائی ختم ہونے کا چانس بننا تھا اور ساتھ ہی اسکی زندگی سے مایا نام کا زہر نکلنا تھا ۔
"چل عون تو تو مزے کر۔" عون نے خود سے کہا اور موبائل اٹھا لیا۔
- - - - - - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - - - - - -
"ارحان بچے تم کہاں چلے گئے تھے۔" پھپھو نے اس سے پوچھا۔
"بس پھپھو تھانے سے فون تھا۔" ارحان نے بتایا جس پر سب حیران ہوئے تھے جبکہ سیڑھیوں پر کھڑی حائمہ بھی وہیں رک گئی تھی۔
"کیا ہوا بیٹا سب ٹھیک ہے؟" آغا جانی بولے
"جی آغا جانی جس لڑکی کو حائمہ نے اغوا ہونے سے بچایا تھا۔ اسکے باپ نے حائمہ کو انعام دینا چاہا جو میں نے نہیں لیا۔" ارحان کے بتایا
اچھا کیا اکرم صاحب بولے تھے۔
"اور......." ارحان رکا تھا۔
"اور کیا؟" عباس صاحب نے پوچھا۔
" اور جس نے حائمہ پر گولی چلائی تھی وہ چاچو کے خلاف کیس لڑنے والے ہی تھے جو پکڑے گئے ہیں۔ مگر انھوں نے گولی پیسے لے کر کسی کے کہنے پر چلائی تھی۔"ارحان خاموش ہوا تھا اسنے سب نفوس پر نظر ڈالی تھی۔
"کس نے دئے تھے پیسے بتاؤ۔" آغا جانی نے پوچھا۔
"آغا جانی..."
" ارحان بتاؤ!" عباس صاحب نے اونچی آواز میں کہا جس پر ارحان نے اس شخصیت کا نام لیا تھا تو سب کو سانپ سونگھ گیا تھا۔ اور وہ نام مایا کا تھا۔
" مایا ایسے کیسے کر سکتی ہے۔" عباس صاحب شاک میں تھے
"اور مایا کو ہمارے گھر کی تفصیل کیسے پتہ وہ شخص تو سب جانتا تھا۔"  اکرم صاحب نے سوال اٹھایا ۔
"چاچو وہ ثناء کی دوست ہے اور ثناء اور مایا دونوں ہی حائمہ کو پسند نہیں کرتی۔ ثناء اسے گھر کی باتیں بتایا کرتی تھی۔ اس طرح مایا باخبر رہتی تھی ثناء کو تو ویسے چڑ تھی حائمہ سے جیسے ہر خاندان میں ہو جاتا ہے۔ لیکن مایا نے تو حد ہی کر دی پولیس نے اسی لیے بلایا کہ کیا کرنا ہے کیس کا۔" ارحان نے تفصیل بتائی۔
" تو تم نے کیا کیا بیٹا؟" اکرم صاحب نے پوچھا۔
" چاچو درانی انکل بھی آئے تھے اور مایا شرمندہ تھی اسنے یونیورسٹی میں لڑائی کی تھی حائمہ سے جس پر حائمہ نے اسکو تھپڑ لگایا تھا۔ اسے اسکا غصہ بھی تھا۔ لیکن درانی انکل بھی بار بار معافی کا کہہ رہے تھے تو میں نے کیس واپس لے لیا صحیح کیا نا؟" ارحان نے سب سے پوچھا جس پر سب نے مسکرا کر کہا "ہاں! "
"بچے میری حائمہ ٹھیک ہو گئی یہ معافی اسکا صدقہ ہو گئی۔ چھوڑو بھول جاؤ سب۔" شازیہ اکرم بولیں تھیں اور وہ سب کے ساتھ آ کر بیٹھ گیا۔
جبکہ حائمہ جو سب سن چکی تھی اسے غصہ آیا تھا۔
" وہ شرمندہ تھی میری جان کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ میں ہی بیوقوف تھی جو اس کو معاف کرنے کا سوچ رہی تھی۔ یہ نہیں بدل سکتا اور اس مایا کی بچی کو تو کل ہی ٹھکانے لگاؤں گی۔ غلط بندی سے پنگا لیا ہے اسنے۔" حائمہ منہ ہی منہ بڑبڑا رہی تھی۔
جب ارحان کی نظر اس پر پڑی تھی مگر وہ اسے شعلہ بار نظروں سے گھورتی اوپر کی طرف پلٹ گئی تھی۔
- - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - -
" حائمہ دوا کھا لو۔" ارحان نے اسے کہا جو دوا ہاتھ میں لئے کھڑا تھا۔
"نہیں کھانی مجھے جاؤ یہاں سے۔" حائمہ نے بد تمیزی سے کہا تھا
"حائمہ ضد نہیں کرو۔ یہ بہت ضروری ہے۔" ارحان نے اسے پکارتے ہوئے کہا۔
"کہہ دیا نا نہیں کھانی میں نے اور مر نہیں جاؤں گی میں اسکے بغیر اور مر بھی جاؤں تو کونسا کسی کو فرق پڑنا۔" حائمہ نے غصے سے کہا جس پر وہ حیران ہو رہا تھا کہ اسے کیا ہوا۔
"حائمہ!" اسنے اسے بلایا۔
" جاؤ یہاں سے!" حائمہ نے کہا مگر جب ارحان نہیں ہلا تھا اسنے زور سے آواز لگائی تھی۔
" ابو!"
اکرم صاحب کمرے میں آئے تو سمجھ گئے کہ ارحان پر غصہ ہوگا۔
انھوں نے ارحان سے دوا لی جس پر ارحان نے صرف اتنا کہا "چاچو رات کو زیغم کے گھر دعوت ہے اسے بول دیں۔" اور چلا گیا جبکہ وہ اسے دوا کھلانے لگے۔
- - - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - - -
"کل آفس جانا ہے تم سب نے میں بھی جاؤں گی۔ اس مایا کو پوچھوں گی۔" حائمہ نے عون سے کہا جو اسکے پاس کل کیلئے کپڑوں کا مشورہ لینے آیا تھا۔
" بہن پہلے مجھے بتا دو کل ساجد چاچو کے سامنے کونسا ڈریس پہنوں؟" عون نے منت کرتے ہوئے کہا۔
"ہاں یہ والا پہن لو!" حائمہ نے ایک ڈریس کی طرف اشارہ کیا اور پھر اسے کل کیلئے ہدایات دیتے ہوئے سب سمجھایا اور ساتھ ہی دماغ میں ایک پلان بھی بنا لیا تھا۔
- - - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - - -
"چلیں حائمہ؟ زیغم اور اسکی بیوی انتظار کر رہی ہوگی۔" ارحان نے اسے کہا جو کالی فراک اور چوڑی دار پاجامہ پہنے بہت پیاری لگ رہی تھی۔ حائمہ نے ساتھ کالا ہی دوپٹہ لیا تھا جبکہ ارحان نے بھی کالی شلوار قمیض پہنی ہوئی تھی۔
حائمہ اسے گھورتے ہوئے اسکے ساتھ چل دی اور گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گئی۔
سارے راست ارحان نے کوشش کی کہ وہ بات کر لے مگر حائمہ نے اسے گھاس نہ ڈالی۔
""السلام علیکم ارحان اور السلام علیکم بہنا!"  زیغم نے حائمہ کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
" وعلیکم السلام! کیسے ہیں آپ؟" حائمہ نے پوچھا جس پر وہ مسکرا کر جواب دینے لگے یوں حائمہ سب سے ملی
جب ایمن ملی تو وہ اور حائمہ اپنی لڑائیاں یاد کرکے بہت ہنسی تھیں۔ اب تو اگلے مہینے ایمن کی شادی تھی جس پر اسنے حائمہ کو بلایا تھا۔
"پاپا تون آیا اے؟" (پاپا کون آیا ہے؟) زیغم کا دو سالہ بیٹا دوڑتا ہوا آیا۔
"ارے کتنا پیارا بچہ ہے۔" حائمہ اسے اپنے پاس بٹھاتی ہوئی بولی۔
"ہاں بھئی میں نے تو ارحان کی طرح شادی میں دیر نہیں کی اور آج میرا بیٹا بھی ہے یہ تو ارحان ہی بیٹھا رہا۔" زیغم نے ہنستے ہوئے کہا۔
" چل چھوڑ نا!" ارحان نے ہنستے ہوئے کہا جسکی ہنسی اس وقت حائمہ کو زہر لگ رہی تھی۔ مگر وہ زیغم کے بیٹے کے ساتھ کھیلنے لگ گئی۔
- - - - - - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - - - - - -
جاری ہے!!!!!!

Stay tuned!!!!!!

آج کی قسط میں بھی ارحان اور حائمہ کے سینز موجود ہیں بہت مشکل سے وقت نکالا ہے اور ایک بات کہوں گی آج کئی رائٹرز ہیں جنکے بہت سے ریڈرز ہیں مگر وہ بس قسط پڑھتے ووٹ کرتے ہیں اور بس مگر میرے ریڈرز بیشک اتنے زیادہ نہیں مگر  سارے بہت اچھے ہیں آپ لوگوں کا بہت شکریہ اتنے اچھے ریویوز اور کمنٹس کیلئے اور خیال کیلئے اللہ آپ سب کو خوش رکھے اور صحت و تندرستی والی زندگی عطا فرمائے آمین!
سحر قادر!!!!

عیدِ زندگی (مکمل) Where stories live. Discover now